یہ ایک غلط فہمی ہے کہ شراب پینا ایک عادت ہے مگر یہ عادت نہیں بلکہ ایک بیماری ہے۔ جب بھی کوئی فائدہ مند کام جو آپ بار بار کرتے رہیں اور وہ اب آپ کی سیکنڈ نیچر بن چکی ہو، اسے عادت کہا جاتا ہے۔ ہمیشہ عادت اس چیز کو بھی کہا جاتا ہے جو ہم کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں یا اسے کرنے کے انتظار میں رہتے ہیں اور اس کو کر لینے سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے۔
امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن اور امریکن سوسائٹی آف ایڈیکشن میڈیسن کی جانب سے الکوحلزم کو ایک بیماری قرار دیا گیا ہے جیسا کہ ذیابیطس، کینسر اور دل کی بیماری ہے۔ الکوحلزم خراب روئیوں، ماحول اور حیاتیاتی عناصر کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ بیماری دماغ اور جسم کے کام کاج کرنے میں تبدیلی آنے پر لاحق ہوتی ہے۔ لوگ اس وقت بہت اچھا محسوس کرتے ہیں جب اُن کی بنیادی ضروریات جیسا کہ بھوک اور پیاس پوری ہو، لیکن کچھ کیسز میں خوشی ہمیں تب بھی محسوس ہوتی ہے جب ہمارے دماغ سے کچھ کیمیائی مادوں کا اخراج ہوتا ہے۔
اقراء طارق صداقت کلینک میں بطور ماہرِ نفسیات اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے لاہور گیریژن یونیورسٹی سے اپلائیڈ سائیکالوجی میں ایم-ایس-سی کی اور ڈیفینس ڈگری کالج لاہور سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ٹرننگ پوائنٹ میں اوٹیسٹک بچوں اے-ڈی-ایچ-ڈی اور ذہنی صلاحیتوں میں کمزور بچوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ پیشہ ورانہ تھراپی، کشیدگی کے انتظام، آٹزم، آرٹ تھراپی، پوزیٹیو سائیکالوجی اور ذہنی صلاحیتوں میں مبتلا امراض سے متعلق ورکشاپ میں حصہ لے چکی ہیں۔ لاہور جنرل ہسپتال میں انہوں نے عصمہ گل کی نگرانی میں بے چینی، ڈپریشن اور کنورژن کے مریضوں کے ساتھ کام کرنے کی تربیت لی اور مختلف نفسیاتی امراض پر مبنی کلاسوں میں بھی شرکت کرتی رہی ہیں۔ وہ سکون کی مشقوں اور مشاورت میں ماہر ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ، لاہور میں منشیات اور شکیزو فرینیا کے مریضوں کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔
بالکل اسی طرح جب ہم شراب پیتے ہیں تو یہی کیمیائی مادے زیاد ہ مقدار میں خارج ہوتے ہیں جن کا تعلق خوشی کے احساسات یا انعام سے ہوتا ہے اور خوشی کے احساسات کاحد درجہ سے زیادہ ہونے کی بدولت ہمارا زندگی کی روزمرہ سرگرمیوں میں دلچسپی لینا آہستہ آہستہ کم ہو جاتا ہے اور دماغ میں پائی جانے والی یہ تبدیلیاں ایک لمبے عرصے تک قائم رہ سکتی ہیں حتیٰ کہ آپ نے شراب کا استعمال چھوڑ دیا ہو تب بھی یہ ایسی بیماری ہے جو کہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہتی ہے جیسا کہ ذیابیطس اور بلڈ پریشر کی بیماری ہے لیکن ہم اس بیماری کو پرہیز کر کے بہتر بنا سکتے ہیں۔نشے کا مریض نشے کا استعمال محض اس غلط فہمی کی بنا پر کرتا ہے کہ جب وہ چاہے نشہ چھوڑ سکتا ہے۔ جبکہ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ نشے کا استعمال جاری رکھنے سے اس کا مرض بڑھتا جائے گا۔ نشے کا مرض لکڑی کو دیمک لگ جانے کی مانند ہے۔ جس کی احتیاط نہ کی جائے تو بڑھتی جاتی ہے۔ نشے کا علاج صرف اور صرف تب ہی ممکن ہوتا ہے جب آپ اسے ایک بیماری سمجھتے ہیںَ ذیابیطس کی طرح نشے کی بیماری میں اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے، تا دیر برقرار رہتی ہے اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اور اس کے علاوہ کسی بھی عمر کے لوگ اس بیماری کی زد میں آسکتے ہیں چاہے وہ جوانی میں ہو یا بڑھاپے میں ہو۔ تاہم ابھی تک کوئی ایسا علاج ایجاد نہیں ہو سکا جو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینک سکے۔ ذیابیطس کی طرح اس مرض میں بھی پرہیز اور مخصوص اشیاء سے پرہیز شامل ہے۔ جیسے ذیابیطس کے مریض میٹھا استعمال نہیں کر سکتے۔ اسی طرح نشے کے مریض نشہ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا جسم ان کو نشہ استعمال کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا اور نہ ہی مریض کو نشہ کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔
