نشے سے متعلقہ خدشات رسوائی اور انٹروینشن کے عمل میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔
عام طور پر نشے کے حامل افراد کے لیے ایماندار، باہمت یا صاحب بصیرت جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔ اگر ان کو موقع فراہم کیا جائے تو پھر ان میں سے بہت سے ایسا کر کے دکھاتے ہیں اور معاشرے میں ایک نئی مثال قائم کرتے ہیں۔ ایسی کامیابیاں بڑی بڑی رکاوٹوں کے باوجود سامنے آتی ہیں جیسے کہ دوبارہ سے نشے کی بیماری میں گرفتار ہو جانا جو اکثر نشے کے حامل افراد کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے جبکہ تین دہائیوں سے ان خدشات سے متعلقہ تحقیق ہمارے سامنے ہے اور نشہ سے متعلقہ کچھ عقائد تاحال باقی ہیں۔
ڈاکٹر ڈیوڈ ساک ایک امریکن ایڈکشن سائیکاٹرسٹ اور ذہنی امراض کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ وہ اپنی خدمات بطور سی۔ای۔او الیمنٹ بہیورل ہیلتھ کے طور پر سرانجام دے رہے ہیں جو کہ امریکہ میں نشے سے متعلق علاج گاہیں قائم کرتا ہے ان کو میڈیا میں بھی مہارت حاصل ہے اور یہ اپنا تجزیہ اور مہارت بہت سارے پروگراموں میں شئیر کرتے رہے ہیں۔ جیسے کہ گڈ مارننگ امریکہ، ڈیٹ لائن، این بی سی، ای نیوز وغیرہ۔ انہوں نے اپنی خدمات ہوفگٹن پوسٹ، سائیکی سنٹر اور سائیکالوجی ٹو ڈے میں بھی سرانجام دی ہیں۔
ایڈیٹر: اقرا طارق
نشے سے متعلقہ افراد کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے لوگ سزا کے مستحق ہیں۔
جن افراد کے ساتھ نشے کی بیماری کا مسئلہ ہو ان کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ بہت برے اور بد اخلاق ہوتے ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب، جوان ہو یا بوڑھا۔ نشے کے عادی افراد کے لیے بے پناہ نفرت پال لی جاتی ہے اور ان کے متعلق یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیئے۔ پھر اگر یہ اپنے آپ کو مارنا بھی چاہیں تو ان کو مارنے دینا چاہیئے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ نشے سے متعلقہ افراد ایسے بہت سارے کام کرتے ہیں جو کہ قابلِ مذمت ہوتے ہیں۔ طویل عرصے سے نشے کے متحمل افراد کے ذہن میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جو ان سے بہت سارے منفی کام کرواتی ہیں۔ جیسے چوری چکاری، جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی کرنا اور پھر یہ ان کی عادت بن جاتی ہے۔ لیکن اچھے لوگ بھی برے کام کرتے ہیں اور بیمار افراد کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ سزا کی تاکہ حالات بہتر ہو سکیں۔
نشہ کرنا ایک انتخاب ہے۔
نشے سے بحالی قوتِ ارادی کی طرح ایک عام فہم کام نہیں ہے۔ نشے کی بیماری کا انتخاب کوئی بھی اپنی مرضی سے نہیں کرتا جیسے کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا کہ وہ کینسر کی بیماری کا شکار ہوں۔ وراثت نشے کی بیماری لاحق ہونے میں کافی اہم کردار ادا کرتا ہے مگر یہ اس کا صرف پچاس فیصد حصہ ہی ہے۔ باقی کا پچاس فی صد حصے میں ماحولیاتی عوامل جیسے کہ خاندانی نشوونما اور دوست احباب کا کردار بھی پچاس فیصد میں شامل ہے۔ دماغ کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کے مطابق نشے کی بیماری کی وجہ دونوں ہی عوامل ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جو نشے کا استعمال کرتے ہیں اوردوسرے وہ لوگ ہیں جو کسی قسم کے نشے کا استعمال نہیں کرتے ان کے دماغ میں نیورو بائیولوجیکل اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جب ایک انسان نشے کا استعمال کرتا ہے تو دیر پا نشے کے استعمال سے دماغ میں واضح تبدیلیاں رونُما ہوتی ہیں جس سے روزمرہ کے معمولات میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ جیسے بے چینی محسوس ہونا، کھانا کھانے میں زیادہ مزا ملنا اور ڈرگ کے اوپر زیادہ توجہ برقرار رہتی ہے۔
لوگ عام طور پر ایک ہی ڈرگ کے نشے میں گرفتار ہوتے ہیں۔
کسی زمانے میں ہم اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ نشے کی بیماری صرف ایک خاص قسم کے نشے سے ہی ہوتی ہے اور باقی نشہ آور اشیا نشے کی بیماری کا باعث نہیں بنتیں۔ آج کل ایک سے زیادہ ڈرگز کا استعمال عام سمجھا جاتا ہے جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ کچھ لوگ ایک سے زیادہ ڈرگز کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ مزا ملے (مثال کے طور پر کوکین اور ہیروئن کا ایک ساتھ استعمال کرنا) جبکہ بعض افراد ایک سے زیادہ نشوں کا استعمال ایک نشے کے اثر کو کم کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ جیسے الکوحل کا استعمال کسی اور نشے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ دوائیوں کا استعمال بھی نشے کے طور پر کرتے ہیں اور یہ آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں۔ ایک سے زائد نشوں کا استعمال ان نوجوانوں میں عام پایا جاتا ہے جو چھوٹی عمر سے ہی نشے میں لگ جاتے ہیں۔ وہ افراد جو ایک سے زائد نشوں کا استعمال کرتے ہیں ان میں ذہنی امراض لاحق ہونے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں اور ان کو علاج میں زیادہ پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وہ افراد جو دوائیوں کا نشہ کرتے ہیں ان لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں جو غیر قانونی نشوں میں ملوث ہوں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے دوائیوں کا نشہ ایک متعدی بیماری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ دوائیں جو کہ ڈاکٹر حضرات تجویز کرتے ہیں ان نشوں کی نسبت بہتر نشہ ہیں جو کہ سڑک چھاپ لوگوں سے لیا جاتا ہے۔ ایسی تجویز شدہ دوائیاں جیسے کہ ویکوڈن، زینکس یا ایڈریل وغیرہ عام طور پر لوگ انشے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب ایک انسان تجویز شدہ دوائی کی مقدار ضرورت سے زیادہ استعمال کرتا ہے تو اس کا اثر اتنا ہی ملتا ہے جتنی مقدار میں اگر کوئی ڈرگ لیتا ہو اور پھر یہ بھی ویسے ہی ذہن پر اپنے منفی اثرات مرتب کرتی ہے جیسے کوئی اور نشہ۔ نا صرف وہ نوجوان جن کو اتنی معلومات نہیں ہوتی ہے ایسا رویہ رکھتے ہیں بلکہ ان کے والدین بھی اسی طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔ حالیہ ایک سروے جو کہ پارٹنر شپ ایٹ ڈرگ فری ڈاٹ کام نے کیا اُن کے مطابق ’’صرف چودہ فی صد والدین نے تجویز شدہ دوائیوں کا ذکر اپنے بچوں سے کیا جب وہ ڈرگ یا نشوں پر بات کر رہے تھے اور چھ میں سے ایک فیصد والدین نے یہ بھی تجویز کیا کہ ایسی دوائیاں محفوظ ہوتی ہیں بجائے ان نشوں سے جو کہ کہیں سے بھی آرام سے مل جاتی ہیں‘‘۔
علاج کا مقصد نشہ کرنے والے افراد کو ان کے صحیح مقام پر پہنچانا ہے۔
نشے سے متعلق بڑی بڑی تنظیمیں بھی ایسا ہی سوچتی ہیں کہ نشے کی بیماری دائمی بیماری ہے جیسے دل کی بیماری، شوگر یا کینسر جیسی دائمی بیماریاں ہیں۔ مگر نشے سے متاثرہ افراد کا علاج ابھی بھی ہمارے معاشرے میں دوہری شخصیت کے حامل افراد کی طرح ہی کیا جاتا ہے۔ بہت سی علاج گاہیں یہ مانتی ہیں کہ نشے سے متاثرہ افراد کو علاج کی طرف مائل کرنے کے لیے محاز آرائی یا شرم آموز طریقے ہی مناسب سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس تحقیق کے مطابق نشے کی بیماری کو بیماری کے طور پر ماننے یا لوگوں کو اس کے علاج سے روکنے میں سب سے بڑی رکاوٹ جو کسی بھی فرد کو دوبارہ سے نشے کی طرف مائل کرتی ہے وہ شرم کا پہلو ہے۔ حتیٰ کہ میڈیا کے تسلسل سے یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ شفایاب ہونے کے دو طریقے ہیں جو کہ ایک اچھا راستہ تصور کیا جاتا ہے اور ایک بُرا اور اس کا علاج جو مہنگا اور آرام دہ مانا جاتا ہے کافی بُرا تصور کیا جاتا ہے۔ ایک ہالی وُڈ رپورٹر نے حال ہی میں ایک آرٹیکل میں ہالی وڈ پروڈیوسرز، سابقہ اداکاروں، وکیلوں اور دیگر مایہ ناز کے بارے میں بتایا ہے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ اعلیٰ درجے کی علاج گاہیں ایسی سہولیات فراہم کرتی ہیں جو نقصان کا باعث بنتی ہیں اور دیگر طریقے جیسے نیورو فیڈ بیک یا ایکوئن تھراپی کا استعمال کرتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق اس طرح کے طریقے معالج اور مریض کے درمیان تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں جس سے مریض ایک لمبے عرصے تک شفایاب رہتا ہے اور اس سے علاج میں رہنے کا مواقع بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں مگر میڈیا زیادہ تر اسی طرح کے پیغامات آگے پہنچاتا ہے کہ نشے سے متاثرہ افراد ہمیشہ ہی نشے سے متاثر رہتے ہیں۔
نشے کے متعلق خدشات یا غلط فہمیاں نہ صرف نشہ کرنے والے فرد کے لیے بلکہ اس کے خاندان اور ہم سب کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ کیا ہو گا اگر تمام با اثر کاروباری حضرات، پُر تاثر فنکار، مصنفین، تاریخ دان، سیاستدان ان لوگوں کی صف میں شامل ہیں جنہوں نے نشے کی بیماری کو بہت اچھے طریقے سے کنٹرول کیا ہوا ہے اور اس سے شفایاب ہو چکے ہیں مگر شرمندگی کے پہلو کی وجہ اس مسئلے پر بات س کرنے سے قاصر ہیں اور خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ نشے کی بیماری کو ایک ذہنی بیماری تصور کرنا اور اس سے متاثرہ افراد کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ اس سے مناسب طریقے سے شفایاب ہو سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ اس طرح سے ہم اس معاشرے کے سب سے بڑے عوامی صحت کے مسئلے میں اہم کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