امی! اسکول میں بچے مجھے تنگ کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں تم کیسے کپڑے پہنتی ہو، تم کتنی موٹی ہو، تم کالی ہو، تم ہمیشہ لنچ باکس میں سینڈوچ کیوں لے کر آتی ہو، اسکول کینٹین سے چیزیں خرید کر کیوں نہیں کھاتیں؟ تم گھر کا لنچ کیوں کھاتی ہو؟ تم بہت بورنگ ہو! تم ہمارے ساتھ نہیں کھیل سکتیں، جاؤ تم اپنے لیے اپنی طرح کی بورنگ دوست ڈھونڈلو
ٹیوشن، مدرسہ، اسکول سے واپسی پر اکثر بچے اپنی ماؤں کو اس قسم کی باتیں بتاتے ہیں جنہیں سن کر وہ پریشان ہوجاتی ہیں۔ کزن یا دوستوں کے ساتھ بھی یہی شکایات رہتی ہیں۔ بہ ظاہر یہ بہت چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس ہوتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک آٹھ دس سالہ بچے یا بچی کے لیے یہ اس کی عزت نفس کا معاملہ بن جاتا ہے۔
عموماً بچے حساس ہوتے ہیں اور وہ ان باتوں پر بہت روتے ہیں۔ ان کی خود اعتمادی بھی بہت مجروح ہوتی ہے اور ان کی شخصیت احساس کم تری کا شکار ہوجاتی ہے جس کے باعث وہ اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتے اور امتحانات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ بھی نہیں کرپاتے جس کا ان کے سالانہ نتائج پر کافی برا اثر پڑتا ہے اور بے چارے بچے اور بچیاں خواہ مخواہ کے ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ وقت ایسا ہے کہ والدین کو ان شکایات کو چھوٹا موٹا معاملہ سمجھ کر ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ والدین کو فوری طور پر ان پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ اس معاملے کو ابتدا میں ہی حل کرلیا جائے اور ان کی وجہ سے بچے یا بچی کی شخصیت پر ان منفی اور ناپسندیدہ باتوں کے منفی اثرات ہرگز مرتب نہ ہوں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے بچوں کو پانچ باتیں شروع سے سمجھا دیجیے۔
٭ جو بچہ آپ کو تنگ کرتا ہے، اس کے ساتھ ہرگز نہ رہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ کھیلیں، بلکہ اس کو نظر انداز کردیں۔ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ خوشی سے کھیلیے یا اسکول میں آپ کے جو اچھے دوست بن گئے ہوں، ان کے ساتھ کھیلنا شروع کردیجیے، بہتر ہوگا کہ آپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلیں جس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
٭ اپنے غصے پر قابو رکھیے، کسی کی بات پر نہ ناراضی کا اظہار کریں اور نہ ہی ایسی معمولی معمولی باتوں پر طیش میں آئیں، اگر آپ نے ایسا کیا تو خواہ مخواہ آپ کے اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ لڑائی بھی ہوگی اور جھگڑا بھی ہوگا، اسی طرح ایسے ساتھیوں یا سہیلیوں کے ساتھ کبھی بحث و مباحثہ نہ کریں اور جہاں تک ہوسکے، مارپیٹ سے بھی گریز کریں۔
٭ بہادر بن کر دکھائیں، ایسے بچوں کو نظر انداز کردیں اور ایسی جگہ سے کہیں دور چلے جائیں یعنی ان سے تھوڑا دور بیٹھیں یا دوسری جگہ پر چلی جائیں جہاں وہ نہ ہوں، مثلاً اپنی جماعت یا اسکول کے کھیل کے میدان میں اگر کوئی بچہ کچھ کہے تو تھوڑا فاصلے پر دوسرے کسی دوست کے پاس چلے جائیں یا ذرا دور دوسری سیٹ پر جاکر بیٹھ جائیں۔
٭ کسی بڑے کو بتائیں، اپنی ماں، اپنی ٹیچر، اپنے والد یا اپنے اسکول کی پرنسپل یا ہیڈ مسٹریس وغیرہ میں سے کسی کو بھی اس صورت حال کے بارے میں ضرور بتائیں، اور وہ بھی بغیر کسی ڈر یا خوف کے، ان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھیں ورنہ وہ پریشان کرنے والے بچے یا بچیاں آپ کو زیادہ تنگ کریں گے اور تنگ کرتے رہیں گے۔
٭ تنگ کرنے والے بچوں سے بات کرکے ان کو سمجھانے اور منع کرنے کی کوشش کریں، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اپنے والدین، بہن بھائی یا کلاس ٹیچر سے ضرور بات کریں۔
اس کے باوجود اگر مسائل برقرار رہیں تو والدین کو اسکول کی انتظامیہ سے جاکر درخواست کرنی چاہیے کہ بچے کا کلاس کا سیکشن تبدیل کردیا جائے۔ بچوں کے اطراف میں موجود افراد کی تبدیلی سے مثبت رویوں کی بدولت بچے کی شخصیت میں مثبت تبدیلی آتی ہے، کیوں کہ مسئلہ ان بچوں کا ہوتا ہے جو تنگ کرتے ہیں اور جس کے ساتھ بیش تر وقت گزارا جاتا ہے، لہٰذا کلاس سیکشن کی تبدیلی سے کافی بہتری ہوتی نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ اپنے بچے کو یہ ضرور بتائیں کہ آپ بہت خوب صورت اور خوب سیرت ہیں، با صلاحیت ہیں، چوں کہ دوسرے بچے آپ کی طرح ذہین نہیں ہوںگے، اس لیے آپ کو تنگ کرتے ہیں۔
بچوں کو ایسی کہانیاں سنائیں یا ایسی ویڈیوز دکھائیں، جو بچوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کریں۔ منفی افراد اور منفی حالات سے نمٹنے کا طریقہ سمجھائیں، لیکن ہر ویڈیو پہلے خود دیکھیں اگر اس میں بتایا جانے والا انداز یا کردار بچوں کے لیے مناسب محسوس ہوں تو پھر بچوں کو دکھائیں، کیوں کہ بچوں کی شخصیت سازی کے ضمن میں یہ ایک حساس معاملہ ہے جسے سنجیدگی سے فوری حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کو پر اعتماد بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچوں کو یہ باور کرایا جائے کہ تم جیسے ہو، سب سے بہترین ہو، جو بچے آپ کو تنگ کرتے ہیں وہ اچھے بچے نہیں، لہٰذا اچھا ہوگا کہ وہ بچے آپ کے ساتھ نہ کھیلیں۔
بچوں کو اگر کچھ ایسی چیزیں یا ہنر سکھادیں مثلاً کاغذ موڑ کر کشتی جہاز یا دیگر اشیا بنانا، واٹر کلر یا موم کے رنگوں سے پینٹنگ کرنا وغیرہ وغیرہ، کوئی بھی ایسی منفرد صلاحیت جو بچے کو دوسرے بچوں سے ممتاز کردے تو اس کے دیگر ساتھی یا ہم جماعت بھی اسے سیکھنا چاہیں گے اور یوں وہ بچے بھی آپ کے بچے کے دوست بن جائیں گے۔