یاد رکھئیے: رویّے بھی سونے، چاندی اور کانسی کی طرح ہوتے ہیں

Remember Attitudes Are Like Gold, Silver & Bronze

میرے دوست شیخ اکرم اپنا وزن کم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، انہوں نے پوتوں، پوتیوں کی باتیں سننے کے بعد اپنا وزن 50 پونڈ کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں بہت کچھ سننا پڑتا تھا۔ دادا جی آپ جہاں بھی جاتے ہیں آپ کا پیٹ آپ سے پہلے ہی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ یا پھر اگر آپ ہارس رائیڈنگ کرنا چاہیں گے تو گھوڑا ہاتھ جوڑ دے گا یا پھر اگر آپ کسی پر بیٹھ جائیں تو اس کا جنازہ اٹھ جائے گا۔

ڈاکٹر صداقت علی، ٹرننگ پوائنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ملک کے ممتاز ماہرِ منشیات ہیں۔ پاکستان میں نشے کے علاج کے حوالے سے ان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے ڈو میڈیکل کالج ، کراچی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ میں ہیزلڈن، مینی سوٹا سے نشے کے علاج میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اب تک ہزاروں نشے کے مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہو چکے ہیں۔

مختصر مگر جامع تبصروں نے انہیں وزن کم کرنے کیلئے سوچ بچار پر آمادہ کیا۔ اکرم شیخ نے فیصلہ کیا کہ ان کا جسم جتنی کیلوریز استعمال کرتا ہے وہ اس سے کم کھائیں گے۔ ان کی حکمت عملی معقول تھی، اس طرح وزن کم کیا جا سکتا ہے، تاہم جب تک کہ انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کرنا کیا ہے یہ موثر نہیں ہو سکتی۔دراصل وہ عملی قدم کی بجائے حکمت عملی کا ذکر کر رہے تھے۔ شاید وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر وہ کچھ ایسا کر گزریں کہ جتنی کیلوریز کھائیں، اس سے زیادہ استعمال ہو جائیں تو وہ وزن کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بنیادی سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم تھا کہ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے؟ نتائج، فیصلے اور حکمت عملی کو عملی اقدام کے ساتھ گڈ مڈ کر دینا کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں۔ جب ہم ناکام حکمتِ عملیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایسی مثالیں ضرور ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر پالیسی ساز عملی اقدام کے معاملے میں کنفیوژ رہتے ہیں۔ میرے دوست اکرم شیخ اپنا وزن گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے ہی کچھ سنہری رویوں کی تلاش میں انہیں یقیناً دلچسپی ہو گی جو وزن کم کرنا آسان بنا سکتے ہیں۔ یقیناً وہ اس وزن میں کمی کو برقرار بھی رکھنا چاہیں گے۔ ماہرین اکرم شیخ کے لیے مفید روئیے تلاش کر چکے ہیں۔ ماہرین نتائج، حکمت عملی اور ایکشنز کو الگ الگ دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مثلاََ آپ 10 کلو وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو اسے ہم نتیجہ کہیں گے۔ آپ جتنی کیلوریز لیتے ہیں اس سے زیادہ استعمال کریں تو آپ کا وزن کم ہو جائے گا، یہ حکمت عملی کہلائے گی ایکشنز سے مراد وہ روئیے ہیں جو نظر آتے ہیں اور جنہیں ناپا جا سکتا ہے اور جو تبدیلی لانے کا باعث بنتے ہیں۔ اکرم شیخ کیلئے ماہرین سنہری رویوں کی نشان دہی پہلے ہی کر چکے ہیں۔ جن لوگوں نے تیس پاؤنڈ وزن کم کیا اور چھ سال تک اسے برقرار رکھا، ان کی کامیابی کا تجزیہ کرنے سے تین سنہری رویوں کا پتا چلا جو یہ ہیں۔
اول: گھر میں روزانہ ایکسر سائز کرنا
دوئم: باقاعدہ ناشتہ کرنا اور
سوئم: ہر روز اپنا وزن تولنا۔
یہ تین ایکشنز شیخ اکرم کو وزن گھٹانے میں اچھا آغاز دیں گے مگر یہ محض آغاز ہو گا۔ اس کے بعد ان ایکشنز کو یقینی بنانے کیلئے کئی طرح کی مدد حاصل کرنا ہو گی۔

