چرس کیا بلا ہے؟

چرس کیا بلا ہے؟

چرس کیا بلا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر صداقت علی

صداقت کلینک
(کراچی ،مری، لاہور)

پاکستان میں لاکھوں افراد چرس پیتے ہیں اور اسے بے ضرر نشہ سمجھا جا تا ہے ۔ یہ مفروضہ بالکل بے بنیاد ہے ، حقیقت یہ ہے کہ چرس دماغ سمیت جسم کے تمام اعضاء کو متاثر کرتی ہے، چرس کا استعمال جاری رکھا جائے تو بات پاگل پن تک پہنچ جاتی ہے۔
والدین کو شک پڑنے پر اپنے بچوں کے کمروں کی تلاشی لینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ نشہ کرنے والوں کا علاج ممکن ہے اور بچے کی نشے سے ’’واپسی‘‘ والدین کی زندگی میں سب سے خوبصورت چیز ہوتی ہے

چرس کا آغاز کیسے ہوتاہے؟ ابتداء میں لوگ’’ناں‘‘ کرتے ہیں تو بعد ازاں ’’ہاں‘‘ ۔چرس کے چنگل میں کیسے پھنس جاتے ہیں؟چرس پینے کے بعد مٹھائی اور موسیقی کیوں اچھی لگتی ہے؟چرس پینے سے دیکھنے ، ہنسنے، اور ذائقے کی حسیں تیز کیوں ہو جاتی ہیں؟ جب نشہ اترتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے؟ ذہنی امراض کی علاج گاہیں چرس پینے والوں سے کیوں بھری رہتی ہیں؟ اس کتابچے کو پڑھ کر آپ جان سکیں گے کہ چرس کی بیماری ہر سٹیج پر قابل علاج ہے۔ آخر چرس آپ کے معصوم بچے کا مقدر کیوں رہے؟؟؟
چوہدری معراج دین پورے گھر میں گھبرائے گھبرائے پھر رہے تھے! آج لڑکے والوں نے بات پکی کرنے آنا تھا۔ گھر بھر کی صفائی ہو رہی تھی، چیزیں اِدھر سے اُدھر رکھی جا رہی تھیں، اماں بی، بڑی بہو ، چھوٹی بہو، …… اور خورشید بھاگ بھاگ کر سب کام کر رہی تھی

اپنی برادری تھی اور دور کی رشتہ داری بھی نکلتی تھی، لڑکا دیکھا بھالا تھا، پھر بھی چوہدری صاحب انتظامات میں کوئی کمی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ وہ صبح سے ہر ایک کے سر پر سوار تھے اور کھڑے کھڑے شور مچا رہے تھے، ایک ایک چیز پر اعتراض کر رہے تھے۔ ملازموں کی شامت آئی ہوئی تھی، ’’صوفہ اٹھا کر یہاں رکھ دو۔۔۔ نہیں نہیں وہاں رکھ دو۔۔۔ نہیں، یہاں، بہتر رہے گا۔‘‘ ملازم عاجز آچکے تھے۔
آخر اماں بی نے تنگ آ کر کہا ’’آپ باہر جا کر آرام سے بیٹھیں، ہم سب کام خود کر لیں گے‘‘
’’جب تک میں سر پر نہ کھڑا ہوں یہاں کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا، دھی دھیانی کی بات ہے، نازک معاملہ ہے اگر کوئی گڑ بڑ ہوگئی تو ساری عمر کا طعنہ بن جائے گا۔‘‘
’’منہ اچھا نہ ہوتو بات اچھی کرتے ہیں، اللہ سب کا بھرم رکھنے والا ہے، آپ چلیں باہر، میں سب دیکھ لوں گی‘‘ اماں بی نے حسب عادت انہیں بے نقط سنا دیں۔ چوہدری صاحب کے ماتھے پر بل ابھرے، وہ واپس مڑے اور پلٹ کر بولے ’’نواز احمد کہاں ہے؟‘‘
’’ہونا کہاں ہے ، کمرے میں ہوگا یا پھر چھت پر۔۔۔‘‘
’’اسے قابو میں رکھنا۔۔۔ لڑکے والوں کے سامنے نہ آنے دینا، اس کا کوئی پتا نہیں کیا بول جائے۔‘‘
’’آپ اس کا علاج کیوں نہیں کراتے؟‘‘
’’کس بات کا علاج کروائوں۔۔۔؟‘

’’آپ اس کی حالت نہیں دیکھتے ، ساری رات الوّئوں کی طرح جاگتا ہے، کسی بے چین روح کی طرح بولا یا پھر تا ہے، مجھ سے تو دیکھا نہیں جاتا،چھت پر چڑھ کر گندی بو والی سگریٹیں پھونکتا ہے۔ محلے والے شکایتیں کرتے ہیں، ذرا سی بات پر لال پیلا ہو جاتا ہے، مرنے مارنے پر تل جاتا ہے، پچھلے دنوں عجیب بہکی بہکی باتیں کر رہا تھا۔۔۔ خود مجھے کہہ رہا تھا پھونک کر رکھ دو گا، اس کی سرخ انگارہ آنکھیں دیکھ کر مجھے تو چودھری محسن یاد آتا ہے، اللہ بخشے وہ بھی نواز کی طرح مزاروں، درباروں پر جھومتا رہتا تھا، مجھ سے کہتا ’’بھرجائی تمہیں ایک دن دنیاکا بادشاہ بنا دوں گا‘‘ لوگ کہتے تھے چرس پی پی کر اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟‘

چودھری صاحب ایک لمحے کیلئے رکے، پھر بولنے کیلئے لب کھولے اور چپ ہو گئے، اماں بی ٹک ٹک ان کی طرف دیکھتی رہیں، آخر بات ٹالنے کیلئے بولے ’’اوہ نئیں نئیں! چرس کوئی اتنا ڈاھڈا نشہ نئیں اے، چوہدری محسن بھی پی لیتا تھا، تھوڑی بہت ہوائی مخلوق بھی آتی تھی اس پر، بہت سیانوں کو دکھایا تھا اسے ، پر کوئی فائدہ نہیں ہوا، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ آخر گولی مار لی اس نے اپنے آپ کو۔‘‘
’’کل ٹی وی پر ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے چرس سے دماغ ہل جاتا ہے اور مریض پاگلوں جیسی حرکتیں کرتا ہے، یاد نہیں! ایک دن چھوٹا چوہدری اچانک صابن سے لتھڑا غسل خانہ سے باہر نکل آیا تھا۔۔۔۔۔ آپ نے کبھی کسی ڈاکٹر کو کیوں نہیں دیکھایا اسے؟‘‘ اماں بی نے اچانک ایک سوال داغ دیا۔
چوہدری صاحب نے کہا ’’نہیں! تم چاہتی ہو ہم ڈھنڈورا پیٹتے؟ خاندان کی بدنامی کرتے؟ تم رہنے دو ڈاکٹروں کی بات‘‘ اماں بی چڑ کر بولیں ’’ آپ کو تو کسی بات کی فکر نہیں، مگر میں اس کی ماں ہوں، اس کی کوئی کل سیدھی نہیں، مجھے تو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ابھی کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا کر دے گا، پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہے۔‘‘
’’میں نے اس کا خرچہ بند کیا ہے ناں۔۔۔۔۔دماغ درست ہو جائیگا اس کا۔‘‘
’’بہت بڑاکارنامہ سرانجام دیا ہے آپ نے۔۔ ۔۔ میں کہتی ہوں کسی ڈاکٹر کو دکھائو ورنہ پچتائو گے کسی دن۔‘‘ ’’ہاں! تو میں چوک میں کھڑا ہو کر اعلان کروں کے میرا لڑکا چرس پیتا ہے، جنازہ نکالوں اپنی عزت کا‘‘ چوہدری صاحب یکدم غصے میں آگئے۔
’’اس کا جنازہ نکل جائے بے شک۔۔۔ آپ کیسے باپ ہیں؟‘‘ اماں بی غصے سے بولیں۔

’’اوئے، یہ چرس کا مسئلہ نہیںاے، میں نے دنیا دیکھی ہے، لوگ مجھ سے صلائیں لیتے ہیں، تین دن میرے ساتھ پنڈی گیا تھا، وہاں میں نے سب دیکھ لیا، بھلی لوک اس پر کوئی ’’شے‘‘ ہے، نماز کیلئے مصلے پر بیٹھا تو اٹھنے کا نام ہی نہیں لیا، اسے کچھ نظر آ رہا تھا، ہوا میں باتیں کئے جارہا تھا، میں کچھ بولنے لگا تو انگلی ہونٹوں پر رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا، پھر اٹھ کر سارے کمرے میں پھونکیں ماریں او ر کہنے لگا بابا شاہ جمال آئے تھے، روحوں کی مجلس لگی تھی۔‘‘
’’آپ کو لگتا نہیں کہ یہ پاگلوں جیسی باتیں ہیں، بابا شاہ جمال نے اس چرسی کے پاس آنا تھا، میں تو کہتی ہوں ڈاکٹر کو دکھائو‘‘

’’اوئے نئیں! ان ڈاکٹروں کو کچھ پتا نہیں ہوتا، کرم الہی لے گیا تھا اپنے بیٹے کو ایک پاگلوں کے ڈاکٹر کو دکھانے، کرید کرید کر بچپن تک کے حالات پوچھے، پھر وہی کیا جو سب ڈاکٹر کرتے ہیں، ٹیکہ لگایا اور گولیاں دے دیں۔ واپس گھر آیا تو لڑکے کی حالت دیکھنے والی تھی، بدن کے سارے پٹھے کھچ گئے اور گردن بری طرح اکڑگئی، مجبوراً دوائی بند کرنی پڑی، پھر اس نے ایک حاذق حکیم کو دکھایا اور تکیے پر جا کر سائیں جی سے دعا بھی کروائی، مجھے تو اب وہ بھلا چنگا لگ رہا ہے۔‘‘
’’شیدا اب بھلا چنگا ہے؟ پرسوں مجھے ملا تھا، کہہ رہا تھا ’’اماں جی !سب دکھ دور ہو جائیں گے، آپ کے گھر بھی ولی پیدا ہوگیا ہے۔۔۔۔‘‘ میں تو کہتی ہو ں اسے چرس کے ڈاکٹر کو دکھائو، اگر دنیا سے ڈر لگتا ہے تو کم از کم ڈاکٹر کو ساری بات بتا دو۔۔۔‘‘چوہدری صاحب نے جواب دینے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ رشیدہ سر پر دوپٹہ کھینچتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اور بولی ’’بائو جی! چائے پی لیں۔‘‘
’’ہاں دھیئے لے آ اور ذرا نواز احمد کو بھی دیکھ، کیا کر رہا ہے؟ چوہدری صاحب نے کہا۔

