نشے میں کہیں وہ تنہا نہ رہ جائے
نشے میں کہیں وہ تنہا نہ رہ جائے
جب اولاد بگڑجاتی ہے، تووالدین مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ دل گرفتہ ہو جاتے ہیں اور اُن کے جذبات منتشر ہوجاتے ہیں۔ اُن کے ذہن میں بار بار میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر انہوں نے ایسا کیا کیا تھا جس کی وجہ سے اُن کے گھر کا شیرازہ بکھر گیا؟ اس کا آسان جواب ہے ’’کچھ نہیں‘‘ ۔
سبھی والدین اولاد کی بہترین تربیت کرتے ہیں تاہم کچھ بچے سنور جاتے ہیں اور کچھ بگڑ جاتے ہیں، جو سنور جاتے ہیں وہ ’’بیبے‘‘ بچے ہوتے ہیں اور جو بگڑ جاتے ہیں وہ’’باں باں‘‘ بچے ہوتے ہیں۔ باں باں بچے والدین کی باں باں کرادیتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین کی اہلیت بس کچھ واجبی سی ہوتی ہے۔ پرورش کے نام پر انہوں نے جو کچھ سیکھا ہوتا ہے وہ محض ماحول کے مشاہدے پر مشتمل ہوتا ہے، کوئی باقاعدہ ٹریننگ نہیں ہوتی۔ جو بچے ’’بیبے‘‘ ہوتے ہیں وہ سنور جاتے ہیں اور والدین کو نیک نامی مل جاتی ہے۔ جو’’ باں باں‘‘ بچے ہوتے ہیں وہ بگڑ جاتے ہیں اور والدین کی ’’باں باں‘‘ کروا دیتے ہیں۔ والدین کی چیخیں نکل جاتی ہیں لیکن کوئی سن نہیں پاتا، کیونکہ یہ چیخیں بے آواز ہوتی ہیں! کاش! والدین کو اولاد ملنے سے پہلے خاطر خواہ ٹریننگ بھی مل جاتی! پر ایسا ہو نہیں پاتا۔ خوشخبری یہ ہے کہ بچوں میں بگاڑ آجانے کے بعد بھی والدین بہت کچھ کر سکتے ہیں اور اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو سنوار سکتے ہیں۔ لازم ہے کہ والدین اب کچھ ٹریننگ کا اہتمام کر لیں۔
نشے میں کہیں وہ تنہا نہ رہ جائے! ڈاکٹر صداقت علی کی کتا ب ہے جس کا پہلا ایڈیشن 1989ء میں، دوسرا 2006ء میں آیا اور اب یہ تیسرا ایڈیشن پیش خدمت ہے 2015ء میں۔ یہ کتاب والدین کی بین الاقوامی تحریک ’’”سُچی محبت” ‘‘ کے راہنما اصولوں پر مبنی ہے، جو دنیا میں بگڑے ہوئے بچوں کی زندگی میں سنہری انقلاب برپا کر رہی ہے۔
اس کتا ب میں زیادہ تر نشے کی بیماری کا حوالہ دیا گیا ہے تاہم یہ قوائد و ضوابط ہر قسم کے بگاڑ میں معجزے برپا کرتے ہیں۔ ویسے بھی نشے کی بیماری میں سب کچھ ہی بگڑ جاتا ہے۔ زیادہ نشے کے مریض تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر مریض اپنے گھروں سے دور ہوجاتے ہیں، کچھ پہلے جیسے نہیں رہتے، کچھ گھروں کو نہیں لوٹتے اور کچھ زندہ ہی نہیں رہتے۔ کچھ تو یادوں میں بھی نہیں رہتے، ویسے بھی غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں۔
ویسے میں نشے کے مریضوں کا غمگسار ہوں ، گزشتہ 37 سال سے میرے شب و روز اُن کے ساتھ گزرے ہیں، اُن کا مقروض ہوں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اُن کا قرض بڑھتا جا رہا ہے۔ اُن کی وساطت سے مجھے عزت، دولت اور شہرت، کیا کچھ نہیں ملا، ہر دم یہ احساس رہتا ہے مجھے ابھی اُ ن کیلئے بہت کچھ کرنا ہے۔ میرایقین ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں تو نشے کے مریضوں کی زندگی میں روشنی بکھیری جا سکتی ہے۔
والدین نشے کے عادی بچوں کے پیچھے تھانوں، عدالتوں اور علاج گاہوں میں خوار پھرتے ہیں۔ وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہوتے ہیں اور اولاد کیلئے اپنی دولت، شہرت حتیٰ کہ عزت تک داؤ پر لگا دیتے ہیں اور وہ بھی ایسی اولاد کے لیے جو نہ صرف نشہ، جرائم اور بدتمیزی پر شرمندہ نہیں ہوتی بلکہ کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اپنے والدین سے شدید نفرت کا اظہار بھی کرتی ہے۔
عموماً والدین خود سے ہی یہ تصور کر لیتے ہیں کہ وہ اولاد کو جنم دے کر کوئی جرم کر بیٹھے ہیں اور اس کی سزا بھگتنا ان کی مستقل ذمہ داری ہے۔ وہ ایک ایسی یک طرفہ محبت کا روگ پال لیتے ہیں جو انہیں یا ان کی اولاد کو خوشحالی نہیں دے سکتی۔ اگر آپ کو کسی تھانے، جیل یا علاج گاہ میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو حیرت ہوگی کہ نشے کے مریض وہاں خوش و خرم اپنے کارناموں پر فخر کرتے اور پکنک کے انداز میں وقت گزارتے ہیں۔ ان کے والدین کو دیکھیں تو رو رو کر اُن کی آنکھوں کا پانی خشک ہو چکا ہوتا ہے، وہ اپنی جمع پونجی ان نوجوانوں پر لُٹا چکے ہوتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ والدین اور معاشرے کے لیے سوہانِ روح بن چکے ہیں۔
ایک جمعہ کی صبح راشد کی والدہ پریشان ہے آج راشد کے چہرے پر پھر وہی ناگوار تاثرات ہیں۔ وہ حواس باختگی میں اپنی چیزیں اکٹھی کر رہا ہے اور کسی سے بات چیت تک نہیں کر رہا۔ اس کی ماں جانتی ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ انیس سالہ راشد گھر سے غائب ہونے کی تیاری کر رہا ہے، تھوڑی دیر میں وہ چپکے سے نکل جائے گا اور پھر دو تین ہفتے کے لیے کچھ پتا نہیں ہو گا کہ وہ کہاں ہے؟ اس کے جانے کے بعد ہی پتا چل سکے گا کہ گھر کی کون کون سی چیزیں اب موجود نہیں ہیں۔ ماں پریشانی کے عالم میں خوفزدہ نظروں سے فضا میں دیکھ رہی ہے، وہاں بھی پریشانی کے علاوہ اس کے لیے کچھ نہیں کیونکہ جب سے اس کا بیٹا چرس کا عادی ہوا ہے بغاوت اس کی رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے۔
اِدھرگوجرانوالہ میں 60 سالہ الٰہ دین صبح گیارہ بجے اپنے بیٹے کو جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’’توصیف! توصیف جاگو!! تم نے انٹرویو کیلئے جانا ہے۔ وقت جا رہا ہے‘‘ توصیف باپ کا ہاتھ جھٹکتا ہے اور غصے سے آگ بگولہ ہو کر بستر سے کود کر اٹھتا ہے اور چیختا ہوا کھڑکی کے شیشے توڑ دیتا ہے، اس کے ہاتھوں سے خون بہہ رہا ہے اور وہ کہتا ہے، ’’بڈھے تم میری جان کیوں نہیں چھوڑتے؟ میں نے نہیں کرنی کوئی نوکری ووکری، مجھے کوئی خیرات نہیں چاہئیے، تم نے میری زندگی خراب کردی ہے۔ دفع ہو جاؤ میرے کمرے سے، تمہاری ماں کو۔۔۔‘‘ الٰہ دین مایوسی کے عالم میں کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں اپنی بیوی سے ملتا ہے اور بتاتا ہے کہ توصیف آج پھر ’’اپ سیٹ‘‘ ہے اور ہاتھاپائی پر اترا ہوا ہے۔ مایوسی کے انداز میں بیوی کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے ،’’ میرا دل چاہتا ہے کہ اس گھر سے کہیں دور بھاگ جاؤں۔‘‘ اُس کی بیوی کہتی ہے، ’’ دِل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے لیکن بیٹے کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوں۔‘‘
کچھ ہی دیر بعد توصیف تیار ہو کر ہاتھ پر پٹی باندھے، سپاٹ چہرہ لیے کہتا ہے، ’’پاںچ سو روپے دیں میں انٹرویو کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ اس کا باپ خوشی سے کھل اٹھتا ہے اور جیب سے ہزار کا نوٹ نکال کر کہتا ہے، ’’یہ رکھ لو بیٹا انٹرویو کے بعد کچھ کھا لینا۔‘‘ اس کے جانے کے بعد دونوں میاں بیوی امید بھری نظروں سے دیر تک اس راہ کو تکتے رہے جس پر ان کا لاڈلا انٹرویو دینے گیا تھا۔ صدافسوس! وہ اپنے معصوم خیالوں کے اُس پار توصیف کو نشہ کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
