Link-46

بھاگ پپو بھاگ

جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے

صبح سویرے پپو لاہور کی گلیوں میں چکر لگا رہا ہے، وہ بہت زیادہ تھکا ہوا ہے، اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بہت دنوں سے پیدل چل رہا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ پپو اﷲ سے شکوہ کرتا ہے۔ پھرسوچتا ہے کہ یہ خدا سے بات چیت کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے لہذا وہ کھانا، سونا اور کسی اجنبی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ٹی وی نہیں دیکھنا چاہتا، وہ کسی کے ساتھ جسمانی تعلق نہیں چاہتا، وہ نشہ نہیں کرنا چاہتا، وہ اپنے آپ کو مارنا بھی نہیں چاہتا، وہ صرف ایک ساتھی چاہتا ہے، جس کے ساتھ وہ اپنا دل ہلکا کر سکے۔

وہ اتنا شکست خوردہ ہے کہ اسے ایک پل چین نہیں مل رہا۔ وہ فورٹ روڈ سے ہوتا ہوا داتا صاحب پہنچ جاتا ہے۔ چلتے چلتے وہ ایک لڑکے اور لڑکی کے پاس سے گزرتا ہے، جن کی عمر 18 سال کے لگ بھگ ہے۔ اسے پھر اپنی محرومی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اب اس سے ایک قدم بھی نہیں چلا جا رہا۔ وہ ایک وین میں بیٹھ جاتا ہے جو اصل میں دودھ سپلائی کرتی ہے۔ وین مسلم ٹاؤن موڑ پر پپو کو اتار دیتی ہے کیونکہ یہ اس کا آخری سٹاپ ہے۔ انہی سوچوں میں گم پپو کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ غلط جگہ پہنچ گیا ہے۔ اسے مسلسل جاگتے ہوئے چوبیس گھنٹے ہو چکے ہیں۔ پپو سڑک کے کنارے چلتے چلتے ایک دکان کے شیشے میں اپنی حالت دیکھ کر بوکھلا جاتا ہے۔

’’ یہ ایک ایسے نوجوان کا چہرہ ہے جو اپنی جان ختم کرنا چاہتا ہے‘‘۔ اس کے منہ سے بے ساختہ چند سچے الفاظ نکلتے ہیں۔چلتے چلتے وہ ایک مسجد کے پاس پہنچتا ہے جہاں بہت سے لوگ آ جا رہے ہیں۔

وہ کسی کو بات کرتے ہوئے سنتا ہے کہ یہ جامعہ اشرفیہ ہے۔ پپو وہیں مسجد کے پارک میں بیٹھ جاتا ہے اور لوگوں کو آتے جاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ سب لوگ ایک ایک کر کے جا رہے ہیں۔ ہر شخص اپنے آپ میں گم ہے۔ ویسے تو وہ سب تنہا ہیں مگر پُرسکون ہیں۔
یکایک پپو کو بھی اپنا بیتا ہوا ماضی یاد آ جاتا ہے، وہ بے چین ہو جاتا ہے۔
’’ مجھے اس جہنم سے نکال لے، میرے خدا میری مدد فرما۔۔۔‘‘ پپو اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر دعا کرتا ہے۔پپو کا مسجد کے اندر جانے کو بھی دل چاہتا ہے تاہم پپو اپنے اندر اتنی ہمت محسوس نہیں

کرتا کہ اُٹھ کر اندر چلا جائے۔ مسجد کے باہر دیوار پر امام صاحب کا نام لکھا ہے۔ اس کی نظر وہیں ٹک جاتی ہے۔

’’ امام صاحب بہت اچھے ہوں گے، تمہیں ان سے ضرور ملنا چاہیے، وہ ضرور تمہیں کوئی نہ کوئی حل بتائیں گے۔ بس تمہیں اپنے اﷲ پہ پورا یقین ہونا چاہیئے۔ یہ بالکل مناسب وقت ہے اس وقت مولانا عبدالرحمٰن کے پاس وقت بھی ہو گا وہ اپنی فہم و فراست سے تمہاری مدد ضرور کریں گے‘‘۔ اس کے کان میں ایک شخص کی آواز آتی ہے جو ایک شخص کو سمجھا رہا ہے ۔
’’ خدا پہ مکمل یقین‘‘ پپو کے ذہن میں یہ الفاظ گونجنے لگتے ہیں۔

اب ایک غیبی طاقت اسے مسجد کی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے۔ وہ امام صاحب کے پاس جا کر اپنا سارا حال ان کو سنا دیتا ہے۔ امام صاحب خاموشی سے سنتے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے وہ رونے لگتا ہے۔ خوب روتا ہے یہاں تک کہ اپنا سارا غبار نکال کے پُر سکون ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اسے اپنے کندھے پر ایک شفیق ہاتھ محسوس ہوتا ہے۔ امام صاحب اسے تسلی دیتے ہیں اور قرآن مجید کی چند آیات تلاوت کرتے ہیں۔ پپو مطمئن ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ امام صاحب اسے اپنے پاس رہنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اس کے والدین سے بات کر سکیں۔

مولانا صاحب ذیابیطس کے مریض ہیں اور ڈائبیٹکس انسٹیٹیوٹ پاکستان سے علاج کرواتے ہیں۔ ڈِپ سے ملحقہ ولنگ ویز اور صداقت کلینک میں نشے کے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ مولانا صاحب پپو کے والدین سے بات کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ مولانا صاحب پپو کے والدین کو سمجھاتے ہیں کہ پپو کو علاج کی ضرورت ہے۔

سر شام ہی پپو کے والدین جامعہ اشرفیہ پہنچ جاتے ہیں۔ مولانا صاحب سے ملاقات کے بعد پپو کے والدین، پپو کو وہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کے چہروں پہ امید کی کرن جاگ اٹھتی ہے کہ شاید پپو کبھی سدھر جائے۔ مولانا صاحب اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں وِلنگ ویز یا صداقت کلینک جانے کیلئے کہتے ہیں۔ چھ ماہ بعد پپو نشہ چھوڑ بحالی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیتا ہے۔

آگے پڑھنے کیلئے جائیے لنک-47 پر۔