رشیدہ چوہدری صاحب کو چائے دے کر بھائی کے کمرے کی طرف گئی تو وہ موجود نہ تھا۔ وہ پلٹی تو اسے محسوس ہوا جیسے سٹور میں کوئی ہے، اس نے آگے بڑھ کے دیکھا نواز احمد سٹور کی الماری سے کچھ نکال رہا تھا۔ رشیدہ نے محسوس کیا نواز احمد بہت بے چین ہے، اس کی آنکھوں میں شدید بے سکونی تھی اور جسم ہولے ہولے کپکپا رہا تھا۔ ایسے موقعے پر کسی کونے کھدرے کی تلاش میں ہوتا جہاں چھپ کر سگریٹ پی سکے۔ سگریٹ پینے کے بعد وہ حیرت انگیز طور پر ایک بدلا ہوا انسان بن جاتا، اس وقت بھی وہ الماری سے سگریٹ بھرنے کا سامان ہی نکال رہا تھا۔ ’’بھائی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟‘‘ رشیدہ نے انجان بن کر پوچھا۔
’’وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ میری سگریٹ کی ڈبیا۔۔۔‘‘ نواز ا حمد گڑ بڑا گیا۔
’’بھائی خدا کا خوف کرو اور کچھ اس گھر کی عزت کا بھی خیال کرو، کیوں ہماری عزت کا جنازہ نکالنے پر تلے ہوئے ہو، کبھی سوچا ہے لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔؟‘‘ نواز احمد آنکھیں نکال کر بولا ’’لوگوں کی کیا مجال ہے؟ میں تو چھوٹی بہن سمجھ کر تمہارا لحاظ کرتا ہوں ورنہ ایک پھونک ماروں تو تم ہوا میں اڑ جائو‘‘ نواز نے سگریٹ کے مرغولے اڑاتے ہوئے بے رابط گفتگو شروع کر دی۔

نشے کے مریض کی شخصیت تیزی سے گرتی ہوئی جسمانی اور ذہنی صحت کے باعث آسانی سے پہچانی جاتی ہے۔ نہ فرائض کا ہوش نہ بودوباش کا، میل جول سے گریز اور گردوپیش سے لاعلمی اس کی عادت بن جاتی ہے۔ بے وقت سونا، بے وقت جاگنا، جھوٹی قسمیں، جھوٹے وعدے، گپیں ہانکنا، اس کی خاص ’’صفات ‘‘ ہوتی ہیں۔پریشان خیالی اور بے چینی کبھی دھمکیاں، کبھی منتیںنشے کی بیماری کے بہت سے روپ ہیں۔ رشیدہ امراض منشیات کی ماہر تو نہ تھی مگر مشاہدہ بہت کچھ سکھا دیتا ہے، وہ نواز کے یہ سب روپ دیکھ چکی تھی، اب تو وہ نشے کی سبھی علامتیں پہچاننے لگی تھی۔

کچھ ہی سال پہلے کی بات ہے نواز احمد بہت خوش مزاج ہوا کرتا تھا۔۔۔ تین بھائی اور دو بہنیں، بڑے دو بھائیوں اورایک بہن کی شادی ہوچکی تھی۔ بڑی باجی کی شادی کے بعد نواز احمد اور چھوٹی رشیدہ کی آپس میں بہت گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں اکثر لُڈو اور کیرم کھیلا کرتے، یہ تب کی بات ہے جب نواز احمد رشیدہ سے بڑی محبت کرتا تھا۔ اب تو اس کی کایا ہی پلٹ گئی تھی، سارا دن گھر سے باہر رہنا اور دوستوں کے ساتھ آوارہ پھرنا اس کے مرغوب مشغلے تھے۔ گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی اور کچھ چوہدری صاحب کے بے جا لاڈ پیار اور مراعات نے اسے بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔
وہ انہی خیالوں میں گم تھی کہ چوہدری صاحب شور مچاتے، نواز احمد کو ڈھونڈتے ہوئے آ نکلے۔
’’کہاں غائب تھے تم اتنی دیر سے؟‘‘ وہ چلائے۔
’’مم۔۔۔۔ میں تو ادھر ہی تھا۔۔۔بائوجی‘‘ نواز احمد نے گھبرا کے جواب دیا، اس نے بڑی مشکل سے اپنی ابتر حالت پر قابو پایا ہوا تھا۔

’’لڑکے والوں کا ٹیلی فون آیا ہے ، وہ بس پہنچنے ہی والے ہیں، یہ ہزار کا نوٹ لو اور جلدی سے مٹھائی کا بندوبست کرو، اور سنو! دیر نہیں ہونی چاہیے، سمجھ گئے ناں؟‘‘
نواز احمد نے چودھری صاحب کے ہاتھ سے ہزار کا نوٹ جھپٹا اور ہوا کے جھونکے کی مانند گھر سے نکل گیا۔ پھر وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، مہمان آ گئے، قبلہ نواز احمد  نہیں آئے۔ خواتین مہمانوں کی آئو بھگت کر رہی تھیں، چوہدری صاحب مٹھائی کیلئے پریشان تھے اور اس گھڑی کو کوس رہے تھے جب انہوں نے نواز احمد کو یہ کام سونپا تھا۔ وہ اٹھ کر جانا ہی چاہتے تھے کہ دروازے پر کھٹکا ہوا، نواز احمد مزدور کے سر پر مٹھائی کا ٹوکرا اٹھوائے چلا آ رہا تھا۔ چودھری صاحب کی جان مین جان آئی لیکن مٹھائی دیکھ کر ان کا موڈ خراب ہو گیا، یہ کسی گھٹیا دکان کی گھٹیا مٹھائی تھی۔ نواز احمد کا حلیہ عجیب ہو رہا تھا، سر پر صافہ، آنکھیں سرخ انگارہ ، ہاتھوں میں لرزش اور قدم ڈگمگا رہے تھے۔ نواز احمد لڑ کھڑاتا ہوا نزدیک پہنچا تو لڑکے کے والد اٹھ کے بڑے تپاک سے ملے اور خفیف سے طنزیہ الفاظ میں بولے ’’معلوم ہوتا ہے ، صاحب زادے سیدھے کسی مزار سے تشریف لا رہے ہیں۔‘‘
’’حق اللہ!‘‘ نواز احمد نے نعرہ بلند کیا ور جھومنے لگا، وہ بالکل مست ہو رہا تھا۔
سارے گھر والے بری طرح گھبرا گئے، چوہدری صاحب نے جلدی سے اٹھ کر نواز احمد کو بازو سے پکڑا اور کھینچتے ہوئے بولے ’’اوئے! چلو تم اندر جائو۔‘

لیکن نواز احمد نے ز مین پر مکے مارتے ہوئے تقریر شروع کر دی ’’میں نہیں جائوں گا اندر، میں کیوں جائوں؟ میری بہن کا رشتہ ہو رہا ہے ، لڑکے کو میں نہیں چیک کروں گا تو کون کرے گا ؟ اللہ سے ڈائریکٹ لنک ہے میرا، اب میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، میں چاہوں تو سب کچھ ہو سکتا ہے بس ایک اشارے کی دیر ہے، اڑا کر رکھ دوں گا، سب کو بندہ بنا دوں گا، حق اللہ! جیئے بابا شاہ جمال! نہ چھیڑ ملنگاں نوں۔۔ ۔‘‘ نواز احمد نے جھوم جھوم کر دھمال ڈالنا شروع کر دی۔
چوہدری صاحب پہلے تو اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر روکنے کی کوشش کرتے رہے پھر طیش میں آ کر اس کے منہ پر تھپڑ مارے اور گھسیٹتے ہوئے اندر لے گئے۔ چوہدری صاحب جس راز کو برسوں سے چھپاتے آئے تھے آج اس کا بھانڈا سب کے سامنے پھوٹ گیا، لڑکے والے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے، اب یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ پھر کیا ہوا؟
یہ فقط چوہدری معراج دین کی نہیں ان گنت گھرانوں کی کہانی ہے دراصل یہ چرس کے ساتھ غفلت برتنے کی کہانی ہے۔ ابتداء میں نشہ فرد خود کرتا ہے، یہ اس کے اختیار میں ہوتا ہے، بعد میں یہ بہت بڑے جسمانی روگ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ نفسیاتی اور سماجی پیچیدگیاں بھی شامل ہو جاتی ہیں اور نشہ نہ کرنا مریض کے بس میں نہیں رہتا۔
نشے کے مریض علاج کیلئے خود کبھی تیار نہیں ہوتا۔۔۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ ہوش وحواس میں نہیں بلکہ نشے کے بھنور میں پھنسا ہوتا ہے۔ اکثر اہل خانہ اس بات کا فیصلہ کرنے میں مہینوں لگا دیتے ہیں کہ ان کا پیارا بیمار ہے یا مستی کر رہا ہے؟
ذرا غور کریں، چوہدری صاحب اور ان کے اہل خانہ کیاکیا غلطیاں کرتے رہے؟ 

غلطی:کئی سالوں سے نواز احمد روزانہ چرس کا نشہ کرتا ہے، اس کی حالت روز بروزبگڑتی جا رہی ہے،چرس کی وجہ سے اُس کی سوچنے کی صلاحیت بھی جاتی رہی،اس کے باوجود اُنہوں نے اُسے ایک اہم ذمہ داری سونپ دی۔
وضاحت:چودھری صاحب چرس جیسے مہلک اور ذہنی طور پر تباہ کرنے والے نشے کو اتنا خطرناک نہیں سمجھتے۔ نواز احمد کی جسمانی اور نفسیاتی تبدیلیوں کے باوجود ایک اہم موقع پر اسے ایک نہایت ذمہ داری کا کام سپرد کر دیاحالانکہ انہیں معلوم تھا کہ چرس کے نشے میں نواز احمد پاگل پن کی حدوں کو چھو رہا ہے، وہ کسی ذمہ داری کوپورا کرنے کے قابل نہیں مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے اسے ہزار کا نوٹ دے کر نہ صرف چرس کے نشے کا بلکہ مہمانوں کے سامنے دھماکہ کرنے کا موقع بھی فراہم کر دیا۔