نشے کی بیماری کی چار خصوصیات ہیں
نشے کی بیماری بنیادی ہے مطلب یہ کہ یہ بیماری کسی دوسری بیماری کے نتیجہ میں لاحق نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ بذات خود نشہ ہے۔ ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ نشے کی بیماری مجھے دل، جگر یا کسی دوسری بیماری کی وجہ سے ہوئی ہے۔ درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض کے جسم میں نشے سے نپٹنے کا نظام ناکارہ ہو گیا ہے۔
نشے کی بیماری دائمی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم علاج کے بعد مریض کو نارمل یا کم مقدار میں نشہ کرنے کے قابل نہیں بنا سکتے کیونکہ جسم میں جو خرابی اچکلی ہے وہ لکڑی کو دیمک لگ جانے کی مانند ہے لیکن اچھے طرز زندگی سے لکڑی کو مزید دیمک لگنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ نشے کی بیماری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بد سے بد تر ہوتی چلی جاتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے اگر ذیابیطس کا مریض میٹھے سے پرہیز نہ کرے تو اس کا مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نشے کی بیماری جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ نشے کے مریضوں میں حادثات اور خودکشی عام ہوتی ہے۔
یہ بات حیران کن ہے کہ جب مریض نشے کا استعمال ترک بھی کر دیں تو بھی یہ بیماری بڑھتی رہتی ہے۔ اگر کوئی مریض نشے چھوڑ دینے کے کچھ عرصے کے بعد اچھا بھلا دکھائی دینے لگے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ اب دوبارہ نشہ شروع کر سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نشے کا مریض جان بوجھ کر مریض بنتا ہے۔ کیونکہ نشہ کرنا ان کے مرضی ہوتی ہے اور یہ مرضی ان کے ساتھ ساری زندگی رہتی ہے اور وہ کبھی بھی نشہ نہیں چھوڑنا چاہتا۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ نشے کی ابتداء تو ایک جیسی ہوتی ہے لیکن انجام مختلف ہوتا ہے۔
بہت سے مریض منشیات کا استعمال اذیتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں مثلاََ جسمانی تکالیف کو کم کرنے کے لئے نشے کو بطور دوا استعمال کرتے ہیں اور یہ جسمانی تکالیف نشہ نہ ملنے کی بدولت پیدا ہوتی ہیںَ اس کے علاوہ نشے کے مریض نشے کے استعمال پر سے اختیار کھو دیتے ہیں۔ یعنی کہ ان کا اختیار نشے کی مقدار، استعمال، وقت اور جگہ پر نہیں رہتا اور وہ ان کی پرواہ کئے بغیر نشہ کر تے چلے جاتے ہیں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ الکوحلزم بیماری نہیں بلکہ انتخاب ہے کیوں کہ لوگ اس کو اپنی مرضی سے منتخب کرتے ہیں۔ ہاں پہلی دفعہ جب شراب پی جاتی ہے تو اس میں آپ کی مرضی شامل ہو سکتی ہے لیکن اس کا تعلق اس بات سے قطعاً نہیں کہ وہ جان بوجھ کر الکوحلک یا شراب نوش یا بلانوش بننا چاہتا ہے۔ سائنس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ مخصوص جینز کی بدولت یہ بیماری لاحق ہوتی ہے جیسے کہ زیابیطس کی بیماری ہے۔ مثال کے طور پر شکر کھانے والے انسان کا یہ ارادہ ہرگز نہیں ہوتا کہ مجھے آگے جا کر ذیابیطس کا مریض بننا ہے اسی طرح کوئی بھی شرابی جب پہلی بار شراب پیتا ہے تو وہ سوچتا نہیں ہے کہ میں آگے جا کر شرابی بنوں گا لیکن آہستہ آہستہ اس کے جسم میں ایسی تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے جو اسے پتہ نہیں لگ پاتی۔ جب انسان پہلی دفعہ شراب پیتا ہے تب اس کے دماغ میں الکوحل کیلئے مقام تیار ہو جاتے ہیں اور یہ شراب کا استعمال زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ عام انسان میں یہ مقام نکال دینے کی طاقت موجود ہوتی ہے لیکن جس انسان میں وراثتی کمی ہو اس میں یہ ’’نشے کے مقام‘‘ نکال دینے کا کھیل بہت دھیمہ ہوتا ہے جس کی بدولت اس کے دماغ میں ’’نشے کے مقام‘‘ تعداد میں بڑھنا شروع وہ جاتے ہیں اور پھر ان کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے تو پھر یہی نشے کے مقام کہتے ہیں کہ ہمیں شراب چاہیئے
