اگر آپ پی نہیں رہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے نشے سے بحالی اختیار کر لی ہے۔
کئی عرصے سے میں ان خاندانوں کے ساتھ جن کے پیارے نشے کی بیماری سے متاثر تھے اُن کے ساتھ ایک نفسیاتی تعلیمی بحث کی۔ یہ ہمیشہ اچھا رہتا ہے کہ جب آپ کے پاس ایک کمرے میں ایک سو پچاس افراد موجود ہوں اور آپ کو یہ پتہ چلے کہ وہ سب اکیلے نہیں ہیں ایک ایسے تجربے میں جہاں شعور سے آگاہی مل سکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جذبات اور رنجشوں سے بھی۔
علت ایک مشکل مرحلہ ہے۔ یہ کافی دشوار اور سب سے کم سمجھ میں آنے والی ایک علت ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہم علت کو سمجھتے نہیں ہیں مگر یہ کافی عرصے سے ایک ایسا موضوع رہا ہے جس پر بہت بار بحث ہو چکی ہے۔ اس بارے میں کئی خیالات موجود ہیں جیسے کہ کیا یہ ایک وراثتی بیماری ہے؟ کیا اس کو ایک بیماری قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ہماری جین سے ہوتی ہے؟ کیا یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے یا اس کا تعلق ہمارے ماحول سے ہے؟ یا پھر کیا یہ ہمارے کردار کی خرابی کا نتیجہ ہے یا ہمارے اپنے انتخاب کی وجہ؟
مائیکل جے فارمیکا ایک ماہر کونسلر مانے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ایک لائف کوچ، ٹیچر اور خود کا خیال رکھنے والے ایسے شخص ہیں جنہوں نے روحانیات، نفسیات جیسے کئی نت نئے موضوعات پر بہت کچھ لکھا ہے۔ انہوں نے بہت سے ماہرین کی طرح کولمبیا یونیورسٹی ٹیچر کالج سے تربیت حاصل کی اور سائیکالوجی میں تین ڈگریاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فلسفے میں بھی ڈگری حاصل کی۔ مائیکل نے تہراویڈا اور مہاتما بدھسٹ کی تربیت حاصل کی اور ساتھ ہی ساتھ ایچ ایچ ہری سوامی راما اور ہیمالین ماسٹر سے ہناکیٹنا یوگا میں مہارت پائی۔
ایڈیٹر: اقرا طارق
بہرحال اگر آپ نشے کے بارے میں صحیح جواب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ دس لوگوں سے یہی سوالات کریں تو آپ کو دس نئے خیالات کا علم ہو گا۔ بہرحال یہ ماڈل تمام قسم کے نشوں پر پورا اترتا ہے چاہے پھر وہ شراب نوشی، منشیات نوشی، جسم فروشی، جواء، محبت یا بے جا خریدوفروخت جیسے نشے ہوں۔ میں بہر حال شراب نوشی کے لفظ کو استعمال کروں گا کیونکہ یہ عام طور پر زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ وہ رویے جو نشے سے متعلقہ ہوتے ہیں وہ اسی علت کی ایک علامت ہے۔ علت خود ہی ایک ایسا عمل ہے جس میں ہمارے رویے ہماری سوچوں کے محتاج ہو جاتے ہیں اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی وہی رویے بار بار کرتے رہتے ہیں۔ ذہنی و سماجی دائرہ کے مطابق نشے کے حامل افراد جھوٹ بولتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور دھوکہ دہی کرتے ہیں۔ وہ دھوکے بازی، جھوٹ بولنا اور شک کرنے جیسے رویوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ وہ کہاں پر کِس کے سامنے ہیں۔ ان کی توجہ کا تمام تر مرکز صرف اور صرف نشے کی اگلی مقدار کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ تلخ حقیقت ہے مگر فی الوقت یہ کڑوا سچ ہے۔
ڈرگ ایڈکشن کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔
یہ ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ خراب رویے بڑے لوگوں کو نہیں بناتے۔ جب ہم علت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ہمارے رویے منفی ہونا لازمی ہو جاتے ہیں۔
نشے سے متاثرہ فرد کے لیے یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ وہ بہت دبلا پتلا سا شخص ہو گا جسے اپنی پرواہ نہیں ہوتی اور اس کی آنکھیں اندر کی طرف دھنسی ہوں گی مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میں اپنے ہی ایک دوست کی مثال دینا چاہوں گا جو پانچ سال قبل ہیروئن کے نشے میں مبتلا تھا اور ایک دن میں پانچ کلو ہیروئن استعمال کرتا تھا مگر اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہ سکتا تھا۔ وہ ایک سکول میں میوزک ٹیچر تھا، آرمانی کے برانڈز پہنتا اور 53 سال کی عمر میں بھی اپنی والدہ کو خود چرچ لے کر جاتا ۔
