نشے کی طلب
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دراصل نشے کی بیماری دو قسم کی ہوتی ہے۔ پہلی قسم میں وہ افراد جن افراد کے جسم کے اندرونی نظام جیسے کہ جگر، نشے کے اثرات کو قبول نہیں کرتا اور نشے کو ضائع کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے نشہ کرنے والے کی طلب نہیں ہوتی اور وہ تسکین کے حصول کیلئے نشے کی مقدار بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
اخلاقی بگاڑ
گزرے وقتوں نشے کو صرف اخلاقی بگاڑ کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب اکثریت مان چکی ہے کہ نشہ ایک بیماری ہے۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے لیکن یہ کہہ دینا کافی نہیں، جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر نشہ تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن وہ سب نشے کی بیماری کا شکار نہیں ہوتے، نہ ان سب کو مریض کہا جا سکتا ہے۔
پرلطف نشہ
نشے کا آغاز زیادہ تر نشہ کرنے والوں کی صحبت سے ہوتا ہے۔ اسے عام طور پرلطف اٹھانے، تھکن بھگانے اور چستی لانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ بے سکونی، نشے کا ماحول اور آسان دستیابی بھی اس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ گھریلو ناچاقی، ڈپریشن، عشق میں ناکامی، خرابی صحت، جنسی کمزوری، بے روز گاری، بوریت اور ٹینشن بھی اس کی وجہ بنتے ہیں۔
نشے سے الرجک
دوسری قسم میں جسم نشے کو زہریلا بنا دیتا ہے۔ جس سے مریض کی مت ماری جاتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ مریض کا جسم ایک طرح سے نشے سے الرجک ہو جاتا ہے یعنی نشہ کے معاملے میں جسم نارمل ردعمل ظاہر نہیں کرتا نارمل ردعمل یہ ہے کہ کوئی جتنا نشہ کرے اس پر اتنا ہی اثر ہو۔ لیکن نشہ کی بیماری لاحق ہو جائے تو نشہ اپنا اثر کھو دیتا ہے۔ اس موقع پر مریض سمجھتا ہے کہ نشے میں کوئی نقص ہے لہذٰا وہ زیادہ سے زیادہ نشہ کرتا ہے حالانکہ نقص اس کے جسم میں ہوتا ہے۔
مثبت اثرات
ہم دیکھتے ہیں کہ آغاز میں ہر نشہ انسانی جسم اپنے مثبت اثرات پر مرتب کرتا ہے۔ اس کو شروع کرنے کی وجہ بھی عموماً وہی ہوتی ہے، جیسا کی شراب کی خاص خوبی سکون دینا ہے۔ کوکین جسم کو متحرک کرتی ہے۔ ہیروئین درد ختم کرنے میں اپنا کردارثانی نہیں رکھتی اور چرس خیالات اور نظریات بدل دیتی ہے۔
غمی و خوشی
یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ دنیا میں نشہ کرنے والوں کی جتنی تعداد ہے اتنی ہی نشہ شروع کرنے کی وجوہات ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ نشے کا استعمال پھولوں کی طرح غمی و خوشی ہر موقع پر کرتے ہیں۔ لیکن جو بات یاد کرنے کی ہے وہ یہ کہ نشہ کی ابتدا تو ایک جیسی ہو سکتی ہے لیکن اس کا انجام مختلف ہوتا ہے۔
مکمل بربادی
عام طور پردیکھنے میں آیا ہے کہ مکمل بربادی سے پہلے مریض کو اپنی بیماری کا اتنا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ وہ تو چلیں نشے کے اثر ہوتا ہے، اس کا خاندان بھی ٹوٹکوں (تعویذ، دھاگے، وعدے لینا، قسمیں دینا، طعن و تشنیع، نگرانی، مارپیٹ، رسیوں سے جکڑنا، کاروبار اور گھر سے بے دخل کرنا، عاق کرنا وغیرہ) کا سہارا لینے کو ہی کافی سمجھتا ہے۔
نشے کی بیماری
لیکن واضح رہے کہ منشیات کے یہ فائدے نشے کی بیماری میں خاصل نہیں ہوتے۔ یوں سمجھ لیں کہ نشہ کی بیماری میں یہ خصوصیات زنگ آلود ہوجاتی ہیں۔ پھر نشہ اور اس کی خصوصیات مریض کیلئے سراب بن جاتے ہیں اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتا رہ جاتا ہے۔
پل پل آنے والی تبدیلیاں
جیسے کہ دوسری بیماریوں میں قے، بخار وغیرہ۔ اس طرح مریض کی خود قریبی، مزاج کا اتار چڑھائو، روئیے میں پل پل آنے والی تبدیلیاں، جھوٹ، دھوکہ، بھلکڑپن اور فرائض سے لاپرواہی بھی اس بیماری کی چند علامتیں ہیں۔
اخلاقی پیمانہ
تاہم نشے کی بیماری کے بارے میں معلومات ہوں تو اس بیماری پر ابتدا میں ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ نشے کی بیماری میں مریض سے ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں جنہیں اخلاقی پیمانے پرگھٹیا اور مجرمانہ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ نشے کی بیماری کی علامت ہیں۔