غلطی:چند دن نواز احمد کسی مجبوری سے زیادہ نشہ نہ کرے تو چودھری صاحب اسے ’’ٹھیک‘‘ہونا سمجھ لیتے ہیں۔
وضاحت:بیماری کی شدت میں کئی دفعہ کمی واقع ہو جاتی ہے ، ان وقفوں میں مریض نشہ کم کرتا ہے اورحالات بظاہر بہتر نظر آنے لگتے ہیں۔ عموماً مریض اس وقفے کے بعد زیادہ نشہ کرتا ہے، خاص طور پرچرس کے نشے کا عادی مزید سرور کی تلاش میں کسی تیز نشے کی طرف رجوع بھی کر سکتا ہے۔ نواز احمد کے ساتھ بھی یہی صورتِ حال تھی، چرس کے نشے نے اسے پاگل پن کا ’’تحفہ ‘‘دیا اور اسے غیر مرئی چیزیں نظر آنے لگیں۔ چڑچڑے پن اور غصے کی کیفیت میں وہ محلے داروں سے لڑتا ، اس کی یادداشت بگڑتی جا رہی تھی اور وہ معمول کی باتیں بھی بھولنے لگاتھا۔ یہ ساری علامتیں چرس کے نشے کی بیماری کا خاص حصہ ہیں مگر چودھری صاحب نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں ،وہ لاشعوری طور پر حقائق کو تسلیم نہیں کر رہے تھے، اسے خود فریبی کہتے ہیں۔ نواز احمد کو تو علاج کی نہیں، نشے کی طلب تھی، وہ اس بیماری میں حقیقت سے بہت دور نکل گیا تھا مگر اُس کے گھر والے تو ہوش میں تھے۔ اُنہیں اس خود فریبی سے باہر آنے کی ضرورت تھی اور نواز احمد کو اچھے علاج۔

غلطی:چوہدری صاحب اس کی بیماری دوسروں سے چھپاتے رہے، وہ جب بھی نشے کی وجہ سے کسی مشکل میں پھنستا چودھری صاحب اسے تحفظ فراہم کرتے۔ نواز احمد نشے کے منفی نتائج سے آشنا نہ ہو سکا۔
وضاحت:جب آپ مریض کو اس کی غلطیوں کے نتائج سے بچاتے ہیں تو اس میں ان غلطیوں کو دہرانے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ چودھری صاحب بھی نواز احمد کی اس علت کو چھپاتے رہے حتیٰ کہ جب اسے سائیکاٹرسٹ کو دکھایا گیا تو ان کو بھی اصل بات نہ بتائی، انہوں نے پاگل پن کی دوائیں لکھ دیں، جس سے نواز احمد کے پٹھے بری طرح کھنچ گئے کیونکہ چرس کا استعمال اپنی جگہ جاری تھا۔ چودھری صاحب کا ایک بھائی بھی چرس کے نشے کا شکار ہو کر ذہنی طور پر اس حد تک تباہ ہو گیا کہ اس نے اپنی بیماری کے ہاتھوں خود کشی کر لی ۔ نشے کی بیماری ایک جینیاتی بیماری ہے، یہ بھی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے، چودھری صاحب نے اس حقیقت پر کبھی توجہ نہیں دی، وہ اسے صرف عام ذہنی بیماری سمجھتے رہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے انفیکشن میں ڈاکٹر انٹی بائیوٹک تو نہ دیں، صرف پیرا سیٹا مول سے بخار دور کرتے رہیں، بخار تو اتر جائے گا لیکن مرض موجود رہے گا۔

غلطی:نواز احمد چرس کو نشہ ہی نہیں مانتا اوراسی وجہ سے علاج کی ضرورت بھی نہیں سمجھتاجبکہ چودھری صاحب کے خیال میں چرس نشہ تو ہے مگر اتنا مضرنہیں، ان کے نزدیک نوجوانی میں سبھی تھوڑا بہت بگڑجاتے ہیں اور بعد میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
وضاحت:نشے کی بیماری کے ساتھ اہلِ خانہ اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت نپٹتے رہتے ہیں، بیماریوں میں یہ اصول نہیں چلتا، گھریلو ٹوٹکے بیماری کو بڑھا دیتے ہیں۔ چودھری صاحب کا خیال تھا کہ سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گا مگر جب بیماری نے شدت اختیار کی اس وقت پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اگر چودھری صاحب بھی کسی نشے کی علاج گاہ سے رابطہ قائم کرتے، کسی ماہر کی رہنمائی میں قدم اٹھاتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اور گھر میں اس اہم موقع پر یہ ایٹمی دھماکہ نہ ہوتا۔ اگرچہ نشہ کرنا ہمارے کلچر، قانون اور مذہب کے خلاف ہے تاہم محض نشہ کرنے اور نشے کا مریض ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سائنس اب یہ ثابت کرتی ہے کہ نشے کے مریض کے جسم میں اس کی مرضی اور علم کے بغیر ہی ایسی تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں کہ نشہ صحیح طور پر پروسس نہیں ہوتا ہے اور زہریلے مادے بننے لگتے ہیں۔ باتوں باتوں میں سب کہتے ہیں کہ نشہ ایک بیماری ہے لیکن عملی طور پر ہم نے ہر گھر میں اس کی نفی ہوتے دیکھی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے 
اگر نشہ ایک بیماری ہے تو ہم اس کے ساتھ دوسری بیماریوں جیسا سلوک کیوں نہیں کرتے؟؟؟

میرے ساتھ طے شدہ پہلی ملاقات پر فرّخ نہ پہنچ سکا بلکہ اس کی بجائے اس کے والدین آئے۔ وہ اپنے بائیس سالہ برخوردار کے رویّے پر نالاں اور مایوسی کے عالم میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے وقت سے پہلے ہی فرّخ کو مطلع کر دیا تھا کہ انہوں نے امراضِ منشیات کے ماہر کے ساتھ اس کی ملاقات کا بندوبست کیا ہے جس پر اس نے خفگی کا اظہار کیا اور گھر سے نکل گیا۔ انہیں رات گئے تک اس کے متعلق کچھ خبر نہ تھی، انہوں نے رات کا زیادہ حصہ اس کے متعلق وسوسوں میں گزارا، انہیں رات کچھ زیادہ ہی لمبی لگ رہی تھی۔

فر ّخ کے والدین نے مجھے جو کہانی سنائی وہ میں ہزاروں مرتبہ سُن چکا تھا پھر بھی انہماک سے سنتا رہا۔ فر ّخ کا بچپن عام بچوں کی طرح تھا، اس کے بہت سے دوست تھے، سولہ سال کی عمر تک وہ ایک پیارا، ذہین اور ’’بِیبا‘‘ بچہ تھا۔ اس کے بعد اس نے پرانے دوستوں کو چھوڑ کر نئے دوست بنالئے، اس میں بے چینی، ناراضی، بدتمیزی، لاتعلقی اور عدم دلچسپی کی علامتیں نمایاں طور پر نظر آنے لگیں۔
حالات بہت زیادہ بگڑنے سے پہلے ہی فرّخ کے والدین کو پتا چل گیا۔ اس کے کمرے اور گیراج سے کاغذ کی بتیاں اور چرس کے پائپ برآمد ہوئے۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا ’’میرے سب دوست یہی کرتے ہیں، اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟‘‘ اس کا دوٹوک فیصلہ تھا کہ جب اس کا دل چاہے گا وہ چرس پیّے گا، اس میں ہرج ہی کیا ہے؟ مزید برآں یہ کہ چرس پینے سے اس کی زندگی میں کوئی خرابی نہیں آئی تاہم اس نے بتایا کہ اس نے شراب اور ہیروئن کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا۔

جب اس کے والدین مجھ سے ملاقات کر کے گھر پہنچے تو وہ واپس آچکا تھا اور اپنے کمرے ہی میں تھا۔ اس موقع پر حاجی عبد الکریم اس پر برس پڑے، ان کی بیوی زلیخا کے اعصاب جواب دے گئے تھے۔ حاجی صاحب نے فرّخ کو تشخیص کے لیے ساتھ لے کر جانے پر اصرار کیا۔ فرّخ کا ایک جواب تھا ’’نہیں! میں کیوں جاؤں؟ مجھے کوئی مسئلہ نہیں، آپ کو مسئلہ ہے تو آپ سو دفعہ جائیں‘‘۔ جب اس نے ماننے سے صاف انکار کر دیا تو حاجی صاحب نے اسے اپنا سامان باندھ کر گھر سے دفع ہو جانے کے لئے کہا، یہ صورتحال فر ّخ کیلئے غیر متوقع تھی، اس وقت تو وہ پائوں پٹختا باہر نکل گیا لیکن تھوڑی دیر بعد ڈھیلا پڑ گیا۔ اسے اپنے والد کی طبیعت کا پتا تھا اور اس بات کا بھی احساس تھا کہ وہ سٹرکوں پر مارا مارا نہیں پھر سکتا، چارو ناچار وہ مجھ سے ملنے پر رضا مندہوگیا۔

فرّخ نے یوں ظاہر کیا کہ گویا وہ سب جانتا ہے اور اسے مدد کی ضرورت نہیں، اس کا رویّہ میرے اور والدین کے خلاف تھا۔ تنہائی میں بات چیت کرنے اور یہ جاننے کے بعد کہ والدین اسے علاج کے بغیر گھر لے جانے کے لیے تیار نہیں تو اس کا رویہّ جارحانہ ہو گیا مگر کچھ ہی دیر میں وہ ہسپتال داخل ہونے پر آمادہ ہوگیا۔ خون اور پیشاب کے نمونے لیے گئے، رپورٹ کے مطابق وہ روزانہ چرس سے بھرے دو تین سگریٹ پیتا تھا اورکبھی کبھار اس سے زیادہ بھی۔ بحالی کے جس پروگرام میں فرّخ کا علاج کیا گیا وہ امریکہ میں منا سوٹا ماڈل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فرّخ اور اس کے والدین اب چرس کے خلاف سرگرم ہیں۔ حاجی عبد الکریم کہتے ہیں ’’ میرے ساتھ زندگی میں ہونے والی سب سے خوبصورت چیز فرّخ کی ’’واپسی‘‘ ہے۔

پاکستان میں لاکھوں نوجوان چرس پیتے ہیں۔ چرس کو سوٹا، جوڑا، پکّا، گردا، جلیبی، سٹف، لال پنا، درویشی تحفہ، پرما، فقیری دھواں، شمامہ، روا اور واری کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سبھی ماہرینِ منشیات یقین رکھتے ہیں کہ چرس دوسرے نشوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ان ماہرین میں کولمبیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر گیبریل ناہاس، ڈاکٹر رابرٹ ہیتھ اور ڈاکٹر ایتھل ساسی نارتھ بھی شامل ہیں۔

