
بھاگ پپو بھاگ!
جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے!
یہ گھر سے بھاگنے والے نوجوان کی کہانی ہے جو کہ آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ اسے پڑھتے ہوئے آپ خود کو مرکزی کردار کی جگہ رکھیں گے۔ پہلے چیپٹر میں ایک نوجوان اپنے گھر سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ کہانی جب جب اہم موڑ پر پہنچتی ہے تب تب اُسے اپنی بقا کیلئے اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے جو کہ کسی بھی نوجوان، جو سڑکوں پر زندگی بسر کر رہا ہے کو کرنے پڑتے ہیں: کیا اُسے کھانا کوڑے سے اٹھا کر کھانا پڑے گا؟ کیا وہ کسی کو لوٹے گا؟ کیا وہ جسم فروشی سے اپنا پیٹ پالے گا؟ اس کہانی کو آپ خود آگے بڑھائیں گے، آپ سمجھ لیں کہ آپ ہی گھر سے بھاگنے والے نوجوان ہیں! اور اس مہم جوئی کے دوران بہت نازک لمحات آتے ہیں جب آپ کو اپنی کھال بچانے کیلئے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ میں کیا کروں؟ کدھر جاؤں؟ سوچتے ہیں کہ اپنی عزت نفس بیچ دوں؟ کیا اپنا جسم بیچ دوں؟ ہر ٹرننگ پوائنٹ پر ایک کلک کی مدد سے آپ ایک نئی کہانی دریافت کرتے ہیں۔
ہر کلک ایک نیا تجربہ سامنے لاتی ہے۔ ایک نئی کہانی، نئے حالات نئی پیچیدگیاں اور پھر آپ کرتے ہیں ایک اور فیصلہ اور جو آپ کی بے چینیوں کو راستہ دیتا ہے۔ آپ جو کلکس چنتے ہیں انہی سے نئی سے نئی کہانیاں پرت در پرت کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ممکنہ طور پر نت نئے موڑ لے کر آپ کے سامنے کئی کہانیاں آتی ہیں۔ ہر فیصلہ ایک نئی دنیا میں لے جائے گا، نئے تجربات سامنے آئیں گے اور نئی مشکلات اس کے ساتھ جڑ جائیں گی اور پھر چند قدم آگے چل کر نئی مشکل کے پیشِ نظر ایک اور فیصلہ کرنا ہو گا۔ کہانی کیسے آگے بڑھتی ہے اس کا انحصار آپ کے فیصلوں پر ہے، یہ فیصلے آپ کو بیس سے زیادہ ممکنہ انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔آپ کو خود کو کہانی کے مرکزی کردار کی جگہ رکھ کر سوچنا ہو گا۔
جب آپ ایک کہانی کے انجام تک پہنچتے ہیں اور آپ کا سامنا ایک دردناک صورت حال سے ہوتا ہے جیسے کہ بھوک پیاس، بے عزتی، استحصال اور نشے کی بیماری میں اوور ڈوز سے آپ کو موت سامنے نظر آتی ہے یا معلوم نہیں ہوتا ہے کہ رات کو سر پر صرف آسمان کی چھت ہو گی تو آپ کو گھر، ماں باپ اور بہن بھائی سب یاد آنے لگتے ہیں ایسے میں آپ واپس شروع میں جا کر سوچتے ہیں کہ اگر آپ کوئی مختلف فیصلہ کرتے تو کیا ہوتا، آپ اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔ معاملات پر نظر ثانی کی آسانی اور سہولت اُن لڑکوں اور لڑکیوں کو قطعی حاصل نہیں ہوتی جو سوچے سمجھے بنا گھر سے بھاگ اُٹھتے ہیں۔
