لنک-17

شمع ہر رنگ میں جلتی ہےسحر ہونے تک

ایک در بند تو 100 در کھلے، پھر کھڑکیاں اور روشندان اس کے علاوہ

عمران اور مریم جو ’نئی زندگی‘ کے نمائندے ہیں۔ وہ پپو کو اپنے دفتر میں لے آتے ہیں اور اُسے ایک لڑکے راحیل کے پاس چھوڑ دیتے ہیں۔ راحیل پپو کے کھانے کیلئے فروٹ جوس اور چکن چیز سینڈوچ لے آتا ہے جو پپو فوراً کھانا شروع کر دیتا ہے۔

پپو کے ساتھ والے صوفہ پر ایک دبلا پتلا لڑکا خون میں لت پت پٹیاں باندھے ایک صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس دفتر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوئے تھے اور ہر کیبن میں ایک ڈیسک پڑا ہوا تھا آفس کے دائیں طرف کا دروازہ بند تھا۔ اتنی دیر میں ایک لڑکی اندر آتی ہے، راحیل پپو سے اس کا تعارف کرواتے ہوئے اس کا نام فاطمہ بتاتا ہے۔ راحیل پپو سے معذرت کرتا ہے کہ اُسے فوراً کسی ضروری کام سے جانا ہے اورباہر نکل جاتا ہے، کسی کام کا کہہ کر فاطمہ بھی ساتھ ہی اُٹھ جاتی ہے، پپو اس دوران کھانا کھاتا ہے اور میگزین پڑھتا رہتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد فاطمہ واپس آتی ہے اور پپو سے گپ شپ کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ پھر وہ موبائل پر کسی سے بات کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اتنی دیر میں راحیل بھی آجاتا ہے۔ راحیل کو دیکھ کر فاطمہ سخت غصے کے عالم میں چند شکایات کرتی ہے۔ آپس میں گفتگو کرنے کے تھوڑی دیر بعد وہ دونوں پپو سے حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پپو اُسے گھر چھوڑنے کی وجہ بتاتا ہے۔ وہ کیسے یہاں پہنچا اور وہ اب تک کیا کرتا رہا ہے؟

تھوڑی دیر بعد راحیل ایک فلاحی ادارے کے انچارج سلمان کو فون کرتا ہے اور اُس کو پپو سے متعلق تفصیل سے آگاہ کرتا ہے لیکن سلمان ادارے میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے معذرت کرلیتا ہے۔ راحیل پھر تین اور فلاحی اداروں میں فون کرتا ہے لیکن تمام ادارے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ ایک فلاحی ادارے کی انچارج نے پپو پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی لیکن پپو صرف اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اُس نے چرس والے سگریٹ کے چند کش لئے تھے اور باقی سوالوں کا نفی میں جواب دیتا ہے۔ انچارج پپو کو رکھنے کیلئے رضامند نہیں ہوتی۔ راحیل پپو کو تسلی دیتا ہے کہ اس ادارے کی انچاج ابھی بالکل نئی ہے اس لیے اس نے انکار کردیا ہے لیکن اُسے گھبرانے کی کوئیضرورت نہیں ہے وہ ضرور اس مسئلے کا حل تلاش کرلے گا۔ پھر وہ کچھ اور فلاحی اداروں کو فون کرنا شروع کر دیتا ہے لیکن جواب ’نہیں‘ میں ہوتا ہے۔ آخر کار ایک فلاحی ادارے کی ا نچارج خاتون پپو کو اپنے مرکز میں رکھنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔

راحیل اور فاطمہ پپو سمیت تمام بچوں کو ویگن میں بٹھا دیتے ہیں۔ زخمی بچے کو وہ جناح ہسپتال اتار دیتے ہیں۔ پھر راحیل اور فاطمہ پپو کو اس فلاحی ادارے میں چھوڑ آتے ہیں جس سے انہوں نے فون پر بات کی تھی۔ راحیل پپو سے ہاتھ ملاتے ہوئے دعائیں دیتا ہے اور پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر موبائل فون سننے لگتا ہے۔ فاطمہ راحیل کو کسی کافی شاپ پر جانے کا کہتی ہے۔

راحیل دروازہ بند کرتاہے، کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر پپو کو خدا حافظ کہتا ہے اور پھر ویگن چل پڑتی ہے۔

لنک-24 پر جائیے۔