لنک-7

کھینچے ہے مجھے کفر

لنک -3 لنک -2″ایکس کیوز می! میں اس طرح کا لڑکا نہیں ہوں”

پپو مایوسی کے عالم اپنے ہی شہر کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے کہ شاید وہ لوگوں کی نگاہ کامرکز بنا ہوا ہے۔ پپو اپنے کاندھے پر بیگ لٹکائے اِدھر اُدھر بھٹک رہا ہے۔ اور سوچتا ہے کہ کیا میں گھر سے بھاگاہوا ہوں؟ کیا یہ میری عقلمندی ہے؟ میرے کسی بھی دوست نے میرا ساتھ نہیں دیا اور گھر سے بھاگنے کا حوصلہ نہیں کیا۔ کیا وہ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں؟

میری آدھی سے زیادہ مشکلات اِس شہر کی وجہ سے ہیں، مجھے ہر روز اِنہی احمق لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر میں کسی اور شہر چلا جاؤں تو وہاں اپنے ساتھی خود چُن سکتا ہوں۔ مجھے یہ فکر نہیں ہوگی کہ لوگ مجھے جانتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو کچھ بھی ظاہر کر سکوں گا اور لوگ صرف اُتنا ہی جانیں گے جتنا کہ میں اُن کو اپنے بارے بتاؤں گا۔ میں اُنہیں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، کچھ بھی بتا سکتا ہوں، کسی بھی شہر کا نام لے سکتا ہوں، اپنے لباس کا انداز بدل سکتا ہوں تاکہ کسی کو میرے بارے کچھ معلوم نہ ہوسکے۔ میں ساری رات اِدھر اُدھر گھوم سکتا ہوں، سارا دن سو سکتا ہوں، کچھ بھی کر سکتا ہوں، اب میں آزاد ہوں ۔

سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے پپو فیصلہ کرتا ہے کہ اگر وہ یہ شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا جائے گا تو وہ کامیاب ہوجائے گا۔ پپو سڑک کے کنارے کھڑا ہوجاتا ہے تاکہ کسی گاڑی سے لفٹ لے سکے۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک ٹرک اُس کے سامنے آکر رُکتا ہے جس کے پیچھے کچھ فرنیچر، گھریلو سامان اور چند ڈبے لدے ہوئے ہیں۔ پپو ٹرک کی طرف لپکتا ہے، اِسی اثناء میں ٹرک میں موجود ادھیڑ عمر ڈرائیور، پپو کیلئے دروازہ کھولتا ہے۔ پپو ٹرک پر سوار ہو جاتا ہے اور ٹرک چل پڑتا ہے۔ پپو اتنی جلدی مدد مل جانے پر خوش ہوتا ہے اور اُس کے دل میں خیال آتا ہے کہ شاید خدا بھی یہی چاہتا ہے۔

’’میں طُور خان ہوں‘‘ ڈرائیور اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتا ہے۔
طُور خان لمبے قد اور مضبوط جسم کا مالک ہے۔ گھنے گہرے بالوں میں وہ دلکش نظر آ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے طُور خان کوئی طرم خان ہے۔ اُس نے کھدر کی شلوار قمیض زیب تن کر رکھی تھی۔

’’میرا نام نونی ہے‘، لِفٹ دینے کا شکریہ‘‘ پپو اپنا نیا نام چنتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔
’’کیا یہ اب مجھ سے پوچھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں اور کہاں جارہا ہوں؟‘‘ پپو کے ذہن میں سوال اُبھرتا ہے جس سے وہ تھوڑا سا پریشان ہوجاتا ہے۔
ٹرک میں ایک خالی پنجرہ پڑا ہوتا ہے اور ہرے رنگ کے کچھ ڈبے فرش پر بکھرے ہوتے ہیں اور ٹرک میں ہلکی سی بدبو بھی پھیلی ہوئی تھی لیکن پپو سوچتا ہے خیر ہے، اُسے لِفٹ تو ملی۔
’’مجھے خوشی ہے کہ میری نظر تم پر پڑ گئی، مجھے بھی سفر میں کوئی ساتھ چاہئیے تھا، میں پچھلے چھ گھنٹے سے مسلسل گاڑی چلا رہا ہوں اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو سُن سُن کر اب تو میرا دماغ پکنے لگا تھا۔۔۔ میں لاہور جا رہا ہوں، تمہیں جہاں تک جانا ہے بتا دینا، میں تمہیں وہاں اُتار دوں گا۔‘‘ طُور خان کے لب و لہجے میں شرارت جھلک رہی تھی جو پپو نے محسوس نہیں کر پاتا ۔
’’آپ کا شکریہ‘‘ یہ کہہ کر پپو سکون سے ٹیک لگا کر اپنا بیگ ٹانگوں کے درمیان رکھ لیتا ہے اور کھڑکی سے باہر اپنے شہر کو نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھنے لگتا ہے۔

