تبدیلی سے پہلے مشکل موضوع پر بات کرنا ضروری ہے۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نشے کے مرض میں مریض کی فیملی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن غیر فعال ہونے کا کوئی پیمانہ اس کے علاوہ مستعمل نہیں کہ خاندان کی اگلی نسلوں پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے۔ ایک خاندان جس میں شرابی یا کسی دیگر نشے کا عا دی اپنی پسند کے نشے کا پیچھا کرنے میں مصروف ہوتا ہے وہ غیر فعال خاندان کے زمرے میں آتے ہیں چاہے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کوئی بھی پیمانہ استعمال کیا جائے۔ نشہ ایک لاحاصل محبت کی مانند ہے۔ ایک شخص جس کو یہ علم ہوتا ہے کہ وہ جو کر رہا ہے وہ غلط ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی نشے کی علت کے لئے معاملات پر پردہ ڈالتا ہے۔ نشے کے عادی افراد گھر سے باہر نکلنے، بہانے بنانے اور کبھی کبھی غیر ہنر مندانہ طریقے سے بہانے اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں چاہے اس جھوٹ میں وہ جلد ہی پکڑا کیوں نہ جائے۔
ڈاکٹر سوزین ڈیکیز وائٹ ایک مشیر ہیں جو ان افراد اور خاندان جو ٹرانزیشن میں سے گزرہے ہوتے ہیں ان کے ساتھ کام کرنے میں مہارت رکھتی ہیں ۔وہ شمائی ایلی نوائے یونیورسٹی میں مشاوت ، اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارئمنٹ کی پروفیسر اور چیر مین ہیں ۔ ان کا تحقیقی کام عورتوں میں ٹرائز یشن سے متعلق ہے۔فی الحال وہ امریکی مشاورت کی ایسوسی ایشن کی صدر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
ایڈیٹر: اقرا طارق
نشے کا عادی یہ فیصلہ کب کر تا ہے کہ اسے مدد کی ضرورت ہے؟
یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ نشے کا مریض مدد کب طلب کرے گا۔ بعض نشے کے عادی افراد تب مدد طلب کرتے ہیں جب کچھ اہم لوگ ان کو چھوڑنے کی دھمکی دیتے ہیں یا اصل میں چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ بعض مریض مدد طلب کرتے ہیں جب ان کے والدین انھیں گھر سے نکال دیتے ہیں اور بعض تب مدد حاصل کرتے ہیں جب وہ کسی اہم موقع پر ہوش سے بیگانہ ہوتے ہیں یا جب ان کے بدترین مالی حالات کی بدولت کھانا بھی مشکل سے ملتا ہے۔ کچھ مریض مدد حاصل کرنے کے لئے تب راضی ہوتے ہیں جب ان کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے، کچھ عادی تب مدد کی طرف راغب ہوتے ہیں جب وہ فٹ پاتھ پر بے ہوش ہوتے ہیں اور ایک ہسپتال کے بستر پر ان کی آ نکھ کھلتی ہے اور انہیں اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ یہاں کیسے پہنچے۔ بعض افراد تب مدد حاصل کرتے ہیں جب وہ سڑک کے کنارے ایک تباہ گاڑی میں اٹھتے ہیں اور وہاں کس طرح پہنچے انہیں کوئی اندازہ نہیں ہو پاتا۔ کچھ تب مدد حاصل کرتے ہیں جب ان کی آنکھ وہ ایک جیل میں کھلتی ہے اور ایک بھی خاندان کا فرد ان کی ضمانت کرنے کی پرواہ نہیں کرتا۔ بعض نشے کے عادی افراد کبھی یہ فیصلہ ہی نہیں کرتے کہ انہیں مدد طلب کرنی چاہیئے اور وہ بلا روک ٹوک اپنے نشے سے محبت کو جاری رکھتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ وہ کتنا نقصان کر رہے ہیں ان لوگوں کا جو صحیح معنوں میں ان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔
کب نشے کے عادی افراد کے قریبی دوست اور خاندان اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ اب مدد حاصل کرنی چاہیے؟
