لنک-35

بھاگ پپو بھاگ

جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے

پپو سوچتا ہے کہ دو منٹ پہلے وہ اس لڑکے کو مارنے کے درپے تھا لیکن اب وہ شرمندگی اور ندامت محسوس کر رہا ہے۔ اسے اپنے موڈ اور مزاج کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ کبھی شعلہ کبھی شبنم، یہ ہمیشہ سے اس کا مسئلہ ہے اور اسی سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ادارے کا نمائندہ موڈ اور مزاج کے اعتبار سے بہت متوازن تھا۔ وہ سامنے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پس منظر سے غافل نہ ہوتا تھا۔ عمران پپو کو لے کر اندر ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ جاتا ہے اور اسے سمجھاتا ہے کہ وہ بُرے کام چھوڑ دے اور عبادت کیا کرے۔ پپو کو دُنیا بہت پراسرار لگتی ہے۔ وہ انتہائی تذبذب کا شکار ہے اور پراگفتہ خیالات اس کے اردگرد منڈلا رہے ہوتے ہیں۔
’’مجھے عبادت نہیں کرنی ‘‘ پپو کہتا ہے۔

’’کیا کوئی اور تمہیں نماز پڑھنے کیلئے نہیں کہتا؟‘‘عمران ہنستے ہوئے پوچھتا ہے۔
’’نہیں، قطعاً نہیں‘‘ پپو کندھوں کو سکیڑتے ہوئے کہتا ہے۔
’’اچھا تو تم کتنے برس کے ہو؟‘‘وہ پپو کی طرف دیکھتا ہے، ’’اس سے پہلے کہ تم مجھے اپنی عمر کے بارے بتاؤ، میں بتانا چاہوں گا کہ پتہ نہیں کیوں ہر کوئی مجھ سے جھوٹ بولتا ہے۔ کچھ بچے جو عمر میں بڑے ہوتے ہیں، اپنی عمر سترہ برس بتاتے ہیں تاکہ اُن کو آسانی سے پناہ مل جائے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ہم اکیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کو داخل کرتے ہیں۔ پھر کچھ بچے جو عمر میں چھوٹے ہوتے ہیں اپنی عمر اٹھارہ سال بتاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید چھوٹے بچوں کو واپس گھر والدین کے پاس بھیج دیا جاتا ہے، جو کہ سچ نہیں ہے۔‘‘ عمران بتاتا ہے۔

’’میں تو۔۔۔‘‘ پپو بات کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
’’ایک منٹ۔۔۔ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی‘‘ عمران پپو کو ٹوکتے ہوئے کہتا ہے۔
’’تو میں تمہیں یہ بتا رہا تھا کہ ہر شخص کی کوئی نہ کوئی جگہ ہوتی ہے اور ہر مشکل کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ ہم اسی منصوبے کے تحت ہر سال چار ہزار بچوں کو داخل کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ تمام مختلف مسائل کا شکار ہوتے ہیں لیکن اُن کا مناسب حل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘ بالکل ایسے ہی جیسے ڈاکٹر کے پاس لوگ اپنی شکایات لے کر جاتے ہیں اور وہ اُن کیلئے مختلف دوائیں تجویز کرتا ہے۔ جیسے ہر مرض کی دوا ہوتی ہے اسی طرح گھر سے بھاگنے کے مرض کی دوا بھی ہوتی ہے جو سب کو تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ فائدہ پہنچاتی ہے۔ یہاں دوا سے مراد دوا بھی ہے اور کوئی دوسرا ممکنہ حل بھی۔

’’اچھا۔۔۔!‘‘ پپو ہنکارا بھرتا ہے۔
’’اوہ! میں تھوڑا سا وقت اور لوں گا، اس سے پہلے کہ تمہارے ساتھ کچھ معاملات طے ہوں، میں تمہیں سب کچھ بتا دینا چاہتا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ تم کسی بھی قسم کا الزام ہمیں دو۔ ہمیں یہاں جو کچھ بھی کرنا پڑتا ہے وہ اتنا آسان نہیں ہے چاہے ہم کتنی بھی نیک نیتی سے کام کریں اور کبھی کبھی ہماری کوششوں کے منفی نتائج بھی نکلتے ہیں۔‘‘ عمران ایک لمبی آہ بھر کر کہتا ہے۔