“مثبت انحراف” سے متعلق تحقیق کرتے ہوئے وہ خود اپنے آپ کو تختہ مشق بنا سکتے ہیں۔ وہ اپنا موازنہ اپنے ساتھ کر سکتے ہیں۔ کامیاب ڈایٹنگ والا دن کس طرح کامیاب ڈائٹنگ والا دن بنتا ہے؟ مثلاََ اگر اکرم شیخ اپنی زندگی کے ان دنوں پر غور کریں جب وہ صحیح ڈائیٹنگ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے وہ سمجھ جائیں گے کہ رات کا کھانا انہیں خطرناک راستے پر ڈالتا تھا۔ اگر وہ ریستوران جانے سے پہلے ہی سوچ لیں کہ وہ کیا کھائیں گے تو مناسب غذا کا آرڈر دیں گے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے، بوفے ڈنر کو ترجیح دیتے ہیں تو بہت سی غلط سلط چیزیں کھاتے رہیں گے۔ اسی طرح شاپنگ کا وقت بھی خطرناک ہوتا ہے۔ جب وہ چکنائی والی اشیاء خریدتے ہیں تو پھر وہ چکنائی والی چیزیں ہی کھاتے ہیں۔ یاد رکھیے! غیر صحت بخش غذا خریدنے سے پہلے خود کو روکنا زیادہ آسان ہے، اگر آپ انہیں خرید کر گھر لے آئیں تو انہیں کھانے سے رک جانا مشکل ہے۔ جب شیخ اکرم کھابہ گیری کا شکار ہو جاتے ہیں تو پھر ان پر مایوسی غلبہ پا لیتی ہے، وہ الٹا سوچنے لگتے ہیں، ’’جب میں اپنی ڈائیٹنگ کو سبوتاژ کر ہی چکا ہوں تو پھر کیا فرق پڑتا ہے، اب میں ساری حسرتیں نکالوں گا‘‘۔ پھر آج کا ارمان نکالنا عموماََ ایک ہفتے پر محیط ہو جاتا ہے اور وہ مزید پانچ پونڈ وزن بڑھا لیتے ہیں۔ تاہم اب شیخ اکرم ان چیزوں کے متعلق سوچنے لگے ہیں جو ان کے وزن گھٹانے کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اب وہ جان چکے ہیں کہ ایک دفعہ پٹری سے اترنے کے بعد اگر وہ فوری نہیں سنبھلیں گے تو پھر لڑھکتے ہی جائیں گے۔ چنانچہ آئندہ وہ کسی ڈھلان سے پھسلیں تو پہلے سے بندوبست رکھیں گے کہ اپنے آپ کو سنبھالنا کیسے ہے؟

کھابہ گیری کا ازالہ کرنے کیلئے نئے حکمت عملی پہلے سے طے شدہ ہو گی۔ اب وہ فاقہ کشی اور زیادہ ورزش کر کے اپنا کھویا ہوا ردھم حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کریں گے، بس وہ اپنے ہیلتھ پلان کی طرف لوٹ آئیں گے اور اس پر احتیاط کے ساتھ عمل کریں گے۔ شیخ اکرم موثر روئیے سیکھنے کیلئے درجنوں چھوٹے چھوٹے تجربات کریں گے۔ وہ ورزش، کھانے پکانے کی ترکیبوں، شاپنگ کے انداز اور ریستورانوں میں کھانے کے رجحانات کا جائزہ لیں گے اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک وہ یہ نہ جان لیں کہ ان کے لیے سب سے اچھا کیا ہے؟

