لنک-40

بھاگ پپو بھاگ

جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے

چاچا چند دنوں کیلئے غائب ہو جاتا ہے۔ ’خاندان‘ والے سمجھتے ہیں کہ وہ گرفتار ہو چکا ہے۔ بِلاّ قصائی نشے میں دھت رہتا ہے۔ ’خاندان‘ کے لڑکے وہی کام دھندے کرتے رہتے ہیں جو چاچا نے ان کو سونپے تھے۔ پوتنی دا بِلاّ قصائی سے پپو کی شکایت کرتا ہے کہ اُس نے پپو کو موہنی روڈ پر سپاہیوں سے بات چیت کرتے دیکھا ہے۔ یہ سُن کر بِلاّ قصائی پپو کو اپنے پاس بلاتا ہے۔

’’میں قسم کھاتا ہوں کہ پولیس والے صرف میری تلاشی لے رہے تھے، میں نے اُن کو کچھ بھی نہیں بتایا‘‘ پپو اپنی صفائی بیان کرتا ہے۔
’’تم جھوٹ بول رہے ہو!‘‘ بِلاّ قصائی پپو کو جھوٹا قرار دیتا ہے اور ساتھیوں کو اس کی پٹائی کیلئے کہتا ہے۔

سارے لڑکے پپو پر جھپٹ پڑتے ہیں اور بوتلوں،ڈنڈوں، مکوں اور جوتوں سے اُس کی خوب ٹھکائی کرتے ہیں۔ پوتنی دا پپو کو انتہائی غصہ کی حالت میں لکڑی کے موٹے ڈنڈے سے مارنا شروع کر دیتا ہے۔ اس دوران پپو کن اکھیوں سے شیرنی کو اپنی سہیلیوں کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ تھوڑی دیر میں پپو نڈھال ہو کر ہوش کھو دیتا ہے۔ دو ننگے لڑکے آصف لنگڑا اور ننھا چنگاری اسے میو ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر چھوڑ جاتے ہیں۔ وہاں سردی میں نیم ہوشی کی حالت میں پڑا پپو کسی ڈاکٹر کی نظر کرم کا طلب گار تھا۔ تھوڑی دیر بعد دو وارڈ بوائے اسے سٹریچر پر اندر لے جا رہے تھے۔

میو ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں پپو سوچتا ہے کہ وہ ’خاندان‘ میں اب کسی کو بھی شکل دکھانے کے قابل نہیں رہا، وہ مجھے دیکھتے ہی پھر مارنے کی کوشش کریں گے۔ پھر اس کا دھیان اپنے حقیقی گھر اور ماں باپ کی طرف گیا اور اس کی آنکھ سے لڑھکتا ہوا آنسو رخسار پر بہنا شروع ہو گیا۔ ایک نرس پپو کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ وہ پپو کے جسم کا معائنہ کرتی ہے اور اسے لگنے والی چوٹوں کا اندازہ لگاتی ہے۔ ایسے مضروب لڑکوں کی شعبہ حادثات میں آمد اُس کیلئے کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ گوالمنڈی کے کلچر میں ایسے حادثات روز کا معمول ہیں۔ نرس پپو کو چمڑے کی بیلٹ سے بستر

کے ساتھ باندھ دیتی ہے۔

’’کیا یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے؟‘‘ پپو احتجاجاً کہتا ہے۔

’’یہ ہمارا طریقہ کار ہے، کیونکہ کسی بھی نشئی اور زخمی لچے لفنگے کا رویہ غیر یقینی اورخطر ناک ہوتا ہے‘‘ نرس جواب دیتی ہے۔ یہ سب کچھ تمہاری اور ہماری حفاظت کیلئے کیا گیا ہے۔ پپو مڑتے ہوئے دیکھتاہے کہ نرس نئی زندگی کے نمائندے عمران سے باتیں کر رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ عمران ہی اُس کو ہسپتال لے کر آیا ہو گا لہٰذا اس کا احترام اب اس پر فرض ہے۔وہ قطعی طور پر لاعلم تھا کہ مار کھاتے ہوئے کب بے ہوش ہوا اور اسے کون یہاں لایا۔
’’کیا پپو کو باقاعدہ داخل کر لیا جائے گا؟‘‘ عمران نرس سے پوچھتا ہے۔

