Link-44
Link-44
بھاگ پپو بھاگ
جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے
خواجہ شمس اور پپو میٹنگ کیلئے باغ جناح پہنچتے ہیں۔ کلب کی بلڈنگ کے پاس ایک شخص انہیں خوش آمدید کہتا ہے۔
’’میرا نام ملک ہے‘‘۔ وہ شخص ہاتھ ملا کر مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کرواتا ہے، ’’ہائے! خواجہ کیسے ہو؟‘‘
’’کوئی چالاکی کرنا پڑے گی، پپو دل میں سوچتا ہے، میں خواجہ سے باتھ روم جانے کے بہانے جان چھڑاتا ہوں اور پھر ’’پنی‘‘ لگاتا ہوں، پھر پپو مسکراتا ہے اور ملک سے پوچھتا ہے‘‘، ’’باتھ روم کدھر ہے؟‘‘ ملک ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتا ہے، پپو اس کے بازو پر تھپکی دیتا ہے اور خواجہ سے پوچھتا ہے ، ’’کیا یہاں کا انتظام یہی بندہ چلاتا ہے؟‘‘
خواجہ شمس اس کا ارادہ بھانپ لیتا ہے اور زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
’’نہیں، یہ فقط آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے‘‘۔
خواجہ پپو کو بتاتا ہے کہ استقبالیہ میں لوگ باری سے آتے ہیں اور وہ اسی طرح سے آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، ’’ ہائے! نام ملک ہے۔‘‘
پپو اس کی نقل اتارتا ہے۔
’’چلو، چل کر دیکھیں بیٹھنے کیلئے سیٹ بھی ہے یا نہیں۔۔۔‘‘ خواجہ پپو کو اندر لے جاتا ہے۔
ایک نوجوان خواجہ کا حال چال پوچھتا ہے اور خواجہ پپو کو اس سے ملواتا ہے جس پر وہ مسکرا دیتا ہے۔ خواجہ اس نوجوان کو ایک طرف لے جا کر کوئی بات کرتا ہے جس کے جواب میں وہ بتاتا ہے کہ سیٹیں تو خالی ہیں لیکن کچھ لوگ انہیں ریزرو کر گئے ہیں۔ تاہم میں آپ کیلئے انتظام کرتا ہوں۔ پپو دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ میں واپس باہر جاؤں اور پارکنگ میں کسی کی گاڑی سے سٹیریو نکال کر بیچ کھاؤں۔ اتنی دیر میں ایک لڑکا آ کر خواجہ سے گلے ملتا ہے۔ خواجہ اُس کا تعارف پپو سے کراتا ہے۔ کمرے میں پچاس کے قریب کرسیاں ترتیب سے رکھی ہیں اور خواجہ میٹنگ روم کے آخر میں دو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پپو خواجہ شمس کے ساتھ بادل نخواستہ کرسی پر
بیٹھ جاتا ہے۔ پپو کو یہاں بیٹھنا اچھا نہیں لگ رہا اور جان بوجھ کر دھڑام سے اپنی کرسی سے نیچے گِر جاتا ہے۔
سب لوگ پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھتے ہیں تو پپو ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔
’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ خواجہ پپو کے کان میں سرگوشی کرتا ہے؟
’’کیا؟‘‘ پپو حیرانگی سے خواجہ شمس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے، ’’میرا کیا قصور؟ کرسی ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔‘‘
تمام لوگ ایک دفعہ پھر پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں۔ خواجہ گھیسانا ہو کر مسکرا دیتا ہے۔ پھر کچھ لوگ سیدھا رُخ کر کے چہ میگوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔
’’یہ جو تمہاری حرکتیں ہیں ناں تمہیں بھوکا مار سکتی ہیں!‘‘ خواجہ پپو سے کہتا ہے، اور کم از کم کپڑے تو صاف پہننا شروع کرو‘‘۔
پپو یہ سن کر سنجیدہ ہو جاتا ہے اور اپنے جسم پر نظر ڈالتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ واقعی اس کے کپڑے گندے ہیں۔