کالج کے ایک پرانے دوست نے مجھے گھر آنے کی دعوت دی ،یہ صاحب ایک کالج میں لیکچرار ہیں۔ انہوں نے حال میں ہی ایک کتاب مکمل کی تھی، وہ مجھ سے کتابیں لکھنے کے حوالے سے میرے تجربات، میری رائے اور درستگی کے طالب تھے۔ میں صبح نو بجے ان کے دروازے پر موجود تھا۔ مجھے فوری طور پر احساس ہو ا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ پہلے مرحلے پر تو وہ اعصابی انتشار کا شکار نظر آئے، وہ بیٹھے ہوئے بھی خاصے مضطرب تھے، گفتگو پر بھی کم آمادہ تھے۔ ہم تقریباً دس سال سے ایک دوسرے کو نہیں ملے تھے پھر بھی ان میں اشتیاق اور توجہ کی کمی حیران کُن تھی۔ ان کی نظر کمرے میں اِدھر ُادھر بھٹک رہی تھی جیسے وہ مجھ سے جان چھڑا کر بھاگ جانا چاہتے ہوں۔ آدھے گھنٹے کی بے چینی کے بعد وہ بولے ’’کیا تم میری سٹڈی دیکھنا پسند کرو گے، میں نے یہ کتاب وہیں بیٹھ کر لکھی ہے؟ وہ مجھے اوپر لے گئے جہاں اُن کے لکھنے کا ساز و سامان پڑا تھا۔ میز کرسی، ٹائپ رائٹر وغیرہ بلکہ یہاں ایک اور قابلِ غور اضافی چیز بھی موجود تھی۔ ٹائپ رائٹر کے ساتھ ایک واٹر پائپ پڑا ہوا تھا۔ وہ چرس پینے کا پائپ لگ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آ گئی ہے۔
’’کیا چرس سے شوق کرنا چاہو گے؟‘‘
’’نہیں شکریہ‘‘ میں نے جواب دیا۔
اُن کے چہرے پر چمک سی آ گئی ’’اگر میں کروں تو تمہیں بُرا لگے گا؟‘‘
’’یہ گھر تمہارا ہے‘‘ میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
ایک حیران کُن نتیجہ آیا، پانچ منٹ بعد مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک مختلف انسان سے بات کر رہا ہوں، وہ گویا کسی جادوئی عمل سے ایک گرم جوش پُرسکون انسان میں بدل گیا تھا۔بحیثیت مہمان میرا رتبہ ایک دم سے بڑھ گیا تھا۔ ’’معاف کرنا یار میں تمہیں یہاں اوپر گھسیٹ لایا‘‘ انہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ’’گھر میں یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں میری بیگم مجھے شغل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔دراصل وہ نہیں چاہتی کہ میرے بچے مجھے چرس پیتے ہوئے دیکھیں۔‘‘
’’کیا وہ تمہیں روکنا چاہتی ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔

’’ہاں‘‘ انہوں نے کہا ’’یار! وہ پاگل سی خاتون ہے، وہ سمجھتی ہے کہ میں نشئی ہوں، یقینا ایسا نہیں ہے، وہ بیوقوف ہے، میں نے چرس کے بارے میں بہت پڑھا ہے، تم نشے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہو گے، یہ تمہاری روزی روٹی ہے لیکن تمہیں بتاتا  چلوں چرس سے ایڈکشن نہیں ہوتی اور بس۔۔۔‘‘ بعد ازاں اس نے مری کے ایک ٹرِپ کے حوالے سے بتایا کہ اس دوران میںاس کی بیگم نے اسے چرس پینے سے روکا تھااور اس کی چرس پہاڑی کی ڈھلوان سے نیچے پھینک دی تھی۔ اس کے بعد وہ خود تین دن تک بلبلاتی اور درخواست کرتی رہی تھی کہ وہ کہیں سے لا کر چرس پی لے کیونکہ اس دوران نہ تووہ سو سکا تھا اور نہ ہی اس نے بیوی کو سونے دیا تھا، اس کی جان بھی عذاب میں مبتلا رکھی۔ ’’اس کے بعد میری بیوی نے کوئی ایسی کوشش دوبارہ نہیں کی‘‘اس نے بتایا۔

’’میرے نزدیک تو یہ ایڈکشن کی علامات ہیں‘‘۔ میں نے نشاندہی کی ’’غور کرو جب تم چند دن نشہ نہیں کرتے تو تمہارے ساتھ کیا قیامت بیت جاتی ہے۔ ایڈکشن اور کسے کہتے ہیں؟
’’مگر یہ سب تو معمولی نفسیاتی ردِّ عمل ہے‘‘ اس نے اصرار کیا ’’یہ نہیں کہ مجھ میںبھُس بھر جاتا ہے اور میں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا البتہ کسی دن کچھ ہو جاتا ہے کہ اس کے بغیر طبیعت کام کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی، یہ مجھے یا کسی اور کو کچھ نہیں کہتی، میں پیشہ ورانہ لحاظ سے بالکل مکمل ہوں، روزانہ کام پر جاتا ہوں۔ ایک کتاب بھی شائع کرنے والا ہوں، چرس میری زندگی کی ان چیزوں میں سے ہے جن سے میں لطف اندوز ہوتا ہوں۔‘‘

اس دوست کے ہاں میرا یہ مختصر قیام نشہ کی بیماری پر ایک چھوٹا سا کورس کرنے کے مترادف تھا۔جب کسی معاشرے میں بہت سے لوگ کوئی نشہ مثلاً چرس استعمال کر رہے ہوں، ان میں سے اکثریت نارمل زندگی گزار رہی ہو اور انہیں نشے کے مضر اثرات نظر نہ آتے ہوں تو ایسے حالات میں کچھ اور چند لوگ جو چرس کی لت میں مبتلا ہوں اوران پر چرس کے مضر اثرات نمایاں ہوںوہ یقینا ماننے سے انکار کر دیں گے کہ یہ مضر اثرات چرس کے ہیں ۔وہ ان مضر اثرات کا الزام کسی اور چیز یا دوسرے لوگوں کو دیں گے۔نشے کے مریضوںکو نشہ استعمال کرنے والوں سے الگ کرنا مشکل کام ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میرے دوست نے اپنی کامیابی کے بارے میں دعویٰ کیا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک مشہور ناول نگار خاتون بے تحاشا کامیاب ناول لکھ چکی ہیں حالانکہ ان کے نچلے دھڑ پر فالج گرا ہوا ہے اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ ناول نگاری میں کامیابی کا یہ مطلب نہیں کہ فالج بیماری نہیں ہوتا تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ نشے کی بیماری رینگتے رینگتے زندگی کے ہر پہلو کو لپیٹے میں لے لیتی ہے۔ 

نسیمہ جلدی جلدی جانے کیلئے تیار ہو رہی تھی، وسیم دو دفعہ اسے ڈانٹ چکا تھا۔ ابھی ان دونوں کی شادی کو 10دن ہی گزرے تھے۔ نسیمہ کو ڈانٹ بالکل اچھی نہیں لگتی تھی جبکہ وسیم سمجھتا تھا کہ غصہ مردوں کا زیور ہے۔ وسیم ایک بار پھر دروازے پر کھڑا تھا۔

ادھر گلبرگ میں سیٹھ وقار احمد ٹیلی فون پر سیٹ بک کروانے کے بعد اطمینان سے چائے پی رہے تھے۔ بس اسٹینڈ ان کے گھر سے 15منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ ان کی بیگم انہیں نصیحت کر رہی تھی کہ گھر سے نکلتے ہی بد پرہیزی شروع نہ کر دیجئے گا۔ شوگر پچھلے کئی دنوں سے بڑھی ہوئی تھی پھر بھی سیٹھ صاحب بیگم سے نظر بچا کر میٹھا کھا لیتے تھے۔ ’’اور اپنی انسولین باقاعدگی سے لگا لیجئے گا، صبح شام۔‘‘ بیگم صاحبہ نے گھر سے سیٹھ صاحب کو گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ ڈرائیور نے گاڑی بیک گئیر میں ڈالی اور تھوڑی ہی دیر میں سیٹھ وقار کلمہ چوک کی طرف رواں دواں تھے۔
سعدیہ اور شہناز ہوسٹل کے دروازے پر کھڑی رکشہ کا انتظار کر رہی تھیں۔ وہ ایم بی بی ایس کے آخری سال میں تھیں اور اب انہیں امتحانوں سے پہلے تین ماہ کیلئے فارغ کر دیا گیا تھا۔ وہ دونوں تیاری کیلئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو رہی تھیں۔ سعدیہ اسلام آباد میں اور شہناز گوجر خان میں رہتی تھی۔ سعدیہ کو ابھی سے یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ جب شہناز گوجر خان میں اتر جائے گی تو پھر وہ باقی سفر تنہا کیسے کاٹے گی؟

مسلم لیگی راہنما راجہ شیر زمان لاہور میں چار مصروف دن گزارنے کے بعد آج گھر لوٹ رہے تھے، ایمبیسیڈر ہوٹل سے چیک آئوٹ کرتے ہوئے وہ خوش نہ تھے، انہیں مناسب پروٹوکول نہ ملا تھا حالانکہ وہ عملے کوکئی دفعہ باور کروا چکے تھے کہ وہ مسلم لیگ کے مرکزی راہنما ہیں۔ ہوٹل کا عملہ یہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ آخر کس چیز کی کمی رہ گئی ہے؟ ان کی ’’آخری خواہش‘‘ یہ تھی کہ ہوٹل کی ٹرانسپورٹ انہیں بکر منڈی چھوڑ کر آئے تاکہ وہ ہوٹل سے کوئی تو مثبت یاد اپنے ساتھ لے کر جائیں۔ راجہ شیر زمان مسلم لیگ کے تسلیم شدہ مرکزی راہنما تھے۔ یہ بات راولپنڈی کے لاکھوں لوگ ان کے خیر مقدمی بیروں پر پڑھ چکے تھے، جو وہ وقتاََ فوقتاََ شہر بھر میں آویزاں کیا کرتے تھے، خاص طور پر ایسے موقعوں پر جب کوئی کابینہ بنتی تھی یا پھر کابینہ میں نیا وزیر شامل کیا جاتا تھا۔ ایمبیسیڈر ہوٹل کی گاڑی مال روڈ پر فراٹے بھرتی ہوئی بکر منڈی کی طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔

