اگر آپ کسی کو یہ کہتے ہو ے سنیں کہ وہ نشہ یا شراب سے بحالی پانے والا مریض ہے تو آپ کا کیا رد عمل ہو گا؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ اپنے بارے میں یہ الفاظ کہہ سکتے ہیں؟ فرض کریں! اگر آپ کہہ بھی دیں تو لوگوں کا کیا ردعمل ہو گا؟ یہ حقیقت کسی بھی شخص سے بالا تر ہے کہ بہت لمبے عرصے تک شراب نوشی کے تصور کو معاشرتی طور پر ایک شرمناک فعل تصور کیا جاتا تھا۔ شراب نوش ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو یا دوسروں کو ابھی بھی دیکھیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی بد کرداری، اخلاقی پستی یا کمزور قوت ارادی ہے۔ یہی تو ایک بڑی وجہ ہے کہ الکوحل انونیمس والے اپنے انتہائی اہم اور بنیادی اصولوں میں مریض کے متعلق مکمل راز پوشی کی شرط رکھتے ہیں اور یہ ارادتاََ ایسا کیا بھی جاتا ہے تاکہ مریضوں کو نشئی ہونے کے لیبل سے بچایا جا سکے۔ ان کی عزت اور شہرت پر کوئی حرف نہ آئے اور مستقبل میں کامیاب ہونے میں رکاوٹ نہ بنے۔
ڈاکٹر جوزف نوانسکی بین الاقوامی شہرت یافتہ کلینکل سائیکالوجسٹ اور مصنف ہیں وہ کیلی فورنیا سان فرانسسکو یونیورسٹی میں سائیکاٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف کونکٹی کٹ میں سائیکالوجی کے پروفیسر رہ چکے ہیں۔ وہ ابھی آزادانہ طور پر اپنی پریکٹس سے ٹولینڈ کونیکٹ اک میں لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ایڈیٹر: اقرا طارق
لیکن راز داری کو نبھانے کا یہ اصول ایک دوسرا مقصد بھی رکھتا ہے۔ یہ انسان کی ذات کی شناخت، طاقت اور خاص سماجی مقام کو تلاش کرنے میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ یہ بات الکوحل انونیمس کو بلندیوں کی طرف لے جانے کے بجائے نیچے کو بھی کھینچتی ہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ اگر ایک طرف کوئی شخص الکوحل انونیمس کی طرف سپردگی اور اس میں ہونے والی تنقید کے حوالے کرتا ہے تو دوسری طرف پر اسرار طور پر خود کو نئے حالات میں ڈھالنے والے بے شمار ممبرز بھی رکھتا ہے۔ لیکن سوال ابھی بھی زندہ ہے کہ کیا جو نشئی ہونے کا معاشرتی لیبل ایک بار لگ گیا تو کیا ہمیشہ اتنا شدید ہی رہے گا؟ اور ایسی کونسی اصطلاحات ہیں جن کی بنیاد پر آپ اپنے آپ کو ایک نشے سے بحالی پانے والا فرد کہہ سکتے ہو؟
شراب نوشی کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔
شناخت پر تحقیق
معاشرتی ماہر نفسیات ایک لمبے عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں کہ لوگ اپنے آپ کو بیان کرنے کے لئے کونسا طریقہ چنتے ہیں اور اپنے آپ کو دی گئی یہ شناخت ان کو بدلنے میں کس طرح اثر انداز ہوتی ہے؟ وہ اس کے لئے ارک ارکسن کے نقش قدم پر چلتے ہیں جنہوں نے ذات کی شناخت اور بڑھتی عمر کے ساتھ پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل پر کام کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جس شخصیت کے ساتھ ہم جی رہے ہوتے ہیں۔ یہ شخصیت ان وقوفی تجربات کی ترجمانی کرتی ہے جو ہم نے کم عمری، بالغ عمری اور نوجوانی میں نفسیاتی تجربات کے سانچے میں ڈھال کر سیکھے ہیں اور یہ اثرات ہماری زندگی کو اپنی مرضی کے راستے پر چلانے میں بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