’’کیا تمہیں یاد ہے کہ تم آخری دفعہ کب نہائے تھے؟‘‘ خواجہ شمس پپو سے سوال کرتا ہے۔
’’اب میں یہاں ایک سیکنڈ بھی نہیں رکنا چاہتا۔‘‘ پپو خفگی کا اظہار کرتا ہے۔
’’پلیز! خاموش ہو جاؤ، میٹنگ شروع ہونے والی ہے‘‘ سٹیج سیکرٹری کی آواز آتی ہے۔
اس دوران سامعین سرگوشی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ کاروائی ہوتی ہے اور اسٹیج سیکرٹری کہتا ہے،
’’اب میں سب سے پہلے خواجہ شمس کو سٹیج پر آنے کی دعوت دیتا ہوں‘‘ ۔
تمام حاضرین خاموشی اختیار کرتے ہیں اور پھر تالیوں کی ایک گونج پورے ہال کو ہلا دیتی ہے۔ خواجہ پپو کی طرف دیکھتا ہے اور اُٹھ کر جاتے ہوئے کہتا ہے، ’’میری غیر موجودگی میں تم نے اگر اُٹھ کر باہر جانے کی جسارت کی تو سمجھو کل سے تم بیساکھیوں پر ہو گے!‘‘
’’میرا نام خواجہ شمس ہے اور میں ایک نشئی ہوں‘‘ خواجہ شمس مائیک سنبھالتے ہوئے اپنا تعارف کرواتا ہے۔
’’ہائے! خواجہ!‘‘ تمام حاضرین یک زبان ہو کر پکارتے ہیں اور تالیاں بجا کر پرتپاک استقبال کرتے ہیں۔
’’ میں اس پروگرام میں پچھلے دس سال سے شامل ہوں۔ آج میں ایک کامیاب بزنس مین ہوں اور
روزانہ ہزاروں روپے کا کاروبار کرتا ہوں۔ میں وہ واحد شخص ہوں جس کی زندگی کھلی کتاب ہے۔ مجھے اس بات کی انتہائی خوشی ہے کہ میں آج آپ کے سامنے موجود ہوں۔‘‘ خواجہ شمس اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
اس دوران پپو خواجہ شمس کو اتنے لوگوں کے سامنے آسانی سے بات کرتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوتا ہے۔ خواجہ شمس اپنی کہانی سنانا شروع کرتا ہے۔
’’آج میں دنیا میں ایک کامیاب اور مطمئن انسان ہوں اور ہر حال میں خوش رہتا ہوں۔ میں آپ سب کا ممنون ہوں۔ میرا آپ کے سامنے موجود ہونا معجزے سے کم نہیں لیکن یہ معجزہ راتوں رات نہیں ہوا۔ اس نے کئی سالوں کی مسافت طے کی ہے۔ میرا سفر جاری ہے اور یہ ایک دن ضرور مکمل ہو گا۔ کبھی میں بہت بدحال شخص تھا۔ مجھ پر دو پیسے کا اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں نشہ کرنے کیلئے سب کچھ بیچ دیتا تھا۔ میں اپنا جسم بیچنے کیلئے بھی ہر دم تیار رہتا تھا۔ میری حرکتیں دیکھ کر سب کو گِھن آتی تھی۔ آج میں بہت بدل گیا ہوں۔ آج لوگ مجھ پر لاکھوں روپے کا بھروسہ کرتے ہیں۔ لوگ میری کی طرف رشک بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
خواجہ شمس روانی سے بولے چلا جا رہا تھا، ’’میں اب ایک روحانی، سماجی سفر پر ہوں، میں ’’این اے‘‘ کے اصولوں کو روزمرہ زندگی میں مشعل راہ بناتا ہوں اور زندگی کی خوبصورت شاہراہ پر آگے ہی آگے چلنے کا عزم رکھتا ہوں۔ میری اپنی سوچوں کا خدا، میرا خالق میری گاڑی کو رواں دواں رکھتا ہے۔ میری زندگی میں مشکلات کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ قدرت کے قوانین اپنے اندر تعصب نہیں رکھتے، مشکلات میں بھی دور کہیں مجھے امید کی کرنیں دکھائی دیتی رہتی ہیں۔‘‘
