Link-1

بھاگ پپو بھاگ

اس کہانی کا مرکزی کردار ایک نوجوان لڑکا ہے جس کا نام پپو ہے، وہ ایف ایس سی پری میڈیکل کا طالب علم ہے۔ اس کا تعلق فیصل آباد کے ایک امیر گھرانے سے ہے۔ آسائشِ زندگی کی فراوانی کے باوجود پپو کے تعلقات اپنے گھر والوں سے ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ پریشان رہتا ہے اور اپنے جیسے نوجوانوں کی طرح بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ ایک دن حالات کے پیشِ نظر وہ گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ بدقسمتی سے اُسے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

ایک رات پپو کی اپنے والد سے جھڑپ ہو جاتی ہے۔ پپو پانی پینے کے لیے کچن کی جانب جاتا ہے اور بوتل کو منہ لگا کر پانی پی رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی وہ بوتل کو منہ لگائے پیچھے کی جانب مڑا تو سامنے ہی اسکے والد شیخ جلال دین ماتھے پر سلوٹیں ڈالے کھڑے تھے۔ پپو انکو دیکھ کر وہاں سے جانے لگتا ہے تو وہ پیچھے سے غصے میں بولنے لگ جاتے ہیں۔

والد: تمہیں تو اتنی بھی تمیز نہیں کہ باپ کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔
پپو: اب میں نے آپ کو کیا کہہ دیا؟ میں تو خاموشی سے کمرے میں جا رہا تھا۔
والد: ہاں تو، کوئی سلام دعا کرنا بھی سیکھا ہے کہ بس باپ کے پیسے پر عیاشی کرنا ہی آتا ہے۔
پپو: (غصے سے باپ کو دیکھتا ہے)۔
والد: باپ کو آنکھیں دکھا نے سے قبل یہ بھی سوچ لیا کرو کہ تم میرے گھر میں کھڑے ہو، میرے پیسوں پر پل رہے ہو۔ اسکا کوئی احساس بھی ہے کہ میں تم لوگوں کے لیے کتنی محنت سے کماتا ہوں
پپو: ہاں تو، کماتے ہیں تو کیا احسان کرتے ہیں؟
والد: تم جیسی نکمی اولاد جن کو بغیر کسی محنت کے سب کچھ مل جائے ان پر احسان ہی ہوتا ہے۔
پپو: اس گھر میں تو رہنا کیا، پانی پینا تک دوبھر ہو چکا ہے۔
والد: ہاں تو، کوئی تمہیں زبردستی یہاں روکے ہوئے نہیں ہے۔
پپو: ہاں میں ویسے ہی چلا جاتا ہوں ادھر سے اور اس گھر سے ہمیشہ کے لیے۔
والد: اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی؟ تمہارے جانے سے تو ہم واپس دنیا میں آ جائیں گے ، تمہارے جیسی اولاد ہونے سے تو بے اولاد ہونا ہی بہتر ہے۔ جاؤ چلے جاؤ، دفعہ ہو جاؤ اور دوبارہ مجھے کبھی اپنی شکل نہ دکھانا۔
پپو: ہاں! ہاں! میں ابھی دفعہ ہوجا تا ہوں۔
والد: میری نظروں سے دور ہو جاؤ، جاؤ اپنے کمرے میں مرو۔ حرام زادہ، اُلو کا پٹھا، باتیں کس قدر آتی ہیں تمہیں۔ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔

رات گئے تک پپو کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ فجر سے کچھ دیر پہلے اسکی آنکھ لگ جاتی ہے۔ رات بھر اسکی ماں بھی نہ سوئی، بار بار کمرے میں جھانک کر اس دیکھتی رہی۔
شیخ جلال دین جو کہ فیصل آباد کے نامی گرامی کاروباری فرد ہیں، اپنی کاروباری مصروفیت کے سلسلے میں انہیں اکژ شہر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ سہ پہر کے وقت پپو کی والدہ سو رہی ہیں اور گھر کے باقی افراد گھریلو کاموں میں مصروف ہیں۔ پپو یہ ’’سنہری موقع‘‘ کھونا نہیں چاہتا۔ وہ بیگ اٹھاتا ہے اور شیخ جلال دین جو کہ فیصل آباد کے نامی گرامی کاروباری فرد ہیں، اپنی کاروباری مصروفیت کے سلسلے میں انہیں اکژ شہر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ سہ پہر کے وقت پپو کی والدہ سو رہی ہیں اور گھر کے باقی افراد گھریلو کاموں میں مصروف ہیں۔ پپو یہ ’’سنہری موقع‘‘ کھونا نہیں چاہتا۔ وہ بیگ اٹھاتا ہے اور اس میں مختلف چیزیں ٹھونسنا شروع کر دیتا ہے، آج وہ اپنے گھر سے بھاگنے کا حتمی فیصلہ کر چکا ہے۔

آپ نے گھر سے بھاگ جانے والے نوجوانوں کے بارے میں سُن رکھا ہو گا۔ آپ یقیناً سمجھ سکتے ہیں کہ وہ لوگ کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟ جب وہ کالج کیفے ٹیریا میں بیٹھے یا کسی دوست کے گھر یا اپنے ہی بیڈروم میں کہتے ہیں کہ ’’باتیں تو بہت ہو چکیں اب عمل کرنا چاہیے‘‘ تو اس سے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔

پپو کے ذہن میں یہ سوالات اُمڈ رہے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ کیا لے کر جائے؟ اُسے یہ بیگ کتنی دیر تک اٹھانا ہو گا؟ آخر کتنا سامان وہ مسلسل اٹھائے رکھ سکتا ہے؟ اور اگر اُسے تمام دن یہ سامان اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھنا ہوا تو۔۔۔؟ وہ خیال کرتا ہے کہ شاید اُسے اپنی بہت سی پسندیدہ چیزوں کو چھوڑ کر جانا ہو گا۔۔۔ وہ چیزیں جو اس کیلئے بہت قدروقیمت رکھتی ہیں جیسے کہ اُس کی میوزک سی ڈِیز، اُس کے پسندیدہ لوگوں کی تصویروں کے پوسٹر۔۔۔ کیا وہ یہ سب سامان چھوڑ سکتا ہے جس سے جدا ہونے کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔۔؟

پپو اپنی باقی ماندہ پسندیدہ چیزوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے اور سوچتا ہے کہ جب وہ یہاں سے چلا جائے گا تو اُسے اس سے بھی زیادہ بہتر زندگی اور اشیاء میسر آئیں گی۔ پپو کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ اُسے تو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کی عادت ہے تو کیا وہ کچھ کھانا بھی اپنے ساتھ لے سکتا ہے؟ اس خیال سے اس کا ذہن چونک اٹھتا ہے اور وہ کچن میں موجود چاکلیٹ، بسکٹ، چپس، نمکو وغیرہ اُٹھا کر اپنے بیگ میں رکھ لیتا ہے۔

پپو کے اندر کا انسان اس سے سوال کرتا ہے کہ آخر وہ کتنا کھانا اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے؟ آخر اُس کے ذہن میں کیا ہے؟ کیا وہ ساری زندگی کیلئے اِس گھر کو چھوڑ دینا چاہتا ہے؟ رقم کا کیا ہو گا؟ کیا اُسے کچھ رقم بھی اپنے ساتھ لے جانا ہو گی؟ یہ ایک مشکل گھڑی ہے۔۔۔ پپو سوچتا ہے کہ گھر میں موجود رقم کچھ اس کے والد کی اور کچھ گھر میں موجود باقی لوگوں کی ہے لیکن بہرحال ایمرجنسی کی صورتِ حال ہے اور اِس کے پیشِ نظر کچھ رقم لے جانا جائز ہے۔

