لنک-10
لنک-10
آسماں سے گِرا ،کھجور میں
بے یقینی کی کیفیت میں لٹکے رہنے کا بھی الگ ہی مزہ ہے
پپو ایک چوراہے پر پہنچ کر بند جنرل سٹور کے تھڑے پر بیٹھ جاتا ہے اور پریشانی کے عالم میں سوچ و بچار کرنے لگتا ہے۔ گاڑیاں چیختی چنگھاڑتی ہوئی اس کے پاس سے گزر جاتی ہیں۔ اُس کے تخیل میں عجیب و غریب لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ٹریفک کی سُرخ، پیلی اور سبز بتیاں اُس کے ذہن پر سوار ہو جاتی ہیں۔ پپو اپنے دماغ کی پردہ سکرین پر دیکھتا ہے کہ ایک بلی چوہے کے بچے کو پکڑ کر فخریہ انداز میں باورچی خانہ کے فرش پر چھوڑ دیتی ہے، پھر پکڑتی ہے اور چھوڑ دیتی ہے، وہ ابھی تک زندہ ہے اور پریشان اور ڈر سے کانپتا ہوا نڈھال پڑا ہے۔ بھوک کی وجہ سے پپو کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ پپو سوچتا ہے کہ اُس نے کبھی غذا کو نشے کے طور پر نہیں لیا تھا لیکن اب اس کے ذہن میں ایسے لوگوں کا تصور آرہا تھا جو کھانا چھن جانے کی صورت میں ایک نشے کے عادی شخص کی طرح اُسے واپس حاصل کرنے کیلئے چھینا جھپٹی کرنے لگتے ہیں لیکن میں کیا کرسکتا ہوں؟ پپو پریشان اور مفلوک الحال محسوس کرتا ہے۔ پھرپپو سوچتا ہے کہ گھر سے بھاگ جانا بہت سی قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے اور آخر وہ آزادی مل جاتی ہے جو کہ گھر پر میسر نہیں تھی۔ اب مجھ سے کوئی بھی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں ہے اور اب مجھے حساب کے مشکل سوالات بھی حل نہیں کرنے پڑیں گے۔
’’کسی چیز کی ضرورت؟ تمہیں بھوک لگی ہوئی ہے؟‘‘ پپو سے تھوڑی سی عمر میں بڑا نوجوان پوچھتا ہے۔
’’نہیں، مہربانی‘‘ پپو اپنی خیالوں کی دُنیا سے باہر آتے ہوئے حیرت بھرے لہجے میں جواب دیتا ہے۔
’’اوہ! کوئی نشہ آور گولیاں؟‘‘ وہ پپو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر پوچھتا ہے۔
وہ شخص ہتھیلی کھولتا ہے جس میں نشہ آور گولیوں کاپیکٹ ہوتا ہے۔
پپو گھبرا جاتاہے، ابھی پپو اُس نوجوان کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ دو اور لڑکوں نے پپو کو تنگ کرنا شروع کر دیا لیکن اُس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور انہیں نظر انداز کر دیا۔ لڑکوں کے چلے جانے کے بعد پپو کو اپنے سکول کے دن یاد آنے لگے جب وہ دوسرے لڑکوں کو ڈرایا دھمکایا کرتا تھا اوراُن سے پیسے لے لیا کرتا تھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی اُس نے جیبوں میں ہاتھ ڈالا تو اُسے ایک دردناک حقیقت کا سامنا کرنا پڑا، اُس کی جیبیں خالی تھیں، اس کی جیب بھی کٹ چکی تھی۔
انتہائی بھوک اور مکمل صدمہ کی حالت میں پپو کو اُمید کی کرن نظر آتی ہے جب ایک نئی ہنڈا سوِک میں بیٹھا ایک ادھیڑ عمر شخص اُس کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اوئے! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
