چرس استعمال کرنے والے بہت سے لوگ اسے ایک ایسی بے ضرر شے سمجھتے ہیں جو پرسکون رہنے میں مدد دیتی ہے، ایک ایسی نشہ آور شے جو شراب اور سگریٹ کے برعکس جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے اچھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ایسے افراد جو جینیاتی طور پر خطرے سے دوچار ہوں ان میں یہ کسی نفسیاتی بیماری کا اہم سبب بن سکتی ہے۔
شہزاد رحمت صداقت کلینک لاہور میں اپنی خدمات ’’اسسٹنٹ ٹو ڈائریکٹرکے طور پر سرانجام دے رہے ہیں وہ گریجویشن کے بعد 1998 میں صداقت کلینک سے منسلک ہوئے اور آج بھی یہاں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
وہ مریضوں کے ساتھ نشے کی بیماری (Disease Concept) ریلیپس (Relapse) ،ریکوری (Recovery) اور نارکوٹک انانومس کے بارہ قدم پروگرام(12-Step) کے موضوعات پر گروپ کاؤنسلنگ اور سیشن بھی کرتے ہیں۔
یہ مضمون چرس کے استعمال کے اثرات اور ذہنی صحت پر ہونے والی تحقیق کے بارے میں ہے اور ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس مسئلے کے بارے میں فکرمند ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ لوگوں کو اس مضمون سے چرس استعمال کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی۔
کینابس سٹیوا اور کینابس انڈیکا نیٹل نامی پودوں کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو صدیوں سے دنیا بھر میں جنگلی پودے کے طور پر اگ رہا ہے۔ دونوں پودے کئی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں مثلاً اس کا ریشہ رسی اور کپڑا بنانے، ایک طبی جڑی بوٹی اور ایک مقبول تفریحی نشے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس پودے کا عرق کتھئئ یا کالے رنگ کی کشمش کی طرح ہوتا ہے جسے بھنگ، گانجا، حشیش وغیرہ کہتے ہیں۔ جبکہ اس کے سوکھے ہوئے پتے گراس، ماری جوانا، ویڈ وغیرہ کہلاتے ہیں۔
اسکنک چرس کی وہ نسبتاً طاقتور قسم ہے جو اس میں ذہن پر اثرات ڈالنے والے طاقتور مادوں کے لیے خاص طور پر اگائی جاتی ہے۔ اس کو یہ نام اس تیز چبھنے والی بو کی وجہ سے دیا گیا ہے جو یہ اگنے کے دوران خارج کرتی ہے۔ چرس کی اور بھی سیکڑوں دیگر اقسام موجود ہیں جن کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔
عام چرس نشے کی شدت کے حساب سے بہت سی اقسام میں پائی جاتی ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کسی خاص موقع پر کون سی قسم استعمال کی جا رہی ہے۔
چرس پینے سےاس کے نصف سے زائد نفسیاتی اثرات پیدا کرنے والے اجزا خون میں جذب ہو جاتے ہیں۔ یہ مرکبات پورے جسم کی چربیلی نسیجوں میں جمع ہو جاتے ہیں اس لیے پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج ہونے میں انھیں بہت وقت لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چرس کی شناخت اس کے استعمال کے چھپن دن بعد بھی کی جا سکتی ہے۔
انگلینڈ کی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق 95 فیصد ذہنی امراض میں مبتلا لوگ شراب کے عادی ہوتے ہیں فرانس کے وزیر صحت نے شراب سے مرنے والوں کی تعداد جب نشر کی تو اخباروں نے کہا کہ یہ تعداد جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ اس نشریہ میں بتایا گیا ہے کہ شراب کا کثرت سے استعمال اموات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے اور ان میں مرنے والوں کی تعداد بیس ہزار تھی۔ شراب کے سلسلے میں بین الاقوامی کمیٹی کے چئیرمین نے بتایا کہ فرانس میں 25 فیصد کار سے ہونے والے حادثات اور 57 فیصد موٹروں کے حادثات الکوحل کی کثرت استعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
