لنک-16

اس کی خطا نہیں یہ میراقصور تھا۔

کرپٹ لوگوں سے بھری دنیا کا نظام چند اچھے لوگوں کی وجہ سے چلتا ہے۔

جیسے ہی پپو غسل خانے سے نکل کر لونگ روم میں واپس جانے لگتا ہے، کاؤنسلر کی بیوی پپو کو کچن میں لے جاتی ہے۔ وہ اُسے کھانے پینے کیلئے ایک بڑا سا کیک کا ٹکڑا اور فریج سے ایک گلاس دودھ کا نکال کر دیتی ہے ۔

’’اگر تمہیں واقعی گھر میں بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے تم وہاں نہیں رہنا چاہتے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں !، تمہیں وہاں نہیں رہنا چاہئیے‘‘۔کاؤنسلر کی بیوی پپو کو سمجھاتی ہے ۔

’’مگر، تم ابھی بہت چھوٹے ہو اور اپنا خیال خود نہیں رکھ سکتے ، چاہے تم خود کو جتنا بھی سمجھدار سمجھو۔۔۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جیسے تمہارے والدین اوررشتہ دار یہاں تک کہ سماجی کارکن بھی جو تمہارا خیال رکھنا چاہتے ہیں۔ تم ان لوگوں کو پسند نہیں کرتے، ویسے بھی یہ لوگ بہترین نہیں ہیں۔ اگر یہ لوگ تمہیں نقصان پہنچا رہے ہیں تو تمہیں ان لوگوں سے دُور رہنا چاہئیے ‘‘ وہ بے ہنگم انداز میں مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔

’’تمہیں راز کی بات بتاؤں، میں تو کافی عرصے سے سیاست میں ہوں۔ تم ایسا کرو اپنا کیک ختم کرو جب تک میں اپنی ڈائری سے ایسے لوگوں کے فون نمبرز ڈھونڈتی ہوں جو گھر سے بھاگنے والے بچوں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘وہ عورت ڈائری ٹٹولتے ہوئے کہتی ہے۔

پپو یہ بات سن کر گھبرا جاتا ہے اور گھبراہٹ میں اُس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس فرش پر گر جاتا ہے، جس پر وہ عورت پپو کو دودھ صاف کرنے کیلئے ٹشو پیپر دیتی ہے۔
’’تم پریشان مت ہو، ابھی کل ہی مجھ سے ایسی غلطی ہوئی ہے میں نے تو دودھ کی بھری ہوئی کیتلی ہی گرا دی تھی ۔‘‘وہ عورت پپو کو تسلی دیتے ہوئے کہتی ہے۔
اُس عورت کا شفقت بھرا لہجہ سن کر پپو کا دل چاہتا ہے کہ وہ یہیں اس گھر میں رہ جائے۔
اس اثناء میں کاؤنسلر نمودار ہوتا ہے۔
’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ کرختگی سے پوچھتا ہے۔

’’تم جاکر ٹی وی دیکھو۔۔۔‘‘وہ عورت بغیر اُس کی طرف دیکھے ہوئے جواب دیتی ہے۔
کاؤنسلر پپو کو گھورتا ہوا منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا واپس پلٹ جاتا ہے۔ فرش صاف کرنے کے بعد وہ عورت اپنی ڈائری نکالتی ہے اور نمبر ملاتی ہے۔ پانچ چھ لوگوں سے بات کرنے کے بعد، ایدھی کے دفتر سے ایک شخص، پپو سے بات کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ وہ شخص بہت سے سوالات پوچھتاہے۔
’’کیا کوئی پپو کو اُن کے دفتر جو کہ موہنی روڈ پر واقع ہے پہنچا سکتا ہے۔‘‘وہ شخص عورت سے پوچھتا ہے۔
’’ہاں ہاں ضرور۔۔۔ میرا شوہر پہنچا سکتا ہے‘‘۔وہ عورت جواب میں کہتی ہے۔
پپو اُس کے شوہر کے ساتھ جانا پسند نہیں کرتا۔پپو کی پریشانی دیکھ کے وہ عورت ارادہ کرتی ہے کہ وہ خود ہی پپو کو پہنچا دے ۔ وہ چولہا بند کرتے ہوئے برتن سمیٹنے لگتی ہے۔
’’چلو پچھلے دروازے سے چلتے ہیں‘‘۔ وہ عورت پپو کو پچکارتے ہوئے کہتی ہے ۔

تھوڑے سے سفر کے بعد دونوں ایک گھر کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جو گلی کے باقی گھروں ہی کی طرح ہے۔
’’یہ گھر سے بھاگنے والے بچوں کاادارہ ہے؟‘‘ پپو پوچھتا ہے۔
اُسے نہیں معلوم کہ آگے اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے، مگر باہر سے یہ اُسے باقی گھروں کی طرح عام سا گھر ہی لگتا ہے۔دروازے پر ہی سنٹر کی انچارج خاتون اُنہیں خوش آمدید کہتی ہے اور انہیں اندر ایک آرام دہ لوِنگ روم میں لے آتی ہے۔
’’تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو۔۔۔ آؤ میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھا دوں‘‘۔گھر میں موجود عورت پپو کو دیکھتے ہوئے کہتی ہے۔
’’کل ناشتے کے بعد جب باقی سب بچے اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں تو تمہیں شبانہ سے ملنے کا موقع ملے گا۔۔۔جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا، اس وقت تم اُسے سب کچھ بتا سکتے ہو ۔۔۔‘‘وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہے۔
کاؤنسلر کی بیوی پپو کو گلے لگا کر بہت پیار کرتی ہے اور بہت ساری دعائیں دے کر رخصت ہو جاتی ہے۔
پپو اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایدھی سنٹرکی انچارج خاتون کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔
آگے پڑھنے کیلئے جائیے لنک-24 پر۔