لنک-47

بھاگ پپو بھاگ

جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے

اس گھناؤنے کھیل میں پپو کی کوشش یہیں پر اختتام پذیر ہوتی ہے ، یہ کوشش بار آور ہوئی یا نہیں، اس کا فیصلہ آپ خود کریں گے۔ آپ کو پپو کا پوشیدہ راز تو معلوم ہی ہے۔آپ کو پپو کے بھاگنے کی وجوہات بھی معلوم ہیں۔

کیا پپو کے اس مسئلے کا حل سڑک پر تھا؟

اگر آپ دوبارہ نئے سرے سے کھیل کھیلنا چاہتے ہیں تو ایک کوشش اور کر کے دیکھ لیجئے، اس مرتبہ پپو کے مسائل کیلئے مختلف حل پسند کیجئے گا۔یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے جو عام طور پر گھر سے بھاگنے والے پپو جیسے لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی۔

جب ایک نوجوان گھر سے بھاگتا ہے اور پھر سیکس ورکر بن جاتا ہے یا پھر وہ ایک مجرم بن کر جیل میں پہنچ جاتا ہے یا پھر وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی جانوروں کی طرح کام کرنے لگ جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بل ادا کر سکے اور اپنا خرچہ اُٹھا سکے یا پھر وہ نشے کی ادویات استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے یا اسے ایڈز ہو جاتی ہے یا پھر وہ اپنی زندگی ختم کرلیتا ہے۔ ان سب حالات میں اس کے پاس ایسی کوئی آپشن نہیں کہ اگر حل اس کی مرضی کا نہیں نکلا تو وہ کتاب کو دوبار ہ سے پڑھنا شروع کر دے۔ ہماری اصل زندگی کا انحصار ہمارے اعمال پر ہوتا ہے۔یہ ناممکن ہے کہ اس خوف اور تکلیف کو دوبارہ پیدا کیا جا سکے جس کا سامنا ایک گھر سے بھاگے ہوئے نوجوان کو سڑک پر ہوتا ہے، یہ آخری موقع ہوتا ہے سڑک پر آپ کو نہیں معلوم کہ خطرہ کس سمت سے آپ کی طرف بڑھے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس قدر مضبوط اعصاب کے مالک ہیں یا آپ کتنے عقل مند ہیں یا کتنی آسانی سے آپ اپنے آپ کو پریشانی سے نکال سکتے ہیں۔ جب ایک نوجوان اپنی طاقت اور دوسروں کی مدد کے بل بوتے پر سڑک پر نکلتا ہے جیسا کہ اورنوجوان بھی کرتے ہیں اور جیسا کہ پپو نے بھی کیا۔ اس سے بڑی کوئی اور انہونی طاقت پہلے سے موجود ہوتی ہے جو آپ سے بڑی ، آپ سے زیادہ ہوشیار اور آپ سے زیادہ منہ زور ہوتی ہے اور جس کا سامنا کرنے پر تو آپ کے ہاتھوں کے طوطے ضرور اُڑ جاتے ہیں۔ اس کتاب میں باہر کی دنیا میں آپ کے لیے غصے، نشے،

ملال اور بیماری کے بہت زیادہ مواقع ہیں جو ہر وقت آپ کی زندگی کی خوشیوں کے ساتھ تصادم میں رہتے ہیں اور بسا اوقات صرف اپنے آپ کو سڑک سے ہٹا لینا ہی وہ واحد قدم ہے جو آپ کو ایک مطمئن زندگی کی طرف لوٹا سکتا ہے۔

