ہمارے معاشرے میں شراب کو بہت ہی منفی اور غلط چیز تصور کیا جاتا رہا ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے پھر بھی لوگ اس کے رسیا ہیں پوری دنیا میں لاتعداد قسم کی مسلسل خرابیاں ہیں جو روح، مذہب، افراد اور معاشرے کو نقصان پہنچا رہی ہیں ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی عقلمند ان برائیوں سے انکار نہیں کر سکتا۔ کوئی ایسا سال نہیں گذرتا جس میں شراب کے شوقین ہزاروں کی تعداد میں اسپتال نہ پہنچتے ہوں اور ہزاروں افراد قتل، خود کشی، خیانت، چوری، رسوائی جیسے عظیم جرائم کا ارتکاب نہ کر گزرتے ہوں۔
شہزاد رحمت صداقت کلینک لاہور میں اپنی خدمات ’’اسسٹنٹ ٹو ڈائریکٹرکے طور پر سرانجام دے رہے ہیں وہ گریجویشن کے بعد 1998 میں صداقت کلینک سے منسلک ہوئے اور آج بھی یہاں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
وہ مریضوں کے ساتھ نشے کی بیماری (Disease Concept) ریلیپس (Relapse) ،ریکوری (Recovery) اور نارکوٹک انانومس کے بارہ قدم پروگرام(12-Step) کے موضوعات پر گروپ کاؤنسلنگ اور سیشن بھی کرتے ہیں۔
بہت سے افراد کا نظریہ ہے کہ شراب پینے سے رنج و غم سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت اس طرح یہ لوگ زندگی کی مشقتوں اور سختیوں کے مقابلے میں اپنا اعتراف شکست و ناتوانی کرتے ہیں اور زندگی کی نامناسب سختیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ جب بھی نامناسب حالات اور مشکل زندگی کی وحشت انگیز صدا ان کے کانوں سے ٹکراتی ہے یہ شراب نوشی کی پناہ لینے لگتے ہیں تاکہ زندگی کے ان غموں سے عالم خیال میں ہی سہی کچھ دیر کے لئے سکون تو مل جائے۔
یہ بہانے جن کی بنا پر انسان عیاشی کی طرف مائل ہوتا ہے ان سے شراب خواری کا جواز نہیں ثابت ہو سکتا۔ جام و شراب کا وجود ہی معاشرے کے بیمار ہونے کی دلیل ہے اور یہ ایسی جان لیوا بیماری ہے جس کا حل مکمل علاج کے بغیر ممکن نہیں ہے عقل مند انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ علم و دانش سے سرشار ہو، نہ کہ شراب اور دوسری قباحتوں سے ٹکرائے۔ جس کا نتیجہ دیوانگی اور بیماری کی طرف لے جاتا ہے۔
شراب نوشی کی کثرت نے معاشرے کے رہبروں اور دانش مندوں کو وحشت زدہ کر دیا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت سی انجمنیں بنائی گئی ہیں، لیکن ایسی موذی بیماریوں کا علاج اس قسم کی انجمنوں کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اس بات کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں متحرک اور نوجوان طبقہ شراب خوروں میں نہ بدل جائے۔ ذیل کے اعداد و شمار بد بختی کی روشن مثالوں میں سے ایک ہیں۔ بین الاقوامی چوبیسویں کانفرنس کے طبعی ماہرین کی تحقیقات کے مطابق فرانس میں شراب نے مندرجہ ذیل افراد کے کو متاثر کیا۔
اسپتالوں میں داخل ہونے والی عورتوں میں 20 فیصد اور مردوں میں 60 فیصد شراب کے عادی تھے۔ 70 فیصد ذہنی اور 40 فیصد بیماروں میں شراب کی آمیزش تھی۔
انگلینڈ کی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق 95 فیصد ذہنی امراض میں مبتلا لوگ شراب کے عادی ہوتے ہیں فرانس کے وزیر صحت نے شراب سے مرنے والوں کی تعداد جب نشر کی تو اخباروں نے کہا کہ یہ تعداد جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ اس نشریہ میں بتایا گیا ہے کہ شراب کا کثرت سے استعمال اموات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے اور ان میں مرنے والوں کی تعداد بیس ہزار تھی۔ شراب کے سلسلے میں بین الاقوامی کمیٹی کے چئیرمین نے بتایا کہ فرانس میں 25 فیصد کار سے ہونے والے حادثات اور 57 فیصد موٹروں کے حادثات الکوحل کی کثرت استعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