شہر بھر میں 48مسافروں کا رخ بکر منڈی کی طرف تھا اور سب کے دل میں کچھ نہ کچھ خاص جذبات تھے۔ ملنے اور بچھڑنے کے جذبات، ہر روز آگے بڑھتی ہوئی زندگی سے آگے بڑھنے کے جذبات اور آنے والی صبحوں اور شاموں سے وابستہ امیدوں اور خدشوں سے لبریز جذبات۔ بس اسٹینڈ پر رش تھا۔ گرمی کا موسم جولائی کے آخری دن اور حبس ایسا کہ جیسے ہوا میں تیرتا ہوا خوف۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ لوگ خوامخواہ ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ ایک لمبی سی بس جلتی بجھتی روشنیوں میں مسافروں کا انتظار کر رہی تھی۔ روانگی کا وقت ڈھائی بجے سہ پہر تھا۔ بار بار لگتا کہ بس روانہ ہونے ہی والی ہے لیکن بس وہیں کھڑی تھی۔

ڈرائیور اپنی سیٹ پر بیٹھا کھڑکی سے باہر کھڑے دو ڈرائیوروں سے باتیں کر رہا تھا، تینوں ڈرائیور ایک ہی سگریٹ شئیر کر رہے تھے۔ ان کے باتیں کرنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ جگری دوست ہیں۔ لیکن زیر بحث موضوع شاید خوشگوار نہ تھا۔ باہر کھڑا مقبول خان بار بار ایک ہی فقرہ دوہرا رہا تھا ’’اکھڑ خان! بس اس بات تم اب جانے دو۔‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اکھڑ خان کسی طرح مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سگریٹ کے گہرے کش لگا رہا تھااور ہر دفعہ دھواں باہر نکالتے وقت اپنا سر کھڑکی سے باہر لے جاتا تاکہ بس کے اندر کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ چرس پی رہا ہے۔ ایک گندی اور سڑی ہوئی بدبو دور سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ اکھڑ خان میانوالی کا رہنے والا تھا۔ تینوں کے چہروں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ تینوں کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ لباس اور تراش خراش سے وہ عجیب نظر آ رہے تھے۔ مسافر بس میں بیٹھ چکے تھے اور روانگی کیلئے اصرار کر رہے تھے۔ بس میں اگرچہ اے سی چل رہا تھا لیکن ٹھنڈک نام کو نہیں تھی۔ آخر راجہ شیر زمان سے رہا نہ گیا، وہ اپنی سیٹ سے اٹھے اور ڈرائیور سے جا کر کہا ’’تم ابھی فوری طور پر روانہ ہوتے ہو یاپھر میں دفتر میں جا کر تمہاری شکایت کروں؟ تمہیں پتا ہے میں مسلم لیگ کا مرکزی راہنما راجہ شیر زمان ہوں؟‘‘ ڈرائیور نے غور سے راجہ شیر زمان کی طرف ایسے دیکھا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو، پھر کچھ کہے بناء اس نے اپنے دوستوں کو خدا حافظ کہا اور بس ایک جھٹکے سے گئیر میں ڈال دی۔ اس کے ڈرائیونگ کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اسے راجہ شیر زمان پر غصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

تھوڑی ہی دیر میں بس دریائے راوی کے پل پر سے گزرتی ہوئی جی ٹی روڈ پر رواں دواں تھی۔ ٹیپ پر اکرم راہی کا گانا ’’اک پاسے یار دا جنازہ چلیا، دوجے پاسے ڈولی اے معشوق دی‘‘ اونچی آواز کے ساتھ چل رہا تھا۔ اکرم راہی کو غم کا راہی کہا جاتا ہے۔ گرمی کا احساس اب نسبتا کچھ کم ہو چکا تھا۔ مسافر ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ نسیمہ اور وسیم سب کی توجہ کا مرکز تھے۔ ایک نوبیاہتا دلہن سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ ہی لیتی ہے، وسیم فاتحانہ انداز میں کبھی اپنی دلہن کو اور کبھی مسافروں کو دیکھ رہا تھا۔ راجہ شیر زمان مسافروں کو ملک میں ہونے والے سیاسی اتار چڑھائو سے آگاہ کر رہا تھا۔ وہ اشارے کنائے سے یہ بھی بتا رہا تھا کہ اسے ’’اندر‘‘ کی سب خبریں کس طرح معلوم ہوتی ہیں اور اس کے رابطے کہاں کہاں تک ہیں۔ سیٹھ وقار احمد بڑی دلچسپی سے اس کی گفتگو سن رہے تھے۔ جونہی راجہ شیر زمان کا رخ ان کی طرف ہوا، سیٹھ وقار احمد نے اپنا وزیٹنگ کارڈ ان کی طرف بڑھا دیا جس پر ان کے نام کے ساتھ سیٹھ گروپ آف انڈسٹریز لکھا تھا۔ راجہ شیر زمان حیرت سے انہیں تکنے لگے کہ اتنے بڑے انڈسٹریالسٹ آخر بس میں سفر کیوں کر رہے ہیں؟ سیٹھ وقار احمد نے فورا وضاحت کی کہ انہیں ہوائی سفر کرتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے

سعدیہ اور شہناز کو یہ سیاسی شور بہت برا لگ رہا تھا لیکن روایتی جھجک کی وجہ سے وہ خاموش رہیں۔ انہیں جہاں ایک طرف کئی مہینوں بعد گھر جانے کی خوشی تھی وہاں امتحان کا خوف بھی ذہن پر بری طرح چھایا ہوا تھا۔ کھاریاں چھائونی سے کچھ پہلے گاڑی آدھے گھنٹے کیلئے ایک ہوٹل پر رکی تاکہ مسافر کچھ کھا پی لیں۔ ڈرائیور بس سے کچھ فاصلے پر خاص سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں بس فراٹے بھرتی ہوئی جہلم کی طرف رواں دواں تھی۔ کھاریاں چھائونی گزرنے کے بعد ڈرائیور نے یکدم گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔ ایک مشکل موڑ پر تو مسافروں کی چیخیں ہی نکل گئیں۔ ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ ڈرائیور نے تیز رفتاری کے ساتھ ایک اور موڑ کاٹا، بس ایک ٹرک کو اوور ٹیک کرتے ہوئے جیسے چھو کر گزر گئی۔ اکثر مسافروں نے اگلی سیٹوں کو زور سے پکڑ رکھا تھا۔
شام ہو رہی تھی، سورج غروب ہو چکا تھا لیکن آسمان پر سورج کی لالی ابھی تک موجود تھی۔ بس کے اندر چھوٹے چھوٹے بلب جل رہے تھے۔ بس کی تیز رفتاری سے مسافروں کی آپس میں باتوں کا سلسلہ منقطع تھا۔ یکایک… ڈرائیور نے اسٹیئرنگ بائیں طرف گھما دیا حالانکہ سڑک سیدھی جا رہی تھی۔ بس سڑک سے اتر کر جنگلے سے ٹکرائی اور پھر اسے روندتی ہوئی 30 فٹ نیچے دریائے جہلم میں جا گری۔
بس میں ایک کہرام مچ گیا… کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔بس پانی کے نیچے دلدل میں دھنس گئی۔ پانی تیزی سے بس میں داخل ہو رہا تھا اور مسافر بس سے باہر نکلنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ 25مسافر بری طرح زخمی تھے اور انہیں ہسپتال پہچانے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر مسافر بے ہوش تھے، 12 مسافر جو معمولی زخمی تھے خوف اور درد کی شدت سے کراہ رہے تھے۔ 13 مسافر سڑک کے کنارے ان چارپائیوں پر لیٹے تھے جو اہل علاقہ نے مہیا کی تھیں۔ یہ سب خاموش تھے کیونکہ مردے بولتے نہیں۔

ان کی چیخیں بے آواز ہوتی ہیں۔ نسیمہ اور وسیم کا ہنی مون ادھورا رہ گیا، سعدیہ اور شہناز دکھی انسانیت کی خدمت کئے بغیر اس دنیا سے سدھار گئیں، سیٹھ وقار اب اپنی بلڈ شوگر کنٹرول کرنے سے بے نیاز ہے، راجہ شیر زمان کے خیر مقدمی بینر قصہ پارینہ بن گئے تھے۔ ڈرائیور غائب تھا، اس سے پہلے کہ بس جنگلے سے ٹکراتی ڈرائیور کھڑکی سے چھلانگ لگا کر رفو چکر ہو گیا۔
ہر طرف شور و غوغا تھا، ایدھی کی ایمبولینس مسافروں کو ہسپتال شفٹ کر رہی تھی۔ غوطہ خور لاشیں دریا سے نکال کر لنگوٹیوں میں ہی ایک طرف بیٹھے تھے۔ کچھ منچلوں نے دریا میں اتر کر مسافروں کا سامان لوٹ لیا تھا۔ پولیس تفتیش کر رہی تھی

اگلے دن اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر تھی ’’ٹائی راڈ کھلنے سے بس دریائے جہلم میں جا گری‘‘ ای ضمنی تھی ’’ 13مسافر ہلاک، 25زخمی، تحقیقات کیلئے کمیٹی مقرر کر دی گئی‘‘ اور پھر نیچے اس بد قسمت بس کے دریا میں گرنے کے حوالے سے ایک روایتی خبر تھی۔ ایسی بہت سی خبریں ہم اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں۔

تین دن بعد مشہور ٹیلی ویژن چینل جیو کے میزبان انجم رشید نے اپنے پروگرام ’’چھوٹی خبر بڑی بات‘‘ میں ایسے حادثوںکو موضوع گفتگو بنایا۔ انجم رشید شرکاء سے ایسے حادثوں کی اصل وجہ کرید رہے تھے اور کوئی انہیں پلو نہیں پکڑا رہا تھا، پنجاب ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکرٹری طارق باجوہ، بس ڈرائیور، پولیس اہلکار اور گاڑیوں کی فٹنس کے مجاز افسر اپنے اپنے انداز میں اس حادثے پر ’’روشنی‘‘ ڈال رہے تھے۔روشنی کیا ڈال رہے تھے، بس سمجھیں کہ واقعے پر مٹی ڈال رہے تھے تاہم ایک بات پر سب متفق تھے کہ ٹائی راڈ کے کھلنے کا ذکر ہر حادثے کے بعد کیا جاتا ہے لیکن یہ وجہ حقیقت سے بہت بعید ہے، پولیس کا نمائندہ کہہ رہا تھا کہ ٹائی راڈ حادثے کے بعد ہتھوڑوں سے توڑا جاتا ہے اور پولیس تفتیش نہیں کر پاتی کیونکہ ایسے حادثات دور دراز علاقوں میں ہوتے ہیں اور ایسا کوئی بندوبست نہیں کہ متعلقہ اتھارٹیز موقع واردات پر پہنچ کر حقائق جان سکیں۔ ساری کارروائی بذریعہ مک مکا غائبانہ ہی مکمل ہوتی ہے۔ ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ گاڑیوں کی فٹنس کا سر ٹیفکیٹ گاڑی کا معائنہ کرائے بناء ہی مل جاتا ہے، طارق باجوہ کہہ رہے تھے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کے پاس گاڑیوں کے معائنے کیلئے جیک ہے نہ ریمپ۔ اخبارات اب ان خبروں کو سنگل کالمی سے زیادہ کی اہمیت نہیں دیتے، یوں انسان اعداد و شمار بن جاتے ہیں اور ان کے کفن میلے ہونے سے پہلے کیس داخلِ دفتر ہو جاتا ہے۔ ایسے سینکڑوں حادثوں کے بعد بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آج تک کسی کھڑکی سے چھلانگ لگانے والے ڈرائیور کو سزا نہیں ہوئی۔اس پروگرام میں بہت سے سوال اٹھائے گئے لیکن اصل نکتہ جو حادثے کے باعث بنا وہ پسِ پردہ ہی رہا۔
یہ فقط اکھڑ خان کی کہانی نہیں، ان گنت گھرانوں کی کہانی ہے، دراصل یہ انسانوں کے ساتھ غفلت برتنے کی کہانی ہے۔ چرس کا استعمال شغل کے طور پر کیا جاتا ہے، %90لوگوں کا یہ شغل زندگی بھر جاری رہتا ہے اور انہیں کوئی منفی نتائج نہیں بھگتنا پڑتے لیکن %10لوگ چرس کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب چرس انہیں کوئی لطف و سرور مہیا نہیں کرے گی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نت نئے حادثے مریض کا گھر دیکھ لیتے ہیں۔ مریض ہوش و حواس میں نہیں بلکہ نشے کے بھنور میں پھنسا ہوتا ہے۔ اگرد گرد کے لوگ اس بات کا فیصلہ کرنے میں سالوں گزار دیتے ہیں کہ چرس پینے والا واقعی بیمار ہے یا مستی کر رہا ہے