اس کہانی کا مرکزی کردار ایک نوجوان لڑکا ہے جس کا نام پپو ہے، وہ ایف ایس سی پری میڈیکل کا طالب علم ہے۔ اس کا تعلق فیصل آباد کے ایک امیر گھرانے سے ہے۔ آسائشِ زندگی کی فراوانی کے باوجود پپو کے تعلقات اپنے گھر والوں سے ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ پریشان رہتا ہے اور اپنے جیسے نوجوانوں کی طرح بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ ایک دن حالات کے پیشِ نظر وہ گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ بدقسمتی سے اُسے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ایک رات پپو کی اپنے والد سے جھڑپ ہو جاتی ہے۔ پپو پانی پینے کے لیے کچن کی جانب جاتا ہے اور بوتل کو منہ لگا کر پانی پی رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی وہ بوتل کو منہ لگائے پیچھے کی جانب مڑا تو سامنے ہی اسکے والد شیخ جلال دین ماتھے پر سلوٹیں ڈالے کھڑے تھے۔ پپو انکو دیکھ کر وہاں سے جانے لگتا ہے تو وہ پیچھے سے غصے میں بولنے لگ جاتے ہیں۔
والد: تمہیں تو اتنی بھی تمیز نہیں کہ باپ کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔
پپو: اب میں نے آپ کو کیا کہہ دیا؟ میں تو خاموشی سے کمرے میں جا رہا تھا۔
والد: ہاں تو، کوئی سلام دعا کرنا بھی سیکھا ہے کہ بس باپ کے پیسے پر عیاشی کرنا ہی آتا ہے۔
پپو: (غصے سے باپ کو دیکھتا ہے)۔
والد: باپ کو آنکھیں دکھا نے سے قبل یہ بھی سوچ لیا کرو کہ تم میرے گھر میں کھڑے ہو، میرے پیسوں پر پل رہے ہو۔ اسکا کوئی احساس بھی ہے کہ میں تم لوگوں کے لیے کتنی محنت سے کماتا ہوں
پپو: ہاں تو، کماتے ہیں تو کیا احسان کرتے ہیں؟
والد: تم جیسی نکمی اولاد جن کو بغیر کسی محنت کے سب کچھ مل جائے ان پر احسان ہی ہوتا ہے۔
پپو: اس گھر میں تو رہنا کیا، پانی پینا تک دوبھر ہو چکا ہے۔
والد: ہاں تو، کوئی تمہیں زبردستی یہاں روکے ہوئے نہیں ہے۔
پپو: ہاں میں ویسے ہی چلا جاتا ہوں ادھر سے اور اس گھر سے ہمیشہ کے لیے۔
والد: اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی؟ تمہارے جانے سے تو ہم واپس دنیا میں آ جائیں گے ، تمہارے جیسی اولاد ہونے سے تو بے اولاد ہونا ہی بہتر ہے۔ جاؤ چلے جاؤ، دفعہ ہو جاؤ اور دوبارہ مجھے کبھی اپنی شکل نہ دکھانا۔
پپو: ہاں! ہاں! میں ابھی دفعہ ہوجا تا ہوں۔
والد: میری نظروں سے دور ہو جاؤ، جاؤ اپنے کمرے میں مرو۔ حرام زادہ، اُلو کا پٹھا، باتیں کس قدر آتی ہیں تمہیں۔ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔
جب کوئی گھر سے بھاگنے کی بات کرے، تو ایسے
موقع پر کیسے بات کی جائے؟(تحریر کنندہ: آمنہ جاوید)
رات گئے تک پپو کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ فجر سے کچھ دیر پہلے اسکی آنکھ لگ جاتی ہے۔ رات بھر اسکی ماں بھی نہ سوئی، بار بار کمرے میں جھانک کر اس دیکھتی رہی۔
شیخ جلال دین جو کہ فیصل آباد کے نامی گرامی کاروباری فرد ہیں، اپنی کاروباری مصروفیت کے سلسلے میں انہیں اکژ شہر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ سہ پہر کے وقت پپو کی والدہ سو رہی ہیں اور گھر کے باقی افراد گھریلو کاموں میں مصروف ہیں۔ پپو یہ ’’سنہری موقع‘‘ کھونا نہیں چاہتا۔ وہ بیگ اٹھاتا ہے اور اس میں مختلف چیزیں ٹھونسنا شروع کر دیتا ہے، آج وہ اپنے گھر سے بھاگنے کا حتمی فیصلہ کر چکا ہے۔