ہال میں مکمل خاموشی طاری تھی، ہر کوئی ہمہ تن گوش تھا، تاہم پپو اپنی کرسی پر بے چین بیٹھا کسمسا رہا تھا۔ ’’پر بحالی صرف پھولوں کی سیج نہیں، اس دوران میں نے جو کچھ حاصل کیا اس کی حفاظت کرنا بھی میری ہی ذمہ داری ہے۔ میں ہر قدم اٹھانے سے پہلے سب سے مشورہ کرتا ہوں، لیکن حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے تحمل سے سوچتا ہوں، اپنے اندر کی آواز سنتا ہوں۔ میں اپنی سوچ کے نتیجے پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتا ہوں۔ میں اپنے اندر سے اٹھنے والی خواہ مخواہ کی منفی باتوں کو بھی لگام دیتا ہوں۔ میں خاص طور پر اپنے رنج پر قابو پانے کیلئے خصوصی جدوجہد کرتا ہوں کیوں کہ رنج میری بحالی کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔ آخر کار میں نے جان لیا ہے کہ میرا دماغ میری مرضی پر چلنا چاہیئے۔ درگزر میں ہی میری خوشی کا راز ہے اور جب میں خوش رہتا ہوں تو ہر گول مجھے آسان لگتا ہے۔‘‘
’’خواجہ شمس لمحہ بھر کیلئے رکتا ہے۔ پورا ہال ایک بار پھر تالیوں سے گونج اُٹھتا ہے۔ خواجہ اپنی بات جاری رکھتا ہے۔‘‘
’’میں اپنی سوچ اور موڈ پر نظر رکھتا ہوں، میں اپنی نیند اور کھانے پینے پر بھی نظر رکھتا ہوں۔ ایک متحرک زندگی گزارتے ہوئے میں تھکن سے بچتا ہوں۔ جب میں اپنے اردگرد کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہوں تو میں اپنے اندر اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کا جتن کرتا ہوں۔ میں غور کرنے لگتا ہوں اور سوچ سمجھ کر ہی اپنے آپ سے بات کرتا ہوں۔ بحالی میں سکون میری پہلی ترجیح ہے اور جب کبھی میری مصروفیات میں میری ترجیح کیلئے جگہ نہیں نکلتی تو میں اپنے آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ مجھے مصروفیات کو مردہ کر کے گنجائش نکالنا پڑے گی اور سکون کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ میں آج اچھی طرح جانتا ہوں کہ سکون کیلئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
سب لوگ توجہ سے خواجہ شمس کی بات سن رہے تھے، اس نے ایک طائرانہ نظر ہال میں بیٹھے لوگوں پر ڈالی، ایک لمبا سانس لیا اور اپنی بات کو آگے بڑھایا۔
’’آج اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کیلئے میں مصمم ارادے کے ساتھ اُن مہارتوں، وسائل، لوگوں کی مدد حاصل کرتا ہوں اور یہ فرض کر لیتا ہوں کہ اب میں وہ سب کچھ کر گزروں گا جس سے نظریں چرایا کرتا تھا۔ ’’این اے‘‘کے ساتھی میرا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ ڈسپلن اور ہمت اُس وقت میرے کام آتی ہے جب بحالی میں مشکل مقام آتے ہیں۔‘‘
خواجہ شمس ایک فطری روانی کے ساتھ بات کر رہا تھا۔
’’شکر گزاری میرے بہت کام آتی ہے۔ میں شب و روز شکر گزاری کے بہانے ڈھونڈتا ہوں۔ چونکہ میں اچھا محسوس کرنا چاہتا ہوں تو میں ہمہ وقت اچھے روئیے اپناتا ہوں۔ میں لمحہ موجود میں زندگی گزارتا ہوں اور صرف آج اور ابھی کے مسائل حل کرتا ہوں، میں کل کے مسائل حل کرنے کیلئے کل کا انتظار کرتا ہوں۔ ناکامی کوئی چیز نہیں ہوتی، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ہوتا ہے، میں اس سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں، پھر حکمت عملی بدل کر دوبارہ جہدوجہد کرتا ہوں اور یہ سلسلہ کامیابی تک جاری رکھتا ہوں۔‘‘
اور پھر خواجہ شمس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا۔
