لنک-20

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا

کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ……ہائے اُس زودپشیماں کا پشیماں ہونا

پپو بینا کے پاس ہوٹل میں واپس آجاتا ہے اور دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔
’’کون ہے؟ ‘‘ ہوٹل کے کمرے سے بینا کی آواز اُبھرتی ہے۔
’’میں ہوں‘‘پپو جواب میں کہتا ہے۔

بینا دروازے پر آتا ہے تو اُس کے بائیں بازو پر ایک ربر کا سٹریپ بندھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
’’جلدی کرو‘‘ وہ تیزی سے پپو کو کمرے کے اندر کھینچ لیتا ہے۔ سارا کمرہ اُلٹا سیدھا نظر آتا ہے اور نسبتاً اندھیرا بھی ہے ۔ اس اندھیرے میں بینا کے ہاتھ میں ایک انجیکشن کی چمکتی ہوئی سوئی دکھائی دے رہی ہے۔’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
پپو پوچھتا ہے ۔

’’تم اپنے کام سے کام رکھو‘‘بینا قدرے غصے سے جواب دیتا ہے۔
’’تم نے پیسے کہاں سے لیے؟‘‘ پپو استفسار کرتا ہے۔
’’کیا میرے پاس پیسوں کی کمی ہے؟‘‘ بینا اپنے میک اپ کِٹ سے کھیلتے ہوئے جواب دیتا ہے۔
’’ہاں بالکل میرے پیسے…..‘‘ پپو تنقیدانہ لہجے میں کہتا ہے۔

’’ہاں ہو سکتا ہے تمہارے ہوں، خیر اب تو بہت دیر ہو چکی ہے اب اس پیسے سے کھانا نہیں خریدا جا سکتا‘‘ بینا ذلالت بھرے لہجے میں کہتا ہے۔
’’پھر تو یہ نشہ میرا ہے! انجیکشن میرے حوالے کردو‘‘ پپو بینا سے انجیکشن لینے کی کوشش میں ہے۔
’’تمہیں تو انجیکشن لگانا آتا بھی نہیں،میں تمہیں بعد میں اور خرید دوں گا‘‘بینا زور دیتا ہے۔
’’مجھے بعد میں نہیں ابھی چاہئیے ایسا نہ ہو میں بھوکا مرجاؤں ،کیونکہ مجھے گاہک بھی ڈھونڈنا ہے ‘‘ پپو کی ضد برقرار رہتی ہے۔’’بھاڑ میں جاؤ! یہ لو پکڑو‘‘وہ سرنج پپو کی طرف اُچھالتا ہے۔
’’مجھے بتاؤ کہ انجیکشن کیسے لگاتے ہیں، اس ربر کی چیز کو کیا کرنا ہے؟ ‘‘وہ بسترپر بیٹھے بیٹھے انجیکشن ہاتھ میں پکڑ کر پوچھتا ہے ۔
’’صبر سے کام لو، میں تمہیں سب کچھ سکھا دیتا ہوں‘‘ بینا سر دُھنتا ہے۔
وہ اپنے بازو سے ربر سٹریپ اُتار کر پپو کے بازو پر چڑھا دیتا ہے اور انجیکشن سے ہوا نکالنے کی خاطرتھوڑا سا مواد باہر نکال دیتا ہے اور ساتھ پپو کو سمجھاتے ہوئے کہتا ہے۔
’’انجیکشن میں ہوا نہیں رہنی چاہئیے۔‘‘
’’خدا ہی جانتا ہے کہ اِس سرنج میں کیا ہے ؟‘‘ پپو سوچتا ہے۔

’’سیدھے بیٹھے رہو،میں یہ کام مہینوں سے کر رہا ہوں لیکن کبھی کسی دوسرے کو انجیکشن نہیں لگایا ۔ اپنی مُٹھی کو زور سے بھینچ لو ، بس تھوڑا ساحوصلہ!‘‘ اس سارے عمل سے پپو تھوڑا سا گھبرا جاتا ہے۔
پپو اپنی آنکھیں بھینچ لیتا ہے۔ سوئی چبھتے ہوئے اس کے بازو میں داخل ہو جاتی ہے اور بینا سٹریپ ڈھیلا کر دیتا ہے۔

’’انجیکشن لگ چکا ہے؟‘‘بینا پپو کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔
پپو اپنی آنکھیں کھول دیتا ہے، اب وہ بستر پر بینا کے ساتھ بیٹھا ہے اور پاس ہی خالی سرنج پڑی ہے، ’’کچھ عجیب ہے۔ وہ ۔۔۔ ‘‘پپو متذبذب ہو کر چلاتا ہے۔
’’کیا ہوا؟‘‘پپو گھبرا کر پوچھتا ہے۔
بینا خالی سرنج کی طرف دیکھتے ہوئے چلّاتاہے ۔
’’اُف خدایا یہ تو گڑبڑ ہوگئی! نشے کی یہ ڈوز تو میرے لیے تھی لیکن پتہ نہیں میرے ذہن میں کیا چل رہا تھا کہ تمہیں آدھی ڈوز کی بجائے پوری ڈوز دے ڈالی‘‘ بینا پچھتاتے ہوئے کہتا ہے۔
’’آہ!۔۔۔ پپو ! ‘‘پپو سسکیاں لینا شروع کر دیتا ہے، منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے اور وہ اپنے گناہوں کی توبہ کرنے لگتا ہے۔ بالآخر اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔

لنک-47 پرجائیے۔