پپو اپنی تیاری مکمل کر کے گھر سے کچھ فاصلے پر موجود بس سٹاپ پر کسی سواری کے انتظار میں ہے، وہ اپنا بھاری بھر کم بیگ زمین پر رکھ دیتا ہے۔ مستقبل میں آنے والی مشکلات کے خوف سے پپو ایک جھرجھری لیتا ہے اور اُس کے دل میں لوٹ جانے کا خیال منڈلانے لگتا ہے لیکن پپو سوچتا ہے کہ لوٹ کر پھر اُسی زندگی کی طرف جانا پڑے گا جس سے وہ بھاگ جانا چاہتا ہے۔ پپو تصور کرتا ہے کہ وہ ایک نئی زندگی کی طرف رواں دواں ہے جہاں وہ اپنے لیے ایک نیا گھروندہ بنائے گا جو سردیوں میں اُسے گرمائش اور گرمیوں میں ٹھنڈک دے سکے گا۔
یہ سب کس لیے ہے؟
وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے؟
وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے؟
وہ ان حالات کی وجہ ایک لمبے عرصے سے جانتا ہے لیکن اُس نے کسی کو نہیں بتایا، یہ اُس کا راز ہے۔۔۔ گہرا راز۔

پپو بس سٹاپ پر کھڑا خوف محسوس کر رہا ہے، اُس کا دل تیز تیز دھڑک رہا ہے، اُس کے جسم میں خون کی گردش بھی تیز ہے اور اُس کا ذہن عجیب و غریب خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ پپو کے دل میں خیال آتا ہے کہ شاید جنگ میں فوجیوں کو بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہو گا۔ جب وہ سنسناتی ہوئی گولیوں کے بیچوں بیچ اپنے مورچے سے نکلتے ہوں گے تو شاید انہیں بھی ڈر محسوس ہوتا ہوگا لیکن پھر بھی وہ اپنے محاذ سے پیچھے نہیں ہٹتے اور انہیں جو کرنا ہوتا ہے آخر وہ کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ جنگ کے بعد انٹرویو دیتے ہوئے بہت سے قومی ہیرو اپنی بہادری بارے ایسے کارنامے بتاتے ہیں جیسے کہ وہ سپرمین ہوں لیکن کچھ تھوڑی دیر کیلئے دل میں چھپے ڈر کو مان بھی لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اُنہیں یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ کیا وہ واقعی سنسناتی گولیوں کے بیچوں بیچ مورچے سے نکل کر دشمن پر ٹوٹ پڑے ہیں۔
پپو خود کلامی کرتا ہے کہ وہ کوئی فوجی تو نہیں ہے، نہ ہی یہاں کوئی سنسناتی یا ترتڑاتی گولیاں چل رہی ہیں، نہ ہی کوئی مورچے بنے ہوئے ہیں، وہ تو صرف ایک نوجوان ہے جس نے اس نئی دُنیا میں ابھی پہلا قدم رکھا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ چونکہ اس کا اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ ہی جھگڑا رہا ہے اس لیے اُس کے حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں رہے، اُسے اب کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
آپ کا کیا خیال ہے وہ کیا کرے گا؟

ممکنہ اقدامات

وہ ایک دوست کے گھر جا سکتا ہے، اگر آپ اس خیال سے متفق ہیں تو لنک-2 پر جائیے

اُسے ایک موٹل میں چلے جانا چاہئیے ، اِس پر کچھ اخراجات تو ہوں گے لیکن اُسے سوچنے کا وقت م جائے گا کہ اب اُسے کیا کرنا چاہئیے۔ اگر آپ کے خیال میں یہ بہتر قدم ہے لنک-3 پر چلے جائیے

اُسے رقم سمیت کسی بس پر چڑھ جانا چاہئیے تاکہ وہ کسی دوسرے شہر جا سکے لنک-4 پر چلے جائیے۔

کچھ نہیں بگڑا اُسے فوراً اپنے گھر لو ٹ جانا چاہئیے۔اگر آپ کے خیال میں یہ مناسب ہے لنک-5 پر چلے جائیے۔