سماجی ماہر نفسیات کی تحقیق میں اس چیز پر بھی کام کیا جاتا ہے کہ کس طرح لوگ اپنی ذات کے مطابق ایسے مخصوص گروپ چنتے ہیں جو ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے مطابق لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تحقیق میں یہ دکھایا گیا کہ سٹروک سے متاثر ہونے کے بعد جن لوگوں نے سٹروک سے متاثر لوگوں کے گروپ میں شمولیت اختیار کی ان کی صحت ان لوگوں کی نسبت بہتر تھی۔ جنہوں نے سٹروک کے بعد ایسا کچھ نہیں کیا۔ ایسی ہی تحقیقات نے اس میدان میں تحقیق کرنے کے لئے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم دیا اور دوسرے محققین جلد ہی یہ جانچنے لگے کہ کس بنیاد پر لوگوں کو نشہ سے بحالی والے مریض کی شناخت دیں۔
نشہ سے بحالی پانے والے مریضوں اور نشہ کرنے والے مریضوں میں فرق
تحقیق کاروں کے گروپ نے عورتوں اور مردوں کے ایسے گروپ پر تحقیق کی جو الکوحل انونیمس اور نارکوٹکس انونیمس کے گروپس میں شمولیت اختیار کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس گروپ کو آگے دو حصوں میں اس شرط پر تقسیم کر دیا کہ کونسے لوگ اپنے آپ کو نشے سے بحالی پانے والے مریض سمجھتے ہیں اور کون سے اپنے آپ کو صرف نشے کے مریض سمجھتے ہیں۔ ان دو ذاتی شناخت کی رائے ایک سے لے کر سات تک کے پوائنٹ پر جانچنے کے پیمانے پر لی گئی۔ اس پیمانے کا نام “میں کون ہوں؟” رکھا گیا اور ایک گروپ کا نام الکوحل انونیمس کے ممبر اور دوسرے کا نام نشے کا مریض رکھا گیا۔ اس پیمانے پر لوگوں نے سب سے زیادہ سکور نشے سے بحالی پانے والے مریضوں والی پہچان کو دئیے۔
پاکستان میں الکوحل کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔
محققین نے تحقیق میں شمولیت کرنے والے ارکان کو دوبارہ ان کی خود افادیت کی بنیاد پر جانچا۔ اس آزمائش میں دوبارہ ان کو ایک سے لے کر سات تک کے پیمانے پر جانچا گیا جس میں زیادہ تر اس طرح کے فقرات شامل تھے جیسے میں نشے سے اجتناب کر سکتا ہوں۔ میں اپنی بیماری کو مینج کر سکتا ہوں۔ دوبارہ سے نتیجہ ملتا جلتا تھا کہ خود افادیت کے پیمانے پر لوگوں نے اپنی افادیت کو زیادہ سکور کیا۔
۰ شخص جتنا اپنے آپ کو نشے سے بحالی پانے والے مریض کی پہچان میں دیکھتا ہے اس کی خود افادیت میں اتنا اضافہ ہوتا ہے۔
۰ نشے کے اجتناب میں گزارے گئے زیادہ سے زیادہ مہینوں کا اثر خود افادیت پر مثبت ہوتا ہے۔
۰ کوئی فرد جتنا زیادہ خود کو نشہ سے بحالی پانے والا مریض سمجھتا ہے۔ دو سال کے اندر اس کے نشے کی طرف واپس جانے کے امکانات اتنے کم ہو گئے۔
تو کیا آج کل بھی اپنے آپ کو نشے سے بحالی پانے والا مریض کہنا ایک منفی تاثر دیتا ہے؟ سارے ثبوت اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان ساری باتوں کے خلاف بھی ہر مریض اس پہچان یا شناخت کی ضرورت میں رہتا ہے جو پہچان اسے نشے سے بحالی میں پختہ کر دے۔ نشہ سے بحالی کی پہچان پانے والے مریض زیادہ باقاعدگی اور ذمہ داری سے الکوحل انانیمس کی میٹنگ میں آتے ہیں ان کی نسبت جو ابھی یہ پہچان نہیں بنا پاتے۔
ان سارے معلومات اور بصیرت کے مطابق بہت سارے نشے سے بحالی پانے والے افراد اپنے آپ کو دوسروں سے متعارف کرواتے ہوئے یا دوستوں سے بات کرتے ہوئے بحالی والے مریضوں کی پہچان کو ہی استعمال کرتے ہیں مگر منشیات اور الکوحل ابھی تک اپنے ساتھ ایک منفی لیبل لئے ہوئے ہیں لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ نشے سے بحالی پانے یا دوبارہ نشہ کی علت میں پڑ جانے سے بڑا فرق اس چیز سے پڑتا ہے کہ آپ اپنی ذات کو کیا پہچان دیتے ہیں اور اپنے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