منشیات کے شعبے میں یہ ایک عام یقین مانا جاتا ہے کہ نشے کا مریض اس وقت تک تبدیلی کو قبول نہیں کر پاتا جب تک کہ اس کے حالات نشے کی وجہ سے بدتر نہ ہو جائیں اور اس کے پس پردہ یہ سوچ کارفرما ہے کہ بحالی کی طر ف رجوع کرنے کے لیے مکمل بے تابی چاہیئے۔ کئی دفعہ یہ بات صحیح بھی ثابت ہوتی ہے لیکن زیادہ تر اس کی وجہ ہمارا بہت دیر کر دینا ہے۔ نشے کا شکار اور شرابی بن جانے میں دراصل ذہنی صحت کو نظر انداز کر دینا اور شرمندگی کا وہ پہلو شامل ہے کہ جس سے انسان کو اپنی ذات کا ہونا بُرا لگنا شروع ہو جاتا ہے اور جس کی بدولت نشے کا مریض بہت عرصہ علاج سے دور رہتا ہے۔ ہم سب سکون کی تلاش میں ہوتے ہیں اور جب ہم اسے پانے میں ناکام ہو رہے ہوتے ہیں تو سکون حاصل کرنے کے لیے ہم کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں چاہے اس سے ہمارا اپنا نقصان ہو یا دوسروں کا۔
ڈاکٹر ایڈی جیفی ایک ماہرِ علاجِ منشیات ہیں اور UCLAسے تربیت یافتہ ہیں۔ تاہم اس شعبے میں آنے سے پہلے وہ بذات خود ایک نشہ بیچنے والے اور نشے کی بیماری کا شکار تھے۔ چار دفعہ جیل جانے اور دو دفعہ مرکزِ بحالی برائے منشیات و نفسیات جانے کے بعد وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ اب ان کے کئی آرٹیکلز شائع ہو چکے ہیں اور وہ نشے کے علاج کے حوالے سے تقاریر کرتے رہتے ہیں۔ وہ سائیکالوجی ٹوڈے کے لیے لکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اپنی پہلی کتاب پر کام بھی کر رہے ہیں۔
ایڈیٹر: اقرا طارق
جب شرمندگی ایک خوبصورت روح کو ابترحالت میں لے جاتی ہے
M.K کا تعلق جنوبی کیلیفورنیا کے ایک خوبصورت اور دولت مند علاقے سے تھا لیکن جب وہ کالج کے ماحول میں آئی تو اس سے مطابقت نہ بنا پائی۔ وہ پانچ سال کی عمر سے ہی اپنی سخت مزاج والدہ کے برے رویوں کو برداشت کرتی آ رہی تھی اور اس کے والد بھی اکثر اوقات اپنا غصہ اس پر نکالتے تھے خصوصاً جب وہ شراب کے اثر میں ہوتے۔ اس طرح کے ماحول میں پرورش پانے سے اس کی شخصیت میں اعتماد کی کمی آ گئی۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو کم خوبصورت، زندگی کے لیے کم تیار سمجھنا شروع ہو گئی اور اسے یہ لگنا شروع ہو گیا کہ اس سے کم پیار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے ان تکلیف دہ خیالات اور احساسات سے نکلنا چاہتی تھی اور اس کے لیے اسے شراب اور چرس میں حل نظر آیا۔ جب وہ نشہ کر لیتی تو اپنے آپ کو بہت بہتر محسوس کرتی اور دوستوں میں خوش رہتی جب وہ نشے کے اثر میں ہوتی تو اسے زندگی بہت بہتر لگتی اور تمام تکالیف کو بھول جاتی لیکن پھر اس کے والدین کو پتہ چل گیا کہ وہ شراب اور چرس کے نشے میں مبتلا ہے۔ وہ اپنی والدہ سے سارا وقت لڑتی رہتی اور یوں معاملات بگڑتے ہی گئے۔ جب اسے زندگی کے اگلے مراحل اور پڑھائی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے تو وہ گھر واپس چلی آئی تاکہ معاملات کو سنبھال سکے۔
ماں باپ کے ساتھ وقت گزارنا ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے لیکن M.K نے اب اپنے آپ کو چرس اور شراب تک محدود کر لیا تاکہ وہ اپنی زندگی کے مسائل سے دور رہ سکے۔ اس نے گھر سے باہر جانا چھوڑ دیا کیونکہ اسے کوئی حوصلہ دینے والا اور اُس کونشہ کرنے سے ہونے والی شرمندگی سے نکالنے والا نہیں تھا۔ حالانکہ ہر کوئی اس کی مدد کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا۔ لیکن تمام محنتیں اُس کی بے اطمینانی اور شرمندگی کی وجہ سے ضائع ہو جاتی تھیں جو کہ اُس کی زندگی کے ہر پہلو میں آ گئی تھیں۔ اُس کے لیے یہ سب ایک ڈراؤنی حقیقت بن گیا اور اسے یہ خوف کھائے جانے لگا کہ وہ اب اس سب میں ساری زندگی پھنسی رہے گی ۔ تب اسے ایک اور نشے کا پتہ چلا جو کہ اسے کچھ لمحات کے لیے زندگی سے دور لے جاتا اس نشے کا نام Nitrous Oxide تھا۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جسے کرنے کے بعد انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اور ایک مستقل لیکن مصنوعی ہنسی چہرے پر رہتی ہے۔ M.K کو لگتا تھا کہ یہ والا نشہ کرنے کے بعد اسے “سکون” حاصل ہو گیا ہے۔ حقیقت سے دوری مل جانا اس کے لیے بہت آرام دہ تھا اور وہ اس نشہ میں آگے بڑھتی گئی۔