’’آپ نے طوطا پال رکھا ہے؟‘‘ پپو پوچھتا ہے۔
’’ہاں! تو تمہیں اندازہ ہوگیا‘‘ طُور خان مسکرا دیتا ہے۔‘‘

یہ بندہ مجھے کچھ ٹھیک لگتا ہے، یہ بھی میری طرح گھر سے بھاگا ہوا ہے لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ اِس کے ساتھ لاہور تک جانے میں مزہ رہے گا۔ لگتا ہے سب گھروں سے بھاگ کر لاہور ہی جاتے ہیں۔ تھوڑا آگے چل کر اگر دونوں کی جوڑی جمی تو اس سے پوچھوں گا کہ رات کہاں بسر کرنی ہے، شاید طُور خان کے ساتھ ایک رات یا زیادہ وقت گزار نے کا موقع مل سکے۔ ‘‘ پپو سوچتا ہے۔

’’چند گھنٹے کے بعد ٹینکی خالی ہو جائے گی‘‘ طور خان ایک جمائی لیتے ہوئے اپنی نظر پٹرول کی سوئی پر ڈالتا ہے۔
’’کاش میں پٹرول میں تمہارے ساتھ حصہ ڈال سکتا، لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں مگر میں ٹرک سے سامان اتارنے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں ‘‘ پپو معذرت خواہانہ لہجے میں کہتا ہے۔
’’شکریہ! اس تکلف کی ضرورت نہیں۔طُور خان پپو کو آنکھ مارتا ہے جس پر وہ تھوڑا سا گھبرا جاتا ہے۔

وہ اپنی جیب میں سے چرس کا ایک سگریٹ نکالتاہے اور پپو کو اِسے سلگانے کیلئے کہتا ہے۔پپو کے ہچکچانے سے وہ خود ہی سگریٹ سُلگا لیتا ہے ۔سگریٹ سلگنے سے پورے ٹرک میں ایک گندی بو پھیل جاتی ہے۔
’’تم کیا پی رہے ہو؟‘‘ پپو سوال کرتا ہے۔
’’میں چرس بھرا سگریٹ پی رہا ہوں‘‘ طُور خان پپو کو بتاتا ہے۔

پپو اِس سارے ماحول میں گھٹن محسوس کرنے لگتا ہے لیکن وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکتا اِس لیے خاموش رہتا ہے، اُس کی بے بسی دِیدنی تھی۔ اِس وقت اُس کے ذہن میں خیالات اُبھر رہے تھے کہ وہ کیسے گھر میں ذرا ذرا سی بات پر چیختا چلاتا تھا، اُس کو یاد آ رہا تھا کہ کیسے ایک دن جب اُس کے دادا ابو کھانے کے وقت اُس کے قریب بیٹھ کر حقہ پینے لگے تھے تو وہ بدتمیزی پر اُتر آیا تھا اور برتن توڑ دئیے تھے۔

’’کیا اِسے پینے سے تمہیں نیند آتی ہے؟‘‘ پپو نے پوچھا۔
’’ہرگز نہیں، یہ تو مجھے جگا دیتی ہے‘‘ طور خان لائٹر اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
پپو تھوڑی سی کھڑکی کھولنے کی کوشش کرتا ہے جس پر طُور خان اُسے جھڑک دیتا ہے۔ پپو سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ آخر گھر سے بھاگنے کے بعد اُسے یہ کس طرح کی آزادی نصیب ہوئی ہے؟