دھرم پورہ میں رہائش پذیر ناصرہ بیگم کو سکول سے خط ملتا ہے کہ اس کا پندرہ سالہ بیٹا گڈو پچھلے دو ہفتوں سے سکول نہیں آیا۔ اس کے خیال میں یقیناً یہ غلط فہمی ہے کیونکہ وہ تو روزانہ گڈو کو سکول بھیجتی رہی ہے۔ اس کے دل میں یہ خدشہ بار بار سر اُٹھا رہا ہے کہ اگر یہ خط حقیقت پر مبنی ہے تو اس کا بیٹا ان دنوں میں کیا کرتا رہا ہے؟ اس پر خوف کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ خاوند کی وفات کے بعد دو سال سے وہ تن تنہا مصیبتوں میں گھری، ایک دُکھ بھری زندگی گزار رہی ہے، گھر کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھانے کے علاوہ دیگر مسائل بھی نپٹا رہی ہے۔ جب اسے پتا چلے گا کہ اس کا لعل سکول سے بھاگ کر چرس بھرے سگریٹ پیتا ہے تو اسے کس قدر صدمہ ہوگا؟
تیس سالہ خوبصورت نوجوان رفیع ایک ٹریولنگ ایجنسی چلاتا ہے اور اپنے والدین کے ساتھ سرد جنگ کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے۔ رفیع نشہ کرتا ہے اور کچھ دیگر غلط دھندوں میں بھی ملوث ہے۔ زیادہ تر گھر سے باہر رہتا ہے اور مالی معاملات میں اہل خانہ سے کوئی تعاون نہیں کرتا جبکہ تمام گھریلو سہولتوں سے فائدہ اٹھانا اپنا حق سمجھتا ہے۔وہ اپنی ساری کمائی ایک ماڈل گرل نتاشا پر اُڑا دیتا ہے۔ ابھی دو دن پہلے ایک بدقماش شخص گھر آ کر بدزبانی کر رہا تھا کہ اس نے رفیع سے دو لاکھ روپے لینے ہیں لیکن وہ اسے کہیں نہیں مل رہا، رفیع نے اس سے انگلینڈ کے ویزے کا وعدہ کیا تھا۔رفیع کے والد نے اسے پچیس ہزار روپے دے کر ٹالا، بعدازاں ڈرتے ہوئے رفیع سے اس بات کا تذکرہ بھی نہیں کیا، ایسے موقعوں پر پہلے ہی وہ کئی دفعہ رفیع سے بے عزتی کروا چکا ہے۔
نیشنل ہسپتال کی ایمرجنسی میں 22 سالہ سرفراز بے ہوش پڑا ہے۔ ڈیوٹی نرس اس کے دوستوں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اسے ہسپتال لائے تھے لیکن وہ کسی بھی سوال کا معقول جواب دینے سے انکاری ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد یہ دوست کچھ بتائے بغیر چلے جاتے ہیں۔ ایمرجنسی روم کا ڈاکٹر وجوہات پر غوروفکر کر رہا ہے سرفراز کی آنکھوں کی پُتلیاں بہت بُری طرح سُکڑی ہوئی ہیں۔ سرفراز پہلی دفعہ موت و حیات کی کشمکش میں ہسپتال کی ایمرجنسی میں نہیں آیا لیکن اس دفعہ اس کی زندگی حقیقی خطرے میں لگ رہی ہے۔ معدے سے حاصل شدہ مواد سے پتا چلتا ہے کہ وہ نشے کی گہری مدہوشی میں ہے۔ سرفراز اگلے دس دِن وینٹی لیٹر پر گزارتا ہے۔ ہوش آتے ہی گھر جانے کی ضِد کرتا ہے۔ اس کے والدین سخت پریشان و بے بس دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اسے سدھارنے کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہو رہی ہیں۔
جاوید اور اقبال کے والدین آپس میں کوئی ضروری صلاح مشورہ کر رہے تھے حسبِ معمول جاوید کا سٹیریو کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا، جب اس کے باپ سے رہا نہ گیا تو وہ غصے میں جاوید کے کمرے کی طرف لپکا۔ حسبِ معمول کمرے سے چرس کی بدبو آ رہی تھی۔ وہ چلایا ’’الو کے پٹھے، بند کرو اسے۔‘‘ 20سالہ جاوید جواباً دھاڑا ’’بہن۔۔۔ جاؤ یہاں سے ورنہ تمہارا سر پھاڑ دوں گا۔‘‘ اس نے کرکٹ کا بلا ہوا میں لہرایا تو باپ جوابی گالیاں دیتا ہوا نچلی منزل کی طرف چل دیا۔ 18سالہ اقبال باپ کے پیچھے بھاگا اور کہا کہ ’’آئندہ تم نے میرے بھائی کو کچھ کہا تو میں تمہیں دیکھ لوں گا، بڈھے! تم ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے؟‘‘ ہماری دولت پر سانپ بنے بیٹھے ہو! مرتے بھی نہیں!
ڈیفنس میں ایک مشہور بیوروکریٹ کی بیوہ، امام مسجد سے اپنے نوجوان نشئی بیٹے ذیشان کی شکایت کر رہی تھی جس نے گھر کی چیزیں بار بار چوری کر کے اپنی ماں کو پاگل کر رکھا تھا۔ وہ بیٹے کے ڈر سے ہر چیز کو تالے میں رکھنے لگی تھی لیکن پھر بھی اس کی تمام پونجی لُٹ چکی تھی۔ وہ پریشان تھی کہ کس سے مدد طلب کرے۔ پڑوسی کہتے تھے کہ ہمیں ڈر لگتا ہے اس لیے ہم دخل نہیں دے سکتے، پولیس کہتی تھی کہ یہ گھر کا معاملہ ہے اور قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے۔ امام صاحب نے تسلی دی اور کہا ’’میں تو دُعا ہی کر سکتا ہوں اللہ ہی ہے جو اس کو نیکی کی ہدایت دے۔‘‘
لبرٹی مارکیٹ گلبرگ کے نزدیک زبیر اپنی بہن طاہرہ کو تسلی دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے طاہرہ کا اپنی والدہ سے جھگڑا ہوا تھا کہ وہ رات دیر تک گھر سے باہر کیوں رہتی ہے۔ کالج میں چھٹی ہونے کے بعد وہ نشے کی خاطر گھر سے باہر جانے پر مجبور تھی۔ ماں سے جھگڑے کے بعد اٹھ کر وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ جب وہ کافی دیر تک واپس نہ آئی تو زبیر اس کے کمرے میں گیا۔ کمرے میں اس نے بہن کی کلائیوں سے خون بہہ رہا تھا۔ زبیر کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
یہ کوئی ایک کہانی نہیں ہے، کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے کشمیر تک ہماری نوجوان نسل نشے کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور ان کا رویہ والدین کے لیے شدید اذیت کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہر چند کہ ہر گھرانے کے حالات مختلف ہیں مگر طوفان بدتمیزی یکساں ہے۔ اسی طرح وہ بہانے بھی ملتے جلتے ہیں جو نوجوان اپنے ان رویوں کے جواز میں پیش کرتے ہیں جب ان سے بات کریں تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے خلاف بھرے بیٹھے ہیں۔
یہ نوجوان اپنے کمروں کو اندر سے بند کئے رکھتے ہیں اور کمروں کی حالت کباڑ خانوں سے بدتر ہوتی ہے۔ باز پرس کرنے پر کہتے ہیں کہ یہ ان کے کمرے ہیں وہ جو چاہے کریں۔ وہ گھر میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور صاف مکر جاتے ہیں کہ انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔
ایسے نوجوان اہل خانہ سے دنگا فساد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قصور ان کا ہرگز نہیں تھا۔ وہ والدین سے بدتمیزی کرتے ہیں اور اُلٹا شکایت بھی کرتے ہیں کہ والدین نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ جب انہیں کسی کام کے لیے رقم دی جاتی ہے تو وہ اکثر گم ہو جاتی ہے، اکثر وہ دوسروں کے مقروض رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے بہت زیادتی ہو رہی ہے۔
راتوں کو دیر سے آتے ہیں اور یہ بتانے سے انکار کردیتے ہیں کہ وہ کہاں تھے؟ وہ گھر کی چیزیں اور ماں باپ کی رقمیں چراتے ہیں لیکن پکڑے جانے پر ذرہ برابر ندامت کا اظہار نہیں کرتے۔
گھر میں بدقماش اور بری شہرت کے حامل لوگوں کو لاتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ اہل خانہ ان کے معزز دوستوں کی عزت نہیں کرتے۔