آپ نے گھر سے بھاگ جانے والے نوجوانوں کے بارے میں سُن رکھا ہو گا۔ آپ یقیناً سمجھ سکتے ہیں کہ وہ لوگ کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟ جب وہ کالج کیفے ٹیریا میں بیٹھے یا کسی دوست کے گھر یا اپنے ہی بیڈروم میں کہتے ہیں کہ ’’باتیں تو بہت ہو چکیں اب عمل کرنا چاہیے‘‘ تو اس سے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔
پپو کے ذہن میں یہ سوالات اُمڈ رہے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ کیا لے کر جائے؟ اُسے یہ بیگ کتنی دیر تک اٹھانا ہو گا؟ آخر کتنا سامان وہ مسلسل اٹھائے رکھ سکتا ہے؟ اور اگر اُسے تمام دن یہ سامان اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھنا ہوا تو۔۔۔؟ وہ خیال کرتا ہے کہ شاید اُسے اپنی بہت سی پسندیدہ چیزوں کو چھوڑ کر جانا ہو گا۔۔۔ وہ چیزیں جو اس کیلئے بہت قدروقیمت رکھتی ہیں جیسے کہ اُس کی میوزک سی ڈِیز، اُس کے پسندیدہ لوگوں کی تصویروں کے پوسٹر۔۔۔ کیا وہ یہ سب سامان چھوڑ سکتا ہے جس سے جدا ہونے کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔۔؟
پپو اپنی باقی ماندہ پسندیدہ چیزوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے اور سوچتا ہے کہ جب وہ یہاں سے چلا جائے گا تو اُسے اس سے بھی زیادہ بہتر زندگی اور اشیاء میسر آئیں گی۔ پپو کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ اُسے تو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کی عادت ہے تو کیا وہ کچھ کھانا بھی اپنے ساتھ لے سکتا ہے؟ اس خیال سے اس کا ذہن چونک اٹھتا ہے اور وہ کچن میں موجود چاکلیٹ، بسکٹ، چپس، نمکو وغیرہ اُٹھا کر اپنے بیگ میں رکھ لیتا ہے۔
پپو کے اندر کا انسان اس سے سوال کرتا ہے کہ آخر وہ کتنا کھانا اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے؟ آخر اُس کے ذہن میں کیا ہے؟ کیا وہ ساری زندگی کیلئے اِس گھر کو چھوڑ دینا چاہتا ہے؟ رقم کا کیا ہو گا؟ کیا اُسے کچھ رقم بھی اپنے ساتھ لے جانا ہو گی؟ یہ ایک مشکل گھڑی ہے۔۔۔ پپو سوچتا ہے کہ گھر میں موجود رقم کچھ اس کے والد کی اور کچھ گھر میں موجود باقی لوگوں کی ہے لیکن بہرحال ایمرجنسی کی صورتِ حال ہے اور اِس کے پیشِ نظر کچھ رقم لے جانا جائز ہے۔
پپو اپنی تیاری مکمل کر کے گھر سے کچھ فاصلے پر موجود بس سٹاپ پر کسی سواری کے انتظار میں ہے، وہ اپنا بھاری بھر کم بیگ زمین پر رکھ دیتا ہے۔ مستقبل میں آنے والی مشکلات کے خوف سے پپو ایک جھرجھری لیتا ہے اور اُس کے دل میں لوٹ جانے کا خیال منڈلانے لگتا ہے لیکن پپو سوچتا ہے کہ لوٹ کر پھر اُسی زندگی کی طرف جانا پڑے گا جس سے وہ بھاگ جانا چاہتا ہے۔ پپو تصور کرتا ہے کہ وہ ایک نئی زندگی کی طرف رواں دواں ہے جہاں وہ اپنے لیے ایک نیا گھروندہ بنائے گا جو سردیوں میں اُسے گرمائش اور گرمیوں میں ٹھنڈک دے سکے گا۔
یہ سب کس لیے ہے؟
وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے؟
وہ ان حالات کی وجہ ایک لمبے عرصے سے جانتا ہے لیکن اُس نے کسی کو نہیں بتایا، یہ اُس کا راز ہے۔۔۔ گہرا راز۔
نوجوان گھر سے کیوں بھاگتے ہیں؟ اس کے پس منظر
میں کیا عوامل ہیں؟ (تحریر کنندہ: عترت زہرأ)