مگر یہ صرف ایک کتاب ہے حقیقی دُنیا میں عین اس وقت ایسے نوجوان ہوں گے جو گھر سے بھاگنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے ۔ ہر ایک کے پاس اپنا پوشیدہ راز ہے وہ نہیں جانتا ہے کہ اب اسے کیا کرنا ہے؟ ابھی بھی جیسا کہ آپ یہ کتاب پڑھ رہے ہیں، کچھ نوجوان اپنا سامان باندھ رہے ہیں، کچھ ایسے نوجوان پہلے سے ہی آبروریزی کا شکار ہوتے ہیں، کچھ تشدد کا شکار ہوتے ہیں، کچھ کے گھر والے نشے کے عادی ہوتے ہیں، کچھ کو سوتیلے پن کے مسائل درپیش ہوتے ہیں، کچھ کو والدین سے مسائل ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کے والدین اصلی نہیں ہوتے، کچھ جذباتی طور پر پریشان ہوتے ہیں، کچھ نشئی ہوتے ہیں، کچھ کو سکول پسند نہیں ہوتا، کچھ کو پابندیوں پر اعتراض ہوتا ہے، کچھ اپنا مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں ، کچھ اپنے والدین کو سزا دینا چاہتے ہیں اور کچھ کو شوقیہ خطرہ مول لینے کی عادت ہوتی ہے۔ کچھ صرف کھڑکیاں، دروازے توڑتے ہیں، کچھ موٹر سائیکل کا پہیہ اوپر اُٹھاتے ہیں، پھر جب خراب نتائج حاصل کرتے ہیں تو پھر گھر جانے سے کتراتے ہیں۔ کسی بھی نوجوان کا گھر سے بھاگنے کا جو بھی جواز ہو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سڑک پر نکل کر جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یقیناًان پریشانیوں سے بڑی ہوتی ہیں جن کا سامنا گھر میں رہتے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ نوجوان جن کو گھر میں جسمانی تشدد کا سامنا ہوتا ہے سڑک پر پہنچ کر وہ اس قدر جسمانی اذیت کا سامنا کرتے ہیں کہ قومے میں پہنچ جاتے ہیں۔

ایسے نوجوان جو گھروں میں آبرو ریزی کا شکار ہوتے ہیں، سڑک پر پہنچ کر انہیں اس تلخ تجربے میں سے باربار گزرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بغیر ان کا زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔ سڑک اور نشے کی ادویات جو کہ سڑک پر نکلنے والے ہر نوجوان کا مقدر بنتی ہیں کسی بھی نوجوان کی شخصیت کو کچھ ہی دنوں میں بالکل مسخ کر دیتی ہیں۔ ہمیں ایک پولیس افسر شفقات چوہدری نے بتایا ’’اگر پہلے دو ہفتوں میں آپ کسی گھر سے بھاگنے والے نوجوان تک نہیں پہنچ سکے تو اس کام میں مزید پیش رفت کی ضرورت نہیں، بہتر ہے اس کو بھول جائیں۔۔۔‘‘ شفقات چوہدری گھر سے بھاگنے والوں پر تحقیق کرتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں صداقت کلینک میں زیر علاج مریضوں سے بھی ملتے رہے ہیں۔

فورٹ روڈ ،داتا دربار اور رائل پارک کے اردگرد گزارے ہوئے دو ہفتے کسی کی پوری زندگی پر بھاری ہیں۔ کوئی نوجوان خبطی بڑبولا بنتا ہے یا اس پر ہر وقت مُردنی سی چھائی رہتی ہے یا ہیروئن کے بدلے جسم فروشی شروع کر دیتاہے، اس سب کے لیے 14 دن کافی ہیں، وہ کس حالت کو پہنچتا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس نے کون سا راستہ اپنایا؟

پولیس افسر کی رائے کے باوجود میں اور میرے ساتھیوں نے پیش رفت جاری رکھی اور نوجوانوں کو سڑکوں پر بے یارو مدد گار چھوڑنے سے انکار کر دیا۔گھر سے بھاگے ہوئے نوجوانوں کے حوالے سے میرے طویل تجربے کی وجہ سے مجھے پتہ ہے اگر کوئی نوجوان گھر سے بھاگ جائے اور پھر وہ ان بدمعاش، قابلِ نفرت نفسیاتی قاتلوں سے جان بچا کر کسی نہ کسی طریقے سے گھر پہنچ بھی جائے تو اس کی معقول وجہ یہ نہیں ہوگی کہ وہ بہت عقلمند ہے یا وہ بہت اچھے گھرانہ سے تعلق رکھتا ہے، اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ نوجوان یقیناًبہت خوش قسمت ہے۔ اکثر اوقات اُس کی خوش قسمتی کا انحصار کسی نہ کسی پروفیشنل مداخلت پر ہوتا ہے جو کسی کاؤنسلر کی طرف سے ملتی ہے جس میں اُن کا اولین مقصد اُس نوجوان کی زندگی بچانا ہوتا ہے۔

