س طرح وزن کا زیادہ ہونا یا نظر کا کمزور ہونا ہماری پوری شخصیت کا احاطہ نہیں کرتا، اسی طرح آٹزم ہونا بھی کسی بچے کی شخصیت کا محض ایک پہلو ہوتا ہے۔
جس طرح ہم کسی سے توقعات وابستہ کرتے ہوئے اس کی نظر کمزور ہونے کو تمام تر وزن نہیں دیتے اسی طرح آٹزم کی وجہ سے ہم کسی بچے سے کل توقعات اس پس منظر میں قائم نہیں کرتے اور اگر ہم ایسا کر گزریں تو یہ ظلم ہو گا، کیونکہ پھر آپ بہت پست توقعات وابستہ کریں گے اور جب جب بچے کو آپ کی گفتگو، لب و لہجے اور حرکات و سکنات سے اس کی بھنک پڑ گئی کہ وہ زندگی میں کچھ خاص نہیں کر سکتا تو اس کا قدرتی ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟ یہی ناں کہ ’’میں کوشش ہی کیوں کروں؟ ‘‘۔
میرے حواس خمسہ گڑبڑ گھوٹالہ ہیں۔
ڈاکٹر صداقت علی، صداقت کلینک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ملک کے ممتاز ماہرِ منشیات ہیں۔ پاکستان میں نشے کے علاج کے حوالے سے ان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے ڈو میڈیکل کالج ، کراچی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ میں ہیزلڈن، مینی سوٹا سے نشے کے علاج میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اب تک ہزاروں نشے کے مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہو چکے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عام مناظر، آوازیں، خوشبوئیں/ بدبوئیں، ذائقے اور روز مرہ کا چھونا جو کہ آپ کیلئے کوئی معنی نہ رکھتا ہو، میرے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ جس ماحول میں مجھے رہنا پڑتا ہے وہ میرے لیے دوستانہ نظر نہیں آتا۔ میں اپنی ذات میں گم یا جھگڑالو نظر آتا ہوں لیکن میں تو صرف اپنا بچاؤ کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہوں۔ مثلاً الفتح کا ایک چکر میرے لئے قیامت خیز ہو سکتا ہے۔ مجھے ہر معمولی آواز بھی زیادہ سنائی دیتی ہے، ڈھیر سارے لوگ ایک ساتھ بات کر رہے ہوتے ہیں۔ میوزک اور اعلانات، کیش رجسٹر کی گھنٹیاں، سامان کی پیکنگ، گوشت کا قیمہ بنانا، ٹرالیوں کا گھسیٹنا، تیز روشنیوں کی جگ مگ جگ مگ، یہ سب کچھ میرے لیے برداشت سے باہر ہو سکتا ہے۔ میرا دماغ آپ کی طرح فضول آوازوں کو سینسر نہیں کر سکتا، خارج نہیں کر سکتا۔ مجھ سے یہ سب کچھ دیکھنا، سننا اور سونگھنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر میری سونگھنے کی حس بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ اگر وہاں مچھلی میں سے بدبو آ رہی ہو، کوئی شخص پسینے میں شرابور ہو، کسی بچے کے نیپی میں چھی چھی نکلی ہو تو آپ کی تو خیر ہے لیکن میری خیر نہیں۔ مجھے تو متلی ہونے لگتی ہے خطرناک قسم کی۔ چنانچہ آپ کیا کریں؟ سوچنے کی بات ہے!
