Link-4
Link-4
جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر
لنک -1 لاہور، لاہور اے، جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ای نئی۔
پپو شہر سے باہر جانے کیلئے مختلف لوگوں سے بسوں کے اڈے کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے جس پر ایک شخص اُسے نیازی بس اڈے کا پتہ بتاتا ہے۔ پپو جب نیازی اڈے پر پہنچتا ہے تو وہ وسیع و عریض احاطے میں لوگوں کا ایک جم غفیر دیکھتا ہے۔ پپو بھی انتظار گاہ میں ایک طرف بیٹھ جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس کی جیب میں اتنی رقم تو موجود ہی ہے جس سے وہ کم از کم لاہور تک تو پہنچ ہی سکتا ہے۔
پپو ٹکٹ لینے کے لیے ٹکٹ بوتھ پر پہنچ جاتا ہے اور ایک گھنٹہ قطار میں انتظار کرنے کے بعد پپوکو معلوم ہوتا ہے کہ لاہور جانے والی بس تین گھنٹے بعد رات کے دس بجے روانہ ہوگی۔ یہ سُن کر پپو بہت مایوس ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خوابوں کے شہر ’لاہور‘ میں ایک ہی پَل کے اندر پہنچ جانا چاہتا ہے۔
لاہور کو سب سے زیادہ پُررونق شہر سمجھا جاتاہے اور یہاں پہنچ کر ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ فلموں اور ڈراموں میں لاہور کا چرچا اس طرح کیا جاتا ہے کہ جیسے یہاں پر پہنچ کر کنگلے، راتوں رات لاکھ پتی بن جاتے ہیں اور بے پناہ شہرت ان کے قدم چومنے لگتی ہے۔
پپو سوچتا ہے کہ کامیابی کیلئے طلسمی شخصیت کا ہونا ضروری ہے اور اگر اُس کے پاس کچھ بھی نہیں تو کم از کم وہ پُرکشش شخصیت کا مالک تو ضرور ہے۔
پپو بس کا ٹکٹ پکڑے اور بیگ کندھے پر لٹکائے ہجوم کو چیرتا ہوا بس میں سوار ہوتا ہے تو بُو کا ایک بھبھکا اس کے ناک سے ٹکراتا ہے ۔پپو کو بس کے اندر کا ماحول پراگندہ محسوس ہوتا ہے۔ زیادہ تر مسافر گھوڑے بیچ کر سوئے ہوتے ہیں۔ پپو اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے جبکہ اُس کی ساتھ والی سیٹ پر ایک ناتواں عمر رسیدہ شخص بیٹھا ہے۔ عمر رسیدہ شخص پپو سے اپنے آپ کو متعارف کرواتے ہوئے اپنا نام عجب خان بتاتا ہے۔
’’مجھے اُمید ہے کہ بس کے نچلے حصے میں میرا سامان محفوظ رہے گا؟‘‘ عجب خان پپو سے پوچھتا ہے۔
’’سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہے گا، آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ پپوعجب خان کو تسلی دیتے ہوئے جواباً کہتا ہے۔
تین گھنٹوں پر محیط پاکستانی فلم ’’مولا جٹ‘‘ دیکھنے کے بعد پپو شدید سردرد محسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ جیسے وہ ایک چلتے پھرتے قیدخانے میں بند ہو۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ کاش! وہ اپنے ساتھ کوئی کتاب یا میگزین لے آتا تو سفر اچھا گزر جاتا۔ وہ تصور کرتا ہے کہ جب وہ لاہور پہنچے گا تو اُس کے جیب میں تھوڑے سے پیسے رہ جائیں گے اور اس کے پاس صرف کپڑے اور ایک ٹوتھ برش ہوگا۔
بس کے اندر پپو کو اپنے اردگرد پریشانِ حال چہرے نظر آتے ہیں جن میں سے کچھ لوگ ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھررہے ہوتے ہیں۔ دورانِ سفر پپو کی آنکھ لگ جاتی ہے، کافی دیر بعد اچانک وہ ہربھڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہے اور وقت معلوم کرنے کیلئے بے تاب ہوجاتا ہے۔