صداقت کلینک میں اپنے کام کے دوران میں بہت تواتر سے لوکل سکولوں، مسجدوں اور نوجوانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا رہا ہوں اور انہیں گھر سے بھاگنے کے خطرات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ضروری مشورے اور لٹریچر فراہم کرتا رہا ہوں۔کسی بھی کلاس روم یا ہال میں نوجوانوں کے ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر میں اُن سے یہ سوال ضرور کرتا ہوں۔ ’’یہاں اس ہجوم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو بھاگنے کے بارے میں سوچتے ہیں؟‘‘چاہے وہ نوجوان کسی خستہ حال کلاس روم میں مردہ دلی سے بیٹھے ہوں یا کسی اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ سکول میں بیٹھے ہوئے نوجوان ہوں، میں اُن کے اوپر اُٹھے ہوئے ہاتھوں کے سمندر کے درمیان اُن کے چہروں کو جانچنے کی کوشش کرنے لگتا ہوں تاہم میں نے اس خیال کو فوراً ہی جھٹک دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ دو ہفتے باہر سڑک پر رہنے سے یہ معصوم چہرے کس قدر گھناؤنے دلّال بن سکتے ہیں۔

میں جانتا ہوں ان کے ہاتھ ہوا میں کیوں ہیں؟
یہ نوجوان بالکل میری طرح ہیں جب میں بھی اُن کی عمر میں تھا، سڑک کی زندگی کو ایک بہادر انہ مہم سمجھتا تھا۔ لیکن ایک چیز جس نے مجھے ششدر کر دیا، جب میں ایک کاؤنسلر کی طرح کام کر رہا تھا اور ایک دفعہ ایک ویران عمارت میں پناہ لینے والے نوجوانوں میں بریانی کے پیکٹس بانٹ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ یہ گھروں سے بھاگنے والے نوجوان مطمئن تو بالکل نہیں تھے، نہ ہی یہ صاف ستھرے تھے، یہ جسمانی طور پر لاغر اور بیمار تھے، سب کے سب نشئی تھے اور دنیا کے غمگین ترین لوگ تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے وہیں سے سفر کاآغازکیا تھا جہاں پر میں نے بہت سارے اُن بچوں کو اپنے سامنے ہاتھ اُٹھائے دیکھا تھا جو کہنا چاہ رہے تھے کہ ہم نے بھی گھر سے بھاگنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔

ایک صبح اشراق سے کچھ پہلے، مجھے اور میرے ساتھی کو ایک خوفزدہ گھر سے بھاگے ہوئے نوجوان کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی۔ عزیز وائن نامی یہ نوجوان لاری اڈہ بادامی باغ سے بات کر رہا تھا اور کچھ دیر پہلے ہی مظفرآباد سے پہنچا تھا۔ ہم جلدی سے بس اڈہ پر پہنچے۔ وہ پندرہ سال کا نوجوان تھا اور گھر سے اس لیے بھاگا تھا کیونکہ اُس کی ماں نے دوسری شادی کر لی تھی وہ اپنے سوتیلے باپ کو یہ فقرہ کہہ کے بھاگا تھا، ’’تم میرے باپ نہیں ہو، تم مجھے یہ نہیں بتا سکتے کہ مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘

جب عزیز وائن جیسے نوجوان گھروں سے بھاگتے ہیں، اس کام پر اتنی زیادہ توجہ دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس بارے میں بالکل سوچتے ہی نہیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، وہ کیا کریں گے اور جب انہیں بھوک لگے گی تو وہ کیا کھائیں گے؟