1870ء میں شراب خوری کے نتیجے میں جو جانی و مالی نقصان ہوا تھا وہ اس جنگ سے ہونے والے نقصانات سے کہیں زیادہ تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک جو شراب لذت اور مزے کے طور پر لی جاتی ہے، وہی ان کے لئے زہر قاتل ہے۔ یہ ان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے۔ ان کی آدھی عمر کو برباد کر دیتی ہے ان کے بدن پر کمزوریوں اور بیماریوں کے مسلسل حملے ہونے لگتے ہیں۔ فرانس کے اسپتالوں میں 40 فیصد بیماریوں کو شراب نوشی کا نتیجہ بتایا جاتا ہے۔ نرسنگ ہومز کے 50 فیصد ذہنی مریض نشہ آور چیزوں کے استعمال سے ذہنی امراض شکار ہوتے ہيں۔ فرانس کے بچوں کے اسپتالوں میں بھی 50 فیصد بچوں کی بیماری ان کے ماں باپ کے شراب کے عادی ہونے کی وجہ سے ہے۔
فرانس کی عدالتوں کا 60 فیصد خرچ شراب سے متعلق ہوتا ہے۔ حکومت فرانس کے خزانوں پر ہر سال اسپتالوں، نرسنگ ہومز، بینکوں کی وجہ سے 325 یورو کا نقصان شراب کے استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔
شراب نوشی، کثرت سے انسانی اموات کا سبب بنتی ہے۔ مردوں میں 55 فیصد عورتوں میں 30 فیصد اموت شراب نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ 95 فیصد بچوں کے قاتل شراب کےعادی ہوتے ہيں۔ 60 فیصد ناکارہ و بدکار جوان شراب کےعادی والدین سے پیدا ہوتے ہیں۔ مختلف ملکوں کے مخصوص نمائندگان کی تحقیقاتی کمیٹی نے اعلان کیا، اقتصادی لحاظ سے بھی شراب کے نتائج خطرناک ہیں تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ (شخصی نقصانات کے علاوہ) 128 یورو کا خرچ حکومت پر پڑتا ہے۔ اس طرح اسپتالوں پر دس یورو، تعاون پر 40 یورو، عدالتوں و قیدخانوں پر 60 یورو، پولیس پر 17 یورو، اس کے علاوہ بھی حکومت کے خزانے پر 11 یورو کا خرچ آتا ہے جو خام انگور کے مصرف سے کم ہو جاتا ہے اور شراب کے فروخت سے صرف 53 ملین یورو کی آمدنی فرانس کو ہوتی ہے آپ خود سوچئے، حکومت کو اقتصادی لحاظ سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔
چند روز قبل روس میں شراب خوری کی روک تھام کے لئے شدید اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ اقدام روس میں بڑھتی ہوئی شراب خوری کے اثرات کو دور کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شراب نوشی ہیروئن سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس رپورٹ کے لکھنے والوں میں پروفیسر ڈیوڈنٹ بھی شامل ہیں جنہیں اکتوبر 2009 میں حکومت نے برخاست کر دیا تھا۔ رپورٹ میں بیس قسم کی منشیات کے استعمال کے نقصانات بتائے گئے ہیں۔ جن میں تمباکو اور کوکین کے نقصانات بالکل ایک جیسے ہیں۔ جبکہ ایسٹیسی اور ایل ایس ڈی کے نقصانات نسبتاً ان سے کم ہیں۔ پروفیسر نٹ نے اپنے سرکاری عہدے سے برخاست ہونے کے بعد بھی منشیات کے موضوع پر کام بند نہیں کیا۔ انہوں نے منشیات پر ایک آزاد سائینٹفک کمیٹی بنائی اس کمیٹی نے ہر قسم کی منشیات کے جسمانی اور ذہنی نقصانات کے ساتھ ساتھ اس کے عادی ہونے، اس سے متعلق جرائم اور معیشت پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ پیش کیا۔ تحقیق کے بعد سامنے آیا کہ ہیروئن، کوکین اور میتھائل ایمفیائن لوگوں کے لیے بہت نقصان دہ ہیں۔ لیکن شراب، ہیروئن اور کوکین سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جب دونوں طرح کے نشے کے نقصانات کو یکجا کیا گیا تو سب سے زیادہ نقصانات شراب کے سامنے آئے جبکہ ہیروئن اور کوکین کا نمبر شراب کے بعد آیا۔
