لنک-18

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

در دل لکھوں کب تک ، پاؤں اُن کو دکھلا دوں، انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

پپو شبو کے ساتھ رات کو بھاگ جانے کا پروگرام بناتا ہے اور دونوں رات کے اندھیرے میں اس جگہ سے نکل پڑتے ہیں۔

’’تمہار نام کیا ہے؟‘‘ شبو سڑک پر چلتے چلتے پپو سے سوال کرتی ہے۔
’’میرا نام پپو ہے لیکن مجھے پیار سے ’’پُکھابٹیرا‘‘ کہتے ہیں‘‘ پپو جواب دیتا ہے۔
شبو پپو کے اس نام پر کھل کھلا کر ہنس پڑتی ہے۔

’’تم کیا کام کر تی ہو؟‘‘ پپو شبو سے سوال کرتا ہے۔
’’ابھی بِلاّ قصائی نے مجھے کوئی کام نہیں سونپا‘‘ شبو مسکرا کر جواب دیتی ہے۔
’’یہ دوسرے لڑکے تمہارے ساتھ مخلص نہیں ہیں‘‘ پپو شبو سے کہتا ہے۔
’’ کیا تم جلتے ہو؟‘‘ شبو پوچھتی ہے۔
’’کس چیز سے؟ سنو! میں تو تمہیں پسند بھی نہیں کرتا، جو جی میں آئے تم کرو‘‘ پپو بُرا مناتے ہوئے جواب دیتا ہے۔

’’میں جانتی ہوں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ شبو پپو کو چھیڑتی ہے۔
’’تم اتنی بھی خوبصورت نہیں ہو، جب تم تیز روشنی میں نمودار ہوگی تو تمہارا اصلی چہرہ سامنے آجائے گا‘‘ پپو کے انداز میں شرارت ہوتی ہے۔
’’تم یہاں کیسے آگئی؟‘‘ پپو سوال کرتا ہے۔

’’میری ماں کو باپو نے چھ سال پہلے چھوڑ دیا تھا۔ میری ماں نے دوسری شادی کرلی اور سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا۔‘‘ شبو نے اداس لہجے میں دُکھ بھری داستان بیان کی۔

دونوں چلتے چلتے موہنی روڈ پر پہنچ جاتے ہیں، موہنی روڈ پر موجود ببلو نامی لڑکے سے پپو کی دوستی ہوجاتی ہے جو عمر میں پپو سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔

’’ تم کیا کرتے ہو؟‘‘ پپو ببلو سے سوال کرتا ہے۔
’’کسی کو بتانا نہیں میں ہیروئن بیچتا ہوں لیکن بظاہر میں میوزیکل شو کے ٹکٹ بیچتا ہوں‘‘ ببلو پپو کو رازدارانہ لہجے میں بتاتا ہے۔
’’ہم دونوں کہاں رہیں گے، ہمارے پاس تو کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے؟‘‘ پپو اپنی پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔
’’ میرے پاس ایک اچھی جگہ ہے، میں نے اس بارے کسی کو بھی نہیں بتایا ہوا، تم لوگ میرے ساتھ اُس جگہ رہ سکتے ہو۔‘‘

پھر وہ پپو اور شبو دونوں کو ایک چھوٹے سے گھر میں لے جاتا ہے جو ایک حلوہ پوری کی دکان کے نزدیک واقع ہوتا ہے۔ وہ ان دونوں کو بتاتا ہے کہ ساتھ والے کمرے میں رہنے والا شخص میرے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور نہ ہی میں اس گھر میں ہیروئن بیچتا ہوں، پھر وہ پپو سے کہتا ہے کہ تم بھی کسی کو اس بارے نہ بتانا ۔