آئیے! غور کرتے ہیں کہ ایسے حادثوں کے پسِ پردہ کیا غلطیاں ہیں جو اصل حقائق کو سامنے نہیں آنے دیتیں، جس کی بناء پر یہ حادثے تواتر کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔

غلطی:اکھڑ خان چرس کو نشہ ہی نہیں مانتا اوراسی وجہ سے علاج کی ضرورت بھی نہیں سمجھتاجبکہ کمپنی والوں کے خیال میں چرس نشہ تو ہے مگر اتنا مضرنہیں، ان کے نزدیک سبھی ڈرائیور بوریت دور کرنے اور دل بہلانے کیلئے چرس پیتے ہیںاور اس سے کوئی قباحت پیدا نہیں ہوتی۔ ان کا خیال ہے کہ چرس پینے کے بعد ڈرائیور لمبی ڈیوٹی کرتے ہیں، گاڑی لے کر جاتے ہیں اور پھر فورا واپس لاتے ہیں جس سے دوسرے شہر میں قیام و طعام کی ضرورت پیش نہیں آتی اور یوں کمپنی کے اخراجات میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
وضاحت: پاکستان میں لاکھوں افراد چرس پیتے ہیں، چرس کو سوٹا، جوڑا، پکّا، گردا، جلیبی، سٹف، لال پنا، درویشی تحفہ، پرما، فقیری دھواں، شمامہ، روا اور واری کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ مفروضہ عام ہے کہ چرس ایک بے ضرر نشہ ہے۔ چرس پینے والوں میں سے %10 بہت برے انجام کو پہنچتے ہیں، نا صرف ان کے حواسِ خمسہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ بات پاگل پن تک پہنچ جاتی ہے۔ چرس کو بے ضرر نشہ ماننے والے جمیکا میں ہونے والی تحقیق کو بطور سند لاتے ہیں۔ یہ تحقیق 72ء میں کی گئی مگرکوئی بھی سائنس میگزین اسے شائع کرنے پر تیار نہیں ہوا جبکہ ہزاروں شائع شدہ تحقیقات چرس کے مہلک اثرات کو ثابت کر چکی ہیں

ڈرائیور چرس پینا ضروری سمجھتے ہیں، اس کے حق میں جو دلائل وہ دیتے ہیں وہ سرُورانگیزی کی ای ہلکی شکل ہے جو کہ اپنے آپ کو اچھا محسوس کرنے، چہل پہل، خوش گفتاری اور باتونی پن سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ چرس بوریت دور کرنے کیلئے بھی پیتے ہیں۔ ظاہر ہے سفر کے دوران بوریت اور چرس کی حدیں دور تک ساتھ چلتی ہیں۔ چرس سے رنگ، آواز اور ذائقے کی حِس بہتر ہو جاتی ہے اس لیے چرس پینے کے بعد موسیقی کے پروگرام اور مٹھائی اچھی لگتی ہے تاہم چرس کے بیمار ان سب ’’نعمتوں‘‘ سے محروم رہتے ہیں

لوگوں کے چرس سے اس قدر گھائل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آج کی چرس 1960ء کی نسبت قطعی مختل ہے، اس میں بیمار کرنے کی صلاحیت کئی گنا زیادہ ہے۔ موجودہ چرس میں نشے کا زہریلا عنصر ٹی ایچ سی بہت زیادہ ہے۔ایک عام انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خریدتے وقت نشے کی طاقت کا اندازہ کر سکے، صرف پینے سے پتا چلتا ہے کہ چرس میں کتنا دم ہے؟
چرس پانی کی بجائے تیل میں گھلنے والا مرکب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک مرتبہ چرس جسم میں آ جائے تو یہ چربی میں ذخیرہ ہو جاتی ہے، تین دن تک اس کا اثر زور دار رہتا ہے، پوری طرح خارج ہونے میں لگ بھگ 28دن لگتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ شخص اس دوران سرور میں رہے گا بلکہ یہ کہ چرس کے 421کیمیکلز اس کے دل و دماغ پر مسلط رہیں گے اور اس کے طور طریقوں اور رویوں کو اجنبی بناتے رہیں گے۔ چونکہ چرس اور چربی میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اس لیے یہ دماغ میں بسیرا کر لیتی ہے

محض چرس پینے اور چرس کا مریض ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر چرس پینے والا کوئی بند دوسروں کیلئے ناقابلِ برداشت ہو جائے تو بات یقینا شغل سے آگے بڑھ کے مرض کی سرحدوں میں داخل ہو چکی ہے۔ سائنس اب یہ بات ثابت کرتی ہے کہ چرس کا مرض جسم میں کچھ حقیقی تبدیلیاں رونما ہونے کے بعد پیدا ہوتا ہے، اور صحت یابی کیلئے چرس چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا

غلطی:ٹائی راڈ کھلنے سے بس دریائے جہلم میں جا گری۔‘‘
وضاحت:ایسے ہر حادثے کے بعد ٹائی راڈ کا ذکر آتا ہے اور لوگ سوچتے ہیں کہ آخر اتنا کمزور پرزہ بسوں میں کیوں لگاجاتا ہے؟ حقیقتِ حالت یہ ہے کہ کسی بس کے ٹائی راڈ کھلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہ ایک ڈھکوسلہ ہے جو پردہ پوشی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم نے انٹرنیٹ پر بسیں بنانے والی تمام مشہور و معروف کمپنیوں سے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ٹائی راڈ ٹوٹنے کو ناممکنات میں سے بتایا

ٹائی راڈ اصل میں کسی بس کا نہیں کھلتا بلکہ ڈرائیور کے دماغ کا کھلتا ہے، جس کے بعد وہ ایک دو لمحے کیلئے ڈرائیونگ پر کوئی قابو نہیں رکھ سکتااور انہی لمحوں میں حادثہ ہوتا ہے۔ نشے کی بیماری میں چرس جسم میں جا کر کچھ زہریلے مادے بناتی ہے جو دماغ کو وقتی طور پر ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے جس میں بصارت اور سماعت پر انتہائی برا اثر پڑتا ہے۔ مثلا اس حادثے میں زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ڈرائیور کے سامنے جو سیدھی سڑک تھی وہ یکدم بائیں طرف تیزی سے مڑتی ہوئی نظر آئی جس کی بناء پر اس نے سٹیئرنگ کو بائیں طرف موڑا، بس جنگلے سے ٹکرائی اور انہی لمحات میں ڈرائیور کی حاضر دماغی واپس آئی اور اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی۔ضروری نہیں کہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہوا ہو لیکن قرینِ قیاس یہی ہے۔

چرس کا زہریلا کیمیکل ٹی ایچ سی دماغ کی سطح پر جم جاتا ہے جس سے نا صرف مختلف خلیوں کو تال میل پیدا کرنے میں دشواری پیش آتی ہے ، چرس پینے والے بولتے بولتے درمیان میں بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ ردِّعمل کا وقت مختصر ہو جاتا ہے اور کام کاج میں ٹائمنگ متاثر ہوتی ہے

غلطی:یہ سمجھ لینا بھی غلط ہے کہ حادثہ ڈرائیور کو اونگھ آجانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
وضاحت:پیشہ ور ڈرائیوروں کو اونگھ آنا قرینِ قیاس نہیں، عام لوگ بھی اگر لمبے روٹ پر ڈرائیونگ کریں تو انہیں اونگھ آنے کا امکان کم ہوتا ہے کیونکہ ڈرائیونگ میں مسلسل کچھ ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں جن کی وجہ سے نیند آنا ممکن نہیں تاہم اگر ایسا ہو بھی تو حادثہ سڑک پر رہتے ہوئے کسی دوسری گاڑی سے چھو جانے یا الجھ جانے کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ چرس پینے والے پیشہ ور ڈرائیور نیند کے معاملے میں ویسے بھی تہی دامن ہوتے ہیں اور اگر وہ چرس کی بیماری میں مبتلا ہوں تو نیند ان سے ویسے ہی دور بھاگتی ہے