’’ابھی ایک بہت بڑا فرق باقی ہے، وہ بچے جو سترہ سال سے کم عمر کے ہوتے ہیں وہ کسی اور کی ذمہ داری ہوتے ہیں اُن میں والدین، سرپرست، حکومت یا سوشل ورکر یا کوئی بھی ادارہ ہو سکتا ہے۔ یہ بچے جب تک اٹھارہ سال کے نہیں ہو جاتے ان کو کوئی نوکری پر بھی نہیں رکھ سکتا اور قانونی طور پر یہ بچے کوئی کمرہ یا فلیٹ کرائے پر نہیں لے سکتے۔ اگر کوئی اُن کو نوکری پر رکھ لے یا کرایہ پر فلیٹ دے بھی دے تو کرایہ زیادہ ہوتا ہے اور تنخواہ کم۔ یہ سوائے مصیبت پالنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے‘‘ عمران اپنی بات جاری رکھتا ہے۔

’’ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کوئی سترہ سالہ لڑکا وہ آزادی حاصل کرے جو ایک بالغ کو حاصل ہوتی ہے لہٰذا تم ایسا کبھی سوچنا بھی نہیں، ورنہ تمہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر تم سترہ سال سے کم عمر کے ہو تو تمہیں ہمیشہ مدد ملے گی۔ اگر تم گھر سے بھاگے ہوئے ہو اور پولیس سٹیشن جاتے ہو تو وہ تمہاری مدد ضرور کریں گے۔ اگر تم اٹھارہ برس کے ہو جاتے ہو تو بلوغت کی وجہ سے بہت سے مسائل کا حل نکل آتا ہے۔ اٹھارہویں برتھ ڈے کے بعد پریشانی اور ذہنی انتشار کم بھی ہونا شروع ہو جاتا ہے‘‘ عمران بات کرتے ہوئے سانس لینے کیلئے رُکتا ہے۔

’’تمہیں ایک اور بات کا علم ہونا چاہئیے کہ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے۔ تمہارا کیس مختلف نوعیت کا ہے اور چونکہ ابھی تم بالغ نہیں ہو لہٰذا تمہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ عمر کھیل کود کی ہے جبکہ تم سر پر چھت ڈھونڈ رہے ہو اور کھانے کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہو‘‘ عمران کا لہجہ ٹھہراؤ کے ساتھ ساتھ بردباری سے بھرا ہوا تھا۔

’’اچھا!کیا میں۔۔۔‘‘ پپو پھر بات کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
’’ٹھہرو! میں تمہاری کہانی بعد میں سنوں گا، مجھے اپنی بات ختم کر لینے دو اگر میں نے تمہاری کہانی پہلے سن لی تو میں تم سے کھری کھری باتیں نہ کر سکوں گا میں محتصب ہو جاؤں گا‘‘ عمران پپو کو ٹوکتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتا ہے۔

’’اگر تم واقعی اپنے بارے میں سنجیدہ ہو تو یہ بات ذہن میں رکھو کہ تمہیں یہاں صرف رہنے کو چھت اور تین وقت کا کھانا تو مل سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ تمہاری راہنمائی کوئی نہیں کر سکتا۔ نہ ہی تمہاری زندگی بدلنے کیلئے کوئی اتنا تردد کرے گا۔ مثال کے طور پر آج ہی ایک لڑکی صبح کے وقت ہمارے ادارے میں آئی ہے جو نشہ کی عادی ایک طوائف ہے۔ میں اُس کو لاکھ سمجھاؤں لیکن جو اُس کی مرضی ہو گی وہ وہی کرے گی۔ میرا کام تو صرف اُس کو وقتی سہارا مہیا کرنا ہے۔ راہنمائی صرف اسی صورت میں مؤثر ہو گی اگر وہ لچک کا مظاہرہ کرے۔‘‘ عمران پپو کو سمجھاتے ہوئے کہتا ہے۔

