Link-42

بھاگ پپو بھاگ

جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے

موسم قدرے خنک تھا مگر کچھ خاص سردی نہیں تھی۔ کچھ دیر پہلے پپو ریسٹورنٹ میں تھا کچھ بوندا باندی بھی ہوتی رہی تھی۔ پپو ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے گردو پیش سے بے نیاز فورٹ روڈ سے گزرتی ہوئی ٹریفک دیکھتا رہتا ہے۔ پپو کا دماغ مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کبھی وہ سوچتا ہے کہ اُسے خود کشی کر لینی چاہیئے، مگر پھر وہ سوچتا ہے کہ خود کشی تو حرام ہے، یہ کام تو ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ پھر وہ اپنے حالات کے بارے میں سوچنے لگتا ہے جو دن بدن خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں کبھی وہ پریشان ہو جاتا ہے اور کبھی اپنے آپ کو حیلے بہانوں سے مطمئن کرتا ہے۔۔۔ پھر اُس لڑکی کا خیال آ جاتا ہے جو اسے اِسی ریسٹورنٹ میں ملی تھی اور جسے پپو کی وجہ سے ایڈز کا وائرس ملا۔ اب پپو اُن سب لوگوں کے بارے میں سوچتا ہے جنہیں پپو نے ممکنہ طور پر ایڈز کا وائرس منتقل کیا ہو گا۔ اُس لڑکی کا خیال آتے ہی وہ کالج کی اُن بے وقوف لڑکیوں بارے سوچنے لگتا ہے جن کے ساتھ اُس کے ناجائز تعلقات رہے تھے۔

ابھی وہ انہی سوچوں میں ڈوبا ہوا ہے کہ اُسے ’’نئی زندگی‘‘ کے وہ دونوں کاؤنسلر پھر نظر آتے ہیں۔ وہ دونوں اُس کے پاس سے تیزی سے گزر جانا چاہتے ہیں مگر پپو آواز دے کے اُن دونوں کو روک لیتا ہے۔

’’ارے یار میری بات سنو۔۔۔‘‘ پپو بہت مہذبانہ انداز میں انہیں اپنے پاس بلاتا ہے۔ اپنی آواز کی افسردگی پپو کو بھی محسوس ہوتی ہے۔ وہ دونوں بھی اسے محسوس کرتے ہیں اور بے چین دکھائی دیتے ہیں۔

’’۔۔۔یار میری بات سنو پلیز، صرف ایک منٹ کیلئے۔۔۔‘‘ وہ منت سماجت پر اُتر آتا ہے۔
پپو کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں تھا کہ کوئی اُسے یہ بتائے کہ اُس کی سب حرکتوں پہ اُسے معافی مل گئی ہے یا کوئی اُسے تسلی دے یا سیدھا راستہ دکھائے۔ وہ تو صرف یہ چاہتا تھا کہ کوئی اُس کے سامنے کھڑا ہو کر یہ کہے، ’’دیکھو مجھے بھی ایچ آئی وی پوزیٹو ہے، مجھے بھی یہ بیماری ہے مگر میں بالکل ٹھیک ہوں اور تم بھی ٹھیک رہو گے‘‘۔

وہ دونوں فائلوں کا پلندہ اُٹھائے پپو کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک لمحے کیلئے پپو کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کہے۔ وہ اپنی ٹانگیں سیدھی کرتا ہے اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھ جاتا ہے اور اوٹ پٹانگ اور بے سرو پا باتیں کرنے لگتا ہے۔
’’تم لوگوں کو ساری رات یہاں پھرتے ہوئے کیسا لگتا ہے۔۔۔؟ تم لوگوں کو بہت سی عجیب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہوں گی۔۔۔‘‘ خاتون کونسلر پپو کی باتیں سن کر مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔

’’یہ سب کچھ دلچسپ ہے مگر تکلیف دہ بھی، اگر مجھے کبھی ایسے رہنا پڑے تو میں نہ رہ سکوں، کیا تم دونوں میں سے کوئی اس دھندے میں رہا ہے؟‘‘ پپو دونوں سے دریافت کرتا ہے۔

’’نہیں‘‘ قد آور کونسلر نے جواب دیا۔
’’کیا تم دونوں یہ نہیں سمجھتے کہ ان لڑکوں کو ایڈز کے بارے میں سمجھانے کیلئے تم دونوں کو اُن سے زیادہ گھلنے ملنے کی ضرورت ہے؟‘‘ پپو کے لہجے میں مایوسی کا عنصر نمایاں تھا، ’’تم لوگوں کے رویے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تم لوگ دریا کے اُس کنارے کھڑے ہو اور ہم اس کنارے پہ اور اگر درمیان میں اتنا فرق ہو تو کوئی بھی کسی کی بات نہیں سمجھ سکے گا۔‘‘

