Link-29
Link-29
بھاگ پپو بھاگ
جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے
پپو بوریت کو دور کرنے کیلئے شراب کی الماری کی طرف بڑھتا ہے مگر پھر اُس کے پاس سے گزر کر فریج میں سے ایک اور شراب کی بوتل نکال لیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ امیر لوگوں کی ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ ہر چیز ڈھیروں ڈھیر خریدتے ہیں۔ فریج میں ہر قسم کی شراب موجود تھی۔ یہ فریج صرف اسی مقصد کیلئے استعمال ہوتا ہے اور کچن سے ملحقہ کمرے میں رکھا گیا ہے۔ اتنی بوتلیں دیکھ کر پپو مطمئن ہو جاتا ہے۔ شراب اب اس کا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے وہ اپنے ہر احساس کو شراب سے پورا کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اتنی زیادہ شراب موجود ہے کہ اُسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں!
پپو لِونگ روم میں نہیں بیٹھتا کیونکہ وہ کچھ دیر کیلئے پرانی یادوں سے پیچھا چھڑوانا چاہتا ہے، اس لیے وہ سوئمنگ پول کے پاس ایک میز پر بیٹھ جاتا ہے۔ پپو چاہتا ہے کہ اُسے بار بار اُٹھ کر اندر نہ جانا پڑے اس لیے وہ پلاسٹک کے ایک برتن میں برف کے کافی ٹکرے بھی رکھ لیتا ہے۔ اُس کا مقصد صرف وقت گزاری ہے۔ جلد ہی وہ مدہوش ہو جاتا ہے۔ تقریباً صبح کے دس بجے اُس کی آنکھ کھلتی ہے۔اس کا منہ خشک ہوتا ہے اور سر درد سے پھٹ رہا ہوتا ہے کرسی پر ٹیک لگائے وہ کافی تھکن محسوس کرنے لگتا ہے۔ اب اُسے سلطان پر بھی غصہ آتا ہے۔ پپو سوچتا ہے کہ سلطان بہت ہی مطلبی شخص ہے جو اس سے وقت گزاری کر رہا ہے۔ یکایک اسے سر میں ٹیسیں اُٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ سوچتا ہے رات کو تو شراب بہت مزہ دیتی ہے لیکن صبح اٹھتے ہی بُرا حال کیوں ہوتا ہے۔ ناشتے کے خیال سے اسے متلی ہونے لگتی ہے۔ وہ بہت سا پانی پیتا ہے۔ گرم پانی سے نہانے کے بعد اُس کی طبیعت بحال ہونے لگتی ہے۔ کافی کا ایک کپ پینے کے بعد وہ بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔
’’اس زندگی کا کیا بنے گا؟‘‘ یہی سوچتے ہوئے وہ ویڈیو گیم میں سے کیسٹ نکال کر باہر لے جاتا ہے اور ایک پتھر مار کر اُسے توڑ دیتا ہے۔ وہ کیسٹ کے ٹکڑوں کو کچن کے کوڑے کے ڈبے میں ڈال کر، کچن میں ناشتے کیلئے چلا جاتا ہے اور پھر خاموشی سے اپنے کمرے میں آ کر لیٹ جاتا ہے۔
’’ارے یار، پپو ذرا بات سنو‘‘ ٹھیک پانچ منٹ کے بعد پپو کو سلطان کی آواز سنائی دیتی ہے۔
پپو سلطان کے پاس جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ چیزیں سنبھال رہا ہے۔
’’ہمیں گھر کی صفائی کو صرف ملازمہ پر ہی نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘پپو پر نظر پڑتے ہی سلطان کہتا ہے۔
’’ہاں، ضرور‘‘ یہ کہتے ہوئے پپو بھی سلطان کے ساتھ ہاتھ بٹانے لگتا ہے۔
’’ارے یار، کیا تم نے ویڈیو گیم کی کیسٹ کہیں دیکھی ہے؟‘‘ سلطان پوچھتا ہے۔
’’ہاں میں بھی اُسے تلاش کر رہا تھا‘‘ پپو جھوٹ بولتے ہوئے کہتا ہے۔
’’میرا خیال ہے، جمی اپنے ساتھ لے گیا ہو گا۔ انسان کسی کا بھی اعتبار نہیں کر سکتا خصوصاً فورٹ