ایسے نوجوان اونچی آواز سے میوزک بجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اکثر نشے کی حالت میں گھر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو ٹھیک ٹھاک ہیں۔
کسی بھی جگہ صحیح وقت یا صحیح حالت میں نہیں پہنچتے اور پھر کہتے ہیں کہ وہ ’’پتہ نہیں ڈھونڈ پا رہے تھے‘‘ یا ان کے پاس ’’کرایہ دینے کے لیے پیسے نہ تھے‘‘ کوئی بھی بہانہ بنانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
گھریلو ساز و سامان، در و دیوار، فرنیچر اور برتن توڑتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ’’ذرا غصے‘‘ میں تھے اس لیے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ اہل خانہ سے ملنا جلنا ترک کر دیتے ہیں اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ گھر والوں سے ان کا مزاج نہیں ملتا، کبھی تو کھلم کھلا اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمیں الگ سے ایک فرنشڈ فلیٹ لے دیں جہاں ہم سکون سے رہ سکیں۔ جائیداد ہو نہ ہو جائیداد میں سے حِصہ مانگتے رہتے ہیں۔ مفت بَری کی زندگی گزارتے ہیں۔ اور پھر گھروالوں پر احسَان کرتے ہیں۔
سکول اور کالج سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ اساتذہ سے بدتمیزی کرتے ہیں، پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے، غسل خانے میں بیٹھ کر چرس بھرے سگریٹ پیتے رہتے ہیں نتیجتاً فیل ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فیل ہونے پر زرا برابر شرمندہ نہیں ہوتے۔ بشیر اور نوید بھی تو فیل ہوئے ہیں ناں! پڑھائی سے بھاگنے کو ”گیپ ائیر“ کہتے ہیں۔
زیادہ ترایسے نوجوان آدھی رات کے بعد گھر لوٹتے ہیں اور پھر آدھی دوپہر تک گھر میں سوئے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں نوکری نہیں ملتی۔ والدین جب کسی نوکری کا انتظام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ کام میری حیثیت کے مطابق نہیں۔ اگر انہیں کسی نوکری پر جانے کے لیے مجبور کر دیا جائے تو چند ہی دن بعد یہ کہہ کر جانا بند کر دیتے ہیں کہ وہ کام اُن کی طبیعت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ باس بہت چِخ چِخ کرتا ہے۔
نوکری میں کام کاج کی بجائے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اپنے فرائض پورے نہیں کرتے اور جب انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہر کوئی ان کے خلاف ہے۔ سب ناجائز شکایتیں کرتے ہیں اس لیے ان کو نکال دیا گیا۔ پتا نہیں مینیجر کانوں کے کچے کیوں ہوتے ہیں۔
موٹر سائیکل پر کرتب دکھانے کا جنون ہوتا ہے۔ تہواروں اور قومی دنوں پر اگلا پہیہ اُٹھا کر ون ویلنگ کرتے ہیں اور اکثر راہگیروں کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ وجہ پوچھیں تو کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی نہیں، ہمیں قومی دنوں پر خوشیاں منانے کا کوئی حق نہیں؟
اکثر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہیں اور جب حادثات ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ قصور تو دوسرے کا تھا۔
جوا کھیلتے ہیں اور پکڑے جانے پر کہتے ہیں کہ وہ تو محض دیکھ رہے تھے۔ نشے کی خرید و فروخت میں مصروف رہتے ہیں اور جب پولیس پکڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ کسی اجنبی نے انہیں نشے کا پیکٹ تھما دیا تھا، انہیں تو کچھ بھی معلوم نہیں۔
خوشحال گھرانوں کے فرد ہونے کے باوجود دکانوں سے چیزیں چراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو شغل ہے چوری نہیں آخر دکاندار بھی تو بہت لوٹ مچاتے ہیں۔
اس قسم کے گندے روئیے اور بوگس بہانے پاکستان میں والدین کیلئے نئے اُبھرتے ہوئے مسائل ہیں۔ شروع شروع میں ایسے ’’ہونہار‘‘ بچوں کو بہت سے نام دئیے جاتے ہیں مثلاً ’’اتھرا‘‘، ’’ضدی‘‘، ’’بگڑابچہ‘‘، ’’لاڈلا‘‘، ’’حساس‘‘، ’’بری صحبت کا شکار‘‘۔ ایسے لیبل ان رویوں کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ ایسے بچوں کو ’’پرابلم چائلڈ‘‘ یا ’’سائیکو‘‘ کہہ کر ان نامناسب رویوں کا جواز مہیا کر دیتے ہیں۔ کبھی انہیں ’’گھٹن کا شکار‘‘ سمجھا جاتا ہے اور کبھی ’’شناخت کے بحران‘‘ میں گھرا ہوا مظلوم لڑکا لیکن آخر کار یہ نشے کی اندھی گلی میں پہنچ جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات انہیں سائیکوپیتھ یا باغی قرار دیتے ہیں اور بچپن میں ہونے والے اہم واقعات کو اس روئیے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں گویا جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس مسئلے سے کیسے نپٹا جائے؟
والدین پریشانی سے بے حال ہیں۔ اپنے دُکھ کا اظہار بھی نہیں کر سکتے لیکن خاموشی سے اس آگ میں جلتے رہتے ہیں اور کسی کو بھی کان و کان خبر نہیں ہونے دیتے۔ وہ اپنے آپ کو اس صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، اپنے قول و فعل اور ضمیر کی عدالت میں ہمیشہ خود ہی پیش ہوتے رہتے ہیں تاکہ اپنے ’’جرم‘‘ کا تعین کر سکیں۔ کبھی وہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچے کی تربیت ٹھیک نہیں کی تھی، کبھی آپس کے جھگڑوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، کبھی طلاق، دوسری شادی یا محبت کے کسی رشتے کی دوری کو اس کی وجہ سمجھتے ہیں۔
والدین کو ایک غلط فہمی یہ بھی ہوتی ہے کہ ہو نہ ہو اس کے بچپن میں ہماری طرف سے محبت کی کمی رہ گئی تھی! کبھی یہ وہم انہیں ستاتا ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے والدین کے ساتھ کیا تھا وہ ہی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے!! حد تو یہ کہ کبھی وہ اس گمراہ کن نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ انہی کے کسی گناہ کی سزا ہے !!! حیرت کی بات ہے جس زمانے کا کچھ باقی نہیں بچا، اس زمانے کے نفسیاتی نظریات آج بھی چھائے ہوئے ہیں۔ فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی تو ہم آج کے دور کی پڑھتے ہیں لیکن جب علم نفسیات کی باری آتی ہے تو 100 سال پہلے کے نظریات سے چپکے نظر آتے ہیں۔ تحقیق و مشاہدے نے ثابت کیا ہے کہ والدین ہر گز بے بس نہیں ہوتے انہیں محض اپنی طاقت دریافت کرنے اور مؤثر انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پچھلے 40 سال میں ہم نے ان گنت والدین کو نشے میں گم بچوں کو ڈھونڈ نکالنے میں مدد دی ہے۔ کیا یہ بچے کسی انجانی اذیت سے نجات پانے کے لیے نشہ کرتے ہیں؟
