لنک-45

بھاگ پپو بھاگ

جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے

پپو ایک سال کی آوارہ گردی کے بعد پھر ٹیکسالی گیٹ واپس آ جاتا ہے۔ وہ فورٹ روڈ کا چکر لگاتا ہے۔ بہت سے نئے چہرے نظر آتے ہیں۔ ایک آدھ کوئی پرانا ساتھی بھی نظر آتا ہے۔ ریسٹورنٹ میں اُسے ایک لڑکا بہت دوستانہ انداز میں ملتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ اُسے پہلے سے جانتا ہے مگر پپو کی اس سے کوئی شناسائی نہیں ہے۔ اصل میں وہ پپو سے نشے کیلئے پیسے ہتھیانے چاہتا ہے اس لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ پپو وہیں ایک سائیڈ پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا ہے کہ جب وہ نیا نیا یہاں آیا تو اُس نے بہت پیسے بنائے کیونکہ وہ کم عمر ہوتا ہے۔ اس لیے زیادہ لوگ اُس کی طرف بڑھتے ہیں۔ نشہ کر کے اُس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے ہیں، صحت خراب ہو گئی، جس کام کیلئے پہلے وہ دو سو سے چار سو تک کما لیتا، اب اُسی کام کیلئے لوگ اُسے پچاس بھی مشکل سے دیتے ہیں۔

ایک رات وہ اس چیز کی شکایت اپنے ساتھی سے کر رہا ہوتا ہے تو وہ اِسے سمجھاتا ہے کہ یا تو وہ اپنا حلیہ بدل لے، اچھے سے کپڑے خریدے اور میک اِپ کر کے اپنے آپ کو یکسر تبدیل کرے تب کہیں جا کر وہ مزید پیسے بنا سکتا ہے اور یا پھر وہ اپنی قسمت آزمانے کیلئے رائل پارک چلا جائے، کیونکہ وہاں کم لڑکے ہوتے ہیں اس لیے پپو کو فائدہ اٹھانے کا زیادہ موقع ملے گا۔ وہ لڑکا پپو کی مدد کو بھی تیار ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ اُسے نشہ خرید کے دے۔ پپو کو اُس کی دونوں تجاویز بہتر لگتی ہیں۔

رائل پارک سے ہوتا ہوا وہ داتا صاحب جاتا ہے۔ پھر گلبرگ، ایمپائر سنٹر اُس کے بعد مسلم ٹاؤن۔ اب سب جگہوں پر اپنی قسمت آزماتے ہوئے وہ کینٹ گرجا گھر پہنچتا ہے۔ کسی جگہ پپو کو بہت فائدہ ہوتا ہے اور کسی جگہ تو پولیس والے پہنچ جاتے ہیں اور ڈرا دھمکا کے وہاں سے بھگا دیتے ہیں۔

ایک دن وہ اپنے گاہک کی گاڑی میں بیٹھا ہوتا ہے کہ اُس کے کان میں آواز پڑتی ہے، ’’میری کالوں کا دھیان رکھنا‘‘۔ اُس کا گاہک گاڑی سٹارٹ کرتے ہی اپنی سیکرٹری کو فون پہ کہتا ہے۔ یہ فقرہ سنتے ہی پپو کو جھاجھو کا خیال آ جاتا ہے۔ فورٹ روڈ پہ واپس پہنچ کے جھاجھو کے بارے میں دریافت کرتا ہے۔ کسی کو بھی اُس کے بارے میں نہیں معلوم۔ ایک لڑکا پپو کو بتاتا ہے کہ جھاجھو کو پولیس پکڑ کے لے گئی تھی منشیات بیچنے کے جرم میں۔ اُس کے بعد اُسے کسی نے نہیں دیکھا۔ پپو سڑک کے کنارے ہی بس سٹاپ کے ایک بنچ پہ بیٹھ جاتا ہے اور جھاجھو کے بارے میں سوچنے لگتا ہے کیونکہ اپنی زندگی میں اُسے صرف جھاجھو کی دوستی کا ہی آسرا ہے۔ سوچتے سوچتے وہ دلبرداشتہ ہو جاتا ہے، اپنا غم غلط کرنے کیلئے وہ شراب پینے کا سوچتا ہے۔