اور مجھے اپنی ضرورت کیلئے ویسے بھی نظر پر بھروسہ کرنا پڑتا کیونکہ میں تبادلہ خیالات میں کمزور ہوں لہذا میرا چیزوں پر دھیان کچھ زیادہ ہی پڑتا ہے۔ ٹیوب لائٹ نا صرف تیز نظر آتی ہے، بلکہ یہ شوں شوں کرتی ہے۔ کمرہ دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اس سے میری آنکھیں دکھتی ہیں۔ جلتی بجھتی روشنیاں ہر چیزوں کو دھکے دیتی نظر آتی ہیں اور فضا پل پل بدلتی رہتی ہے۔ بہت سی چیزیں میری نگاہوں میں گھسی چلی آتی ہیں جیسے کہ کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی کی کرنیں، چھت پر گول گول گھومتا پنکھا اور بہت ساری چلتی پھرتی چیزیں تاہم میں جیسے تیسے فالتو چیزوں کو نظروں سے اوجھل کرتا ہوں۔ اس سے میرے توازن قائم رکھنے کا دماغی نظام اور ماحول کے ساتھ تال میل متاثر ہوتا ہے اور میں یہ بھی نہیں بتا پاتا کہ میں کہاں ہوں؟ جیسے کسی حادثے کے بعد ہسپتال میں آنکھ کھولنے والے کہتے ہیں۔ میں کہاں ہوں؟
برائے مہربانی یاد رکھیئے
’’میں کر نہیں سکتا‘‘ یا ’’کرنا نہیں چاہتا‘‘ میں فرق کریں۔
یہ نہیں کہ میں ہدایتیں سنتا نہیں۔ سچ یہ ہے کہ میں سمجھ نہیں پاتا۔ جب آپ مجھے کمرے کے آخر سے آواز دیتے ہیں اور کچھ حکم صادر کرتے ہیں تو یہ ہے جو مجھے سنائی دیتا ہے
’’اور روپیہ ، تاسین،اور دو
بہتر ہے کہ آپ میرے قریب آئیں، میری طرف دیکھیں اور سادہ لفظوں میں بتائیں کہ کیا کرنا ہے؟ : ’’تاسین! اپنی کتاب کو دراز میں رکھو۔‘‘ ’’اب کھانے کا وقت ہے‘‘۔ مجھے اس طرح پتا چلتا ہے کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ مجھے کسی بھی وقت اگلے مرحلے کا بروقت پتا نہیں چلتا جب آپ بتاتے ہیں تو میرے لیے آپ کا حکم بجا لانا آسان ہو جاتا ہے۔
یں ’’ٹھوس‘‘ سوچ کا مالک ہوں ۔اس کا مطلب ہے کہ میں طنزوں اور محاوروں کو نہیں سمجھ سکتا۔ میں بولے گئے لفظوں کو ان کے ڈکشنری معنوں کے لحاظ سے بھی یاد رکھتا ہوں۔
جب آپ کہتے ہیں کہ ’’رائی کا پہاڑ نہ بناؤ‘‘ یا یہ کام خالہ جی کا گھر نہیں ہے، یا ’’چلو بھر پانی میں ڈوب مرو‘‘ یا ’’یہ تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘‘ یا جب آپ کہتے ہو کہ کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ تو میں بہت الجھن میں پڑ جاتا ہوں۔ برائے مہربانی یوں کہا کریں ’’یہ معمولی سی بات ہے‘‘ ’’یہ آسان کام نہیں ہے‘‘۔ ’’یہ کام اچھا نہیں کیا‘‘۔ ’’یہ تو آسان کام ہے‘‘۔ اور ’’کون سی مصیبت آ جائے گی‘‘۔
محاورے، طنزیں، شکوے، مثالیں میرے دماغ کی گلیوں میں کھو جاتے ہیں۔
Kiss کو یاد رکھیں ’’کیپ اٹ سمپل اینڈ سٹریٹ‘‘
میرا ذخیرہ الفاظ کم ہے بس گزارہ کیجیئے۔
جب میرے پاس الفاظ نہیں ہوتے تو میں آپ کو اپنی ضرورت یا احساس کے بارے میں بتا نہیں پاتا اور اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہوں۔ مجھے بھوک پیاس، بے چینی، خوف یا الجھن کا سامنا ہو سکتا ہے اور عین اسی وقت میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہوتے۔ لہذا آپ ہی ذرا چوکنے رہا کریں کہ آخر میں غصہ کیوں کر رہا ہوں اور گم سم کیوں ہوں؟
میری حرکتوں اور انداز سے ہی کام چلا لیا کریں۔ آپ تو سیانے ہیں ناں؟