اپنے بچے کے نشہ کرنے کی وجہ جاننے میں ناکامی جب والدین کا منہ چڑاتی ہے تو وہ شرمندگی، الزام تراشی اور احساسِ گناہ کی تکون میں پھنس جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں گھر کی فضا بے چینی سے آلودہ ہوجاتی ہے ہر نئے پھڈے کے ساتھ بے چینی بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایسی فضا میں دوسرے بچے بھی گھریلو ماحول سے دور اپنے کمروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ غم و غصہ اور چوٹ مِل کر بے بسی کو جنم دیتے ہیں یہ بے بسی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کسی کو اپنا چہرہ صاف نظر نہیں آتا۔ بے بسی اس لئے بھی ہے کہ ماضی میں گھروں میں جنم لینے والے مسائل آسانی سے حل ہو جایا کرتے تھے لیکن نشے کا مسئلہ تو ناکوں چنے چبوا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بچے والدین کے لئے ان کی سکت سے بڑھ کر مسائل پیدا کر رہے ہیں اور گرد و نواح میں لوگ بت بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔
نشے کی اس دیوانگی کا نقصان صرف مریض کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایسا نوجوان پورے گھر کیلئے تباہی کا سامان پیدا کر سکتا ہے، خود اپنے خاندان کے بخیے ادھیڑ سکتا ہے حتیٰ کہ ازدواجی زندگی کا سکون بھی الزام تراشیوں ٗ روز روز کی جِھک جِھک اور دھمکیوں کی نذر کر سکتا ہے۔ جسمانی طور پر صحت مند لوگوں کو آخر کار ہسپتالوں کے بستر پر پہنچا سکتا ہے۔ معاشرے کے لئے تو الگ مسائل پیدا ہوتے ہیں اس طرح وہ دوسرے نوجوانوں کو بھی اپنے طور طریقے سکھا سکتا ہے اور سڑک پر غیر محتاط ڈرائیونگ سے کسی کی جان بھی لے سکتاہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ بس ڈرائیور آخر سڑکوں پر درختوں سے کیسے ٹکراتے ہیں؟ ٹرک ڈرائیور ٹرک سمیت دریا میں کیسے جا گرتے ہیں؟ نشے کے بغیر تو کوئی چاہتے ہوئے بھی یہ ’’کارنامے‘‘ انجام نہیں دے سکتا۔ سڑک پر دوسرے لوگوں کی گاڑیاں تو آپس میں ٹکراتی ہیں جبکہ پیشہ ور ڈرائیور ’’پٹری‘‘ سے ہی اتر جاتے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پیشہ ور ڈرائیوروں کی اکژیت نشیٔ اور چرس کی رسیاء ہوتی ہے۔ یہی حال جہازوں کے کپتانوں کا ہوتا ہے۔ تقریباً 80 شراب نوشی کو ضروری سمجھتے ہیں اور بعض تو بلد نوشی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور اِسی حالت میں جہاز اُڑاتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دل سے نکال دینی چاہیے کہ شاید نشہ کرنے والے نوجوانوں کی تربیت اور ماحول میں ہی کوئی نقص رہ گیا ہو گا۔ تربیت کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، ہم نے بدترین حالات اور یتیم خانوں میں پلنے والوں کو بلندیوں پر جاتے دیکھا ہے۔ بہت سے گھرانوں میں نسل در نسل خوشحالی کا تسلسل بھی ہمارے مشاہدے میں آیا ہے، تاہم یہ خیال بنیادی طور پر غلط ہے کہ صرف وہی بچے بگڑتے ہیں جو احساس محرومی ٗ عدم توجہی اور زیادتیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ہر بگڑے ہوئے نوجوان کا پس منظر اور گھریلو ماحول یکساں نہیں ہوتا۔ ان کے والدین امیر ٗ غریب ٗ پڑھے لکھے ٗ ان پڑھ ٗ سخت گیر ٗ نرم خو ٗ مذہبی ٗ غیر مذہبی ٗ طلاق یافتہ، دوسری شادی والے یا پھر پہلی ہی شادی والے ہو سکتے ہیں۔ خود یہ نوجوان اکلوتے ٗ بہن بھائیوں والے ٗ لے پالک یا یتیم خانے میں پلنے والے ہو سکتے ہیں۔ ایک ہی خاندان میں ایک ہی طرح سے پلنے والے تمام بچے نشے کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتے اور نہ ہی غلط رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں پھر صرف ایک اکیلے فرد کو ہی یہ کانٹا کیوں چبھتا ہے؟
نشے کے تمام مریضوں کی گہری چھان بین کے بعد نشے کی جو مختلف وجوہات سامنے آتی ہیں ان میں صرف ایک چیز یکساں نظر آتی ہے اور وہ ہے موڈ کی خرابی اور اِسے نشے سے دور کرنے کا رُجحان۔ ایسا عام لوگوں میں کچھ کم اور اشرفیہ میں کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ نشہ اپنانے والے کافی ذہیں لوگ ہوتے ہیں اور اپنی ذہانت کا بہت غرور رکھتے ہیں۔ وہ بہت اعتماد سے نشے کی دُنیا میں اُترتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں گے نشے کی دُنیا سے صحیح و سالم نکل آئیں گے۔ ان کے برعکس عقل والے محتاط ہوتے ہیں اور وہ اس مصیبت میں پھنستے ہی نہیں۔ وہ علتوں کی بجائے عادتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ذہین لوگ رسک لیتے ہیں اور نشے میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ وہ پھر نشہ جاری رکھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ پہاڑوں پر برف پگھلتی رہتی ہے، ندی نالوں میں سے پانی دریاؤ ں میں آتا رہتا ہے، دریاؤ ں میں طغیانیاں آتی رہتی ہیں۔ بہت بند باندھے جاتے ہیں لیکن سیلاب کا ریلا سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ نشئی خود بھی دکھتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو بھی دُکھاتے ہیں۔ مختلف شخصیات کے مالک نشہ اپنانے کے کچھ عرصہ بعد ہی سکے بند نشئی نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ سُورج مکھی کے پھول کی طرح اپنا رُخ ہمیشہ نشے کی طرف رکھتے ہیں
ابھی تک ان رویوں کی کچھ وجوہات پتا چلی ہیں، ہو سکتا ہے کہ باقی وجوہات گہری تہوں میں چھپی ہوں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر آپ اپنے ان تمام رویوں کو بدل ڈالیں جو انہیں بالواسطہ نشے کا سلسلہ جاری رکھنے میں مدد دیتے ہیں اور اپنی اجتماعی کوششوں سے انہیں علاج کی طرف راغب کریں اور نشے کے بغیر جینے کے ڈھنگ سکھائیں تو وہ آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔ بعد میں آپ ان کے نشہ کرنے کی وجوہات بھی تلاش کر لیں۔ بروقت علاج نہ کیا جائے تو ایڈکشن ایک جان لیوا بیماری ہے۔ یادرہے، کہ یہاں ہم محض کسی علت کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ زندگی اور موت کے مسئلے کو زیر بحث لا رہے ہیں۔
پچھلی صدی کے چوتھے عشرے میں تین نشہ چھوڑنے والوں نے نشے کی بیماری سے نمٹنے کیلئے بارہ اقدامات تجویز کئے تھے۔ یہ اقدام مریضوں اور ان کے والدین کیلئے نشے سے نجات کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ان بارہ اقدام کو ہم این اے پروگرام کہتے ہیں۔ یہ پروگرام بین الاقوامی طور پر نشے کی بیماری کا حتمی علاج سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں این اے کی انجمنیں ان لوگوں کی مدد کر رہی ہیں جو کبھی نشے کی دلدل میں تھے۔ ہر ملک میں انجمن کا نام علاقائی زبان میں ہو سکتا ہے لیکن انجمن کے اصول اور اغراض و مقاصد یکساں ہوتے ہیں۔ نشے کے مریض کے چاہنے والے سب سے پہلے اپنے غم و غصہ پر قابو پاتے ہیں، ٹریننگ کی مدد سے آپ بھی بخوبی ایسا کر سکتے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب آپ کو “سُچی محبت” کے بارہ عقیدے بتاتی ہے جن کی مدد سے آپ پھر سے اپنے پیارے بچوں کو خوبصورت زندگی گزارنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
آپ کو یقین نہیں آیا ناں؟ پہلے پہل سب کو یہ اِک خواب ہی لگتا ہے!