موجودہ سائنسی اور طبی انکشافات نے شراب کے اتنے زیادہ نقصانات بتائے ہیں کہ لگتا ہے کہ اس کی ایک بوند بھی زہر ہے۔ فرحت بخشنے، سردی اور زکام سے بچانے کی شراب، کی خصوصیت صرف خیالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شراب نوشی سے جسم کا پورا دفاعی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔ معدہ، گردے اور دماغ کے خلیوں میں ورم پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مختلف خطرناک امراض ابھر آتے ہیں۔ جگر اس حد تک متاثر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا کام بند کر دیتا ہے جس کو لیورسروسس کہتے ہیں۔ یہ زیادہ تر مہلک ہوتا ہے۔ اعصابی تناؤ کے علاوہ شراب کا استعمال جنسی کمزوری بھی پیدا کرتا ہے۔ دل اور پھیپھڑوں کے امراض پر دواؤں کے ذریعے قابو پانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مریض شراب کا استعمال یک لخت بند نہ کر دے۔ دوسری نشہ آور اشیاء کی طرح شراب میں بھی انسان کو اس کا عادی بنا دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے عادی لوگ الکوہلک کہلاتے ہیں۔ جو موجودہ طبی سائنس کے اعتبار سے ایک جان لیوا مرض ہے بالکل اسی طرح جس طرح حشیش اور بھانگ کے عادی موت کے قریب آ جاتے ہیں۔
شراب کی بیماری ایک بنیادی، ہمیشہ ساتھ رہنی والی، مسلسل بڑھنے والی اور جان لیوا بیماری ہے مگر بہت سے لوگ اسے بیماری مانتے ہی نہیں اور وہ اس بیماری کے ہاتھوں اپنی جان سے جاتے ہیں۔ شراب کی بیماری ہمیشہ رہنے والی ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اس بیماری کا علاج کروا کے دوبارہ سے اس کا استعمال نہیں کر سکتا۔ اس بیماری میں ایک میٹا بولک ایرر ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے جسم میں شراب پینے کے بعد زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں جو طلب کا سبب بنتے ہیں اور نہ ملنے پر غصہ، بے چینی اور گھبراہٹ وغیرہ جیسی مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
الکوحل کی بیماری کو انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا بنا دیتی ہے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور وہ صحیح سے فیصلے نہیں کر پاتا شراب نوشی کے عادی شخص کو جب شراب نہیں ملتی تو وہ بے چینی محسوس کرتا ہے خود سے باتیں کرتا سنائی دیتا ہے اس طرح کے مریض کو مکمل علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور علاج میں مکمل نگہداشت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ علاج کے دوران مریض کو اس بیماری کے حوالے سے مکمل معلومات اور اس بیماری سے بچنے کے حوالے سے مکمل ٹریننگ دی جاتی ہے کیونکہ یہ بیماری مکمل ٹھیک نہیں ہو سکتی مگر اس کو مینج کیا جا سکتا ہے جس کے لیے اس بیماری کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے مریض اس مرض کے بارے میں مکمل آگاہی اور ٹریننگ کے بعد نارمل زندگی گذار سکتا ہے۔ جس طرح ذیابیطس کی بیماری ہو جانے کے بعد پوری زندگی اسکو مینج کرنا ہوتا ہے، اسی طرح شراب کی بیماری کو بھی پوری زندگی مینج کرنا ہوتا ہے، جو کہ مکمل علاج کے ساتھ ہی ممکن ہے۔