اس کی دوسری انتہا یہ ہے کہ کبھی کبھی میں اپنی گفتگو میں بڑے بڑے الفاظ استعمال کرتا ہوں جن کا کوئی موقع و محل نہیں ہوتا، یعنی چھوٹا منہ بڑی بات ایسا میں ادھر ادھر سے سن کر دھراتا ہوں۔ یادداشت اچھی ہے اس لیے کئی لمبے لمبے فقرے مجھے یاد رہ جاتے ہیں۔ یعنی میں کوئی پروفیسر یا اسٹار نہیں صرف کاپی کرتا ہوں۔ کیوں مجھے یہ تو پتہ ہے کہ جب آپ کچھ بولتے ہیں تو مجھے یہ تو پتا ہے کہ جب آپ کچھ بولتے ہیں تو مجھے بھی بولنے کی باری لینا ہوتی ہے۔ یہ باتیں، ٹی وی، فلموں، کتابوں اور گانوں سے ہو سکتی ہے۔ اسے نفسیاتی زبان میں ’’ایکو لے لیا‘‘ کہتے ہیں یعنی سنی ہوئی باتوں کو دہرانا۔ ایسے میں جو میں بول رہا ہوتا ہوں اس مطلب مجھے معلوم نہیں ہوتا۔ سو میری گستاخیاں معاف کر دیا کریں۔ میں تو بس اپنی سی کوشش کر رہا ہوتا ہوں۔ کچھ تو کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں، آج غالب غزل سرا نہ ہوا؟
چونکہ زبان دانی میری کمزور ہے تو میں دیکھتا بڑے دھیان سے ہوں۔ مجھے اگر آپ صرف لفظوں میں بتانے کی بجائے عملی مظاہرہ کر کے سمجھائیں تو آسانی ہو گی۔ اگر آپ کو بار بار بھی ایسا کرنا پڑے تو ہر گز گرمی نہ کھائیں آخر آپ مجھ سے پیار کے دعوے دار ہیں چونکہ تو بار بار بتائے اور کر کے دکھانے سے میرے لیے آسانی ہو جاتی ہے۔ اگر میرا ٹائم ٹیبل یا شیڈول سامنے رہے تو مجھے بہت آسانی ہو جاتی ہے کہ آگے کیا کرنا ہے اور میں آپ کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہوں آپ اس ویب سائیٹ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ یہ ویب آپ کو کچھ کر دکھانے میں مدد کرے گی اور میرا بھلا ہو جائے گا۔
جب میں بڑا بھی ہو جاؤں تو دیکھ کر کچھ کرنا میرے لیے مددگار ہی رہے گا۔ ہو سکتا ہے پہلے سے کم اس کی ضرورت پڑے۔ جب تک میں پڑھنا نہیں سیکھ لیتا تصویریں میری مدد کرتی ہیں۔ پھر الفاظ بھی ساتھ مدد کریں گے اور آخر میں صرف الفاظ، تصویروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
پلیز بھر پور توجہ ان چیزوں پر دیں جنہیں میں کر سکتا ہوں بجائے اس کے کہ ان چیزوں کو کھپتے تپتے رہیں جو میرے بس میں نہیں۔ کبھی بھی انسان کی طرح میرے لیے بھی کسی ماحول میں سیکھنا اور نشوو نما پانا ممکن نہ ہو گا۔ جس میں مجھے یہ احساس دلایا جائے کہ ’’تم کچھ نہیں کر سکتے‘‘ اور لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘ اگر مجھے تنقید کا خوف ہو گا۔ تو میں کچھ بھی ضائع نہیں کرنا چاہوں گا۔ اگر آپ مجھ میں خوبیاں تلاش کریں گے تو وہ بھی آپ کو مل جائیں گی۔
چیزوں کو کرنے کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہوتا، روم کی طرف کئی سڑکیں جاتی ہیں۔ جس طرح آپ محاورے سمجھتے ہیں میں نہیں سمجھتا، تو برائے مہربانی آپ نے مجھ سے یہ لچھے دار گفتگو نہیں کرنا۔ میں تو آپ کی سہولت کیلئے اپنی جان جوکھم میں ڈال رہا ہوں۔
رشتوں ناطوں کو بڑھانے میں میری مدد کریں
بظاہر ایسا لگے گا کہ میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں شریک نہیں ہونا چاہتا۔ لیکن حقیقت صرف اتنی ہے کہ مجھے چیزوں کا آغاز کرنا نہیں آتا اور جب کچھ ہو رہا ہو تو اس میں شامل ہونے میں شروع میں کچھ مشکل ہوتی ہے۔ اگر آپ دوسرے بچوں کو سمجھائیں کہ وہ کس طرح پیار سے مجھ آپ ساتھ کھیلنے کیلئے اکسائیں تو میں ضرور کھیلوں گا۔ میں ایسے مشاغل میں بخوبی حصہ لے سکتا ہوں جن کے کوئی سادہ سے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ شروع کی زبان سے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میں ان کے جذبات کو بھی نہیں جان سکتا۔ لہذٰا دوسروں کے ساتھ رشتے ناطے میں مجھے مسلسل راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کس کس موقع پر کیا کرنا ہے؟ مثال کے طور پر جب ایشال گرے اور ہنس دوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے مزہ آیا ہے بلکہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ کہنا ہے۔ مثلاً ’’چوٹ تو نہیں لگی؟ ‘‘