جب والدین خاصے عرصہ تک اپنے نشے کے مریض کو سنبھالنے میں ناکام رہے ہوں تو کوئی بھی نئی چیز انہیں ایک دم سے متاثر نہیں کرتی۔ ایک ہی گھر میں کسی نشے کے مریض کے ساتھ گزارہ کرنا کتنا مشکل کام ہے ٗ اس بات کا اندازہ صرف اس گھر میں رہنے سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔
نشے کا مریض کس طرح آپ کے اعصاب کو جھنجھوڑتا ہے ٗ یہ ایک الگ ہی داستان ہے۔ پے در پے ناکامیوں کے بعد آپ کو پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ نشے سے نجات ناممکن ہے۔ یہاں سے حالات کا ایک اور رُخ سامنے آتا ہے اور خود آپ کی منفی سوچ کا آغاز ہوتا ہے، یہ منفی سوچ مایوسی کو جنم دیتی ہے، اس مایوسی کے نتیجے میں آپ کا اِرد گرد سے دھیان ہٹ جاتا ہے اور زندگی کی رونق ختم ہوجاتی ہے۔ آپ تنہا رہنا پسند کرتے ہیں اور ہمہ وقت غم و غصے کی کیفیت میں رہتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے ایک بیماری کی شکل اختیار کر جاتی ہے ایک طرح سے آپ روگی ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ کبھی کامیابی مِلے گی محال ہو جاتا ہے، پورے گھر کا نظام بگڑ جاتا ہے اور مایوسی کے اندھیروں میں زندگی درہم برہم ہو جاتی ہے۔ آپ میل ملاپ، تقریبات میں جانا اور کاروباری منصوبے بنانا چھوڑ دیتے ہیں۔ گویا جو توانائی مثبت سرگرمیوں میں خرچ کی جا سکتی ہے وہ بھی آپ مایوسی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں … “سُچی محبت” آپ کو یہ منفی رویے بدلنے کا حوصلہ دیتی ہے!
ان نوجوانوں کے نشئی رویوں کو بدلنے کے لیے لازم ہے کہ پہلے آپ اپنی منفی سوچ اور عقیدوں کو بدلیں۔ آپ کو منصوبہ بندی کرنا ہو گی اور دل برداشتہ ہوئے بغیر باہمی تعاون رہنمائی کی بدولت ایک نئی سمت میں سفر کرنا ہو گا۔
ان نئے رویوں کو اپنا کر آپ نشے کے مریضوں کی غلط حرکتوں کے منفی نتائج بھگتنے سے انکار کر دیں گے۔ کیونکہ نشہ بازی کے فطری نتائج سے اُبھرنے والی تکلیف سے صرف مریض ہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے لہذاء اِس تکلیف کا بہترین حقدار وہی ہے۔ جب نشے کا مزہ اور تکلیف دونوں ہی اُسے ملیں گے تو اُسے جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ صریحاََ گھاٹے کا سودا ہے پھر آپ ان کی پردہ پوشی بھی نہیں کریں گے اور ان کی مدد صرف نشہ چھوڑنے میں کریں گے۔ یہ بات اس تحریر کو پڑھنے والوں کیلئے شاید پہلا جھٹکا ہو لیکن یہ پہلا جھٹکا ہی انہیں اگلے صفحات میں ملنے والی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے پر آمادہ کرے گا۔ میٹھی میٹھی باتیں ہم اور آپ کئی سال سے کر رہے ہیں۔ نعرے بھی بہت لگا چکے ہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سب مل کر ایک ٹھوس لیکن محبت بھرا حل تلاش کریں جو ہم سب کے اجتماعی روگ کو ختم کر سکے ۔
ہم اس حل کو آئندہ صفحات میںُ “سُچی محبت” کے نام سے پکاریں گے۔ یہ کتاب ہم نے ان والدین کی مدد سے لکھی ہے جو “سُچی محبت” کے عقیدوں پر چل کر اپنے بچوں کو نشے کی بیماری سے نجات دلا چکے ہیں اور انہی کی زبان میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ اور والدین نشے سے متعلقہ مسائل حل کر سکتے ہیں تو یقینی طور پر آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ “سُچی محبت” سچُے موتیوں کی طرح اپنی آب و تاب برقرار رکھتی ہے۔
ُ”سُچی محبت” کے عقائد و نظریات کے متعلق مزید جاننے سے پہلے بہتر ہے کہ ہم نشے کی بیماری کو سمجھ لیں۔ اگلے باب میں نشے کی بیماری کے حوالے سے چند بنیادی باتوں کو بیان کیا گیا ہے جس سے اس بیماری کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
والدین کی بہت بڑی خوش فہمی ہے کہ ہمارے بچے ذمہ داریوں کا بوجھ پڑنے کے بعد سُدھر جائیں گے کچھ ان جانی وجُوحات ہیں کہ وہ بالغ ہو جانے کے بعد بھی بلوغت کو نہیں پہنچتے۔ یہی نہیں بلکہ وہ چرس اور دیگر منشیات کے استعمال،اپنے غیرسنجیدہ، نامناسب، بگڑے ہوئے رویوں کے باعث اور بری صحبت کی وجہ سے اپنے والدین کی جان کا روگ بھی بن جاتے ہیں ۔
بری صحبت کے باعث اور چرس کے متواتر استعمال سے سیکھنے کی صلاحیت تباہ ہوجاتی ہے۔ تعلیمی استعداد اور قابلیت کے درجوں میں بھی تیزی سے کمی آنا اور سمجھ بوجھ دھندلا جاتی ہے۔ چرس کا متواتر استعمال منطقی سوچ کو متاثر کرتا ہے۔ غور و فکر کا انداز بتدریج بدل جاتا ہے۔ پھر ایک ایسی جسمانی تبدیلی بھی آسکتی ہے کہ چرس کا مزہ مختصر اور آدم بیزاری کے وقفے طویل تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان رویوں کی سب سے بڑی قیمت اس وقت ادا کرنا پڑتی ہے جب اس دوران کچھ سیکھنے یا مسائل حل کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ نوعمر افراد میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے کیونکہ جو دن وہ غیر اخلاقی کاموں میں گزارتے ہیں وہی دن مہارتیں سیکھنے کے ہوتے ہیں۔ خوشگوار حسیات اور حسوسات قلیل تر اور آدم بیزاری کے وقفے طویل تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مزید علامتوں میں اضطراب، ناگہانی خوف و ڈر، شخصی بگاڑ، ڈپریشن اور ذہنی توازن کی خرابی شامل ہیں۔
چرس میں 421 کیمیلز پائے جاتے ہیں لیکن اصل کیمیکل جس کی خاطر لوگ چرس پیتے ہیں ٹی ایچ سی کہلاتا ہے ۔ 1960 میں چرس کی جو قسم میسر تھی اس میں ٹی ایچ سی کا عنصر %0.5 تھا۔ 80 اور 90 کی دہائیوں میں چرس ایک خطرناک نشے کی شکل اختیار کر گئی اور افسوس کی بات تو ہے کہ عام دستیابی کے علاوہ اس میں ٹی ایچ سی کا عنصر بھی بڑھتا چلا گیا اب جب نئی صدی کروٹ لے چکی ہے تو چرس کی بہت سی اقسام میں ٹی ایچ سی کا عنصر %50 سے بھی زیادہ ہے۔ لوگوں کے چرس سے گھائل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نام تو وہی ہے لیکن یہ پہلے سے 100 گنا زیادہ طاقتور، زود اثر اور نقصان دہ ہو گئی ہے۔ آج کی چرس میں جتنا دم ہے، اس کو چرس کہنا زیادتی ہے۔
پاکستان میں نشے کے مریضوں کی تعداد سرکاری طور پر 76 لاکھ بتائی جاتی ہے اس کا مطلب ہے کہ نشہ کرنے والوں کی حقیقی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ نشہ کرنے والوں میں کچھ آگے چل کر نشے کے مریض بنتے ہیں۔ منشیات استعمال کرنے والے ان گنت لوگوں میں ایک بڑی تعداد چرس کی رسیاہے۔ لاعلمی کی بنیاد پر چرس کو ایک بے ضرر نشہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ آج کی چرس جسم کے تمام اعضاء کیلئے تباہی لاتی ہے۔ خصوصاً دماغ پر اس کے اثرات انتہائی مضر ہوتے ہیں۔ نوجوان تجسس اور مہم جوئی کی بناء پر چرس کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ حلقہ یاراں اور ماحول کا دباؤ ’ناں‘ کہنے والوں کو ’ہاں‘ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چرس کا سب سے خطرناک اثر اس پر بڑھتا ہوا انحصار ہے۔ جب کوئی منشیات اِستعمال کرتا ہے تو منشیات اُس کے لیے وہ سبھی کچھ کرتی ہے جو خود اُس نے کرنا ہوتا ہے۔ چرس پینے کی سب سے بڑی قیمت اس وقت ادا کرنا پڑتی ہے جب اس دوران کچھ سیکھنے یا مسائل حل کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ نوعمر افراد میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے کیونکہ جو دن وہ چرس پیتے ہوئے گزارتے ہیں وہی دن مہارتیں سیکھنے کے ہوتے ہیں۔