’’ہاں، ضرور‘‘ یہ کہتے ہوئے پپو بھی سلطان کے ساتھ ہاتھ بٹانے لگتا ہے۔
’’ارے یار، کیا تم نے ویڈیو گیم کی کیسٹ کہیں دیکھی ہے؟‘‘ سلطان پوچھتا ہے۔
’’ہاں میں بھی اُسے تلاش کر رہا تھا‘‘ پپو جھوٹ بولتے ہوئے کہتا ہے۔
’’میرا خیال ہے، جمی اپنے ساتھ لے گیا ہو گا۔ انسان کسی کا بھی اعتبار نہیں کر سکتا خصوصاً فورٹ روڈ سے آنے والوں پر‘‘ پپو صفائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے ’’تمہیں معلوم ہے میں اُن لڑکوں کی طرح نہیں ہوں، خیر ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، کہیں وہ اُس کے علاوہ تو کچھ نہیں لے کر گیا، شاید اُسے گھر میں لانا میری غلطی تھی۔ میں نے اُسے ایک اچھا لڑکا سمجھا تھا۔۔۔خیر کیسٹ چوری کرنے کی کوئی نہ کوئی خاص وجہ تو ہو گی اُس کے دل میں!‘‘، پپو اپنی بات جاری رکھتا ہے۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد پپو سلطان سے منوا لیتا ہے کہ آج کی رات وہ بڑے خوبصورت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر دونوں تھوڑی دیر ٹی وی دیکھیں گے۔
’’خیال اچھا ہے‘‘ سلطان پپو کو کہتا ہے اور ساتھ ہی اپنے ایک ہاتھ سے پپو کے سنورے ہوئے بال الجھا دیتا ہے۔
دن یونہی گزرتے رہتے ہیں۔ سلطان اب پپو کے ساتھ لِونگ روم میں زیادہ وقت نہیں گزارتا۔ وہ پپو کو مساج کیلئے بھی نہیں کہتا۔ پپو کو شک پڑتا ہے کہ جمی سلطان کو ملتا ہے اور وہی سلطان کا ذہن پپو کے خلاف بھرتا رہتا ہے۔
’’ہو سکتا ہے وہ میرے عمدہ کپڑوں، پیسوں اور گھر سے حسد کرتا ہو۔‘‘
یہ سوچتے ہی پپو جمی کو تنگ کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ بدھ کے دن وہ بہترین کپڑے زیب تن کرتا ہے۔ ساتھ ہی سونے کی چین اور نئی انگوٹھی پہنتا ہے اور ایک ٹیکسی منگوا کر ڈرائیور کو فورٹ روڈ چلنے کا کہتا ہے ڈرائیور بغیر کچھ کہے روانہ ہو جاتا ہے۔
پپو سوچتا ہے کہ ڈرائیور ضرور یہ خیال کر رہا ہو گا کہ ایک لڑکا گلبرگ سے فورٹ روڈ کیا کرنے جا رہا ہے۔ فورٹ روڈ بازارِ حسن کے شمال کی جانب واقع ہے۔ٹبی گلی میں موجود نشہ کرنے کی جگہ بالکل ایک اندھیری کوٹھڑی کا سماں پیش کرتی ہے ۔جہاں ہر طرف شراب اور سگریٹ کی بدبو رچی بسی ہوتی ہے۔
جیسے ہی پپو ایک بوسیدہ صوفے پر بیٹھتا ہے، ایک وحشت زدہ، جھریوں سے بھری نائکہ اُس کو دیکھ کر دوستانہ مسکراہٹ پیش کرتی ہے،
’’کیا میں تمہیں پینے کیلئے کچھ روپے دوں؟‘‘ پپو اُس سے ہمدردانہ لہجے میں پوچھتا ہے۔
وہ مسکراتی ہے اور شکریہ کے ساتھ اپنی رضامندی دے دیتی ہے۔
پپو اپنے نئے کپڑوں اور پیسوں سے بھری جیب پر اتراتا ہے۔
’’ میں یہاں کیوں ہوں؟‘‘پپو سوچ میں پڑ جاتا ہے۔
اس اثناء میں جمی کچھ آوارہ لڑکیوں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ وہ سب فورٹ روڈ جانے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔جمی اُن لوگوں سے پپو کا تعارف کرواتا ہے۔ پپو اُن سب کو اُن کے پسندیدہ مشروب خرید کر دیتا ہے۔ جمی مشروبات کیلئے پپو کا شکریہ ادا کرتا ہے۔