پپو بس سٹاپ پر کھڑا خوف محسوس کر رہا ہے، اُس کا دل تیز تیز دھڑک رہا ہے، اُس کے جسم میں خون کی گردش بھی تیز ہے اور اُس کا ذہن عجیب و غریب خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ پپو کے دل میں خیال آتا ہے کہ شاید جنگ میں فوجیوں کو بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہو گا۔ جب وہ سنسناتی ہوئی گولیوں کے بیچوں بیچ اپنے مورچے سے نکلتے ہوں گے تو شاید انہیں بھی ڈر محسوس ہوتا ہوگا لیکن پھر بھی وہ اپنے محاذ سے پیچھے نہیں ہٹتے اور انہیں جو کرنا ہوتا ہے آخر وہ کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ جنگ کے بعد انٹرویو دیتے ہوئے بہت سے قومی ہیرو اپنی بہادری بارے ایسے کارنامے بتاتے ہیں جیسے کہ وہ سپرمین ہوں لیکن کچھ تھوڑی دیر کیلئے دل میں چھپے ڈر کو مان بھی لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اُنہیں یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ کیا وہ واقعی سنسناتی گولیوں کے بیچوں بیچ مورچے سے نکل کر دشمن پر ٹوٹ پڑے ہیں۔
پپو خود کلامی کرتا ہے کہ وہ کوئی فوجی تو نہیں ہے، نہ ہی یہاں کوئی سنسناتی یا ترتڑاتی گولیاں چل رہی ہیں، نہ ہی کوئی مورچے بنے ہوئے ہیں، وہ تو صرف ایک نوجوان ہے جس نے اس نئی دُنیا میں ابھی پہلا قدم رکھا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ چونکہ اس کا اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ ہی جھگڑا رہا ہے اس لیے اُس کے حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں رہے، اُسے اب کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
آپ کا کیا خیال ہے وہ کیا کرے گا؟
ڈاکٹر صداقت علی گھر سے بھاگنے کی وجوہات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، ویڈیو دیکھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجئے۔
ممکنہ اقدامات:
* وہ ایک دوست کے گھر جا سکتا ہے، اگر آپ اس خیال سے متفق ہیں تولنک2پر جائیے۔
*اُسے ایک موٹل میں چلے جانا چاہئیے ، اِس پر کچھ اخراجات تو ہوں گے لیکن اُسے سوچنے کا وقت مل جائے گا کہ اب اُسے کیا کرنا چاہئیے۔ اگر آپ کے خیال میں یہ بہتر قدم ہے لنک3پر چلے جائیے۔
* اُسے رقم سمیت کسی بس پر چڑھ جانا چاہئیے تاکہ وہ کسی دوسرے شہر جا سکےلنک4پر چلے جائیے۔
* کچھ نہیں بگڑا اُسے فوراً اپنے گھر لو ٹ جانا چاہئیے۔اگر آپ کے خیال میں یہ مناسب ہے لنک5پر چلے جائیے۔
کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد پپو کو ایک چھپر ہوٹل کھلا ملتا ہے جس کے باہر موجود ٹوٹے پھوٹے باتھ روم میں جانے کے لیے اُسے کسی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب پپو جوتے اُتار کر باتھ روم میں داخل ہوتا ہے تو ٹھنڈے فرش کی وجہ سے ایک سرد لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی کو سنسناتے ہوئے گزر جاتی ہے اور سخت ٹھنڈے پانی کی وجہ سے اس کے دانت میوزک بجانے لگتے ہیں۔ باتھ روم میں تعفن اور بدحالی نمایاں ہے، دیواریں کسمپرسی کا حال بیان کررہی ہیں۔ دیواروں پر بہت گندی گندی باتیں لکھی تھیں، پپو سوچتا ہے کہ جب چیزوں کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو اُن کا یہی انجام ہوتا ہے۔