پپو کو لگتا ہے شاید وہ دونوں اکتا کر وہاں سے چلے جائیں گے مگر جب وہ دونوں اُس کے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں تو پپو بہت حیران ہوتا ہے۔ وہ لڑکا پپو سے اپنے رویے کی معافی مانگتا ہے۔ پپو بھی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس سے معذرت کرتا ہے۔
’’مجھے بہت گھٹن محسوس ہو رہی ہے، شاید میرا رویہ خراب ہونے کی وجہ یہی ہو!‘‘ پپو کی باتوں میں عاجزی کا رنگ جھلک رہا تھا۔ شاید ایڈز کی بیماری کے خوف نے یہ اثر دکھایا تھا۔ کسی مصیبت میں پھنسنے کے بعد ہم سب ’’اچھے‘‘ بن جاتے ہیں۔ اگر ہم پہلے ہی اچھے بن جائیں تو شاید ہماری مصیبت بھی پہلے ہی ٹل جائے۔

’’میرا نام سلیم ہے‘‘ دوسرا لڑکا پپو کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’اور میں بھی کسی وجہ سے پریشان تھا اس لیے تم سے اچھی طرح بات نہ کر سکا‘‘۔ سلیم دلاسہ دیتے ہوئے کہتا ہے۔
تینوں ایک دوسرے کی طرف دوستانہ انداز اپناتے ہیں۔
’’کیا تم دونوں میں سے کوئی ایچ آئی وی پوزیٹو ہے؟‘‘ پپو اُن سے دریافت کرتا ہے۔

’’نہیں‘‘ وہ دونوں جواب دیتے ہیں۔
’’اس کے علاوہ تم دونوں کیا کرتے ہو؟‘‘ پپو پوچھتا ہے۔
لڑکا پپو کو بتاتا ہے کہ وہ انارکلی میں کپڑے کی دکان پہ جبکہ لڑکی ڈپلیکس میں کام کرتی ہے اور وہ دونوں بھی اپنے اپنے گھروں سے بھاگے ہوئے ہیں۔ دونوں پپو سے عمر میں کچھ سال بڑے ہیں اور وہ دونوں ’’نئی زندگی‘‘ کی طرف سے مہیا کردہ ایک شیلٹر میں رہتے ہیں۔ وہ دونوں پپو کو ساری معلومات فراہم کرتے ہیں اور اُن لوگوں کے نام بھی بتاتے ہیں جن سے اُس نے جا کر ملنا ہے۔

پپو اس وقت تک وہاں بیٹھا اُن دونوں سے باتیں کرتا رہتا ہے اور صبح ہوتے ہی وہ ’’نئی زندگی‘‘ کے دفتر چلا جاتا ہے۔ استقبالیہ پہ موجود خاتون اُس کو تین دن بعد صبح 10:30 بجے کا ٹائم دیتی ہے۔ وہاں سے بہت ناامید ہو کر پپو ایک پارک میں بیٹھ کر نشہ کرتے ہوئے اپنا غم دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تین دن بعد پپو کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ صبح ساڑھے دس بجے اس کی کسی سے اہم ملاقات طے تھی۔ تین ہفتوں بعد پپو کی ملاقات دوبارہ سلیم سے ہوتی ہے، اس دفعہ سلیم پپو کو ’’نئی زندگی‘‘ جانے کیلئے مجبور کرتا ہے۔ سلیم فوری ملاقات کا اہتمام کرتا ہے۔

’’نئی زندگی‘‘ میں کاؤنسلر سے ملاقات ایک خوشگوار تجربہ ثابت نہیں ہوتی۔ سب باتیں سننے اور سوالات کرنے کے بعد کاؤنسلر دو دن بعد کا ٹائم دیتی ہے۔ پپو لمبے انتظار سے ہمیشہ اُکتاہٹ محسوس کرتا ہے، بے صبری اس کی زندگی میں ہمیشہ مسائل پیدا کرتی رہی ہے، تاہم کاؤنسلر کے سمجھانے پہ وہ سمجھ جاتا ہے۔ دو دن بعد جب وہ دوبارہ وہاں پہنچتا ہے اور اپنے ایچ آئی وی ٹیسٹ کے رزلٹ کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، تب بھی اُس کے دل میں امید کی ایک رمق باقی ہوتی ہے کہ شاید اس دفعہ رزلٹ نیگیٹو ہو، مگر اس دفعہ بھی ٹیسٹ پوزیٹو ہی آتا ہے۔