پپو محسوس کرتا ہے کہ اُس کی آواز اگرچہ اتنی شائستہ نہیں مگر دوستانہ ضرور تھی۔ ابھی پپو شش و پنج میں ہوتاہے
کہ کیا جواب دے بڑے میاں دوبارہ گفتگو کرتے ہیں ۔
’’اوہ! برا نہ مناؤ، میں نے تمہیں اپنا بچہ خیال کیا، میں ایک ہائی سکول میں انگریزی کا استاد ہوں۔ تم کسی خیال میں کھوئے ہوئے ہو، خیریت تو ہے ؟
’’مجھے بھوک لگی ہے‘‘ پپو نقاہت سے جواب دیتا ہے۔
’’ چلو میں تمہیں برگر کھلاتا ہوں‘‘ بڑے میاں اس کو پیشکش کرتے ہیں۔
پپو خدا پر بھروسہ کر کے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اچانک پپو کو یہ خیال پریشان کرنے لگتا ہے کہ کسی اجنبی کو برگر کی پیشکش کرنے کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن پھر وہ اُس شخص کی عمر اور اس کی انگلی میں شادی والی انگوٹھی دیکھ کر کچھ بہتر محسوس کرتا۔ اگرچہ اس کی سانس میں سے سگریٹ کی بو آرہی تھی لیکن پپو نے اس سے بڑے میاں کی شخصیت کا بُرا اثر نہیں لیا۔ پپو اُس سے گپ شپ شروع کردیتا ہے۔
وہ پپو سے کہتا ہے ’’تم ایک اچھے لڑکے ہو‘‘۔ میرا خیال ہے ہماری دوستی خوب نبھے گی۔ وہ اپنا ہاتھ پپو کی ران پر رکھ دیتا ہے اوروہیں پڑے رہنے دیتا ہے۔ پپو کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اب کیا ماجرا ہے؟ پہلے ٹرک میں طُور خان سے واسطہ پڑا اور اب اس گھناؤنے آدمی کے رحم و کرم پر ہوں۔ پپو کو بھوک لگی ہوئی اور وہ کچھ نہ کچھ کھانا چاہتا تھا۔ پپو نے سوچا کہ برگر والی جگہ پر اور بھی لوگ ہوں گے لہٰذا مجھے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ برگر کھانے کے بعد وہ میں اس سے چھٹکارا حاصل کرلوں گا۔
’’مکڈونلڈ‘‘ پر پپو کار سے اُتر جاتا ہے۔ بڑے میاں کار سے اُتر کر پپو کے کندھے پر دوستانہ انداز میں ہاتھ رکھ دیتے ہیں اوریوں پپو کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ریسٹورنٹ کے اندرچلے جاتے ہیں۔ اندر پہلے سے موجود ایک اورمنحوس شکل ادھیر عمر شخص پپو پر سرتاپا نظر ڈالتا ہے اور بڑے میاں کو مخاطب کرتے ہوئے مبارک باد دیتا ہے۔
’’چنگیزی تم ہمیشہ ہی زبردست ہاتھ مارتے ہو‘‘ عمر رسیدہ شخص پپو پر ہوس بھری نظر ڈالتے ہوئے کہتا ہے۔
چنگیزی ڈرامائی انداز میں آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر زیرِ لب کچھ بڑبڑاتا ہے۔
’’خدا شکر خورے کو شکر ہی دیتاہے، تمہاری بھی تو پانچوں گھی میں رہتی ہیں‘‘ دونوں آدمی زیر لب مسکراتے ہیں اور کاؤنٹر پر کھانے کا آرڈر دیتے ہیں۔ کاؤنٹر کے پیچھے کرسی پر بیٹھا منحنی سا نوجوان ان کی جانب دیکھتا ہے۔ اُس نے نیلے رنگ کی قمیض اور سفید رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ انتہائی دبلا پتلا اور لمبی ناک والابندہ تھا۔
’’کام کیسا جا رہا ہے؟‘‘ کاؤنٹر انچارج عمر رسیدہ شخص سے سوال کرتا ہے۔
’’ٹھیک ٹھاک‘‘ عمر رسیدہ شخص جواب دیتا ہے۔
’’آپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہیں؟ پروفیسر آپ کے ساتھ ہیں، وہ اپنے کام میں ماہر ہیں اور انہوں نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں‘‘ وہ پھر پوچھتا ہے۔