بھوک کے مارے پپو نڈھال ہوجاتا ہے اور اس کے اندر پیٹ کا دوزخ بھرنے اور منہ کا کسیلا ذائقہ دور کرنے کے لیے کچھ کھانے کی طلب ہوتی ہے۔ اس دوران ہوٹل کے عقب سے کسی بھاری بھر کم لوہے کی چیزکے گھسٹنے کی آواز آتی ہے۔ پپو کی عمر کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی، اُس دھات کو کھینچ کر کوڑے کے ڈھیر کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ لڑکی پپو سے مدد مانگتی ہے، پپو اُن کی مدد کردیتا ہے اور وہ اُس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لڑکا سرمئی شلوار قمیض میں ملبوس ہوتا ہے جبکہ لڑکی نے نیلے رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔ وہ دونوں جسمانی لحاظ سے پپو سے بھی زیادہ ابتر حا لت میں ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے قریبی دوست ہیں۔ وہ دونوں پپو کی حالتِ زار دیکھ کر اُسے بھی اپنے جیسا سمجھنے لگتے ہیں۔ لڑکی پپو سے پوچھتی ہے کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ پپو اُس کو بتاتا ہے کہ وہ مجبوراً اس جگہ آگیا ہے اور اپنے بارے میں سب کچھ اُن دونوں کو بتا دیتا ہے۔
’’میرا نام ’بجلی‘ ہے اور یہ ’پوتنی دا‘ ہے۔‘‘ لڑکی اپنا اور لڑکے کا تعارف کرواتے ہوئے کہتی ہے۔
’’ناموں میں کیا رکھا ہے۔۔۔!‘‘ ’پوتنی دا‘ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں ہاتھ مارتے ہوئے کہتا ہے۔
’’مجھے کل سے اس کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں کوئی کام کی چیز نہیں ملی۔‘‘
وہ پپو کو ساتھ لے کر لاہور میں گھومتے پھرتے ہیں اور ایک حلوائی کی دُکان پر رُک جاتے ہیں، تینوں کا بھوک سے بُرا حال ہوتا ہے۔ ’بجلی‘ انہیں داتا صاحب چلنے کا مشورہ دیتی ہے۔ جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو ایک جگہ ’لنگر‘ تقسیم ہو رہا ہوتا ہے اور لوگوں کا ایک جمِ غفیر دھکم پیل کر رہا ہوتا ہے۔ پوتنی دا، پپو اور بجلی دونوں کو ہجوم میں دھکیل دیتا ہے۔ کافی دیر بعد جب وہ واپس آتے ہیں تو شاپنگ بیگ کھولتے ہیں جس میں چاول ہوتے ہیں۔ تینوں کا بھوک کے مارے بُرا حال ہوتا ہے اس لیے وہ تمام چاول جلدی سے نگل لیتے ہیں۔ اُس کے بعد وہ تینوں لوگوں سے بھیک مانگنے کا منصوبہ بناتے ہیں اور مختلف جگہوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پپو کو اُن دونوں کی نسبت زیادہ بھیک ملتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد ایک ہٹا کٹا لڑکا غصے سے گالیاں بکتا ہوا پپو کی طرف لپکتا ہے اور اُسے دھکا مار کر ایک جنرل سٹور کی دیوار کے ساتھ لگا دیتا ہے اور بھتہ مانگتا ہے۔ پپو اُس کے غصیلے رویے، کپڑوں سے نکلنے والے تعفن اور سانس کی بدبو سے پریشان ہو جاتا ہے۔
’پوتنی دا‘ اُس ہٹے کٹے بدمعاش لڑکے کو پیچھے ہٹنے کا کہتا ہے اور اُس کو بتاتا ہے کہ پپو اُن کا ساتھی ہے۔ یہ سُن کر ہٹا کٹا لڑکا پپو کو چھوڑ دیتا ہے اور ’پوتنی دا‘ سے معافی مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ اُس نے پپو کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