عام طور پر شراب نوشی کرنے والے افراد اپنے کپڑوں اور صفائی ستھرائی کا خیال کیے بغیر دن رات شراب پیتے ہیں۔ وہ کبھی شراب نوشی ترک نہیں کرتے اور نہ ہی وہ کبھی نشہ چھوڑتے ہیں۔ عام طور پر اس طرح کی شراب نوشی کو سمجھ بوجھ کر کرنے والی شراب نوشی کہا جاتا ہے جو کہ آپ کی طلب کو پورا کر رہی ہوتی ہے جو آپ کے جسم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ آپ اپنے کام کر سکیں۔ آپ میں سے بہت سے اس معیار کو برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں مگر انہیں علم نہیں ہوتا کہ یہ کیسے کروں۔ ایک دائمی شراب نوشی اور ایک بتدریج کم تر شراب نوشی کے ساتھ ایک سائیکلیل شراب نوشی بھی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دن بھر شراب نوشی نہیں کرتے مگر رات کے پہر میں ایک یا زائد بوتل پیتے ہیں۔
پاکستان میں الکوحلزم کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔
اس کے علاوہ ایک بینج ڈرنکر بھی ہیں جو شراب نوشی کسی خاص موقع یا صرف ہفتہ وار ایک دن کرتے ہیں۔ ایسے افراد پورا ہفتہ صاف رہتے ہیں مگر پھر ہفتے کے آخر میں ان پر شراب نوشی کا مرحلہ حاوی ہو جاتا ہے۔ کچھ بینج ڈرنکر کو بلیک آؤٹ ڈرنکر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی سٹیج ہے جس میں ایک ایسا مرحلہ آ جاتا ہے جس میں آپ شراب نوشی کی وجہ سے اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔ وہ بظاہر ٹھیک معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت میں انہیں یہ بالکل احساس تک نہیں ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ چل کیا رہا ہے اور انہیں کچھ یاد نہیں رہتا۔
میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ابھی میں شراب نوشی کے کلی سبب کو جاننے میں ناکام رہا ہوں یا یہ کہوں کہ پوری طرح سمجھ نہیں سکا۔ یہ ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ بلیک آؤٹ کی سٹیج ایک خاص قسم کے شراب نوشی کرنے والے فرد کے ساتھ ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ کسی الرجی کے باعث بھی ہو سکتی ہے۔ میں کالج کی ایسی خاتون کو جانتا ہوں جو ایک یا دو بئیر کے بعد بلیک آؤٹ میں چلی جاتی تھی۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے کیونکہ انسان کو اس کے خطرناک مراحل اور نتائج کا علم نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ ری ایکٹو ڈرنکر، شرائط عائد کرنے والے ڈرنکر اور بچاؤ کرنے والے ڈرنکر بھی ہوتے ہیں۔ ایک ری ایکٹو ڈرنکر خاص قسم کی جذباتی صورت حال میں ہی شراب نوشی کی طرف مائل ہوتا ہے جیسے تناؤ یا تنہائی وغیرہ۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کام بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ الکوحل کو اپنے غم بھلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک شرائطی ڈرنکر جب کبھی کوئی کام کرنے میں مشغول ہو جیسے کہ رات کا کھانا کھانے کے دوران یا گیم یا ٹی وی دیکھنے کے دوران ہی شراب نوشی کرتے ہیں۔
کوپینگ ڈرنکر اپنے مسائل کے حل کے لیے شراب نوشی کا سہارا لیتا ہے کیونکہ اس کو مسائل کا حل صرف شراب میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اصل میں ابھی تک یہ تمام افراد شراب کو ایسی دوائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے ان کے غم آسان ہو سکیں۔ کوپینگ ڈرنکر، ری ایکٹو ڈرنکر سے مختلف اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ شراب کا استعمال ایک خاص قسم کے مسئلے کی وجہ سے کرتا ہے نہ کہ کسی خاص سوچ کے ساتھ۔
مثال کے طور پر میرے پاس ایک مریض تھا جو چودہ سالوں سے ریکوری میں تھا۔ اس کے والد کا انتقال ALS کی وجہ سے ہو گیا اور ان سے ملنے سے پہلے اس نے کچھ بوتلیں بئیر کی پی لیں۔ اس کے دو مہینے کے بعد اس نے پینا چھوڑ دیا اور اب وہ پانچ سالوں سے سوبر ہے۔ کیا اس نے اسے پکڑا اور پھر چھوڑ دیا؟ تو یقیناً ایسا کہنا غلط نہ ہو گا کیونکہ اس کی شراب نوشی کی وجہ حادثاتی تھی اور اس نے کسی خاص سوچ کے رد عمل میں آ کر شراب نوشی کی تاکہ اس کا تناؤ اور پریشانی کم ہو سکے۔
ہم نے بہت سارے علتی سٹائل معلوم کیے ہیں اور اب ہمیں دوبارہ سے نشے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے مگر اس بار شراب نوشی کی زبان کو استعمال کرتے ہوئے ایسا کریں گے۔
الکوحلک: یہ ایسے افراد ہیں جو ایک خاص قسم کے پیٹرن پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور ایسے افراد میں یہ قابلیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے کام دن بھر آرام سے کر سکیں جبکہ اس کے علاوہ باقی اقسام کے الکوحلک اپنے اپنے روزمرہ کے کام کاج سرانجام دینے میں ناکام رہتے ہیں۔