’’مجھے تم سے مل کر خوشی ہوئی، کیا تم نے بھی کچھ لیا؟‘‘جمی مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔
’’تکلف کی ضرورت نہیں، آپ کی خاطر تواضع تو میرا فرض ہے۔‘‘ پپو ہنستے ہوئے جمی سے مخاطب ہوتا ہے۔
جمی حیران کُن نظروں سے پپو کی طرف دیکھتا ہے اور اپنے ایک دوست کی طرف بڑھتا ہے۔ جمی کے دوست بھی پپو کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔
اُس رات گھر واپس آنے کے بعد پپو سلطان کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔
’’کبھی کبھی اندھیرا ہونے کے بعد خاصی سردی ہو جاتی ہے، مجھے ایک سوئیٹر کی اشد ضرورت ہے، میں نے تمہارے سب سوئیٹر پہن کے دیکھے مگر وہ سب بہت بڑے ہیں۔‘‘
سلطان’ہاں‘ کے اشارے سے پپو کو خاموش کروا دیتا ہے اور پھر وہ دونوں ٹی وی پر ’’کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ دیکھنے لگتے ہیں۔
اگلے ہی دن سلطان کام ختم کرنے کے بعد باہر جاتا ہے اور واپسی پر اُس کے ساتھ ایک بہت بڑا پیکٹ ہوتا ہے جسے وہ میز پر اُلٹا دیتا ہے۔ پپو دیکھتا ہے کہ اُس میں سے ایک بہت خوبصورت سفید اور نسواری گرم سوئیٹر نکلتا ہے۔ شاپنگ بیگ میں ایک نئی ویڈیو گیم کی کیسٹ بھی ہوتی ہے۔
پپو کیسٹ کو دیکھ کر میز پر پھینک دیتا ہے او ر سلطان کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ پپو کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ سلطان کو برا بھلا کہہ کر وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہا ہے۔ پپو کو ویسے بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سلطان کو بُرا بھلا کہے کیونکہ پپو بھی کوئی پارسا نہ تھا اور سلطان کے ساتھ ہر برائی میں حصہ دار تھا۔ سلطان کا موڈ آف ہو جاتا ہے، وہ جیب سے پانچ سو روپے نکال کر میز پر پھینکتا ہے ۔
’’اپنے کھانے کا خود انتظام کرو، میں باہر جا رہا ہوں لیکن سوئیٹر پہن لینا، سردی زیاد ہ ہے۔‘‘سلطان پپو سے برجستہ کہتا ہے۔
پپو ٹبی گلی کے سنیک بار کی طرف جاتا ہے۔ سب لوگ پپو کا نیا سوئیٹر دیکھ کے فدا ہو جاتے ہیں،
’’یہ تو کافی مہنگا لگتا ہے۔‘‘اُن میں سے ایک شخص سوئیٹر سے متاثر ہو کر کہتا ہے۔
اگلے دن کھانے کی میز پر سلطان قدرے خاموش ہوتا ہے۔اگرچہ وہ رات کے واقعے کو دوبارہ نہیں دہراتا، لیکن اُس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ اب پپو کو اپنے گھر میں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
’’تمہیں معلوم ہے میرے بھائی نے کچھ دن پہلے ہی اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، وہ مجھے ملنے آ رہا ہے چونکہ وہ اتنی بڑی پریشانی میں گھرا ہوا ہے اور سنبھلنے کیلئے اُسے الگ جگہ چاہئیے، ہو سکتا ہے کہ اُسے کچھ عرصہ میرے پاس ہی ٹھہرنا پڑے۔ یہ گھر اتنا بڑا نہیں ہے کہ اس میں اتنے لوگ با آسانی رہ سکیں۔‘‘ سلطان پپو کی طرف دیکھے بغیر کہتا ہے۔
’’میں ابھی چلا جاتا ہوں‘‘ پپو سرد لہجے میں جواب دیتا ہے۔
’’ارے! میری بات کو غلط مت سمجھنا، تمہیں معلوم ہے، مجھے تمہارے ساتھ رہنا اچھا لگتا ہے۔ تم آرام سے فیصلہ کر سکتے ہو، وہ کچھ دن بعد آئے گا۔‘‘سلطان یہ کہہ کر اپنی کلینک کی جانب چلا جاتا ہے۔
