س میں ڈاکٹر صداقت علی اپنے خاص انداز میں بیان کر رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دوسری شادی پر لوگ اُنگلیاں اُٹھاتے ہیں؟ کیا ایک کام کے کرنے کے طریقے سے اس کی نیت پر کوئی اثر آتا ہے؟
اصل میں کوئی بھی کام جو کہ جائز ہو اس پر انگلی اُٹھا نہیں سکتا. لیکن کوئی بھی ایسا کام جو کہ جائز طریقے سے نہیں کیا گیا اُس پر اُنگلی ضرور اُٹھتی ہے. دوسری شادی کوئی ایسا ناجائز کام نہیں ہے، خاص طور پر مُسلمان معاشرے میں، جہاں شرعی اور قانونی اعتبار سے اس چیز کی اجازت ہو تو کوئی اُنگلی نہیں اُٹھتی. اُنگلیاں اس وقت اٹھتی ہیں جب طریقہ کار غلط استعمال کیا جا رہا ہو، یا چوری سے کوئی کام کیا جارہا ہو. اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ چوری سے کچھ اچھے کام بھی کیے جاسکتے ہیں جیسے کہ زکات یا کفارہ چوری سے ادا کیا جاسکتا ہے، لیکن شادی ایک ایسا کام ہے جو اگر چوری سے کیا جائے تو یہ بنیادی طور پر ہوتا ہی نہیں ہے. چوری سے جب کوئی شادی کرتا ہے تو وہ شادی نہیں بلکہ چوری کرتا ہے، اور وہ خود چور ہوتا ہے، اور چور کے ساتھ اچھا سلوک کبھی بھی نہیں کیا جاتا. اب اُسے اپنے کیے کی قیمت تو ادا کرنی پڑے گی. وہ کیا کہتے ہیں
سورج پہ گھر بنانا اور پھر چھاؤں تلاش کرنا دلدل پہ پاؤں رکھنا اور پھر پاؤں تلاش کرنا
اگر کسی نے دوسری شادی کرنی ہے تو پہلے وہ اسکا ارادہ کرے اور اپنے نظریات کو لے کر بلکل کلئیر ہو. اور پھر وہ اپنے نظریات اپنے اہل خانہ سے شئیر کرے. عموماً دوسری شادی وہ لوگ کرتے ہیں جن کی پہلی شادی ناکام ہوتی ہے. اور وہ بغیر سیکھے کہ پہلی شادی ناکام کیوں ہوئی وہ دوسری شادی کر لیتے ہیں۔
شادی کے بنیادی مقاصد
اللہ تعالی نے ایک ریگولر سسٹم بنانے کے لئے یہ شادی کا نظام انسانوں میں رکھا کہ اس کی دنیا آگے بڑھتی رہے اور نسل چلتی رہے۔
دوسرا یہ کہ جب قربت کے لمحات میسر ہوتے ہیں تو اس سے ایک دوسرے کی بائیلوجیکل ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
تیسرا یہ کہ آپ ایک دوسرے کے ادھورے پن کو مکمل کرتے ہیں. اگر ایک کماتا ہے تو دوسرا گھر سنبھالتا ہے. پھر وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں مشورے دیتے ہیں حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے یہاں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گھر میں کام کاج کرنے کے لئے شادی کردیتے ہیں یا اسی قسم کے کچھ مقاصد پورے ہو جائیں گے جو کہ اکثر نہیں ہوتے۔
تو ان شادی کے مقاصد کو جب ہم بنیادی طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے مثلا قربت کے لمحات کے معاملات میں بھی آج کے جدید دور میں ہمارا سوچنے کا انداز یہ ہے کہ یہ کوئی بہت بری بات ہے. اور یہ بھی نہیں سمجھ آتا کہ یہ بری بات کیوں کہ قبول کی جاتی ہے. آپ دیکھئے کے میاں بیوی کے رشتے میں کتنی ریاکاری ہے اور اکثر اس ریاکاری کی وجہ سے میاں بیوی کے تعلقات آپس میں اچھے نہیں ہوتے. اور ایک میاں بیوی آپس میں پچاس سال گزار دیتے ہیں اور ان پچاس سالوں میں وہ پچاس مرتبہ ایک دوسرے کو دھمکی دیتے ہیں کے میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی یا میں تمہیں طلاق دے دوں گا. اور پھر اس کے بعد جب ایسا بندہ چوری سے شادی کرتا ہے تو اس پر بہت انگلیاں اٹھتی ہیں۔
اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ اس طرح تو ہوتا ہے پھر اسطرح کے کاموں میں۔
تحریر: حفصہ شاہد کلینکل سائیکالوجسٹ