مظفر آباد سے لاہور پہنچنے میں عزیز وائن کو دو دن اور دو راتیں لگیں اور جب بس اڈے پرپہنچا تو اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ بس اڈے پر سیکورٹی گارڈ نے عزیز کو ہمارے دفتر کا نمبر دیا۔

میں اور میرے ساتھی نے عزیز وائن کو وین میں بٹھایا اور شیلٹر میں لے جاتے ہوئے جان بوجھ کر ہم لاہور کے ایسے علاقوں سے گذر ے تا کہ عزیز وائن اُن بوسیدہ حال لوگوں کا جائزہ لے سکے جو گھروں کا سکون چھوڑ کر سڑک پر آگئے تھے اور اب چھتوں کے بغیر زندگی گزار رہے تھے۔ عزیز وائن کیلئے یہ دلدوز مناظر بہت سے لیکچرزسے زیادہ قائل کرنے والے تھے اور یہ سب دیکھنے کے بعد شاید وہ دوبارہ گھر سے بھاگنے کا ارادہ کبھی کرے ہی نا۔ اسی طرح سے یہ کتاب صرف تعلیم نہیں دیتی نہ ہی دھمکاتی ہے۔ یہ کتاب صرف گھر سے بھاگنے والوں کی ایسی حقیقت آشکارکرتی ہے، جو کہ اصل زندگی کے تجربات پر مشتمل ہے۔

جیسے ہی میں نے کہانیوں کا یہ گلدستہ تیار کیا۔ اس کی تیاری میں سب سے مشکل سوال یہ تھا کہ حقیقت سے کس قدر پردہ اُٹھایا جانا چاہیے؟ اور دوسری طرف میرے ذہن میں یہ خیال بھی تھا کہ اگر میں نے کچھ چھپایا تو کیا بات بن پائے گی؟ یہ ایک پریشان کُن عمل تھا، مجھے امید ہے کہ میں نے حقیقت کی صحیح تصویر کشی کی ہے، اتنی جس سے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے لیکن نوجوان ان سب حادثوں سے سچ مچ دوچار ہونے سے بچ سکیں گے۔

سڑکوں پر دربدر گزاری ہوئی زندگی لڑکیوں کیلئے لڑکوں کی نسبت اور بھی گھناؤنی ہے۔لڑکیاں ہر صورت عدم تحفظ کا شکار رہتی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ گھر سے بھاگ کر کہاں پہنچتی ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کیلئے ایک بات تو یکساں ہے کہ وہ سب اُن حالات کو بدلنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے وہ گھر سے بھاگے تھے۔

لیکن یہ کتاب آپ کو بتاتی ہے کہ ان مسائل کا حل سڑکوں پرہرگز موجود نہیں ہے۔ تو آخر پھر ان مسائل کا حل کہاں ہے؟ یہ کتاب بتاتی ہے کہ ایک نوجوان اپنے اس مسئلے کا کیا کرسکتا ہے؟ا س کا آسان جواب یہ ہے کہ وہ کسی سے کہہ سکتے ہیں۔
کسی سے بات کرنا نوجوانوں کو بہت پریشان کر دیتا ہے۔ یہ قدرتی بات ہے، اگر جو کچھ ہو رہا ہے، اس سب کے بارے میں بات کرنا اتنا ہی آسان ہوتا تو وہ پہلے ہی ایسا کر چکے ہوتے۔ ان کی اس گھبراہٹ کو سمجھتے ہوئے میں دوبارہ مشورہ دوں گا کہ وہ بات کرنے کیلئے کسی نہ کسی کا انتخاب ضرور کریں اور اس عمل میں وہ انتہائی احتیاط برت سکتے ہیں۔ بہت سے نوجوان جو گھر سے بھاگتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کسی سے بات کر کے دیکھا تھا۔ پھر اُس شخص نے کیا کیا؟
کچھ نہیں.. کچھ بھی تو نہیں