جلد ہی پپو کو خیال آنے لگتا ہے کہ کاش اُس کے پاس بھی جگانے کیلئے کوئی چیز ہوتی! تھوڑی دیر بعد طُور خان پپو کو اپنی زندگی کی داستان حیات سناتاہے، پپو خاموشی سے سنتا رہتا ہے اور دل ہی دل میں خوش ہورہا ہوتا ہے کہ طور خان نے پپو سے اس کی ذاتی زندگی بارے کوئی سوال نہیں کیا، ورنہ وہ اسے اپنے بارے کیا بتاتا؟ پپو سِیٹ میں دھنس گیا اور چرس کے دھوئیں سے اسے نیند آنے لگی تھی وہ آنکھیں بند کر کے سو جاتا ہے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بریکوں کی چرچڑاہٹ پر پپو گھبرا کر اُٹھ جاتا ہے۔

یار وہ، سڑک پر ایک کتا تھا، بڑی مشکل سے اُسے بچایا ہے‘‘ طُور خان بھاری لہجے میں جواب دیتا ہوا گاڑی آگے بڑھا دیتا ہے۔
پپو آنکھیں ملتا ہوا سیدھا ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔
’’یار مجھے اپنا طوطا بہت یاد آرہا ہے‘‘ طُور خان بُڑبڑاتا ہے۔

اندھیرا ہے ، سڑک ویران اور سنسان پڑی ہے۔
’’وقت کیا ہوا ہے؟‘‘ پپو پوچھتا ہے۔
صبح کے تین بج گئے ہیں طور خان جمائی لیتے ہوئے کہتا ہے۔
طور خان کی ڈرائیونگ سے پپو کو ایسا لگ رہا تھا جیسے طُور خان سیدھا لاہور پہنچ کر ہی دم لے گا۔
’’اچھا ہوا، تم اُٹھ گئے‘‘ طُور خان پپو کی طرف لال سرخ آنکھوں سے دیکھتا ہوا کہتا ہے۔

’’کوئی بات نہیں، خیر اب تم اُٹھ ہی گئے ہو تو میرے احسان کا بدلہ دے سکتے ہو‘‘ طور خان شیطانی لہجے میں کہتا ہے۔
’’یقیناًکیوں نہیں، بتاؤ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ پپو سادہ سے لہجے میں پوچھتا ہے۔
’’تم میرے لیے بڑا خاص کام کر سکتے ہو‘‘ طور خان کے لہجے میں بدنیتی نمایاں ہوتی ہے۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘ پپو غنودگی میں پوچھتا ہے۔
(اندھیرے میں پپو کا ہاتھ اپنی شلوار میں رکھ دیا ۔)
’’معصوم مت بنو، کیا تم نے پہلے یہ کام کبھی نہیں کیا؟‘‘ طور خان پپو کو طنزیہ لہجے میں کہتا ہے۔

’’ایکس کیوزمی! میں اس طرح کا لڑکا نہیں ہوں‘‘ پپو پریشانی کے ساتھ ہربڑا کر چلاتا ہے۔
ایک دم بریک لگنے سے زوردار چیخ بلند ہوتی ہے اور پپو سیدھا ڈیش بورڈ سے جا ٹکراتا ہے۔
’’دفعہ ہو جاؤ‘‘ طُور خان چنگھاڑتے ہوئے ٹرک روک دیتا ہے ۔
’’کیا تم مجھے اس ویران جگہ اتار دو گے؟‘‘ پپو گھبرا کر اُس کی طرف دیکھتا ہے۔
’’بھاڑ میں جاؤ، دفعہ ہو جاؤ یہاں سے‘‘ طُور خان غصے میں اپنی بات دہراتا ہے۔

طور خان تیزی سے پپو کی طرف بڑھتا ہے جیسے وہ پپو کو مارنے لگا ہو۔ پپو ڈر کے مارے جلدی سے دروازہ کھول کر نیچے اُتر جاتا ہے اور ٹرک تیزی سے کھلے دروازے کے ساتھ ہی آگے بڑھ جاتا ہے۔ پپو کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اپنے بیگ سمیت عزت کے ساتھ ٹرک سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا لیکن دائیں بائیں دیکھتے ہی اس کی پریشانی میں اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ یہ ایک سنسان جگہ تھی اور چار سو اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