غلطی: اکھڑ خان چرس کا نشہ کرنے کے بعد چڑچڑا ہوجاتا ہے، کسی نہ کسی سے جھگڑتا ہے اور پھر لمبے روٹ پر ڈرائیونگ کرنے کیلئے چلا جاتا ہے۔ یہ اس کا تیسرا حادثہ تھا۔ اس کی حالت روز بروزبگڑتی جا رہی ہے،چرس کی وجہ سے اُس کی سوچنے کی صلاحیت بھی جاتی رہی، اس کے باوجود ٹرانسپورٹ کمپنی نے اُسے ایک اہم ذمہ داری سونپ دی۔اصل غلطی نشے کی بیماری کو ’’کیمو فلاج‘‘کرنا ہے۔
وضاحت:ٹرانسپورٹ کمپنی والے چرس کو معمولی نشہ سمجھتے ہیں۔ اکھڑ خان کی نفسیاتی تبدیلیوں کو چرس سے منسلک نہیں سمجھتے۔ وہ اسے محض اکھڑ مزاج سمجھتے ہیں، افسران بالا کو معلوم تھا کہ چرس کے نشے میں اکھڑ خان پاگل پن کی حدوں کو چھو رہا ہے،اس کے باوجود اسے روزانہ ایک نہایت اہم ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ یوں وہ اسے روزانہ یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ بہت سے مسافروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دے اور کبھی کبھی وہ ایسا کر بھی گزرتا ہے۔ جب ایسے حادثے ہوتے ہیں تو ٹرانسپورٹ کمپنی، ڈرائیور، پولیس اور مجاز افسران چرس کا ذکر بیچ میں نہیں آنے دیتے، ایسے لگتا ہے جیسے سب کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہے جس کے تحت وہ چرس کو تحفظ دینے کے پابند ہیں۔جس طرح پاکستان نارکوٹکس کنٹرول بورڈ ٹنوں کے حساب سے چرس پکڑتا ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی گنا زیادہ چرس معاشرے میں استعمال ہوتی ہے۔یوں کہہ لیں کہ چرس کیلئے ہمارے معاشرے میں نرم گوشہ بہت وسیع ہے

اکھڑ خان کا اپنے سپر وائزر سے جھگڑا ہوا، اپنے دوست ڈرائیوروں کے سامنے وہ سپروائزر کے خلاف زہر اگلتا رہا اور پھر بظاہر پر سکون ہو گیا۔ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ’’ٹھیک‘‘ ہو گیا ہے اور سفر کے قابل ہے۔ ایک دفعہ شدید جھگڑا کرنے کے بعد مریض کچھ دیر کے لئے پر سکون ہو جاتا ہے اور یوں حالات بظاہر ٹھیک نظر  آتے ہیں لیکن اندر ہی اندر مریض بے چین رہتا ہے۔ ظاہر ہے وہ پھر نشہ کرتا ہے جس سے چڑچڑے پن اور تشدد کا ایک اور دورہ پڑ سکتا ہے۔ اکھڑ خان کے ساتھ بھی یہی ہوا، کھاریاں میں گاڑی روکنے کے بعد اس نے تیز ترین چرس پی جس کے نتیجے میں یہ حادثہ رونما ہوا۔
اکھڑ خان میں چرس کی بیماری کی سب علامتیں عیاں تھیں مگر سپر وائزر اور انتظامیہ نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں، وہ لاشعوری طور پر حقائق کو تسلیم نہیں کر رہے تھے۔ کمپنی والوں کو اس خود فریبی سے باہر آنے کی ضرورت تھی اور اکھڑ خان کو اچھے علاج کی

غلطی:دوسروں سے جھگڑا کرنا اکھڑ خان کا معمول تھا، وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا، مسافروں سے بھی الجھتا رہتا تھا، ماضی میں تین بڑے حادثے کر چکا تھا، اگرد گرد رہنے والے اس کی بیماری کو پردہ ڈالتے رہے، وہ جب بھی نشے کی وجہ سے کسی مشکل میں پھنستا کمپنی کے کرتا دھرتا اسے تحفظ فراہم کرتے۔ اکھڑ خان نشے کے منفی نتائج سے آشنا نہ ہو ا، انتظامیہ کو منفی نتائج کی پرواہ نہ تھی۔
وضاحت:جب آپ مریض کو اس کی غلطیوں کے نتائج سے بچاتے ہیں تو اس میں ان غلطیوں کو دہرانے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ کمپنی والے بھی اکھڑ خان کی اس علت کو چھپاتے رہے حتیٰ کہ جب اسے غیر مرئی چیزیں نظر آنے لگیں تو اسے پھر بھی سائیکاٹرسٹ کو نہ دکھایا۔ وقتا فوقتا اسے چرس نہ پینے کیلئے کہا جاتا رہا لیکن کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا گیا۔ دراصل اس کمپنی میں پہلے اکھڑ خان کا والد مکھڑ خان بطور ڈرائیور کام کرتا تھا۔ مکھڑ خان چرس کے نشے کا شکار ہو کر ذہنی طور پر اس حد تک تباہ ہو گیا تھا کہ اس نے مایوسی کی گہرائیوں گر کر خود کشی کر لی تھی۔

دراصل کمپنی کو منظر نامہ دھوکہ دیتا ہے،ذرا سوچیئے! ٹرانسپورٹ کمپنی کے سب ڈرائیور چرس پیتے ہیں اور انہیں چرس پینے کے بعد کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ چرس کا ایک سگریٹ پینے کے بعد سینکڑوں میل کی مسافت ہنسی خوشی طے کرتے ہیں۔ ایسے میں اکا دکا ڈرائیور جب اکھڑ خان جیسے کرتب دکھاتے ہیں تو انتظامیہ اسے چرس کے پس منظر میں نہیں دیکھتی بلکہ اونگھ آنے اور ٹائی راڈ کھلنے کے ناطے اتفاقہ حادثہ سمجھتی ہے۔ کمپنی والوں نے اس حقیقت پر کبھی توجہ نہیں دی کہ چرس پینے والوں سے کچھ %10 چرس کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں پھر چرس انہیں ریلیکس نہیں کرتی، چڑچڑا اور دکھی بنا دیتی ہے، وہ جھگڑالو اور نتائج سے لا پرواہ ہو جاتے ہیں۔ چرس کے زہریلے کیمیکلز ان کے دماغ کے ساتھ اچانک کھیلواڑ کرتے ہیں، نتیجے میں بہت سے لوگوں کو نا مٹنے والے زخم ملتے ہیں۔ رسمی باتوں میں ہم نشے کی بیماری کا بہت ذکر کرتے ہیں، آخر ہم اس بیماری کے ساتھ دوسری بیماریوں جیسا سلوک کیوں نہیں کرتے؟؟؟

چرس، بھنگ کے پودے کینابس سیٹائیوا سے حاصل ہوتی ہے۔چرس پانی کی بجائے تیل میں گھلنے والا مرکب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک مرتبہ چرس جسم میں آجائے تو یہ چربی میں ذخیرہ ہو جاتی ہے اور شراب کی طرح پیشاب اور سانس کے راستے تیزی سے جسم سے خارج نہیں ہوتی۔ چرس چربی سے رس رس کر خون میں داخل ہوتی رہتی ہے اور سرور کا سامان پیدا کرتی رہتی ہے۔چرس میں 421 کیمیکلز پائے جاتے ہیں لیکن اصل کیمیکل جس کی خاطر لوگ چرس پیتے ہیں ٹی ایچ سی کہلاتا ہے۔ چرس ایک بے ضرر نشہ ہے یہ غلط فہمی 60ء لگ بھگ پروان چڑھی، ان دنوں چرس کی ایک بودی قسم میسر تھی جس میں ٹی ایچ سی کا عنصر 0.5% سے بھی کم تھا۔ 80 ء اور 90 ء کی دہائیوں میں چرس ایک بہت ظالم نشے کی شکل اختیار کر گئی، عام دستیابی کے علاوہ اس میں ٹی ایچ سی کا عنصر بھی بڑھتا چلا گیا۔ پہلے سے زیادہ تیز اثر ہونے کے علاوہ زوردار انداز میں سوچوں کو بھی بدلنے اور کچلنے لگی۔ بہت سی اقسام میں ٹی ایچ سی کا عنصر 50% سے بھی زیادہ ہے جو اسے 1960 ء کے مقابلے میں 100گنا طاقتور بناتا ہے۔

پاکستان میں لاکھوں افراد چرس پیتے ہیں اور اسے بے ضرر نشہ سمجھتے ہیں ۔یہ مفروضہ بالکل بے بنیاد ہے ، حقیقت یہ ہے کہ چرس دماغ سمیت جسم کے تمام اعضاء کو متاثر کرتی ہے، ہمارے معاشرے میں منشیات کی دستیابی بہت تلخ حقیقت ہے،ابتداء میں لوگ’’ناں‘‘ کرتے ہیں لیکن بعد ازاں چرس کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ۔پاکستان میں لاکھوں افرادمنشیات کا استعمال کرتے ہیں، چرس پینے والوں کی تعدا د بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ تعداد بڑھنے میں ایک بڑا کردار اس مفروضے کا ہے۔ دماغ پرچرس کے اثرات انتہائی مضر ہوتے ہیں۔ نوجوان تجسس اور مہم جوئی کی بناء پر چرس کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں،ایک مرتبہ چرس کے استعمال کے بعد پریشانیوں سے نمٹنے کا آسان حل بے حسی کے ساتھ چرس کے نشے میں دھت ہو جانا سمجھا جاتاہے۔ اس عالمِ مدہوشی میں تمام مسائل کو ٓسانی سے بھلایا جاسکتا ہے۔حیرت تب ہوتی ہے جب نشہ اترتا ہے تو بھی مسائل جوں کے توں موجود ہوتے ہیں، اب بندے کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو یہ مسائل حل کرے یا پھر دوبارہ ٹُن ہوجائے، اگر خود اسے اختیاردیا جائے تو وہ عموماً دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے کیونکہ یہ آسان ہوتا ہے۔

نوجوان چرس پینے کے فوائد کے حق میں جو دلائل دیتے ہیں وہ زیادہ تر ’’پرواز‘‘ کے گرد گھومتے ہیں، یہ سرور انگیرزی کی ایک ہلکی شکل ہے جو کہ اپنے آپ کو اچھا محسوس کرنے ، چہل پہل، خوش گفتاری اور باتونی پن سے ظاہر ہوتی ہے۔لوگ چرس کا استعمال بوریت دور کرنے کیلئے بھی کرتے ہیں۔ کوئی شخص بوریت سے چھٹکارے کیلئے جتنی زیادہ چرس استعمال کرے گا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بوریت کا احساس اور چرس کی طلب مزید بڑھتی چلی جائے گی۔ ظاہر ہے معاشرے میں بوریت اور چرس کی کوئی حد نہیں۔ پرانے عادی اکثر یقین کامل رکھتے ہیں کہ بوریت سے نمٹنے کا واحد طریقہ چرس پھونکنا ہے۔بعض طالب علم توچرس کے استعمال کے حق میں تو یہاں تک کہتے ہیں کہ امتحانوں سے پہلے چرس کا استعمال زیادہ دیر تک توجہ بنائے رکھنے میں مدد دیتا ہے ‘ چرس کے استعمال سے ڈر نہیں لگتا اور تخلیقی صلا حیت بڑھتی ہے ۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگ قلیل عرصہ حتیٰ کہ چرس استعمال کرنے کے ابتدائی چند مہینوں کے اندر اندر پوری طرح عادی بن جاتے ہیں۔