نوجوانوں میں والدین، کالج اور دوستوں سے متعلق پریشانیاں عام سی بات ہے۔ ان پریشانیوں سے نمٹنے کا آسان حل بے حسی کے ساتھ چرس کے نشے میں دھت ہو جانا یا آنکھیں بند کر لینا سمجھا جاتا ہے۔ اس عالم مدہوشی میں تمام مسائل کوآسانی سے بھلایا جا سکتا ہے۔ حیرت تب ہوتی ہے جب نشہ اترتا ہے اور آنکھ کھلتی ہے اور حقیقت کا سامنا کر نا پڑتا ہے تو بھی مسائل جوں کے توں موجود ہوتے ہیں۔ اب بندے کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو وہ یہ مسائل حل کرے یا پھر دوبارہ نشے میں مبتلا ہو جائے یا بے حسی کا مظاہر ہ کرے، اگر خود اسے اختیار دیا جائے تو وہ عموماً دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے کیونکہ یہ آسان ہوتا ہے۔ اگر چرس ان پریشانیوں اور سوچوں کے تضادات اور کشمکش کو ختم کرنے میں ناکام ہو جائے تو پھر زیادہ زود اثر منشیات کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ ہم نے پچھلے 40 سال میں ہزاروں مریضوں کا علاج کیا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ان میں سے 90 فیصد نے نشہ کا آغاز چرس سے کیا تھا۔
نوجوانوں کیلئے چرس ایک لنگوٹیے کی طرح ہوتی ہے تاہم جب چرس انہیں مطمئن نہیں کرتی تو وہ زیادہ تیز اور سخت نشے کو گلے لگا لیتے ہیں۔ لیکن چرس کا ساتھ نہیں چھوڑتے اُس کا احترام جاری رکھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ تمام والدین یہ آخری فقرہ دوبارہ غور سے پڑھیں کیونکہ معاشرہ میں منشیات کی دستیابی کے حوالے سے یہ بہت تلخ حقیقت ہے کہ والدین کو منشیات کا شک پڑھنے پر اپنے بچوں کے کمروں کی تلاشی لینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح آپ موثر بات چیت کے ذریعے نشے کا استعمال ابتدائی مراحل میں روک سکتے ہیں۔ نوجوان چرس کی گہری عِلت کے بعد ہی ہیروئن کا اندھیرا رگوں میں اتارنا سیکھتے ہیں ۔ اپنے بچے میں چرس کے استعمال کی بے کنی کیجئے ورنہ ہو سکتا ہے چرس اس کی زندگی میں آنے والے نشے کے عذابوں کا نقطہ آغاز بن جائے۔”سُچی محبت” کے تحت آپ قدم آگے بڑھائیں گے تو اپنے بگڑے ہوئے چرس پینے والے مشکل بنسے سے چرس جیسے مشکل موضوع پر بات کرنے کے لیے آپ کو کچھ ٹرینیگ کی ضرورت پڑے گی۔
“سُچی محبت” کے تحت آپ ضروری اِقدامات کریں گے تو آپ کے پیارے میں بگاڑ یہیں رُک جائے گا اس کی اور اِس کی زندگی ہمیشہ کے لیے صحیح نہج پر چلنا شروع ہو جائے گی۔ یوں آپ اپنے پیارے کو نا صرف چرسی بننے سے بچا لینگے بلکہ سینکڑوں دوسرے نوجوانوں کی زندگی بچ جائے گی۔
ماہرین نفسیات نوجوانوں کے اس قسم کے رویوں اور نشے کی بیماری میں مبتلا ہونے کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ میز کی دوسری طرف بیٹھ کر والدین کو باتیں بتانا اور انہیں اپنے بچوں کے رویوں کا ذمہ دار ٹھہرانا بہت آسان ہے لیکن میز کے اس طرف والدین کی حیثیت سے یہ الزام قبول کرنا کہ اولاد کو بگاڑنے کے ذمہ دار وہ ہیں، آسان نہیں ہے۔ کسی کو بھی وثوق سے یہ معلوم نہیں کہ نوجوان کن وجوہات کی بنا پر ان رویوں اور نشے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا جو آپ کے بچوں کے نشہ کرنے اور اس قسم کے رویوں میں مبتلا ہونے کی وجہ بنا ہو لیکن اس الزام سے آپ کی راتوں کی نیند حرام ہو چکی ہے اور آپ صدمے سے نڈھال ہیں۔ ایسے میں مجرموں کی طرح نظریں چراتے ہوئے آپ اپنے بچوں کی نشہ سے نجات اور صحت مند زندگی کی طرف آنے میں کیا مدد کرسکتے ہیں؟
غیرصحت مندانہ رویوں کا مظاہرہ کرنے والے اور نشے کے مریضوں میں سے زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جو موڈ اور مزاج کی خرابی سے نجات کے لیے نشے کا استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں مریض کو موڈ، مزاج، سوچ، توانائی اور رویوں میں شدید اُتار چڑھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ جو اِنہیں ایک طرح سے آفت زدہ بنا دیتا ہے۔ یہ علامتیں آہستہ آہستہ بڑھتی رہتی ہیں اور کبھی کبھی اچانک ظاہر ہوتی ہیں جس سے تمام اہل خانہ چکرا جاتے ہیں۔ نوجوان %4 سے %6 تک زیادہ شدت سے متاثر ہوتے ہیں کبھی کبھار ان میں باری باری جنون اور ڈپریشن کی علامتیں ظاہر ہوتی ہے۔ جنون کی حالت میں مریض میں تیزی آجاتی ہے، وہ سونے سے کتراتا ہے، مسلسل اور شیخی سے بھرپور گفتگو کرتا ہے، زیادہ دیر تک کسی ایک کام پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتا، قوت فیصلہ کم ہوجاتی ہے اور وہ خطروں سے کھیلتا نظر آتا ہے، جب ڈپریشن کا دور آتا ہے تو مسلسل اداسی اور روتے دھوتے رہنے کے علاوہ چڑچڑا پن اور غصہ نمایاں ہوتا ہے۔ ذہن میں موت اور خود کشی کے خیالات آتے رہتے ہیں، جنون اور ڈپریشن کی انتہاؤں کے درمیان مکمل صحت مند نظر آنا بھی اس بیماری کا حیران کن حصہ ہے۔ یہ مریض بائی پولر کی شکل بھی اِختییار کر لیتا ہے۔ ایسا مریض بہت کچھ کرتا نظر آتا ہے لیکن گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ صفر سے بہت نیچے نظر آتا ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر موروثی ہے، ماحول اور بیرونی عوامل بھی اس بیماری کے ظاہر ہونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا اکثر نوجوان سحر انگیز اور مسحور کن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اس لیے ان پر آسانی سے کسی ذہنی و اعصابی مرض کا شبہ نہیں پڑتا، افسوس ناک امر یہ ہے کہ اول تو علاج نہیں ہوتا، اگر ہو تو کئی سال بعد اور سرسری نوعیت کا۔ اس دوران بیماری شدید سے شدید تر ہوتی چلی جاتی ہے اور مریض گھر اور گھر سے باہر تباہ کن رویوں کے ساتھ زندگی گزارتا رہتا ہے۔ شروع ہی میں صحیح تشخیص اور بروقت علاج سے مریض کو بہترین مدد ملتی ہے۔
علاج کی غیر موجودگی میں حالات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بیماری کے آغاز اور علاج میں اوسطاً دس سال کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس دوران پے در پے حادثات ہوتے رہتے ہیں، خودکشی کرنے اور گھر سے بھاگ جانے کا خطرہ مریض کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔
موڈ اور مزاج کی خرابی میں مبتلا تقریباً سبھی نوجوان ذہنی اذیت کم کرنے کیلئے نشہ آور اشیاء اور شراب کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے % 90 کو منشیات کرنے میں مدد دیتی رہتی ہے جبکہ باقی % 10 نشے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور یوں وہ ایک دوسری مصیبت میں پھنس جاتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ جیسے کسی کے تن بدن میں آگ لگی ہو اور وہ اسے بجھانے کے لیے سمندر میں کود پڑے اور ڈوب جائے۔ ایسی صورت میں جب نشے کی بیماری اور بگاڑ کے پس منظر میں موڈ اور مزاج کی کوئی بیماری ہو تو ہر دو بیماریوں کا ایک ہی وقت میں علاج ضروری ہے۔ صحیح اور بروقت علاج مریض کی زندگی میں استحکام اور خوشحالی لاتا ہے۔ ماضی کے بہت سے کامیاب اور مشہورلوگو ں میں اس بیماری کی علامات دیکھی گئی ہیں۔
ہر چند کہ بائی پولر ڈس آرڈر میں تشخیص کیلئے کوئی بلڈ ٹیسٹ یا دماغ کا سکین مدد نہیں کرتا لیکن پھر بھی ٹھوس علامتی بنیادوں پر تشخیص کی جاتی ہے۔ دراصل یہ ایک تربیت یافتہ اور تجربہ کار معالج کا تجزیہ ہوتا ہے۔ تشخیص کیلئے ایسے معالج کی تلاش کرنی چاہیے جو تربیت اور تجربے سے لیس ہو، علاج کے تمام معاملات پر بات کر اور سُن سکے اور آسانی سے رابطے میں آسکے۔ خوشخبری یہ ہے کہ موڈ اور مزاج کی بیماریوں کا موئثر علاج کیا جا سکتا ہے۔ اچھے علاج میں ادویہ، آگاہی، کونسلنگ اور نفسیاتی علاج شامل ہے۔ مناسب علاج کے علاوہ گھر اور تعلیمی ادارے میں بھرپور مدد ملے تو بہت سے نوجوان اس بیماریوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
والدین کیلئے اس حقیقت کا مان لینا کہ ان کے پیارے کو موڈ اور مِزاج کی بیماری ہے یقیناً آسان نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ تشخیص میں تاخیر ہوتی ہے۔ تشخیص سے پہلے بہت سے قیمتی سال نوجوان کے غصے، مسلسل گرتی ہوئی کارکردگی اور بگڑے ہوئے رشتوں کی کشمکش میں ضائع ہوجاتے ہیں، ایسے حالات میں کامیاب تشخیص مریض اور اہل خانہ کی زندگی میں خوش آئند موڑ لے کر آتی ہے۔ اگر موڈ اور مزاج کی خرابیوں، اور نشے کی بیماری اور بگڑے ہوئے رویوں میں مبتلا نوجوانوں کے والدین خصوصی ٹریننگ سے گزریں تو وہ بڑی آسانی سے پیشہ ور ماہرین کی طرح اس بیماری کی علامتوں کو اُبھرنے سے روک سکتے ہیں۔
کچھ دیگر دماغی امراض جیسے ڈپریشن ، شیزو فرینیا اور بے چینی بھی نشہ کا نقطہ آغاز بن سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ نشہ آور ادویات اول اول طبی ضرورتوں کیلئے تجویز کی جاتی ہے لیکن مریض لاعلمی اور معصومیت میں استعمال جاری رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویہ سے نقصان کیسے ہو سکتا ہے؟ پہلے پہل تو سرور اور مزہ ملتا ہے اور بعد میں یہی دوائیں گلے کا پھندا بن جاتی ہیں اب تک ان گنت خاندان ان ادویات کی ایڈکشن کی وجہ سے تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان دواؤں میں ٹرینکلائزر اور مصنوعی نارکاٹکس بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ پاکستان میں لوگ یہ ادویات بغیر نسخے کے میڈیکل سٹور سے خریدتے رہتے ہیں۔ اس پر کوئی روک ٹھوک نہیں۔
نشے کی بیماری کئی حوالوں سے جانی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں اس بیماری کا تعارف ہیروئن کے حوالے سے ہوا ہے لیکن دنیا کے بیشتر ممالک میں لوگ اسے شراب، کوکین اور دیگر منشیات کے حوالے سے بھی پہنچانتے ہیں۔ مختلف مریضوں میں نشے کی بیماری مختلف مرحلوں پر نظر آتی ہے۔ اس بیماری اور ان رویوں کے نقصانات میں دنگے فساد، ٹریفک کے حادثات، آتشزدگیاں‘ چوریاں‘ ڈکیتیاں‘ لاقانونیت‘ کالے دھندے‘ طلاقیں‘ خودکشی اور قتل کے سانحوں پر نظر ڈالیں تو ڈرا دینے والے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔ بیماریوں میں سے یہ بیماری خاصی قاتل واقع ہوئی ہے۔ سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے مکمل بیماری سمجھا جائے۔ کسی مرض کو صرف مرض کہنا اور بات ہے اور اس سے مرض جیسا سلوک کرنا مختلف بات ہے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے کیا آپ نشہ کی بیماری اور شوگر کی بیماری کے بارے میں ایک جیسی سوچ اور عمل رکھتے ہیں۔
برسوں پہلے طبی ماہرین نے نشہ کی بیماری کے ضروری اجزاء دریافت کر لئے تھے۔ یہ بیماری آہستہ آہستہ بڑھتی ہے، تادیر برقرار رہتی ہے اور علاج کی عدم موجودگی میں جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ اس بیماری میں کسی حد تک موروثی عنصر کا بھی ہاتھ نظر آتا ہے تاہم نشہ نہ کیا جائے تو موروثی عنصر دبا رہتا ہے اور اگلی نسل میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس بیماری میں علامات کی پہچان نہ ہونے سے تشخیص میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بیماری میں خود مریض مرض کی موجودگی سے انکار کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ مرض کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع کر دیتا ہے۔
بلا شبہ بحالی و خوشحالی کیلئے نشہ چھوڑنا ہی واحد علاج ہے اس مرض میں فی الحال کوئی ایسا علاج موجود ہے جو اِنہیں نقصان اُٹھائے بغیر نشہ کرنے میں مدد دے۔ اگر ایسا علاج ہوتا تو ہم مریض کو ہر قسم کے نشے سے مکمل پرہیز کی ہدایت نہ کرتے بلکہ علاج کی مدد سے اسے پھر سے نارمل طریقے سے نشہ کرنے کے قابل بنا دیتے۔ اگر ہم ایسا کر سکتے تو مریض ہمارا لوہا مانتے اور ہاتھ چومتے۔ دنیا بھر میں نشے کی علاج گاہیں مکمل پرہیز اور نشے کے بغیر خوش و خرم رہنے کی تربیت دیتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ کچھ امور میں مہارت بھی مہیا کرتی ہیں، اس لیے مریض علاج پر آمادہ نہیں ہوتے، وہ نشے کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر پاتے اِس لیئے وہ اِن مہارتوں کے جو نشے کے بغیر خوش و خرم زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے۔
نشہ کرنے کی وجوہات تلاش کرنے والوں کی بات چیت مختلف مفروضوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں ماضی کے بکھیڑوں سے لے کر حال کے پیچیدہ مسائل کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ فرض کریں آپ مریض کے نشے کرنے کی اصلی اور وڈی وجہ دور بھی کر دیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔نشے کی بیماری اب اس وجہ کی محتاج نہیں، یہ مرض اب اپنے تسلسل کے معاملے میں اسی طرح خود کفیل ہے جس طرح ماچس کی تیلی بجھ جانے کے بعد بھی چولہا جلتا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں اُلجھنوں کا تدارک کیا ہی نہیں جا سکتا خصوصاََ اگر اُن کا تعلق ماضی بھید سے ہو۔ نشے کے صحیح علاج میں منزل مقصود کو نگاہ سے اوجھل نہیں ہونے دیا جاتا۔ اچھا علاج مختصر اور تیر با ہدف ہو تا ہے۔ تھوڑی سی مدت میں ہی بہت کچھ حاصل کیا جاتاہے اور مریض کو مثبت نتائج کے حصول کیلئے مدتوں انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