موڈ خراب ہونا، کھپ ڈالنا، غصہ کرنا، چیخنا آپ جو بھی نام دیں میرے لیے بھی اتنا تکلیف دہ ہے جتنا کہ آپ کیلئے اکثر اس کی وجہ میرے حواس خمسہ میں سے کچھ کا ضرورت سے زیادہ متحرک ہو جانا ہے۔ اگر آپ یہ راز پا لیں تو میرے کھپ ڈالنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ اگر آپ ایسے موقعوں کو لکھنا شروع کر دیں۔ تو جلد ہی ہی میں آپ کے سامنے کھلی کتاب کی طرح نظر آنے لگے گا۔
یاد رکھیں! تمام روئیے دراصل کوئی پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم سن لیں، میرے بارے میں اگر آپ زیادہ سے زیادہ اندازے لگائیں گے تو جلد ہی آپ کے اندازے صحیح ہونے لگیں گے۔ اگر میں نہ بھی بتاؤں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ مجھے کیا چیز تنگ کر رہی ہے۔
والدین یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر میں گڑ بڑ کرتا ہی چلا جاؤں تو اس کے پس پردہ کوئی جسمانی تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں سے الرجی، حساسیت، نیند کی خرابی اور بدہضمی کے مسائل سبھی میرے رویوں کو خراب کر سکتے ہیں۔ آخر سبھی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض بھی تو کھپ ڈالتے ہیں جب یہ بیماریاں بے قابو رہیں۔
اگر آپ میرے ماں باپ یا خونی رشتے دار ہیں تو پھر مجھے غیر مشروط محبت دے دیجئے، محبت کیلئے ہر روز معیارات کو بلند نہ کرتے رہیے۔
اس قسم کے خیالات کو ذہن سے کھرچ ڈالیں۔ اگر میں یہ ذرا بولنا شروع کر دوں اور ’’آخر وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟‘‘ آخر آپ نے بھی تو اپنے ماں باپ کی ہر توقع پوری نہیں کی تھی ناں؟ آپ کو بھی ان کا بار بار طعنے دینا برا لگتا تھا ناں؟‘‘ آخر میں نے آٹزم جان بوجھ کر تو نہیں چنا ناں؟ یاد رکھیں! آٹزم مجھے ہے آپ کو نہیں۔ آپ کے تعاون کے بغیر کامیابی کی منزلیں طے کرنا میرے لیے آسان نہیں ہو گا۔ آپ کی عملی مدد اور ہلا شیری کے ساتھ میں آپ کی توقعات سے بھی بڑھ کر کارکردگی دکھا سکتا ہوں۔
یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ اگر آپ میرے ساتھ محنت اور ذہانت سے کام لیں گے تو میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا میں نکھر جاؤں گا! سنور جاؤں گا۔
اور آخر میں تین لفظ صبر ! صبر! صبر
آٹزم کو نااہلی سمجھنے کی بجائے ایک خاص قسم کی قابلیت کی نظر سے دیکھنا سیکھیں۔ میری کمزوریوں کو درگزر کر دیں اور ان صلاحیتوں پر نظر ڈالیں جو آٹزم نے مجھے دیں یہ سچ ہے کہ میں بات نہیں کر پاتا اور نظر نہیں ملا پاتا۔ لیکن کیا آپ نے دیکھا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ کھیل تماشوں میں دھوکا دہی نہیں کرتا، دوسروں پر فقرے نہیں کستا، میں تنقیبات بھی نہیں رکھتا اور بھی بہت سی چیزوں کو غور سے سمجھنے توجہ دینے اور تفصیلات جاننے کے جنون میں میں آئن سٹائن بن جاؤں، موازٹ یا دان گوہ بن جاؤں۔ ہو سکتا ہے میں ال زیمر جیسی بیماری کا کوئی حل نکالوں۔ مستقبل کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ کسی کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ صرف مجھے ہی منفی امیدوں سے کیوں دیکھا جائے؟ تاہم میرا کیا بنے گا؟ اس کا بہت کچھ دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ کمر کستے ہیں یا نہیں؟ آپ ہی میرے مستقبل کی بنیادیں رکھنے والے معمار ہیں۔ کچھ معاشرتی حدود و قیود اگر میری سمجھ میں نہیں آتے تو انہیں جانے دیجئے۔ میرے حمایتی بنیے۔ میرے دوست بنئیے اور پھر ہم اکٹھے مل کر یہ دیکھیں گے کہ میں کہاں تک جا سکتا ہوں؟