کسی بھی حالت میں میرا مطالبہ پورا کرو “عید آئی ہے عیدی چاہیئے” اور یہ عیدی شراب ہے اور پھر آپ کو اپنی مالی حالت، صحت، آپ کے گھر میں کوئی بیمار ہے یا پریشان ہے آپ کو فکر ہی نہیں رہتی۔ اس وقت صرف اور صرف مطالبے کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ یہ جسمانی خرابی ہے جو شراب پینے والوں میں سے 10 فیصد لوگوں کے جسم میں خود بخود واقع ہوتی ہے۔ شراب کے مریضوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ ان کے جسم میں کیا تبدیلی آ رہی ہے اور جب بائیولوجی میں تبدیلی آتی ہے جیسے کولیسٹرول زیادہ ہو جاتا ہے،، شوگر بے قابو ہو جاتی ہے جیسے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ ان سب کے لئے ایک نظام موجود ہے اور ہمارے جسم میں جس چیز سے متعلقہ نظام نہ ہو تو وہ چیز ہم ہضم نہیں کر سکتے مثلاََ ہم گھاس نہیں کھا سکتے کیونکہ ہمارے جسم میں گھاس سے نمٹنے کا نظام ہی نہیں ہے اسی طرح بکرے گوشت نہیں کھا سکتے کیونکہ ان کے جسم کے اندر گوشت سے نمٹنے کا نظام موجود نہیں۔ لیکن ہمارے جسم کے اندر شراب سے نمٹنے کا نظام موجود ہے اور بہت وسیع ہے اور جب شراب کو پراسس کرتا ہے اور ہماری سکون ملنے کی خواہش کو پورا کرتا ہے اور جب اس پراسس میں خرابی آجاتی ہے تو ہم بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
وگ ڈرنک ہونے میں فخر محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ شراب پینے سے ہوش میں رہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اگر کوئی ڈرنک ہو بھی تو وہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ میں ڈرنک ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جو لوگ ارادے سے کرتے ہیں۔ جب انسان کے دماغ میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے تو بہت سے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ انسان اپنے روئیوں پر سے اختیار کھونا شروع کر دیتا ہے اور کوئی بھی بیماری چاہے وہ ذیابیطس کی بیماری ہے یا دل کی بیماری ہے اس میں ہماری خوراک اور ورزش کا بہت عمل ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہ بیماری بھی ایسے ہی انتخاب کا نتیجہ ہے ۔ الکوحلزم کی بیماری میں ہمارا دماغ بالکل ایسے ہی کام کرنا شروع کر دیتا ہے جیسا کہ ذیابیطس کی بیماری میں لبلبہ کرتا ہے۔
س) یہ کیسے پتا چلے کہ میں شرابی ہوں؟
اس کے لئے آپ کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے ۔
پہلا سوال یہ کہ آپ کے خاندان میں سے یا کسی دوست نے آپ کو یہ تو نہیں بولا کہ آپ کی شراب زیادہ ہو رہی ہے اسکو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا سوال یہ کہ جب لوگ آپ کو یہ کہتے ہیں کہ آپ کو شراب کا استعمال کم کر دینا چاہئے تو تب کیا آپ کو غصہ آجاتا ہے کہ ’’یار میں اپنے پیسے کی کمائی سے پیتا ہوں تمہیں کیا مسئلہ ہے
تیسری بات یہ ہے کہ شراب پینے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شراب زیادہ پی لی ہے اور شرمندگی محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔
دن شروع کرنے کے لئے آپ کو شراب کی ضرورت محسوس ہو، آپ صبح اٹھیں، ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں، توجہ نہیں دے پا رہے۔ شراب پی، اچھا لگا اور دن شروع ہو گیا۔ اگر ان سوالوں کے جواب ہاں ہیں تو پھر آپ کا شراب پینا خطرے سے خالی نہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ بیماری ہے تو پھر میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اگر ہمیں کوئی بیماری ہو تو علاج تو کروانا پڑتا ہے۔ یہ بیماری ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میری ذمہ داری ہی ختم ہو گئی ہے، بلکہ مجھے یہ سوچنا چاہیئے کہ میری ذمہ داری ابھی شروع ہوئی ہے۔ الکوحلزم میں رکا رہنا مسئلہ نہیں ہے بلکہ رکے رہنا مسئلہ ہے اور یہ رکے رہنے کے لئے الکوحلک انانمس ایک پروگرام ہے جو کہ پوری دنیا میں موجود ہے اس کی بدولت تیس لاکھ سوبر ممبرز ہیں اور اپنے ملک میں چالیس ہزار سے زیادہ سوبر ممبرز موجود ہیں۔ اس پروگرام کے تحت اس لت میں مبتلا لوگ باہر نکل پائے ہیں۔ آپ کے من میں صرف یہ خواہش ہونی چاہیئے کہ مجھے شراب سے دور رہنا ہے۔