’’جو نوجوان میرے ساتھ تھا اُسے پولیس والے دو گھنٹے پہلے لے گئے تھے‘‘ عمر رسیدہ شخص جواب دیتا ہے۔
پپو پریشان تھا کہ اُس نے انجانے میں ایک ایسے شخص کو دوست بنالا ہے جو جسم فروشی کے دھندے میں ملوث لگتا ہے۔ پپو اپنے گردونواح کا جائزہ لیتا ہے۔ اُس کیلئے ناقابل یقین بات تھی کہ لڑکے بھی جسم فروشی کے دھندے میں ملوث ہیں۔
’’کیا یہاں خواتین جسم فروشی کرتی ہیں؟‘‘ پپو برگر کا لقمہ لیتے پروفیسر سے پوچھتا ہے۔
’’اچھا خواتین بھی جسم فروشی کرتی ہیں!‘‘ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو، پروفیسر ہنستے ہوئے کہتا ہے۔
’’جسم فروش خواتین کہاں پائی جاتی ہیں؟‘‘ پپو انتہائی تعجب کے ساتھ پوچھتا ہے۔
’’ٹبی گلی میں، اب سڑکوں پر زیادہ نہیں آتیں کیونکہ وہ اتنی نمایاں ہوتی ہیں کہ پولیس والے اُن کو پہچان لیتے ہیں۔ فاحشہ عورت کو دُور ہی سے پہچانا جا سکتا ہے جب کہ ہم جنس پرستوں کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ تمہاری اور میری طرح کے ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘
دو لڑکے پپو کی میز کے پاس سے گزرتے ہے، ان میں سے ایک دوسرے لڑکے کو بازو پر تھپکی دے کر کہتا ہے کہ نیلے رنگ کی مرسیڈیز بالکل تیار کھڑی ہے۔
اُن میں سے ایک لڑکا مرسیڈیز والے آدمی کے ساتھ چلا جاتا ہے اور جاتے جاتے اپنے ساتھی لڑکے سے کہتا ہے کہ اگر کوئی اس کا پوچھے تو بتا دینا کہ میں غسل خانے میں ہوں اور مسکراتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا لوٹ آتا ہے اور دوسو روپے لہراتا ہوا ایک عجیب سی ہنسی ہنستا ہے اور وہ آدمی واپس چلا جاتا ہے۔ عمر رسیدہ آدمی معمول کے مطابق گفتگو کر رہے تھے، گفتگو بہت عجیب و غریب تھی اور وہ ان دونوں نوجوان لڑکوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ جب پپو اور پروفیسر کھانا کھا لیتے ہیں تو واپس پارکنگ میں موجود اپنی گاڑی کی طرف چل پڑتے ہیں، پارکنگ میں چند بچے گاڑیوں کے پاس بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے ۔ پپو کویہ سب کچھ بہت عجیب لگتا ہے۔
’’میں اب چلتا ہوں،برگر کا بہت بہت شکریہ‘‘ پپو پروفیسر سے جانے کی اجازت مانگتا ہے۔
’’اِدھر آؤ، بیٹھو، میں ایک منٹ کیلئے تم بات کرنا چاہتا ہوں، تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا‘‘ پروفیسر اپنی کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہتا ہے۔
پپو یہ سوچتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی گاڑی میں سے نکل کر بھاگ سکتا ہے۔
پپو پروفیسر کی بات مان لیتا ہے اور اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے کیونکہ اسے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لنک-13 پر جائیے۔
مجھے اب اس دوزخ سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ لنک-14 پر جائیے۔