1870ء میں شراب خوری کے نتیجے میں جو جانی و مالی نقصان ہوا تھا وہ اس جنگ سے ہونے والے نقصانات سے کہیں زیادہ تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک جو شراب لذت اور مزے کے طور پر لی جاتی ہے، وہی ان کے لئے زہر قاتل ہے۔ یہ ان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے۔ ان کی آدھی عمر کو برباد کر دیتی ہے ان کے بدن پر کمزوریوں اور بیماریوں کے مسلسل حملے ہونے لگتے ہیں۔ فرانس کے اسپتالوں میں 40 فیصد بیماریوں کو شراب نوشی کا نتیجہ بتایا جاتا ہے۔ نرسنگ ہومز کے 50 فیصد ذہنی مریض نشہ آور چیزوں کے استعمال سے ذہنی امراض شکار ہوتے ہيں۔ فرانس کے بچوں کے اسپتالوں میں بھی 50 فیصد بچوں کی بیماری ان کے ماں باپ کے شراب کے عادی ہونے کی وجہ سے ہے۔
فرانس کی عدالتوں کا 60 فیصد خرچ شراب سے متعلق ہوتا ہے۔ حکومت فرانس کے خزانوں پر ہر سال اسپتالوں، نرسنگ ہومز، بینکوں کی وجہ سے 325 یورو کا نقصان شراب کے استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔
شراب نوشی، کثرت سے انسانی اموات کا سبب بنتی ہے۔ مردوں میں 55 فیصد عورتوں میں 30 فیصد اموت شراب نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ 95 فیصد بچوں کے قاتل شراب کےعادی ہوتے ہيں۔ 60 فیصد ناکارہ و بدکار جوان شراب کےعادی والدین سے پیدا ہوتے ہیں۔ مختلف ملکوں کے مخصوص نمائندگان کی تحقیقاتی کمیٹی نے اعلان کیا، اقتصادی لحاظ سے بھی شراب کے نتائج خطرناک ہیں تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ (شخصی نقصانات کے علاوہ) 128 یورو کا خرچ حکومت پر پڑتا ہے۔ اس طرح اسپتالوں پر دس یورو، تعاون پر 40 یورو، عدالتوں و قیدخانوں پر 60 یورو، پولیس پر 17 یورو، اس کے علاوہ بھی حکومت کے خزانے پر 11 یورو کا خرچ آتا ہے جو خام انگور کے مصرف سے کم ہو جاتا ہے اور شراب کے فروخت سے صرف 53 ملین یورو کی آمدنی فرانس کو ہوتی ہے آپ خود سوچئے، حکومت کو اقتصادی لحاظ سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔
چند روز قبل روس میں شراب خوری کی روک تھام کے لئے شدید اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ اقدام روس میں بڑھتی ہوئی شراب خوری کے اثرات کو دور کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شراب نوشی ہیروئن سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس رپورٹ کے لکھنے والوں میں پروفیسر ڈیوڈنٹ بھی شامل ہیں جنہیں اکتوبر 2009 میں حکومت نے برخاست کر دیا تھا۔ رپورٹ میں بیس قسم کی منشیات کے استعمال کے نقصانات بتائے گئے ہیں۔ جن میں تمباکو اور کوکین کے نقصانات بالکل ایک جیسے ہیں۔ جبکہ ایسٹیسی اور ایل ایس ڈی کے نقصانات نسبتاً ان سے کم ہیں۔ پروفیسر نٹ نے اپنے سرکاری عہدے سے برخاست ہونے کے بعد بھی منشیات کے موضوع پر کام بند نہیں کیا۔ انہوں نے منشیات پر ایک آزاد سائینٹفک کمیٹی بنائی اس کمیٹی نے ہر قسم کی منشیات کے جسمانی اور ذہنی نقصانات کے ساتھ ساتھ اس کے عادی ہونے، اس سے متعلق جرائم اور معیشت پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ پیش کیا۔ تحقیق کے بعد سامنے آیا کہ ہیروئن، کوکین اور میتھائل ایمفیائن لوگوں کے لیے بہت نقصان دہ ہیں۔ لیکن شراب، ہیروئن اور کوکین سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جب دونوں طرح کے نشے کے نقصانات کو یکجا کیا گیا تو سب سے زیادہ نقصانات شراب کے سامنے آئے جبکہ ہیروئن اور کوکین کا نمبر شراب کے بعد آیا۔