’’ہمیں اکٹھے بیٹھ کر تمام معاملات کو کھل کر سامنے لانا چاہیے اور مسائل کی نشاندہی کرنی چاہیے تاکہ اُن کا کوئی مستقل حل نکال سکیں۔ مثلاً اگر نشے سے بحالی کا سامنا ہو تو پھر ہم یہ ذمہ داری صداقت کلینک کو سونپ دیتے ہیں جو نشے سے بحالی کا راہنما ادارہ ہے۔ جہاں 100 دن کا پروگرام بہت سی مشکلات آسان بناتا ہے پھر آؤٹ ڈور پروگرام بحالی کو قائم ودائم رکھتا ہے۔ نشے سے بحالی کے علاج میں کونسلنگ جو گروپ کی شکل میں بھی دی جاتی ہے بھی شامل ہے اور انفرادی طور پر بھی۔ یہ ایک بھرپور سسٹم ہے۔‘‘ عمران پپو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اپنی بات جاری رکھتا ہے۔

’’مثال کے طور پر اگر مسئلہ بیروزگاری کا ہے تو اس کیلئے تربیت کا انتظام کیا جا سکتا ہے یا کوئی ہنر سیکھنے کیلئے چند سال تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے۔ آپ کو اپنا راستہ خود بنانا ہے۔ یہ تمام انتخاب آپ کا ہے۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد آپ کوئی بھی اچھی جاب کر سکتے ہیں جس میں آفس ورک، کمپیوٹر، بجلی وغیرہ کا کام شامل ہے۔ لیکن اس کیلئے تمام اقدامات آپ کو خود ہی اٹھانے ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص آپ کی جگہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس دوران تمہیں اُن تمام ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جو عام طور پروقتی سکون اور تلخ حقائق سے فرار کیلئے اپنائی جاتی ہیں ان میں منشیات کا استعمال اور جنسی بے راہ روی بھی شامل ہے۔‘‘ عمران جذبات کی رو میں کہتا چلا جاتا ہے۔

’’اپنے آپ کو سیدھے راستے پر رکھنا بہت زیادہ مشکل کام بھی نہیں ہے تاہم اس کیلئے کچھ روز کچھ نہ کچھ تگ و دو تو کرنی پڑتی ہے۔ تواتر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھانے سے زندگی بہتر ہو جاتی ہے۔ اگر تم صرف یہاں پر پناہ حاصل کر لو اور اپنی زندگی بہتر کرنے کیلئے کوشش نہ کرو تو پھر شاید ہم بھی تمہاری کوئی مدد نہ کر سکیں۔ اگر تم اپنا زیادہ تر وزن خود نہیں اٹھا پاؤ گے تو کوئی

دوسرا تھوڑا وزن اٹھانے کیلئے بھی تیار نہیں ہو گا۔ تمہیں اپنے معاملات خود درست کرنے کیلئے تیار ہونا ہو گا پھر ہی دوسرے تمہاری مدد کر سکیں گے۔ میں اپنی بات مکمل کر چکا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میری بات کافی لمبی ہو گئی ہے لیکن میں تم سے یہ قطعاً نہیں کہتا کہ تم یہ سب کچھ یاد رکھو بلکہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم مل کر ہر مسئلے کو حل کریں گے۔‘‘ عمران جوشیلے انداز میں کہتا ہے،’’میری بات ختم ہو گئی اب تم شروع ہوجاؤ‘‘۔

’’مجھے تمام سمجھ آ گئی ہے‘‘ پپو پرسکون لہجے میں کہتا ہے اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ پپو کچھ دیر خاموش رہتا ہے اور پھر بات شروع کرتا ہے،’’ میری کہانی کچھ یوں ہے کہ۔۔۔۔۔

لنک-47 پر جائیے