پپو اور شبو دونوں نیا گھر ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ شبو کمرے میں موجود تھوڑے سے سامان کو سلیقے سے رکھتی ہے جن میں دو کرسیاں، ایک ٹوکری اور ایک گدا شامل ہوتے ہیں۔ پہلی رات ببلو گدے پر جبکہ پپو اور شبو نیچے ٹھنڈے فرش پر سو جاتے ہیں۔ پپو جلد ہی محسوس کرتا ہے کہ وہ شبو کی محبت میں گرفتار ہوگیا ہے اور سوچتا ہے کہ اب اس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوگا۔ وہاں پر رہتیہوئے کچھ ہی دن یونہی گزرتے ہیں۔ ایک دن پپو باہر سڑک پر چہل قدمی کر رہا ہوتا ہے کہ ’ہیومن رائٹس‘ کا اسلم نامی نمائندہ آجاتاہے اور پپو کو ملتا ہے۔ پپو باتوں باتوں میں اسے اپنی دُکھ بھری داستان سناتا ہے۔ پپو کی باتیں سُن کر اسلم آبدیدہ ہو جاتا ہے اور پھر پپو کو صبح اپنے دفتر ’ہیومن رائٹس‘ میں آنے کا کہتا ہے۔

وہ دونوں ہیومن رائٹس کے دفتر میں پہنچتے ہیں۔ اسلم انہیں ایک بہت بڑے سٹور روم میں لے جاتا ہے جس میں ڈھیر سارے ملبوسات پڑے ہوتے ہیں۔ پپو کو سرخ رنگ کے جوتے پسند آتے ہیں جنہیں وہ پہن لیتا ہے۔ ہیو من رائٹس کا انچارج شبو کو اپنے ادارے میں رکھنے پر رضامند ہوجاتا ہے لیکن پپو کو باہر نکال دیتا ہے۔ باہر نکلتے ہوئے پپو کو کچھ لڑکے ملتے ہیں پپو ان کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے ، وہبتاتے ہیں کہ بِلاّ قصائی کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ پپو ان سے اپنا دامن بچاتا ہے۔

شبو ہیومن رائٹس کے انچارج کو بتاتی ہے کہ وہ پپو کی محبت میں گرفتار ہے اور وہ اُسی صورت مرکز میں رہ سکتی ہے جب وہ پپو کو بھی اس کے ساتھ رکھنے کو تیار ہوں۔ ہیومن رائٹس کا انچارجاُن کو سمجھاتا ہے کہ اُن دونوں کی زندگی گلیوں میں مارے مارے پھرنے سے تباہ ہو سکتی ہے۔ اگر اُن کا پیار سچا ہے تو اپنے حالات ٹھیک کرنے کی کوشش کریں، اس کے بعد وہ دوبارہ مل سکتے ہیں۔ انچارج کے اس طرح سمجھانے سے پپو اپنے آپ کو قصوروار سمجھنے لگا، پپو خیال کرتا ہے کہ شبو اس کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، وہ اس کیلئے کچھ نہیں کر پا رہا۔ پپو انچارج سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا۔ پپو خالی بات نہیں کرتابلکہ کچھ کرنے کیلئے کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ اگلے چند دن پپو نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہن کر مختلف جگہوں پر نوکری کی درخواستیں جمع کرواتا ہے اور انٹرویوز دیتا ہے۔

کچھ دنوں بعد شبو اچانک بیمار ہو جاتی ہے، وہ رات کو بخار سے کانپتی اور سارا دن کر اہتی رہتی ہے۔ مرکز کے لوگ اُسے دوائیاں دیتے ہیں، مگر وہ دوائیوں کا استعمال متواتر نہیں کرتی جس سے اُس کا بخار 104 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ اس پر ہیومن رائٹس والے اُسے اپنی والدہ کے گھر جانے کو کہتے ہیں اور وہ وہاں چلی جاتی ہے۔ کچھ دنوں بعد پپو کو شک ہوتا ہے کہ کہیں شبو ماں کے پاس ہی نہ رہ جائے، پپو فیصلہ کرتا ہے کہ جب اسے نوکری مل جائے گی تو وہ شبو کو وہاں سے لے آئے گا اور پھر وہ اکٹھے رہیں گے، پھر اُن پر کوئی پابندی نہ ہوگی۔ اُدھر شبو بھی پپو کے بغیر تنہائی اور خوف محسوس کرتی ہے۔

اگلے دن جب پپو نہا دھو کر نوکری کی تلاش میں نکلتا ہے تو راستے میں اُس کو پوتنی دا زخمی حالت میں ملتا ہے۔ پوتنی دا پپو کو بتاتا ہے کہ پل کے نیچے کچھ لوگوں نے اُسے کافی مارا ہے۔ پوتنی دا اور بجلی، پپو اور ببلو کے ساتھ اُن کے چھوٹے سے کمرے میں رہنا چاہتے ہیں۔ پپو اور ببلو کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