لاہور پہنچنے پر وہ ایک بیگ اٹھائے بہت ہی تھکا ماندہ نظر آتا ہے، لمبے سفر کی وجہ سے پپو کے بال ابتر ہیں اور کپڑوں پر بہت سی شکنیں بھی پڑی ہوئی ہیں۔ جلد ہی اُسے احساس ہوتا ہے کہ آدھی رات سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔ لاہور کے بارے میں اسے قطعاً کوئی معلومات نہیں ہیں۔
پپو کو گلیوں میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ اُسے عمارتیں خالی اور پراسرار نظر آتی ہیں جن کی کھڑکیوں میں روشنی کی کوئی کرن تک نظر نہیں آتی۔ پپو کو ہر طرف جمی ہوئی کالک نظر آتی ہے جس سے شہر جنگ بندی کے بعد کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں پپو کو صرف بس کا اڈہ روشنی اور سرگرمی کا گہوارہ نظر آتا ہے۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘ پپو کو یہ سب کچھ ایک ڈراؤناخواب لگتا ہے۔ رات کو شدید سردی تھی، پپو کو سفر کی وجہ سے تھکاوٹ بھی بہت ہوچکی تھی اور اُس کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ لاری اڈے سے کس طرف رُخ کرنا ہے۔ لاہور کی فلم انڈسٹری لالی ووڈ کے علاوہ پپو لاہور کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا۔
پپو باری سٹوڈیوز جانے کیلئے پَر تولتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کیلئے اس سے بہتر اور کوئی جگہ پپو باری سٹوڈیوز جانے کیلئے پَر تولتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کیلئے اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ لالی ووڈ چونکہ ہر وقت پُر رونق رہتا ہے اس لیے رات کے اس پہر میں بھی وہاں پر لوگ اور محافظ موجود ہوں گے۔ پپو راستے بارے پوچھتا ہے اورپیدل ہی چل پڑتا ہے اور اسے شدید بھوک بھی محسوس ہو رہی ہے۔
باری سٹوڈیو پہنچنے پر چوکیدار کی کرسی کے نزدیک کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسی اثناء میں بہت سی گاڑیاں اُس کے پاس سے گزر کر اندر سٹوڈیو میں چلی جاتی ہیں۔ چوکیدار جو کہ کافی بھاری بھر کم ہے اُن گاڑیوں کو بغیر پارکنگ پرمٹ جاری کیے اندر جانے دیتا ہے۔ وہ اُن پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ یہ چوکیدار نیلے رنگ کی وردی میں ملبوس ہوتا ہے اور سرمئی رنگ کی مونچھوں کا مالک اور آرام سے کرسی پر بیٹھا ایف ایم 100 سے محظوظ ہورہا ہے۔ پپو چوکیدار کی طرف بڑھتا ہے لیکن وہ اس پر بالکل توجہ نہیں دیتا۔ پپو اپنی ذات کو نظرانداز ہوتے ہوئے دیکھ کر طیش میں آجاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اُس نے تو ایسے بے ہودہ لالی ووڈ کا تصور بھی نہیں کیا تھا، یہ لوگ کتنے خوشامد پسند ہوتے ہیں۔
’’ایکس کیوز می!‘‘ پپو بڑی شائستگی کے ساتھ چوکیدار کو مخاطب کرتا ہے۔
’’ہاں! کیا بات ہے؟‘‘ وہ پپو پر ایک غصیلی نظر ڈالتا ہے اور گستاخانہ انداز میں پوچھتا ہے۔
چوکیدار نے پپو کی طرح کئی بچوں کو کندھوں پر بیگ لٹکائے شہرت حاصل کرنے کیلئے لالی ووڈ آتے ہوئے دیکھا تھا، اُسے بھلا پپو کی پرواہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
پپو کو چونکہ شدید بھوک لگی ہوئی ہے اس لیے وہ سوچ رہا ہے کہ چوکیدار اُسے صرف کسی ریستوران یا بیکری کے متعلق ہی بتا دے لیکن بدقسمتی سے پپو کو اُس کی آنکھ میں شرارت نظر آتی ہے اور اُس کی طنزیہ ہنسی سے پپو بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔
پپو مایوس نہیں ہوتا کیونکہ آخر کار جیت اُسی کی ہوگی۔
’’اس وقت کون سے ہوٹل سے کھانا مل جائے گا؟‘‘ پپو چوکیدار سے پوچھتا ہے۔
چوکیدار ہنستے ہوئے اُسے بائیں جانب کی گلی کی ایک بلند عمارت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