پپو سامان باندھنے میں پورا ایک گھنٹہ لگاتا ہے، جو قیمتی چیز اُس کے ہاتھ آتی ہے سب کو اُٹھا کر تین بڑی تھیلیوں میں اپنا سامان باندھ لیتا ہے پھر وہ ایک ٹیکسی منگواتا ہے اور ڈرائیور کو بھاٹی گیٹ چلنے کو کہتا ہے۔ بھاٹی گیٹ پہنچ کر ڈرائیور سے پوچھتا ہے کہ آیا وہ کرائے کی طور پر چھوٹا سے ریڈیو قبول کر کے دو سو روپے دینے پر تیار ہے؟ ڈرائیور بخوشی یہ سودا قبول کر لیتا ہے۔
بھاٹی گیٹ کے پاس ہی پپو ایک سستے اور صاف ستھرے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیتا ہے۔ شام تک وہ ٹی وی اور شراب سے محظوظ ہوتا ہے۔ پھر وہ تھوڑا آرام کر کے اُس سنیک بار کی طرف جاتا ہے، جو ہوٹل سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع ہے۔ سب لوگ اُسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ پپو اُن کے درمیان اچھا محسوس کرتا ہے۔ ویسے بھی پپو ہر ہفتے وہاں جایا کرتا تھا۔ اُن لوگوں میں جمی بھی ہے مگر وہ پپو سے بات نہیں کرتا اور خاموشی سے چلا جاتا ہے۔ اُس کے بعد اُسے جمی دوبارہ وہاں نظر نہیں آتا۔ باقی لوگ بتاتے ہیں کہ جمی نے ہوٹل بھی چھوڑ دیا ہے۔
پپو، ٹبی گلی کے اُس سنیک بار میں ہر روز جانا شروع کر دیتا ہے۔ وہاں کے سب لوگ اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں حالانکہ پپو کے پاس بہت کم پیسے بچے ہیں جو اُس نے سلطان کی چیزیں بیچ کے حاصل کئے تھے مگر اس سنیک بار میں سب کے سامنے وہ ابھی بھی امیر ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ وہاں آنے والے آوارہ لڑکوں کو اب بھی مفت مشروبات خرید کے دیتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو قبول نہیں کرنا چاہتا کہ وہ دوبارہ ایک سٹرک چھاپ لڑکا بن چکا ہے۔
آخرکار وہ اپنی شان و شوکت برقرار رکھنے کے لیے اپنا بہترین سوئیٹر بھی صرف تین سو روپے میں بیچ دیتا ہے۔اگلے دن وہ اپنی سونے کی چین اور انگوٹھی بھی بیچ دیتا ہے اور ان روپوں سے بھی وہ اپنے ساتھیوں کو مشروب خرید دیتا ہے۔ مشروب ختم ہونے پر، پپو کے ساتھی اور منگوا لیتے ہیں اور سنیک بار کا مالک پیسے وصول کرنے کیلئے پپو کے پاس پہنچتا ہے جبکہ پپو پریشانی سے ہکلانے لگتا ہے۔ پپو کے سب ساتھی عجیب نظروں سے اُس کی جانب دیکھتے ہیں۔ سنیک بار کا مالک اُن سب پر کڑی نگاہ ڈالتا ہے۔ ’’دعوت ختم ہو گئی ہے، اپنا اپنا راستہ لو‘‘ سنیک بار کا مالک طنزیہ انداز میں کہتا ہے۔
’’بِل میں ادا کروں گا‘‘اس اثناء میں ایک آواز آتی ہے۔
’’یہ تو جمی کی آواز ہے‘‘ پپو سر اُٹھا کے دیکھتا ہے۔ اُس کی نظر جمی پہ پڑتی ہے۔ جمی کا تو حلیہ ہی بدلا ہوا ہے۔
بہترین تراش خراش، سیاہ چمکتے ہوئے جوتے اور زیتون کے رنگ کا قیمتی ارمانی سوٹ اُس کی شان بڑھا رہا تھا۔
پپو جمی کا شکریہ ادا کر کے اپنی نظریں پھیر لیتا ہے۔
’’جب میں مدد کرنے کے قابل ہوتا ہوں تو ضرور کرتا ہوں ‘‘جمی مسکراتا ہوا ایک سونے کی چین میز پر رکھتا ہے۔
’’کیا تم نے کچھ کھایا؟‘‘ایک آواز گونجتی ہے جو کہ سلطان کی معلوم ہوتی ہے۔
لنک-47 پر جائیے۔