اگرچہ وہ مایوس ہوتا ہے تاہم، اس بہانے اُسے رہنے کیلئے جگہ مل جاتی ہے۔ کچھ وقت میں وہ کاؤنسلنگ کی مدد سے اپنی خود فریبی پر قابو پا لیتا ہے اور اپنے ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کی حقیقت کو تسلیم کر لیتا ہے۔ وہ باقاعدگی سے مختلف میٹنگز میں جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اس مرض کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ وہ لوگوں کو ایڈز سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ اب اُس کی زندگی ایک نئی ڈگر پہ چل نکلی ہے جس میں وہ خود لوگوں کو مدد فراہم کرتا ہے۔ ایڈز سے آگاہی کے پروگرام میں اب وہ بھی سلیم کی طرح لوگوں کو دلاسہ اور امید دلاتا ہے۔ چھ مہینے کے بعد بھی

راتوں کو جاگنا اور سٹرکوں پر پھرنا اس کی زندگی کا ایک نمایاں جزو ہے مگر اب اُس کا کام لوگوں کی زندگی بچانا ہے۔ اس کی زندگی میں حیران کن واقعات رونما ہوتے ہیں اور حیران کن تبدیلیاں آتی ہیں۔ ایک رات اچانک اس کی ملاقات ایک اتھرے نوجوان سے ہوتی ہے۔ پپو اسے روک کر ایڈز سے بچاؤ پر بات کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بھڑک اُٹھتا ہے۔

’’مجھے کیا ضرورت پڑی ہے یہ جاننے کی کہ میں ایچ آئی وی پوزیٹو ہوں یا نہیں۔۔۔؟‘‘وہ نوجوان پپو سے غصیلے انداز میں پوچھتا ہے۔
پپو نے اُسے پہلے کبھی اس جگہ پر نہیں دیکھا تھا، یہ لڑکا کچھ ہی دن پہلے اس ماحول میں آیا تھا۔ وہ نوجوان کافی غصے میں ہے مگر پپو اُس غصے کے پیچھے چھپے ہوئے خوف کو بخوبی پہچان رہا ہے۔

’’مجھے دیکھو، میں بھی ایچ آئی وی پوزیٹو ہوں اور میں ٹھیک ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے اپنی بیماری کا معلوم ہے اور میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔ اگر میں اپنی نیند، خوراک اور ورزش پر بھر پور توجہ دوں تو سالہا سال زندہ رہ سکتا ہوں اور اگر میں اپنا خیال نہ کروں اور اس حقیقت سے انکار بھی کروں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو خود برباد کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ نوجوان کا چہرہ ایک دم جیسے پگھل سا جاتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں پپو آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیتا ہے۔

’’میں نے بھی اس حقیقت سے انکار کیا تھا اور پرواہ نہیں کی جس سے میری حالت دگرگوں ہو گئی اور وہ سب کچھ ناقابلِ برداشت تھا۔ جب میں نے مدد حاصل کی تو حالات بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے، مدد حاصل کرنا کمزوری کی علامت نہیں، بلکہ طاقت کا سرچشمہ ہے۔ لوگ لوگوں کے کام آتے ہیں، دنیا اس سے اچھی طرح چلتی ہے۔۔۔‘‘پپو دیکھتا ہے کہ اُس کی باتوں کا اثر اُس لڑکے پر ہو رہا ہے تو اپنی بات جاری رکھتا ہے، ’’میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں، کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ یہ کہتے ہوئے پپو اُس نوجوان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔

’’ میرا نام۔۔۔جاوید ہے، میں ایک بہت اچھے گھرانے کا لڑکا ہوں، لیکن اب میں وہاں رہنے کے قابل نہیں، میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بُرا مان جاتا تھا لیکن اب میں لوگوں کی ٹھوکروں میں ہوں اور بے حِس ہو چکا ہوں۔۔۔‘‘ اچانک پپو کو سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ اُس نے نظر اٹھا کر جاوید کی طرف دیکھا۔ جاوید نے آنسو اور چہرہ، دونوں چھپانے کی کوشش کی۔ ’’انہیں بہہ جانے دو، آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری ہے‘‘ پپو نے کہا،’’ دل صاف ہو جائے گا، پھر تم ’’نئی زندگی‘‘ شروع کر سکو گے‘‘ ۔

آگے پڑھیئے لنک-47 ۔