’’نہیں، میرا خیال ہے کہ وہ چار یا پانچ بجے صبح فارغ کر دیا جائے گا‘‘ نرس جواب دیتی ہے۔

عمران مطمئن ہو کر جانے کیلئے مُڑتا ہے اور پپو سے کہتا ہے کہ وہ پھر دوبارہ آئے گا۔ پپو سوچتا ہے کہ شاید عمران اُسے دوبارہ ’نئی زندگی‘ لے جانا چاہتا ہے جبکہ پپو وہاں پر صرف اُس وقت تک رہنا چاہتا ہے جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہو جائے

پپو سوچتا ہے کہ وہ تھوڑی دیر کیلئے بِلاّ قصائی کے پاس جائے گا اور اسے اس حقیقت سے آگاہ کرے گا کہ پوتنی دا نے اس سے جھوٹ بولا تھا۔چند گھنٹوں کے بعد پپو کی حالت بہتر ہو جاتی ہے۔ الصبح ڈاکٹر نے معائنے کے بعد پپو کو چھٹی دے دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد پپو بیساکھیوں پر چلتا ہوا ایمر جنسی سے باہر نکل رہا تھا۔ آہستہ آہستہ چلتا ہوا پپو سیدھا ہارون میڈیکل اسٹور پہنچا اور دوکاندار سے دوائیاں فروخت کرنے کیلئے سودے بازی کرنے لگا۔ اُس کے پاس دوائیوں کی کافی بڑی مقدار تھی۔ وہ بیساکھیاں بھی فروخت کرنا چاہتا تھا لیکن دوکاندار اس پر راضی نہ تھا۔ آخر کار سودا طے پا گیا۔ مٹھی میں 500 روپے دبائے لنگڑاتا ہوا وہ گوالمنڈی چوک کی طرف چلنے لگا۔ ایک لمحے کیلئے وہ حلوہ پوری کی دوکان پر رکا لیکن پھر اس کا ارادہ بدل گیا۔ اس کے ذہن میں خیال آیا، ’’ناشتہ بعد میں دیکھا جائے گا، پہلے میں پتلی گلی میں جا کر نشہ کرتا ہوں، انگ انگ دکھ رہا ہے۔‘‘

صبح سویرے پپو کو دیکھ کر فیجا حیران ہوتا ہے اور غصے سے چلے جانے کیلئے کہتا ہے، ’’جاؤ یہاں سے، اپنے ساتھ مجھے بھی مصیبت میں پھنساؤ گے۔ پہلے ہی پولیس میرے پیچھے پڑی ہے۔‘‘

پپو منت سماجت کرنے لگتا ہے اور باتوں ہی باتوں میں پانچ سو کے نوٹ کی جھلکی کراتا ہے۔ فیجے کا دل پسیج جاتا ہے اور وہ اسے ’’یہاں ٹھہرو‘‘ کہہ کر اندر چلا جاتا ہے۔

واپسی پر وہ ہیروئن کی پڑیا اس شرط پر پپو کو دیتا ہے کہ وہ فوراً یہاں سے غائب ہو جائے۔ پپو لنگڑاتا ہوا فوڈ سٹریٹ کی طرف آتا ہے۔ اتنی صبح وہاں کوئی اور نظر نہیں آتا۔ چاروں طرف بچا کھچا کھانا اور ہڈیاں بکھری ہوتی ہیں۔ پپو ایک دوکان کے تھڑے پر بیٹھ کر نشہ کرنے لگتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ مدہوش ہو جاتا ہے۔ کھانے کا وہ ڈبہ وہیں پڑا رہ جاتا ہے جس پر اس کی نظر تھی۔

لنک-47 پر جائیے۔