پپو اپنا بیگ کندھے پررکھ کر ریستوران کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔ گلی کے باہر ٹھنڈی ہوا پپو کے چہرے کو چھوتی ہے۔ اُس کو وہاں پر کوئی بھی نظر نہیں آتا جس سے وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ایک چوراہے پر آجاتا ہے، اُسے چند مدھم روشنیاں نظر آتی ہیں وہ مایوسی کے عالم میں لالی ووڈ کی تیز پپو اپنا بیگ کندھے پررکھ کر ریستوران کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔ گلی کے باہر ٹھنڈی ہوا پپو کے چہرے کو چھوتی ہے۔ اُس کو وہاں پر کوئی بھی نظر نہیں آتا جس سے وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ایک چوراہے پر آجاتا ہے، اُسے چند مدھم روشنیاں نظر آتی ہیں وہ مایوسی کے عالم میں لالی ووڈ کی تیز اور آنکھیں چندھیا دینے والی روشنیوں کو تلاش کرتا ہے۔
پپو کچرے اور کوڑے کرکٹ سے اٹی ہوئی گلیوں میں چلنا شروع کر دیتا ہے۔ ان گلیوں سے گزرتے ہوئے پیشاب کی متعفن اور چبھنے والی بدبو سے پپو کا سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ کچھ قدم آگے آگ لگنے سے کوڑا سلگ رہا تھا۔ رات کے سناٹے میں عجیب و غریب ٹھٹھوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ان گلیوں میں کس قسم کے لوگ آتے ہوں گے، پپو کو اس کا اندازہ ہو رہا تھا۔ پپو کو شبہ ہونے لگا تھا کہ کیا یہ واقعی لالی ووڈ ہے ؟
پپو خیال کرتا ہے کہ اس نے بسوں کے اڈے کو چھوڑ کر بہت بڑی بیوقوفی کی ہے۔ اب اُسے واپس وہیں جانا چاہئیے۔ وہ واپس مڑتا ہے تو ایک شخص انتہائی گندے کپڑوں میں فٹ پاتھ پر لیٹا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر پپو مزید تیز قدموں کے ساتھ بس اڈے کی طرف چلنا شروع کر دیتا ہے۔ اس دوران پپو محسوس کرتا ہے کوئی شخص اُس کا پیچھا کر رہا ہے اور اسے پکڑنے کی کوشش میں ہے۔ پپو کا خیال صحیح ثابت ہوتا اور کچھ دیر بعد ایک شخص اس کو زبردستی جکڑ لیتا ہے اور اُس کی جیب سے تمام پیسے نکال لیتا ہے اور بھاگ جاتا ہے۔ اس شخص کے مضبوطی کے ساتھ جکڑنے سے پپو کا نازک جسم درد کے مارے چٹخ رہا ہوتا ہے۔ پپو لڑکھڑاتا ہوا چلنا شروع کر دیتا ہے، اس دوران ایک گاڑی تیزی سے اس کے پاس سے گزرتی ہے۔ پپو اُس کو رُکنے کا اشارہ کرتا ہے لیکن وہ رُکنے کی بجائے کسی اور سمت میں چلی جاتی ہے۔ پپو بسوں کے اڈے کی طرف بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔
بسوں کے اڈے پر پہنچتے ہی اسے تین سیکورٹی گارڈ ملتے ہیں۔ پپو لڑکھڑا کر اُن میں سے دو کے ہاتھوں میں گِر جاتا ہے۔ اُس کے منہ میں سے جھاگ نکل رہی ہوتی ہے اور گلا خشک ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ گارڈ پپو کو ایک طرف ڈال دیتے ہیں، پپو صبح تک وہیں پڑا رہتا ہے۔ صبح کے وقت جب نیا گارڈ اپنی ڈیوٹی پر آتا ہے تو وہ پپو سے کہتا ہے’’تمہارے پاس نہ ہی ٹکٹ ہے اور نہ ہی کوئی سازوسامان تو پھر اڈے پر موجود رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اس لیے تم یہاں سے چلے جاؤ‘‘۔
پپو کو کسی سپاہی کو تلاش کرکے اُس کی مدد حاصل کرنی چاہیے، اس سے پہلے کہ اسے کوئی نقصان پہنچے۔ لنک-8 پر جائیے۔
صبح کا اُجالا ہے اور پپو اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔’’ بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے سفر کو جاری رکھے‘‘۔ لنک-9 پر جائیے۔