کیوں نہیں؟ کیونکہ وہ ملوث نہیں ہونا چاہتے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر وہ بات کو ٹال دیں گے تو نوجوان خود ہی اپنا ارادہ بدل دے گا۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ فیملی کے ساتھ کسی قسم کے ناگوار تعلقات پیدا نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ انہیں یقین نہیں ہوتا کہ یہ نوجوان سچ بول رہا ہے یا پھر وہ نہیں جانتے کہ ان مسائل کو کیسے سلجھایا جا سکتا ہے؟ اُن کا رویہ واضح ہوتا تھا جیسا کہ وہ کہنا چاہ رہے ہوں ’’یہ مسئلہ کسی اور کو حل کرنا چاہئیے۔‘‘

ذرا سوچئے کہ جب آپ یہ کہیں کہ آپ کے والدین میں سے کوئی ایک نشے کا مریض ہے یا آپ کو پیٹتا ہے یا آپ کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے، تو وہ کچھ نہیں کرتا۔ اس سے کتنی اذیت پیدا ہوتی ہے۔ ایسا ہوتارہتا ہے۔ بہت سے نوجوان پہلے ہی دنیا کی طرف سے ناامید ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی اُن کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔

ایک نوجوان کو اپنے خاندان یا کمیونٹی میں ایسے شخص کو ڈھونڈنا چاہئیے جو کہ واضح طور پر دردِ دل

رکھتا ہو اور وہ اس پوزیشن میں ہو کہ وہ ہر حالات میں آپ کی مدد کر سکے اور وہ آپ کی مدد کرنا بھی چاہتا ہو۔ اسکے علاوہ اگر کوئی بھی نوجوان 111-111-347پر کال کرے تو اسے ہمیشہ مفید مشورے کے لیے ایک ماہر نفسیات انتظار کرتا ہوا ملے گا۔

اگر نوجوان موڈی اور اپنی من مانی کرنے والا ہوگا تو پھر اُس کے مسائل سلجھانے کیلئے خودبخود کوئی آگے نہیں بڑھے گا۔ اپنے مسائل کو سلجھانے کیلئے نوجوان کو ازخود آگے بڑھ کر کسی سے بات کرنا ہوگی۔

اگر آپ کسی کو اپنے مسائل کے بارے میں بتائیں گے تو ہو سکتا ہے وہ یقین نہ کرے اور اس وجہ سے آپ کو جھوٹا اور گڑبڑی سمجھا جائے لیکن سوچئے کہ سچ کون بول رہا ہے؟

اپنی کوشش جاری رکھئے جب تک کہ آپ کو کوئی سچ مچ مدد فراہم نہ کر دے۔

آپ کس کو بتا سکتے ہیں؟ اگر آپ ایک نوجوان ہیں تو اُس وقت تک اس کتاب کو بند نہ کریں جب تک کہ آپ سوچنا شروع نہ کرلیں کہ آپ اپنے مسائل کے حوالے سے کس سے بات کریں گے؟ کس کو بتائیں گے کہ آپ گھر سے کیوں بھاگنا چاہتے ہیں؟
آخر وہ کون ہو سکتا ہے؟
آپ کے کالج کا کوئی ٹیچر؟
کوئی کاؤنسلر ہے؟
کوئی امام ہے؟ آپ کی مسجد کا کوئی نمازی۔
آپ کا کوئی رشتہ د ار، کوئی خاندانی دوست گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کی ہاٹ لائن کا کاؤنسلر؟

بچوں پرتشدد کی ہاٹ لائن کا کاؤنسلر یا کوئی اور؟

اس کے بارے میں سوچئے..اس کے بارے میں ابھی سوچئے اور اگر آپ کوئی بڑی عمر کے فرد ہیں تو کوشش کیجئے کہ آپ ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جو اُن نوجوانوں کو سڑکوں پر بھٹکنے سے پہلے ہی مدد فراہم کر دیتے ہیں۔ بہت سے افراد نوجوانوں کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ وہ اسے نوجوانوں کا ڈرامہ سمجھتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ صرف ٹوپی ڈرامہ ہوتا ہے لیکن بہت سے نوجوان گھروں سے بھاگتے ہیں۔ کچھ زندہ نہیں بچتے، کچھ گھر نہیں لوٹتے اور کوئی بھی پہلے جیسا نہیں رہتا۔