اس بات کا اعتراف کرنا کہ ان کے خاندان کا کوئی فرد نشے میں مبتلا ہے یہ بات گھر والوں کیلئے کافی مشکل ثابت ہوتی ہے۔ جس گھر میں شراب کی بیماری کا دور دورہ ہوتا ہے وہاں خاموشی اور چھپانے کے مسائل کافی پائے جاتے ہیں نشے کی لت صرف اس شخص کے لئے مسلئے کا باعث نہیں بلکہ یہ ہر اس شخص کا مسئلہ ہے جو اس شخص کی پرواہ کرتا ہے معاملہ چاہے والدین کا ہو یا بہن بھائی کا اکثر خاندان والے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ بلند آواز میں نشے سے متعلق بات بھی نہیں کرتے تاہم بہت سے لوگوں کے لئے یہ ایک خاموش علاج ہے جو کہ بہت نقصان دہ بات ہے۔ نہ صرف مسلۂ کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے بلکہ اس مسلئے کو زیادہ اہمیت بھی نہیں دی جاتی جواس مسلئے کو زیادہ بڑھا دیتا ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو معصومیت سے نشے کے عادی فرد کے ارد گرد کھڑے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔
فکر مندی کافی نہیں، بات کرنا بھی ضروری ہے۔
اکثر نشے کے عادی افراد کے روئیے اس کے ارد گرد کے لوگوں کو کافی محتاط کر دیتے ہیں لوگ یا تو اس کے غصے کے غضب سے ڈر رہے ہوتے ہیں یا اس کے دوبارہ نشہ کرنے سے۔ تاہم جب تک مسئلے کے بارے میں کھل کر نشے کے عادی فرد سے بات نہ کی جائے اور دوستوں اور خاندان کے راز رکھے جائیں اس طرح سے معملات کبھی حل نہیں ہوئے۔ ایک کاوٗنسلر کی حیثیت سے میں اس بات کو جانتی ہوں کہ جب تک کوئی اس بات کو تسلیم نہ کر لے کہ اسے کوئی مسئلہ ہے اس کی مدد کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا کوئی رویہ اس وقت تک مسئلہ نہیں ہوتا جب تک کے اسے ایک مسئلے کے طور پر تسلیم کر لیا جائے ایک مریض یا اس کی فیملی کی طرف سے جب منشیات کے بے جا استعمال کے بارے میں کھل کر بات کی جاتی ہے تو اب اسے واقعی ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے جس پر اب توجہ دی جاتی ہے۔ تو اس معاملے پر بات کرنے سے اور اسے ایک مسئلہ سمجھنے سے جو کے نشے کا مسئلہ ہے ہم اس مسئلہ سے متعلق رویوں پر کام کر سکتے ہیں۔
مزید جاننے کے لئے یہ آرٹیکل پڑھیے: نشے کے عادی افراد کے ساتھ کیسے رہا جائے؟
اپنے آپ کو بچا ئیے۔ نشے کے عادی کے علاوہ کسی اور کے پاس یہ طاقت نہیں کہ اسے محفوظ رکھ سکے سوائے اس کے خود کے پاس۔ نشے کی بیماری پر بات کرنا اور نشے کے عادی شحص کی زندگی میں مداخلت آسان نہیں ہے اور یہ کاروائی فوراً کام بھی نہیں کرتی۔ یہ لت ایک طاقتور درندے کی مانند ہے جسے صرف مارا جاتا ہے جب ایک نشے کا عادی اس سے لڑنے کا فیصلہ کر لے۔ بد قسمتی سے ہر نشے کا عادی اس بات کا فیصلہ آپ کی مقرر کردہ ٹائم لائن پر نہیں کرے گا۔ تاہم جب آپ اس بات کو سمجھ جائیں کہ نشے کا عادی اور اس کا نشہ آپ کے لیے اب ٹھیک نہیں تو کوئی بھی چیز آپ کو اپنے لیے مدد حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔
خاموشی توڑنا اور نشے کی عادی شخص کی طرف سے پہنچائے گئے نقصان کو تسلیم کرنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کافی مدد کرنے میں نا کام رہ گئے۔ وہ اچھے اور مدد گار بننے میں ناکام رہ گئے نشہ آور چیز ایک نشے کے عادی فرد کی توجہ کے ظالمانہ اور غیور حریف ہیں۔
نشے کے عادی فرد سے کیسا رویہ اختیار کیا جائے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر صداقت علی کی یہ ویڈیو دیکھیئے۔
نشے کے عادی کے نشہ کرنے کی غلط ذمہ داری خود پر نہ لینا بہت ضروری ہے یہ ایسا ہی ہے کہ ہم تصور کر لیں کے کہ ظلم سہنے والا خود کہ رہا ہو کہ مجھ پر ظلم کروں۔ کوئی ایک شخص جس کو آپ بدل سکتے ہیں وہ صرف آپ کا اپنا آپ ہے بعض لوگو ں کے لیے یہ ایک دکھ کی بات ہے لیکن یہ خود سے وہ کانٹا دور کرنے کے لیے بہت ضروری ہے جس میں ہم دوسروں کے غلط انتخاب یا دوسروں کی لت پر چلنے کی ذمہ داری خود پر ڈال لیتے ہیں۔