ایڈکشن کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔
جب سسٹم میں پھنس جاؤ تو شرمندگی کی بہتات ہوتی ہے
جب متبادل طریقے تلاش کرتے ہوئے M.K ہماری پاس آئی تو اسے کئی بیماریوں کی تشخیص دی گئی جن میں شخصی، تشویشی، چرس اور شراب کی بیماریاں شامل تھیں۔ وہ کئی علاج گاہوں سے نشے کی بیماری کا علاج کرواتی رہی لیکن ہر دفعہ وہ دوبارہ نشے کا شکار ہو جاتی۔ اسے ان علاج گاہوں میں جانے سے نفرت تھی لیکن بہت سے پروفیشنلز کے مشوروں کی وجہ سے وہ ان پر یقین کرتی گئی۔ ہم نے اس کے مسئلے کو روایتی انداز سے نہیں دیکھا۔ اسی لیئے ہم نے M.K اور اس کی فیملی کے ڈھانچے اور اس کی تشکیل نو پر کام کیا جس نے تھوڑا وقت بھی لیا ۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے اسے اس کے فوری دُکھ سے نکالنے کے لیے Mind Toleranceاور CBT ،جب کہ ہیجانی کیفیت کو کنٹرول کرنے کے لیے بائیو فیڈ بیک پر کام کیا۔ اس سارے عمل میں کچھ مہینے لگے لیکن وہ لڑکی جو ہمارے پاس مایوس اور پریشان آئی تھی اب اس میں تبدیلی آنے لگی تھی۔ وہ دوبارہ پڑھائی کی طرف جانے کی باتیں کرنے لگی تھی۔ اگر چہ ہر دفعہ سیشن میں بات چیت دکھ بھری اور آنسوؤں سے بھری ہوتی لیکن جب مسلسل اس کی سوچ اور شخصیت پر کام کیا گیا تو حالات بہتر ہوتے گئے اور کام مکمل ہونے پر وہ اس سے بالکل مختلف لڑکی تھی جو کہ پہلے دن ہمارے پاس آئی تھی۔
ایڈکشن کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا ایک اور پروگرام دیکھیئے۔
شرمندگی کو ختم کر دینے سے سچ اور خوبصورتی سامنے آتی ہے
بلآخر M.K ایک حساس اور کام کاج میں مصروف لڑکی بن گئی۔ اب مزید وہ کسی ذہنی بیماری کو ساتھ لے کر نہیں چل رہی تھی لیکن اسے اپنی کمزوریوں کے بارے میں مکمل آگاہی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کے گھر سے دوسری جگہ رہنے لگی اور پھر اسے ایک نوکری مل گئی جس نے اسے روشن مستقبل کا آغاز فراہم کیا۔ اب کچھ عرصہ پہلے ہی اس نے سگریٹ پینا بھی چھوڑ دیے ہیں۔ اب اسے ڈھیروں ادویات نہیں کھانی پڑتیں۔اور ایک بہت اہم تبدیلی بھی اس میں یہ آئی ہے کہ وہ اب اپنی شخصیت اور مسائل کو شرمندگی کی وجہ سے چھپائے نہیں رکھتی، جس کی وجہ سے پہلے اُس کا جینا محال تھا۔ اب وہ پُر امید اور خوش ہے اور ہمارے لیے یہی اہم مقصد ہے۔
پروفیشنلز کے لیے سبق
اُن تمام پروفیشنلز کے لیے جو لوگوں کی مدد کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ مریض کے لیئے فوری علاج تجویز کرنا، اسے روایتی انداز سے لیبل کر دینا سود آور تو لگتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم اکثر اوقات خود سے یہ سوال کرنا بھول جاتے ہیں کہ ان سب کا اصل کیا ہے اور ان کی درستگی کس حد تک صحیح ہے اور جب آپ کو پتہ ہو کہ Pygmalion effect کیا ہے؟ یعنی جب آپ اپنے مریض کو مایوس دیکھتے ہو اور اسے اور زیادہ مایوس کر دیتے ہو۔ اگر آپ ان میں امید جگانا چاہتے ہیں تو ان کے اندر جھانکیں، انہیں ایسا دیکھنا شروع کریں کہ وہ اب بہتر ہیں۔ اسی لیئے تو وہ ہمارے پاس آتے ہیں تاکہ ہم ان کی مدد کر سکیں، اُن میں اُمید جگا سکیں اور ان کی رہنمائی کر سکیں۔ یہ تو تھا M.K کی نشے سے بحالی کا سفر، لیکن اندازہ کریں کہ یہی کہانی کتنی اچھی ہوتی اگر اسے بہت پہلے مدد مل چکی ہوتی جس کی اس کو ضرورت تھی بجائے اس انتظار کے حالات ابتر ہوتے گئے۔