وہ شراب کی تین بوتلیں خریدتا ہے اور کسی پُرسکون گوشے کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ وہ فورٹ روڈ پہ نہیں بیٹھنا چاہتا۔ وہ فورٹ روڈ سے چلتا ہوا بادامی باغ کی طرف نکل جاتا ہے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اُسے ریلوے لائنوں کا جال نظر آتا ہے۔ کچھ لائنیں کراس کر کے قدرے تنہا گوشے میں ایک لائن پر بیٹھ جاتا ہے۔ تقریباً شام کا وقت ہے، آسمان پر گہرے بادل ہیں، بارش کا اکا دکا قطرہ اس کے چہرے پر گرتا ہے۔ فروری کے آخری دنوں میں لاہور میں کچھ خاص سردی نہیں ہوتی تاہم آج موسم کچھ زیادہ ہی خنک ہے۔ یہ رومان پرور موسم اور شراب کی بوتلوں کا لمس اسے بہت اچھا لگ رہا ہے۔

یہاں اُسے بہت سکون محسوس ہوتا ہے۔ وہ شراب کی تمام بوتلیں پاس رکھ لیتا ہے اور ایک ایک کر کے پیتا جاتا ہے۔ وہ خالی بوتلوں کو ریلوے لائن پہ جوڑتا جاتا ہے۔ اُس کے دماغ میں خیالات کی تیز رو کچھ ہی دیر میں مدہم ہونے لگتی ہے۔ اُسے ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے آپ سے یا خدا سے کچھ کہہ رہا ہے۔۔۔ لیکن سمجھ نہیں آتا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ وہ سوچتا ہے، ’’جب میں خدا سے باتیں کرتا ہوں تو وہ جواب کیوں نہیں دیتا؟‘‘

پھر اُسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ شراب کی خالی بوتلوں کی طرح اندر تک خالی ہے۔ انہی سوچوں میں ڈوبے ہوئے اُسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کس جگہ پہ بیٹھا ہے۔ وہ ریل کی پٹری پر بیٹھا شراب پی رہا ہوتا ہے اس کا جسم تھوڑی دیر کے بعد ڈھیلا پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ نیم دراز حالت میں ریل کی پٹری کو تکیے کی طرح اپنے سر کے نیچے محسوس کر رہا ہے۔ اس کے پاؤں پھیلے ہوئے ہیں۔ بوندا باندی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے کپڑے بھیگ چکے ہیں لیکن شراب کے نشے میں اسے کچھ احساس نہیں اسے سب اچھا لگ رہا ہے۔ پپو آخری بوتل اُٹھاتا ہے اور غٹاغٹ شراب

پینے لگتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ ریل کی پٹری پر سر رکھ دیتا ہے۔ اس کا ذہن ماؤف ہوا جا رہا ہے۔ یکایک ریل کی پٹری میں سنساہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ پپو کے کانوں میں ایک عجیب سا شور سنائی دیتا ہے اتنے میں ٹرین کے زوردار ہارن کی آواز آتی ہے، مگر اسے سنائی نہیں دیتی۔ پپو آخری گھونٹ بھر کے اپنا ہاتھ ہوا میں اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ریل کی لائن میں دھمک بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ لاہور اسٹیشن سے روانہ ہونے والی ٹرین کی رفتار شاید اب تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اچانک آسمان پر بجلی چمکتی ہے اور موسلادھار بارش ہونے لگتی ہے۔ پپو کو احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ فوری طور پر اپنا بچاؤ نہیں کرتا تو اس کے پرخچے اُڑ جائیں گے۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن تھوڑی سی کوشش کرنے کے بعد ہمت ہار کر دوبارہ گر جاتا ہے۔ ٹرین کی آواز اب بہت قریب آ چکی ہے۔ پپو بے بس ہے لیکن اس کے ذہن میں خوف اور خیال گڈمڈ ہو رہے ہیں۔ ’’جنہے لور نہیں ویکھیا او جمیا نہئی‘‘

آگے پڑھنے کیلئے جائیے لنک-47  پر۔