والدین کو شک پڑنے پر اپنے بچوں کے کمروں کی تلاشی لینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ نشہ کرنے والوں کا علاج ممکن ہے اور بچے کی نشے سے ’’واپسی‘‘ والدین کی زندگی میں سب سے خوبصورت چیز ہوتی ہے۔ نشے کی بیماری کے ساتھ اہل خانہ اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت نپٹتے رہتے ہیں، بیماریوں میں یہ اصول نہیں چلتا، گھریلو ٹوٹکے بیماری کو بڑھا دیتے ہیں۔ چوہدری صاحب کا خیال تھا کہ سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گا مگر جب بیماری نے شدت اختیار کی اس وقت پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اگر چوہدری صاحب بھی کسی نشے کی علاج گا ہ سے رابطہ قائم کرتے، کسی ماہر کی رہنمائی میں قدم اٹھاتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ اگرچہ نشہ کرنا ہمارے کلچر، قانون اور مذہب کے خلاف ہے تاہم محض نشہ کرنے اور نشہ کا مریض ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سائنس اب یہ ثابت کرتی ہے کہ نشے کے مریض کے جسم میں اس کی مرضی اور علم کے بغیر ہی ایسی تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں کہ اس کے قول و فعل پر اس کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ باتوں باتوں میں سب کہتے ہیں کہ نشہ ایک بیماری ہے لیکن عملی طور پر ہم نے ہر گھر میں اس کی نفی ہوتے دیکھی ہے۔

نوجوانوں کیلئے چرس ایک لنگوٹیئے کی طرح ہوتی ہے۔چرس کا مسلسل استعمال انسان کو اس کا عادی بنا دیتا ہے جو لوگ چرس کا استعمال زیادہ مقدار میں کرتے ہیں وہ اس کی مقررہ مقدار نہ ملنے پر ودڈرال میں چلا جاتا ہے کافی عرصے کے استعمال کے بعد جب پچھلی مقدار وہی مزہ نہیں دیتی تو ایڈکٹ یا تو مقدار بڑھا کر وہ مزہ لینا چاہتا ہے یا پھر اُس سے بھی جا ندار ڈرگ کا استعمال شروع کر دیتا ہے چرس انسانی ذہن سے دوسری منشیات کے استعمال کے تضاد کو مٹا دیتی ہے ۔ہم نے پچھلے 35 سالوں میں ہزاروں مریضوں کا علاج کیا ہے اور تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ان میں سے 90 % افراد نے نشے کا آغاز چرس سے کیا تھا ، جس کی ایک اہم وجہ چرس کی آسان فراہمی ہے اور چونکہ چرس پینے والوں کا رابطہ منشیات بیچنے والوں سے بھی رہتا ہے تو ان کے دوسری منشیات پہ منتقل ہونے کے مواقع اور بھی بڑھ جاتے ہیں اس لیے عام طور پر نوجوان چرس کی ایڈکشن کے بعد ہی ہیروئن کا اندھیرا رگوں میں اتارنا سیکھتے ہیں اور یوں منشیات کے میدان میں مہم جوئی کی راہ کھل جاتی ہے ۔

چرس ایڈکٹ میں بھی کاہلی اور سستی نظر آتی ہے اور کبھی جوش و خروش ، بھوک بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہے، چرس ک استعمال آواز اور ذائقے کی حس کو بہتر کرتا ہے جس سے کھانے پینے کی کچھ اشیاء مثلاً مٹھائیوں اور چاکلیٹ کیلئے شدید رغبت محسوس ہوتی ہے اورموسیقی کے پروگرام بھی اچھے لگنے لگتے ہیں ۔ تمام رات جاگتے رہنا، سارا دن سونا، کپڑوں کے سٹائل اور بودوباش سے لاپرواہی چرس کے عادی افراد میں عام ہوتی ہے۔ منشیات کا استعمال کرنے والے فنکار چرس پینے والوں کو محبوب ہو جاتے ہیں۔ اور تمام اتھارٹی رکھنے والوں سے خداواسطے کا بیرہو جاتا ہے۔ والدین کی اکثریت اس بات کومحسوس کرتی ہے کہ چرس یاداشت کو بری طرح متاثر کرتی ہے حتیٰ کہ تبادلہ خیالات میں مشکل پیش آنے لگتی ہے ۔ چرس ایڈکٹ بولتے بولتے درمیان میں بھول جاتے ہیںکہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ ردعمل کا وقت مختصر ہو جاتا ہے اور کام کاج میں ٹائمنگ متاثر ہوتی ہے، اگر چرس کے زیر اثر شخص سے کہیں کہ ایک منٹ گزرنے پر وہ اپنا ہاتھ اٹھا دے تو وہ یہ کام محض دس یا پندرہ سیکنڈ گزرنے کے بعد کر دے گا۔

چرس کے متواتر استعمال کے باعث سیکھنے کی صلاحیت ہمیشہ متاثر ہوتی ہے۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ چرس کااستعمال انسان کی زندگی کوبد تر بنا دیتا ہے ۔ تحقیق یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ چرس کے استعمال کے بعد یا داشت اور تخلیقی صلا حیت بری طرح متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی معاملات پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اکثر اوقات تو کسی طالب علم کی تحریر دیکھ کر ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج کل وہ چرس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔ تقریباً تمام جماعتوں میں قابلیت کے درجوں میں تیزی سے کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ سمجھ بوجھ دھندلا جاتی ہے۔ چرس کا زیادہ اور متواتر استعمال منطقی سوچ کو متاثر کرتا ہے ۔ غوروفکر کا عمل بتدریج بدل جاتا ہے۔

چرس کے عادی لوگوں کو جو چیز زیادہ تر علاج اور بحالی میں لانے کا باعث بنتی ہے وہ چرس سے پیدا ہونے والا پاگل پن ہے۔ کچھ لوگ ہوش و حواس سے بیگانے ہو جاتے ہیں، یہ پاگل پن ہر لحاظ سے شیزوفرینیا سے ملتا جلتا ہے ماسوائے اس بات کے کہ چرس سے پیدا ہونے والا پاگل پن چرس کا نشہ ترک کرنے کے چند دن کے اندر اندر ’’صاف‘‘ ہو جاتا ہے اور مریض کی نارمل شخصیت ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ دوسری طرف اگر چرس کااستعمال جاری رہے تو یہ پاگل پن ٹھیک نہیں ہوتا چاہے اس کے لئے کتنی ہی ’’مضبوط‘‘ دوائیںکیوں نہ دی جائیں۔ المیہ یہ ہے کہ چرس کے پاگل پن کی تشخیص ذہنی علاج گاہوں میں علیحدہ طورپر نہیں کی جاتی، یہی وجہ ہے کہ ذہنی امراض کی علاج گاہیں ایسے مریضوں سے بھری پڑی ہیں جو اصل میں چرس کے عطا کردہ پاگل پن میں مبتلا ہیں۔ ان کا علاج صرف اتنا ہے کہ ا نہیںپاگل سمجھنے کی بجائے چرس کا نشئی سمجھ لیا جائے اور پھر ان کی صحت مند اور خوشحال زندگی کی طرف راہ ہموار کی جائے۔

چرس چھوڑنے کی علامات اپنی قسم اور شدت کے اعتبار سے نکوٹین چھوڑنے کی علامات سے ملتی جلتی ہیں ۔ان علامات میں چڑ چڑا پن، نیند کے مسائل ، بے چینی، موڈ مزاج کی خرابیاں اور نشے کی طلب شامل ہیں ۔یہ علامات چرس چھوڑنے کے چند دن بعد سامنے آتی ہیں جس کی وجہ سے مریض کو زیادہ عرصے تک چرس سے دور رہنے میں مسئلہ ہوتا ہے ۔جتنا زیادہ عرصہ کوئی چرس کا استعمال جاری رکھتا ہے اتنی ہی شدت سے یہ علامات ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔

چرس پینے کے مضر اثرات ٹریفک حادثوں کی صورت میں بھی سامنے آئے ہیں ۔ چرس کی بہت تھوڑی مقدار بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔اس لئیچرس پینے والوں کے لیے گاڑی چلانا بالکل محفوظ نہیں کیونکہ چرس پینے والے وقت اور فاصلوں کا ادراک نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے ڈرائیونگ میں خلل پیدا ہو تا ہے یہی وجہ ہے کہ چرس یا دیگر منشیات کا استعمال کر کے ٹن ہو جانا بڑی تعداد میں حادثات کا باعث بنتا ہے۔ چرس ایک بہت عام غیر قانونی اورآسانی سے ملنے والی منشیات ہے جو عام طور پر ڈرائیور کی موت کا سبب بنتی ہے کیونکہ یہ ڈرائیونگ کے لیے ضروری مہارتیں جیسا کہ توجہ اور حاضر دماغی کو متاثر کرتی ہے اور یہ خطرہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب چرس کا استعمال شراب کے ساتھ ملا کر کیا جا رہا ہو ۔

شروع شروع میں لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ چرس کا استعمال ایڈکشن کا باعث نہیں بنتا لیکن گزرتے وقت میں جدید تحقیقوں کے ذریعے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ چرس کے متواتر استعمال کے ساتھ نہ صرف دوسرے اور بڑے نشوں کے آنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے بلکہ ایڈکشن ہو جانے کی تلوار بھی سر پر لٹکتی رہتی ہے ۔چرس پینے والے کے لیے جلد یا بدیر انجام تباہی ہی نکلتا ہے ۔بہت سے افراد چرس کا استعمال متواتر کرتے ہیں حالانکہ اس سے اُن کے روزمرہ کے معمول ، تعلیم اور تعلقات متاثر ہو رہے ہوتے ہیں جو واضع الفاظ میں ایڈکشن کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں۔جو افراد چرس کا استعمال زیادہ مقدار میں کرتے ہیں اُن کو چرس کے مضر اثرات کا سامنا بھی اُتنا ہی شدید کرنا پڑتا ہے

چرس چربی سے رس رس کر خون میں داخل ہوتی رہتی ہے اور سرور کا سامان پیدا کرتی رہتی ہے۔ تین دن تک اس کا اثر زوردار رہتا ہے، پوری طرح خارج ہونے میں لگ بھگ 28 دن لگتے ہیں۔ کہنے کامطلب یہ نہیں کہ وہ شخص اس دوران ’’سرور‘‘ میں رہے گا بلکہ یہ کہ چرس کے 421 کیمیکلز اس کے ’’دل و دماغ‘‘ پر مسلط رہیں گے اور اس کے طور طریقوں اور رویوں کو اجنبی بناتے رہیں گے۔