’’جو کچھ بھی سیکھا اسے زندہ و تابندہ رکھنے کیلئے میں دوسروں کو وہ سب کچھ سکھانے میں مصروف رہتا ہوں۔ چراغ سے چراغ جلے تو روشنی کم نہیں بلکہ زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ میں اپنے خانے سے معافی اور تلافی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا کیونکہ انہوں نے ہی میرے نشئی رویوں سے زیادہ تکلیفیں اُٹھائی ہیں۔ میں معافی اور تلافی کے علاوہ کچھ اضافی دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ جہاں تلافی ممکن ہی نہ ہو وہاں میں اپنے رویوں اور طرز عمل کو بدل کر ہی تلافی کی سعی کرتا ہوں۔ میں صبح و شام سوچ و بچار کیلئے وقت نکالتا ہوں اور اپنے خدا سے شعوری رابطہ بنا کر طے کرتا ہوں کہ روز مرہ زندگی میں مجھے کیا باقی رکھنا ہے اور کیا چھوڑ دینا ہے؟ میں’’این اے‘‘ کے ساتھیوں کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے دامے، درمے، قدمے اور سخنے میرا ساتھ دیا۔‘‘
ہال ایک بار پھر زور دار تالیوں سے گونج اُٹھا۔ خواجہ شمس پُر اعتماد قدموں سے چلتا ہوا اسٹیج پر سے اتر آیا۔
خواجہ شمس یہ باتیں پپو کی طرف نظریں گاڑتے ہوئے کہتا ہے۔ تمام سامعین خواجہ شمس کے گُن گاتے ہیں اور پھر وقفے کا اعلان ہو جاتا ہے۔ پپو اس دوران خواجہ شمس سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن سامعین کا کافی رش ہوتا ہے، جو خواجہ شمس سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں، کچھ گفتگو اور کچھ گلے مل کر خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں۔ پپو ایک گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ پھر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے نشے کی طلب محسوس کرتا ہے۔ وہ گھر سے بھاگ جانے کی تکلیف سے بھی دوچار ہے یوں اس کی تکلیفوں اور مصائب میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پپو سوچتا ہے کہ آخر اس کا مسئلہ کیا ہے؟ اور وہ گھر سے کیوں بھاگ کر آیا ہے؟ پھر وہ اپنے سامنے والی کرسی کو گھورنا شروع کر دیتا ہے اور وہاں سے فرار ہونے کا منصوبہ بناتا ہے۔ خواجہ شمس کو سامعین نے گھیر رکھا ہے۔ جیسے ہی پپو دروازے کی طرف لپکتا ہے خواجہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ پپو خواجہ شمس کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے تو خواجہ کی شخصیت کے اس پہلو کا پہلے کبھی علم ہی نہ تھا۔
’’تم مجھے پہلے کیوں نہ ملے؟‘‘ خواجہ پپو کو باہر جا کر کچھ کھانے کی پیشکش کرتا ہے۔ پپو اس سے کسی ضروری کام کا بہانہ کر دیتا ہے۔
کیا تم مجھے بے وقوف سمجھتے ہو؟ میں تمہیں جانے سے روک تو نہیں رہا اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ تم آج اور ابھی نشہ چھوڑ دو۔ ’’تو پھر تم مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہو؟‘‘ پپو خواجہ کا منہ تک رہا تھا۔
میں توایک سادہ سی بات تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں۔ ’’میں نشے کے سامنے بے بس ہوں اور میری زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔‘‘
خواجہ شمس انتہائی سنجیدگی اور ملائمٹ سے پپو کو سمجھاتا ہے۔ پپو وہ جملہ دہرا دیتا ہے۔ خواجہ خوشی سے مسکرا دیتا ہے اور پپو کو گلے لگا لیتا ہے۔ پھروہ ڈنر کرنے چلے جاتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پپو کے دماغ میں یہی الفاظ گونجتے رہے اور وہ وقت آیا جب پپو کو نشہ چھوڑے چھ ماہ گزر گئے اور وہ اپنے پہلے میڈل کے ساتھ ’’این اے‘‘ کے پلیٹ فارم پر کھڑا تھا۔
آگے پڑھیئے لنک-47 ۔