ہمیشہ یہ امر یقینی بنائیں کہ آپ سنہری رویوں پر توجہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ پہلے ہی جان چکے ہیں کہ آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نتائج آپ کو شوق دلا سکتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ صرف سنہری رویے ہی بڑے نتائج کو جنم دیتے ہیں۔ ایکشن اور نتیجے کا آپس میں رشتہ اچھی طرح سمجھ لیں۔ محتاط رہیں کہ اگر کوئی ماہر مشورے کے دوران نتیجہ ڈیمانڈ کر رہا ہے تو وہ مشورہ کارآمد نہیں، ہاں اگر وہ کوئی رویہ اپنانے یا قدم اٹھانے کی بات کر رہا ہے جو مطلوبہ نتائج پیدا کر سکتا ہے تو یہ کارآمد ہو گا۔

انقلابی راہنما جانتے ہیں کہ چند خاص رویے بڑی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ وہ احتیاط سے سنہری رویئے تلاش کرتے ہیں جو تبدیلی کے لیے آبشار جیسا کام کرتے ہیں۔ یاددہانی کے لئے آپ کو بتا دوں کہ مسئلہ بڑا اور مسلسل نوعیت کا ہو اور آپ درجنوں روئیے اپنا لیں جو معمولی اثر ڈالنے والے ہوں تو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملے گی۔ جبکہ دو تین سنہری رویے کایا پلٹ دیں گے۔ توانائی کا بڑا حصہ سنہری رویوں پر خرچ کریں۔ ایک محدب عدسہ کس طرح سورج کی کرنوں کو نکتے پر مرکوز کر کے کاغذ کو آگ لگا دیتا ہے، قابل غور بات ہے۔ سنہری رویوں کی تلاش میں مشکل پیش آئے تو اس ماحول پر نظر ڈالیں، جہاں مسئلہ چھایا ہوا نظر آتا ہے، غور کرنے پر اسی ماحول میں مسئلے سے استثنیٰ بھی نظر آئے گا۔ یہ استثنیٰ دراصل وکھری ٹائپ کے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو اپنی فہم و فراست اور چھٹی حِس کی مدد سے سنہری روئیے اپنا لیتے ہیں۔ ان جگہوں کا پتا چلائیں جہاں زیادہ تر لوگ اس مسئلے میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں تاہم غور کرنے پر کچھ وکھری ٹائپ کے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو اس مسئلے سے مبرا ہیں۔ اس کے بعد ان منفرد رویوں کا پتا چلائیں جو فرق کا باعث بنتے ہیں اور کامیابی و ناکامی کے درمیان لکیر کھینچ دیتے ہیں۔ جو لوگ غلطیاں کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر ہمت ہار جاتے ہیں مگر کچھ مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے جلد ہی واپس کامیابی کی راہ پر چلنے لگتے ہیں۔ مثلاََ شیخ اکرم نے سیکھا کہ اپنے ڈائٹ پلان پر چلنے میں ناکامی خود رہنمائی کرے گی کہ انہوں نے آخر کہاں غلطی کی؟ ایک دفعہ اس بنیادی غلطی کی نشاندہی ہو جائے تو اس کا ازالہ کرنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے۔ شیخ صاحب وقتی ناکامی کو دل پر نہیں لیتے اور ہمت ہار کر نہیں بیٹھتے۔ ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر سنبھلنا بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن اس کیلئے بھی ایک ایکشن پلان کی ضرورت ہوتی ہے اور اس ’’حادثے‘‘ کیلئے پورے منصوبے میں ابتداء سے ہی طے شدہ بندوبست ہونا چاہیئے۔

جب تک شیخ اکرم نے اس طرح کے رویوں کا پتا نہیں چلا لیا تب تک وہ ڈائٹ پلان پر دو قدم آگے چلتے اور تین قدم پیچھے لڑھکتے تھے۔ اب وہ کوئی بدپرہیزی کر بیٹھیں تو پیچھے لڑھکنے کا احتمال نہیں ہوتا۔ وہ تجزئیے اور اعداد شمار کی مدد سے دوبارہ مضبوط قدموں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ناکامی کی وجہ سے وہ اپنے طے شدہ ڈائیٹ پلان کو ترک نہیں کرتے۔ یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ ٹھوکر کھا کر سنبھلنے کا ایکشن پلان کامیاب لوگوں کی حکمت عملی کا اہم حصہ ہوتا ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اپنے منہ میاں مٹھو نہ بنیں بلکہ نتائج کی زبان میں بات کریں۔