پپو حیرانی کے عالم میں سوچنے لگا کہ ابھی تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، طُور خان تو شکل سے اچھا خاصا شریف انسان لگ رہا تھا، یہ اچانک کیا ہوا؟

پپو سڑک کے بیچ کھڑا اُن گاڑیوں کو دیکھنے لگا جو تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ تیزی سے گزر رہی تھیں۔ پپو سوچنے لگا کہ اگر وہ اسی حیرانی و پریشانی کے عالم میں سڑک پر کھڑا رہا تو کوئی بھی گاڑی اُسے ٹکر مار سکتی ہے، وہ تیزی سے سڑک کے کنارے ہوجاتا ہے۔ پپو سوچتا ہے کہ آزادی خوفناک ہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اپنے آپ کو قائل کرلیتا ہے کہ یہ اُس سے پھر بھی بہتر ہے جو وہ پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور ویسے بھی میں اپنی حفاظت خود کرسکتا ہوں۔

ٹھنڈ کافی بڑھ چکی تھی خاص طور پر جب کوئی گاڑی پاس سے گزرتی تو ہوا کا تیز جھونکا ٹھنڈ کی شدت میں اضافہ کر دیتاہے۔ پپو اپنے ہاتھوں کو رگڑ کر ٹھنڈ سے نبرد آزماہوتا ہے۔

’’میں بھی کتنا احمق ہوں؟ یہاں کھڑے کھڑے مجھے گاڑی میں کون بٹھائے گا،
اِس کیلئے مجھے لِفٹ مانگنی چاہیے ‘‘ پپو اپنے آپ کو کوستا ہے اور آنے والی ایک گاڑی کو دیکھ کر اپنا انگوٹھا ہوا میں لہراتا ہے۔

پپو کے ہاتھ ٹھنڈ سے نیلے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ دو گھنٹے گز گئے ہیں لیکن کوئی بھی اسے لِفٹ دینے کو تیار نہیں۔ پپو محسوس کرتا ہے کہ یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ دوسرے شہر جانے کا یہ طریقہ انتہائی احمقانہ ہے، آخر اس طرح ویرانے میں کھڑے انجان لڑکے کو کوئی لِفٹ کیوں دے گا؟ کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ جس کو لفٹ دی جار ہی ہے وہ ابھی ابھی کوئی جرم کر کے یا جیل سے بھاگ کر نہیں آیا ہے۔

پپو کا ذہن بے لگام سوچیں سوچ رہا تھا۔کوئی فلمی واقعہ بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ کوئی قاتل جیل سے بھاگ کر کسی کی آبروریزی کرے، لوگوں کو قتل کر کے اطمینان سے اپنے ہاتھ دھوئے اور پھر اس طرح سے لِفٹ لینے کیلئے سڑک کے کنارے کھڑا ہو اور پھر بہت سی گاڑیوں کے بعد ایک گاڑی رُکے جس میں قاتل خاتون سوار ہو جو لوگوں کو لِفٹ دینے کے بعد قتل کر دیتی ہو۔ ایسے میں دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ کوئی نہ کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کریں گے، پھر دونوں اپنی ناکامی کی وجہ سے ایک دوسرے پر فدا ہو سکتے ہیں اور شادی کر کے اسلام آباد سیٹل ہو سکتے ہیں لیکن فلمی باتیں ہیں، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

تھوڑی دیر بعد ایک گرے رنگ کی پرانی مرسڈیز رُکتی ہے۔ گھنٹوں انتظار اور بُری سوچوں کے بعد اب پپو گاڑی میں بیٹھنے سے گھبرا رہا تھا لیکن ٹھنڈ سے اُس کی ہڈیاں کڑکڑانے لگی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس ٹھنڈ میں مرنے سے اچھا ہے کہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ جائے۔ پپو یہ دیکھ کر سُکھ کا سانس لیتا ہے کہ گاڑی میں ایک عمر رسیدہ جوڑا بیٹھا تھا۔

