عدم تحفظات ۔ اندیشہ ۔ خوف ۔ یہ سب انسان کو مفلوج بنا دیتے ہیں۔ ہم لاکھ خود کو مضبوط اعصاب کا حامل دکھانا چاہیں لیکن کہیں نہ کہیں یہ اندیشے ہماری راہ میں رکاوٹ ضرور بن جاتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے رشتوں اور تعلقات کے لئے عدم تحفظات کا شکار ہوتے ہیں تو کئی لوگ آنے والے کل کے لئے پریشان ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی معاملات کو لے کر لوگ اندیشوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک عمومی طرح کی عدم تحفظات کی حساسیت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس میں انسان زندگی کے ہر معاملے کے بارے میں خوف محسوس کرتا ہے۔
پیکنگ یونیورسٹی کے وینجی یوأن (Weinji Yuan) اور لی وانگ (Lei Wang) نے عام عدم تحفظ کے بارے میں تحقیق کی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا ہے۔ یہ تحقیق پچھلے سال ہوئی اور اس میں کھانے، روزگار، معاشی حالات، صحت، ادویات، ٹریفک اور مختلف عوامی حادثات کے متعلق اندیشوں کو جانچا گیا ہے۔
مضمون نگاروں نے اس مسئلہ کا ایک بہت ہی سادہ حل بتایا ہے اور وہ یہ کہ انسان انسان مثبت مزاجی کو بڑھانے کی کوشش کرے۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال آ رہا ہے کہ اس سے کیا ہو گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ
مثبت مزاجی سے آپ کسی منفی نتیجے کو خود سے نہیں جوڑیں گے بلکہ کسی باہری پہلو سے جوڑ کر اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
آپ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے معاملات کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کی کوشش کریں گے۔
علاوتاً، مثبت سوچیں انسان کی دماغی صحت کو بھی اچھا رکھتی ہیں۔ اسے مشکل اور پریشان کن حالات میں ہوشیار رہنا سکھاتی ہیں اور مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ مثبت مزاجی حقیقی اندیشوں کی صورت میں زیادہ دیر تک مدد نہیں دے سکتی۔ ایک وقت کے بعد اس میں کمی آ ہی جاتی ہے۔ مضمون مزاجی کے ذریعے دور کرنے میں حائل ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایسے اندیشے جو مثبت سوچوں کے ذریعے دور کئے جائیں لیکن ذہن کے کسی کونے میں وہ غیر محسوس انداز میں پھر بھی موجود ہوں وہ پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایسے میں ان اندیشوں کو دور کرنے کے لئے ان کو باہری چیزوں سے جوڑنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے لوگوں پر مشتمل ایک سروے بھی کیا جس سے ثابت ہوا کہ باہری چیزوں سے ان چیزوں یا معاملات کا جوڑ عدم تحفظات کو قدرِ کم کر دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کے دوسرے لوگوں پر اس کی مکمل ذمہ داری ڈال دی جائے لیکن خود کو غیر ضروری طور پر ذمہ دار ٹھہرانہ بھی کسی طرح ٹھیک نہیں ہے۔ بس اپنی سوچوں کو مثبت رکھیں اور اندیشے خود بہ خود دور ہوتے جائیں گے۔
تحریر: مُرق قاضی