اس بات کے قوی شواہد موجود ہیں کہ ایسے افراد جو ذہنی بیماریوں مثلاً ڈپریشن اور سائیکوسس میں مبتلا ہوں ان میں چرس کے حالیہ یا ماضی میں استعمال کا امکان اور لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ چرس کے باقاعدہ استعمال سے سائیکوسس یا شیزوفرینیا کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ چرس ڈپریشن اور شیزوفرینیا کا سبب بن سکتی ہے یا ان مسائل کا شکار افراد اس کو بطور دوا استعمال کرتے ہیں۔
پچھلے چند سالوں میں ہونے والی تحقیق نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جینیاتی طور پر متاثرہ افراد میں چرس کے استعمال اور بعد میں ہونے والے ذہنی صحت کے مسائل میں واضح تعلق پایا جاتا ہے اور یہ کہ نوجوان لوگوں میں چرس کے استعمال کے حوالے سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد پر کئی سالوں تک تین اہم تحقیقات کی گئیں جن سے پتہ چلا کہ چرس کا استعمال کرنے والے افراد میں شیزوفرینیا ہونے کے امکانات دوسرے لوگوں سے زیادہ ہیں۔ اگر آپ پندرہ سال کی عمر سے پہلے اس کا استعمال شروع کر دیں تو چھبیس سال کی عمر تک پہنچنے تک آپ میں سائیکوسس ہونے کے امکانات چار گنا زیادہ ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی شخص چرس کی جتنی زیادہ مقدار استعمال کرے گا اتنا ہی اس میں یہ علامات پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہو گا۔
نوعمر افراد کو چرس کے استعمال سے نقصان پہنچنے کا خصوصاً زیادہ احتمال ہوتا ہے اس کا تعلق دماغی نشوونما سے ہو سکتا ہے۔ نوعمری میں بھی بیس سال کی عمر تک دماغ کی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے اور ‘نیورل پروننگ’ کا غیرمعمولی عمل جاری ہوتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے برقی سرکٹوں کے ایک پیچیدہ ہجوم کو ترتیب دیا جائے تاکہ وہ زیادہ موثر طریقے سے کام کر سکیں۔ ایسا کوئی بھی تجربہ یا مادہ جو اس عمل کو متاثر کرے طویل مدتی نفسیاتی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔
یورپ اور یو-کے میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وہ افراد جن کے خاندان میں دماغی بیماریاں رہی ہوں اور جن کو جینیاتی طور پر ان مسائل کا زیادہ احتمال ہو اگر وہ چرس کا استعمال کریں تو ان میں شیزوفرینیا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈنمارک میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ چرس کے استعمال سے واقعی سائیکوسس ہو سکتا ہے۔ یہ ایک مختصر مدت کی سائیکوسس کی بیماری ہوتی ہے جو چرس کے استعمال سے شروع ہو جاتی ہے تاہم اگر اس کا استعمال روک دیا جائے تو بہت جلدی ختم بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ بیماری بہت کم ہوتی ہے، پورے ڈنمارک میں ایک سال میں اس کے صرف سو نئے کیسز نظر آتے ہیں۔
چرس میں نشے کی عادی بنانے والی اشیا کی کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں مثلاً ٹولرنس یعنی وہی سرور حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت کے بعد زیادہ مقدار میں چرس استعمال کرنے کی ضرورت پڑنے لگنا۔ شدید طلب، بھوک میں کمی، نیند کی خرابی، وزن میں کمی، جارحیت اور / یا غصہ، چڑچڑا پن، بے چینی، عجیب و غریب خواب وغیرہ ہیں۔ چرس کا استعمال ۱۵ فیصد لوگوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے لیکن جس کو یہ موافق نہیں آتی اس پر بہت برا اثر ڈالتی ہے۔
چرس کی بیماری میں مبتلا شخص کو باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے جو کے ان ڈور بنیادوں پر کیا جاتا ہے جس کے لیے ڈاکٹر اور سائکالوجسٹ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ علاج کے لیے کسی اچھی علاج گاہ کا انتخاب بہت ضروری ہے ۔