’’آجاؤ، آجاؤ،تمہیں ٹھنڈ لگ جائے گی‘‘ وہ دونوں مسکراتے ہوئے اُسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں ۔

’’تم کب سے یہاں کھڑے ہو؟‘‘ عمر رسیدہ شخص پپو سے سوال کرتاہے۔
’’ہم اپنے ایک پرانے رشتہ دار سے ملنے جا رہے ہیں اور اِس وقت ہم شیخوپورہ میں ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں لاہور پہنچ جائیں گے۔ ‘‘ بڑے میاں طُور خان کی طرح پپو کے جواب کاانتظار کئے بغیر اُسے بتانا شروع کر دیتا ہے۔
’’میں جب جوان تھا تو اکثر اِسی طرح پیدل لاہور کیلئے نکل پڑتا تھا، میرے بڑے بھی بہت پیدل سفر کیا کرتے تھے، میں بھی اُن کی طرح پیدل چلنے کا شوقین ہوں‘‘بوڑھا آدمی کہتا ہے۔

لیکن پپو سوچتا ہے کہ شاید اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پرچلنا اِس کیلئے مذہبی عقیدت جیسی حیثیت رکھتا ہو لیکن پھر بھی گاڑیوں کی موجودگی میں یہ کوئی خاص عقلمندانہ قدم نہیں۔ چیزیں تو بڑی تیزی سے بدل جاتی ہیں لیکن شاید انسان اتنی تیزی سے تبدیلی اختیار نہیں کرتا۔ اپنے خوابوں کا پیچھا کرنے پر ابھی مجھے نہ جانے کیا کیا بھگتنا پڑے گا لیکن طور خان کی نسبت اس بوڑھے جوڑے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنا ٹھیک لگ رہا ہے، شاید خدا اب بھی مدد کر رہا ہے۔ انہی سوچوں میں گم پپو کی نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔

’’اُٹھو اُٹھو لاہور آگیا ہے‘‘ وہ اِسے جھنجھوڑ کر اٹھاتے ہیں۔
سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ وہ اُسے ٹیکسالی گیٹ کے نزدیک اُتار دیتے ہیں اور دعائیں دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پپو انتہائی لاپرواہی سے اِدھر اُدھر دیکھتا ہے تاکہ کسی کو یہ شک نہ ہو کہ وہ لاہور کا رہنے والا نہیں ہے۔اس کے دائیں بائیں لوگوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔

پپو تھکاوٹ محسوس کرنے لگا تھا، وہ ایک گلی میں داخل ہوگیا جہاں ایک دکان پر سجے گٹار اور موسیقی کا دوسرا سامان دیکھنے لگا۔ اس اثناء میں اُس کے سامنے سے دو لڑکے گزرتے ہیں جن میں سے ایک نے ڈی وی ڈی پلیئر اپنے بغل میں دبا رکھا ہے۔
’’اس بندے کو یہ پرواہ نہیں کہ اِسے کوئی سامان کہاں سے لاکر دیتا ہے‘‘ جس لڑکے نے ڈی وی ڈی اٹھایا ہوا ہے اپنے ساتھی سے کہتا ہے۔
’’میرے خیال میں تو یہ سامان یہاں بیچتا بھی نہیں ہے لگتا ہے کسی ٹرک وغیرہ میں رکھ کر بیچنے کیلئے کہیں اور لے جاتا ہوگا‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی پان کی دکان نہیں بلکہ ایک میوزک سنٹر ہے۔ اب پپو کو یقین ہوگیا کہ وہ لاہور میں ہے۔
’’کاش میرے پاس بھی بیچنے کیلئے کچھ ہوتا‘‘ پپو سوچنے لگتا ہے۔

اُسے چاہئیے کہ وہ کہیں بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل بنائے۔ لنک-10 پر چلے جائیے۔
لگتا ہے پپو بہت زیادہ شش و پنج کا شکار ہے اور اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے، اسے کسی سے بات کرنی چاہئیے تاکہ کوئی اس کی مدد کر سکے۔ اگر آپ اس بات سے متفق ہیں تولنک-11 پر چلے جائیے۔