’پوتنی دا‘ پپو کو تسلی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ علاقہ‘ اُس کاہے اور بھتہ وصول کرنے کا حق صرف اُسی کو ہے۔ پھر وہ پپو سے کہتا ہے کہ آؤ دیکھیں آج ہم نے کتنی کمائی کی ہے؟ پپو چالیس روپے نکالتا ہے جب کہ ’پوتنی دا‘ پندرہ روپے اور ’بجلی‘ ان دونوں کی ریزگاری اپنی جیبوں میں ٹھونسنے لگتی ہے۔ پپو اپنے روپے غائب ہوتے دیکھ کر کہتا ہے کہ اُسے سخت بھوک لگی ہے۔ اس پر ’پوتنی دا‘ قہقہہ لگاتے ہوئے اُسے ’پکھا بٹیرا‘ کہتا ہے۔ اس دوران پپو ’بجلی‘ سے اُس کے ہاتھ پر پڑے ہوئے دھبوں کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ جواباً اُن دھبوں کو قسمت کی لکیروں کا نام دیتی ہے۔
رات کے اندھیرے میں ایک سفید رنگ کی وین اُن تینوں کی طرف بڑھتی ہے اور ’پوتنی دا‘ دیوانہ وار چِلّاتا ہے ’’ نئی زندگی! نئی زندگی!‘‘
اُن کے قریب پہنچ کر ویگن کی بریکوں سے چڑچراہٹ اُبھرتی ہے اور ویگن رُک جاتی ہے۔ بجلی وین کو دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجانے لگتی ہے۔ اُس کا خیال ہوتا ہے کہ کھانے کا انتظام ان لوگوں سے ہو جائے گا اور مانگے ہوئے پیسوں سے وہ کشکول خرید سکیں گے۔ویگن کے اندر ایک خاتون موبائل فون پر کسی سے گفتگو کر رہی ہوتی ہے اور اپنی سائیڈ کی کھڑکی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے بجلی اور ’پوتنی دا‘ کا حال چال پوچھتی ہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ خاتون اُنہیں پہلے سے جانتی ہے۔ وہ خاتون پپو کو دیکھ کر مسکراتی ہے اور اپنا نام ’مریم‘ بتاتی ہے۔ پھر وہ پپو کے ہاتھ میں سفید کارڈ تھماتے ہوئے اُس کا نام پوچھتی ہے۔ ’بجلی‘بات کاٹتے ہوئے اُس کا نام’پکھا بٹیرا‘ بتاتی ہے اور ساتھ ہی کھانے کے بارے میں پوچھتی ہے۔
ویگن کا ڈرائیور گاڑی کا انجن بند کردیتا ہے اور پچھلے حصے سے کھانے کے ڈبے ان تینوں پکڑاتا ہے۔ پپو جھپٹ کر اپنا ڈبہ پکڑ لیتا ہے اور جلدی جلدی کھانا شروع کر دیتا ہے۔
’’کیا تم کو ہمارے ادارے ’نئی زندگی‘ بارے کچھ علم ہے؟‘‘ مریم پپو سے پوچھتی ہے۔
’’نہیں!‘‘ پپو کھانا کھاتے کھاتے اشارتاً جواب دیتا ہے۔
مریم پپو کو اپنے ادارے ’نئی زندگی‘ بارے تفصیلاً بتاتی ہے کہ اُن کا ادارہ بے گھر بچوں کی صحت کا مرکز اور پناہ گاہ ہے۔ اگر اُسے کسی مدد کی ضرورت ہو تو وہ ٹول فری نمبرپر رابطہ کر سکتاہے اور اگر تم وہ جگہ ابھی دیکھنا چاہو تو ویگن میں جلدی سے بیٹھ جاؤ، عام طور پر مجھے جلدی نہیں ہوتی لیکن ابھی میں نے بس اڈے سے چند اور بچوں کو لینے جانا ہے۔
پپو اس ادارے کے بارے میں جان کر بہت خوش ہوتا ہے اور اپنے کٹے پھٹے جوتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
’’مجھے اُمیدہے کہ تمہارے سائز کے جوتے بھی مل جائیں گے، آؤ اندر بیٹھ جاؤ‘‘ خاتون پپو کے جوتوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہتی ہے۔
’بجلی‘ پپو کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے جانے سے روکنا چاہتی ہے لیکن ۔۔۔
* پپو ویزٹنگ کارڈ لیتا ہے اور بعد میں فون کرنے کاارادہ ظاہر کرتا ہے۔ لنک12 پر جائیے۔
* پپو ویگن میں سوار ہوجا تاہے۔ لنک17 پر جائیے۔