پپو نوکری کی تلاش میں میکڈونلڈ، گیس سٹیشن، کارڈ شاپ، وغیرہ مختلف جگہوں پر جاتا ہے فارم پُر کرتے وقت پپو غلط بیانی سے کام لیتا ہے اور زیادہ تر کالم خالی چھوڑ دیتا ہے جس پر بعض مینجر اس سے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔آخر کار خدا خدا کرکے پپو کو دو دن بعد ’صادق ریستوران‘ نامی ایک ہوٹل میں بیرا گیری کا کام مل جاتا ہے۔ پپو کے پاس برتن دھونے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ صادق پہلوان جو ہوٹل کا مالک ہے پپو کو بتاتا ہے کہ اگروہ اضافیکام کرئے گا تو اُس کو اوور ٹائم بھی ملے گا۔

پپو ہیومن رائٹس کے دفتر فون کرتا ہے تاکہ وہ شبو کو نوکری ملنے کی خوشخبری سنا سکے۔ لیکن ہیو من رائٹس کی انتظامیہ بتاتی ہے کہ شبو سے فون پر بات نہیں ہوسکتی، وہ پپو کا پیغام شبو کو دے دیں گے۔ پپو ہیومن رائٹس کے دفتر میں موجود ریسپشنسٹ کو صادق ریستوران کا نمبردے کر پیغام دیتا ہے کہ شبو اُسے فوری طور پر کال کرے۔ پپو کوبہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، وہ سارا دن بیسن کے سامنے کھڑے ہوکر برتن دھوتا رہتا ہے۔لیکن پپو کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کیونکہ وہ چاہتا ہے دن رات محنت کرکے پیسے کمائے تاکہ شبو کو زندگی کی تمام آسائشیں فراہم کر سکے۔

صادق پپو کے کام سے متاثر ہو کر اُس کی تنخواہ میں اضافہ کر دیتا ہے اور ہفتہ وار چھٹی بھی دیتا ہے۔ وہ پھر اپنی خوشی میں شبو کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے لیکن ہیومن رائٹس کا نمائندہ پھر اس سے صرف پیغام لے لیتا ہے لیکن شبو سے بات نہیں کرواتا۔ پپو بہت مایوس ہوتا ہے اور مایوسی کے عالم میں شراب پی لیتا ہے اور نشے میں دھت جب اپنے کمرے میں جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ پوتنی دا اور بہت سے لڑکے بیٹھے نشہ کر رہے ہوتے ہیں۔ پپو پوتنی دا سے ان لڑکوں کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ گوالمنڈی میں بِلاّ قصائی کے اڈے پر چھاپہ پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ یہاں پر آگئے ہیں۔

پپو شبو سے بات نہ ہونے کی وجہ سے کافی مایوس ہوتا ہے اور ساری رات شراب پیتا رہتا ہے جس کی وجہ سے اُس کی آنکھ صبح ٹائم پر نہیں کھلتی ہے اور وہ ریستوران دیر سے پہنچتا ہے اوربیماری کا بہانہ کر تا ہے۔ ’’آئندہ اگر تم دیر سے آؤ تو اس کی بروقت اطلاع ضرور کر دیا کرو‘‘ صادق اسے سختی سے کہتا ہے۔پپو مسلسل ریستوران دیر سے پہنچتا ہے جس پر صادق پہلوانمسلسل ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگتا ہے، پپو کی ظاہری حالت صاف ستھری نہیں ہوتی اور وہ کئی دن کے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ہوتا ہے۔پھر صادق پہلوان یکدم پپو سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اصل حقیقت بتانے کو کہتا ہے۔

پپو کوتمام واقعہ صادق کو بتانا چاہئیے۔ شاید وہ نوکری سے نکال دے یا اُس کی مدد کرے یا پھر اُسے بتاناچاہئیے کہ یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے اور وہ معاملات خود ہی ٹھیک کرلے گا۔ لنک-25 پر جائیے۔

پپو کو سچائی بتا دینی چاہئیے لنک-26 پر جائیے۔