یہ بات سننے میں بہت دفع آتی ہے کہ جب تک انسان گمھنڈی نہیں ہوتا تب تک اس میں اعتماد نہیں آتا۔ دلچسپ بات یہ ہے ہم میں سے بہت سے لوگ اعتماد اور گھمنڈ کے درمیان کشمکش کا شکار رہتے ہیں۔ توازن برقرار رکھنا زیادہ تر لوگوں کے لیے چیلنج کا باعث بن جاتا ہے اور اس کی وجہ وہ غلط سوچ ہے جو پر اعتماد ہونے کی اصلی حقیقت سے ناواقف ہوتی ہے۔
کیا آپ ابھی تک الجھن کا شکار ہیں؟ آئیں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔ کسی ادارے میں ایچ۔آر آفیسر کسی اعلی عہدے کی تعنالتی کے لیے انٹرویو کر رہا تھا۔ سوال پوچھتے ہوئے انہوں نے اپنے سامنے نشست پر بیھٹے امیدوار سے پوچھا کہ آپ اپنے آپ کو 5 سال بعد کہاں دیکھتے ہو؟ سوال کے جواب میں امیدوار بولا کہ اگر مجھے یہ نوکری ملتی ہے تو اگلے 3 سالوں میں، میں اپنے آپ کوآپ کی جگہ پر دیکھتا ہوں۔ یہ سنتے ہی آفیسرنے امیدوار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انٹرویو ختم کردیا۔
کیا اس کو ہم خودپر اعتماد کہے گے، حد سے زیادہ اعتماد یا پھر تکبر؟
خود اعتمادی کے بغیر معاشرے میں گزربسر مشکل ہوتا ہے جبکہ اگر یہی خود اعتمادی حد سے بڑ ھ جائے تو مشکلات کا باعث بن سکتی ہے اس سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمارے لیے پر اعتماد ہونا ضروری ہے لیکن حد سے زیادہ اعتماد ہونا ہمارے لیے باعث زحمت ہو سکتا ہے ۔یہ شاید سننے میں صیحح لگتا ہو لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا اصل میں کوئی وجود نہیں ۔درحقیقت جب ہم خود اعتمادی حاصل کرنے کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں تو حد سے زیادہ خود اعتمادی رکاوٹ کا باعث بنتی ہے ۔
یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ تکبر جس کو غرور بھی کہتے ہیں اور خود اعتمادی دو بالکل مختلف تصورات ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے درحقیقت کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ضروری نہیں جس شخص میں خود اعتمادی پائی جائےاس میں تکبر بھی ہو اور جس میں تکبر ہو اس میں خود اعتمادی بھی پائی جائے۔ مثال کے طور پر ایسے لوگ جوکہ دوسروں کو تنگ کر تے ہیں کیا آپ کے خیال میں وہ خود اعتماد ہوتے ہیں ؟ نہیں ،بالکل بھی نہیں ۔حقیقتا ایسے لوگوں میں خود اعتمادی کی شدید کمی ہوتی ہے اور یہی کمی دوسروں کو تنگ کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اہم بات جو سمجھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ تکبر کا متضاد خود اعتمادی کی کمی نہیں بلکہ اس کو ہم “احترام “کہتے ہیں ۔
کوئی بھی انسان اپنے اندر جتنی بھی چاہے خود اعتمادی پیدا کر سکتا ہے لیکن اس بات کا سمجھنا اہم ہے کہ خود اعتمادی اور احترام کا آپس میں توازن رکھنا ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح احترام کی اس صفت کو اپنے اندر اجاگر کیا جا سکتا ہے ؟اس صفت کو پیدا کرنے کے لیے ضرویری ہے کہ ہم اگلے کہ نقطہ نظر کو اہمیت دے ۔
اگلے کے نقطہ نظر کو کیسے اہمیت دی جائے آئے اس عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جب بھی دو انسان آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر مخصوص سوچ ان کے ذہین میں پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے بعدوہ ایک دوسرے کے محرکات اور ارادوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اگر کوئی شک و شبہ محسوس ہو تو اس صورتحال میں مزید اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس وقت تک اپنے ذہین میں یہ بات وہ اچھی طرح سے بیٹھا چکے ہوتے ہیں کہ اگلا بندہ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے ۔یہ رائے منفی ،مثبت یا غیر جانبدار ہو سکتی ہے ۔اس مرحلہ پر اس بات کا اندازہ لگانا بہت ضروری ہے کہ کہی ہماری اس سوچ کا تعلق ماضی سے تو نہیں ہے ۔آخرکار آپ اپنے روئے میں بہتری اس کے مطابق لے کرآئیں گے جیسا کہ آپ چاہتے ہیں کہ اگلا بندہ آپ کے بارے میں رائے رکھے ۔ یہ پورے کا پورا عمل کچھ ہی ملی سیکنڈ میں نادانستہ طور پر ہوتاہے ۔
آئیں دوبارہ سے اوپر دی گئی مثال کی طرف جاتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی تھی کہ امیدوار موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے سوال کا جواب دیتا۔اس طرح سے وہ اس بات کا اندازہ لگا سکتا تھا کہ آفیسر اس کا جواب سننے کے بعداسکے بارے میں کیا رائےقائم کرے گا۔شائد وہ اس کے بارے میں یہ سوچے کہ یہ کل کا بچہ
میری اس عہدے پر 3 سال میں پہنچنے کے بارے میں سوچ رہا ہے جبکہ یہی عہدہ میں نے 15 سال کی انتھک محنت کے بعد حاصل کیا ہے ۔۔۔۔ایسا کبھی نہیں ہوگا۔