پرابلم ڈرنکر: یہ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کے پینے پلانے میں کوئی تسلسل اور رابطہ نہیں ہوتا۔ ایسے افراد ایک خاص موقع کی تلاش میں نہیں ہوتے بلکہ یہ کسی بھی وقت پی سکتے ہیں اور شراب نوشی سے ان کے دن بھر کے معاملات پر بھی اثر پڑ رہا ہوتا ہے۔ ایسے افراد معاشرے میں لوگوں سے اپنے تعلقات بھی ٹھیک طور پر سرانجام نہیں دے سکتے۔
ڈرائے ڈرنکر: یہ ایسے افراد ہوتے ہیں جنہوں نے شراب نوشی ختم کر دی ہو تی ہے مگر پھر بھی ان کے رویوں میں تبدیلی نہیں آتی۔ وہ جھوٹ بولنا، لڑائی جھگڑا کرنا، دھوکہ دہی جیسے منفی کاموں کا حصہ بنے رہتے ہیں۔
سوبر: یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو شراب نوشی ترک کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں میں بھی مثبت طور پر تبدیلی لے کر آ چکے ہوتے ہیں۔
پاسٹ سوبر: یہ ایسے افراد ہوتے ہیں جنہوں نے شراب نوشی ترک کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں میں بھی مثبت تبدیلی لائی ہوتی ہے بلکہ یہ ساتھ ہی ان تمام تر عوامل سے بھی باہر نکل چکے ہوتے ہیں جو ان کو دوبارہ نشے کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
میرے خیال میں سب سے اہم مثال جو میں “پاسٹ سوبر” کی دینا چاہوں گا وہ ان لوگوں کی ہے جو کہ 13 مراحل کے پروگرام میں میں نے بیان کی ہے۔ ایسے افراد بہت اچھی جگہوں پر آج ملازمت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ کافی اونچی جگہوں پر بطور ڈاکٹر بھی کام کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون کے ساتھ میں نے بھی کام کیا تھا جس کو شراب نوشی ترک کیے ایک عرصہ ہو گیا ہوا تھا اور وہ بطور ڈرائیور ایک جگہ ملازمت کر رہی تھی اور وہ کافی خوش تھی۔
ایک علتی کردار میں کیا کیا خامیاں اور خوبیاں ہو سکتی ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو یہ وہ انسان ہوتا ہے جو بات بات پر دھوکہ دیتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے علاوہ ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر پاتا اکثر کسی بھی کام میں ناکام رہتا ہے۔ اکثر تناؤ اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ پیسوں کا بھی نقصان کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سیٹ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ جاری رہتا ہے کیونکہ ہر طرح کے منفی رویے ایسے انسان سے سرزد ہو سکتے ہیں۔
اگر ایک الکوحلک کی جذباتی حالت کے بارے میں بات کی جائے تو اس کے جذبات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ اکثر ڈپریشن اور تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ شخصی خصوصیات کے مطابق بات کی جائے تو جیسے ایک شراب نوشی کرنے والے کے عام طور پر رویے ہوتے ہیں ویسے ہی عموماً دیکھنے میں آتے ہیں۔
نشہ ایک نقاب کی مانند ہے جو کسی پر بھی ایک خود فریبی کا جال بچھا دیتا ہے۔ اگر آپ کسی بھی ایسی علت میں مشغول ہیں تو آپ یہ جان لیں کہ آپ نے اپنی باقی ماندہ زندگی کی نفی کر دی ہے۔ پھر ایک مقام آتا ہے جب آپ کہتے ہیں کہ اب بس ہو گیا اور مجھے سوبر ہونے کی ضرورت ہے۔ پھر آپ نشے سے آزادی تو پا لیتے ہیں مگر آپ کی زندگی میں شرمندگی کا عنصر جگہ لے لیتا ہے۔ آہستہ آہستہ خود فریبی کے جال میں دھنسنے لگتے ہیں کیونکہ نشے کی بیماری تاحال موجود ہوتی ہے۔
آپ نے نشے سے آزادی پا لی ہے لیکن پھر کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ اس کے نتیجے میں آپ کے تمام حواس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کیونکہ آپ کے رویوں میں تبدیلی نہیں آئی، نہ ہی آپ کے خیالات میں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ آپ خود فریبی کے جال میں پھنس چکے ہوتے ہیں اور آپ کو اپنا آپ ٹھیک لگ رہا ہوتا ہے۔
نشے کا دائرہ کار کافی وسیع ہے میں ہمیشہ اپنے والدین کو کہتا ہوتا تھا اگر آپ سچ میں صیحح ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی کو اگر کوئی جذباتی یا سماجی مسائل کا سامنا ہو تو اس کو ذہنی بیماری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا اسلئے نہیں ہے کہ یہ بیماری شیزوفرینیا یا شخصی بیماریوں سے بڑھ کر ہے بلکہ نشے کی بیماری ہمارے اپنے معاشرے میں اتنی پھیل چکی ہے کہ آپ کو اس سے بچنے کیلئے اپنے آپ کو دوبارہ سے معاشرے میں ڈھالنا ہو گا تاکہ آپ اس نشے کی علت سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