ہمارے موڈ اور مزاج کو بنیادی طور پر کچھ کمیکلز کنٹرول کرتے ہیں ان قدرتی کیمکلز کے اثرات ہمارے موڈ اور رویوں میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں، ہمارا مزاج اور رویے جہاں حالات سے متاثر ہوتے ہیں وہاں ان کیمکلز کی دستیابی یا عدم دستیابی سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب کوئی نیا اور بیرونی کیمیکل ان قدرتی کیمیکلز میں شامل ہوتا ہے تو یہ ان باقی کیمیکلز کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔
نشے کے مرض میں مبتلا شخص کے دماغ پر ان بیرونی کیمیکلز کے اثرات طویل عرصے تک رہتے ہیں اور اس کے دماغ کی کیمسٹری کو تبدیل کر دینے کا باعث بنتے ہیں۔
نشے سے بحالی کیلئے یہ ضروری ہے کہ نشے کو بنیادی، دائمی، بڑھنے والی اور جان لیوا بیماری سمجھا جائے۔ اس نظریے کو زبانی جمع خرچ کے طور پر نہیں بلکہ تہہ دل سے قبول کیا جائے۔ سوچ کی یہی بنیادی تبدیلی آپ کو نشے کے مرض کی اصل شکل و صورت سے آشنا کرتی ہے
بنیادی بیماری سے مراد وہ بیماری ہے جو کسی دوسری بیماری کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتی۔ ایسی بیماری اپنی وجہ آپ ہوتی ہے۔ عام تاثر کے برعکس نشے کی بیماری تشویش، ڈپریشن یا اعصابی تناؤ کی وجہ سے شروع نہیں ہوتی، ہاں نشے کا اِستعمال اِن وجُوہات سے شروع ہو سکتا ہے۔ نشے کی بیماری کِسی نشہ کرنے والے میں تب شروع ہوتی ہے جب اُس کے جسم میں نشے سے نمٹنے کا نظام ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اولاً جسم نشے کو تیزی سے ضائع کرتا ہے، مریض کو نشہ نہیں ہوتا اور وہ مزید نشہ کرتا ہے۔ کچھ عرصے بعد نشے کی بیماری ایک اور کروٹ لیتی ہے، جسم میں زہریلے مادے بننے لگتے ہیں اور بالآخر مریض کی مت ماری جاتی ہے۔۔
دائمی بیماری سے مراد یہ ہے کہ اب مریض کو کسی بھی علاج سے نارمل اور محفوظ طریقے سے دوبارہ نشہ کرنے کے قابل نہیں بنا سکتے۔ ہاں! اچھے علاج سے اسے نشے کے بغیر خوش و خرم رہنا سکھا سکتے ہیں
بڑھنے والی بیماری گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے۔ نشے کے مریضوں کی زندگی کا جائزہ لینے سے مرض کا بڑھتا ہوا اثر واضح ہو جاتا ہے۔ بعض مریض یہ سمجھنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ علاج کے بعدوہ کئی سال تک منشیات سے پرہیز کرتے ہیں، پھر اچانک ایک روز انہیں سوٹا ’’لگانے‘‘ یا ’’چسکی‘‘ لینے کا خیال آتا ہے اور وہ دوبارہ مرض کے چنگل میں گرفتار ہو جاتے ہیں یعنی کچھ عرصہ نشہ چھوڑنے کے بعد جب مریض بظاہر بھلا چنگا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ اب بھی نشہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ پس اگر وہ اپنے آپ کو صحت مند سمجھ کر نشہ کرتا ہے تو پہلے کی طرح ہی سنگین نتائج نکلتے ہیں
جان لیوا بیمار کا مطلب ہے کہ یہ جان سے مارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جان سے مارنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ نشے کے کچھ مریض طبعی اور کچھ غیر طبعی وجوہات کی بناء پر جان ہار دیتے ہیں۔ نشے کے مریضوں میں حادثات اور خود کشی عام ہے۔ والدین تو بس سمجھیں کہ زندہ ہی درگور ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ ساری صرتحال بدل سکتی ہے۔ بشرطیکہ آپ حقائق لیں اور اِن پر عمل پیرا ہو جائیں۔ یاد رکھیے! کہ صحیح طریقہ کار کو جان لینا اور اِس پر عمل پیرا نہ ہونا ایسے ہی ہے جیسے کے ٹھنڈی ہوا کہ جھونکوں میں سانس لینے سے اِنکار کر دینا۔
’سُچی محبت” ‘‘ والدین کو اصلاح کی اہلیت دیتی ہے۔ “سُچی محبت” کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ وہم اور گمان سے باہر نکل کر آج اور ابھی اپنی اولاد کے مسائل ٹھوس انداز میں حل کرنا شروع کر دینگے گے۔ ممکن ہے آپ ماضی میں ان مسائل کو سُلجھانے میں بری طرح ناکام رہے ہوں اور آپ کی عزت نفس مجروح ہو گئی ہو۔ ہو سکتا ہے آپ کافی مایوس ہوں۔ مایوسی کسی بھی منصوبے کے لیے زہرِ قاتِل بن جاتی ہے لہزاء مایوسی کو تو بس کفر ہی جانیے اور اِس سے اپنا دامن آج اور ابھی چُھڑا لیجیے فِلحال تو آپ کو صرف یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ نشے کے مریضوں کے ایسے کون سے روئیے ہیں جن میں فوری دخل کی ضرورت ہے۔ آپ کو مداخلت سے پہلے اپنے اوسان بحال کرنے اور تکنیکی مہارت حاصل کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ غم وغصے اور حواس باختگی میں کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔
جس طرح کھلاڑیوں کو میدان میں اُترنے سے پہلے اعلٰی درجے کی تندرستی اور ذہنی کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے اِسی طرح والدین کو بھی اپنے نشٔی بچوں کو سُدھارنے کے لیٔے جسمانی اور ذہنی فٹ نس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھلاڑی اِس کے لیٔے ”زون“ میں ہونے کا فقرہ اِستعمال کرتے ہیں۔ جب والدیں بھی”زون“ میں ہوتے ہیں تو ایسے بچوں کو سُدھار سکتے ہیں جو انتہائی ذہین ہونے کے باوجود نشے کے پاگل پن میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ نشہ کرنے کے لیے نفسیاتی وجوہ کا ہونا ضروری نہیں، نشے کا آغاز اکثر دیکھا دیکھی ہوتا ہے، پھر چوری چھپے کی جانے والی یہ غلطی عادت کا روپ ڈھال لیتی ہے اور پھر آنکھ تب کُھلتی ہے جب نشے کی بیماری چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ اور مریض کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ جاتا ہے۔ نشے کی بیماری اپنی نوعیت میں ایک بنیادی بیماری ہے ضروری نہیں کہ یہ کسی اور بیماری کی وجہ سے پیدا ہو، یہ بیماری نشہ کرنے والوں میں ازخود پیدا ہوتی ہے۔ یہ بیماری آجائے تو پھر نشہ انہیں موافق نہیں آتا اور ان کے جسم میں زہریلے مادے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ دوسروں کو مریض کے موڈ، مزاج اور عقل سلیم پر ان زہریلے مادوں کے اثرات واضح نظر آتے ہیں جبکہ خود مریض ان سب قباحتوں سے ناواقف نظر آتا ہے۔ نشے کے مریض بیمار ہونے کے باوجود علاج میں اس لئے دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ اِن کے دِماغ کو نشے کی بیماری نے بر غمال نبا رکھا ہوتا ہے۔ ان کی آنکھوں پر نشے کی پٹی بندھ جاتی ہے۔ وہ غلط طرزِ عمل اس لئے اپنائے رہتے ہیں کہ ان کی نظر میں وہی صحیح ہوتا ہے۔نشے کی بیماری سے نمٹنے کیلئے آپ کو معالجین، اپنے رشتہ داروں اور ان لوگوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے جو ان مسائل اور معاملات میں مہارت اور معقول تجربہ رکھتے ہیں۔ بعض ماہرین والدین کو خراب تربیت کا قصور وار قرار دے کر گہرے احساسِ گناہ میں مبتلا کر دیتے ہیں لیکن اس سوال کا چنداں جواب نہیں دے پاتے کہ ایک ہی ماں باپ کے تربیت یافتہ کچھ بچے کیوں نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ جب کہ باقی بچے اپنے اپنے شعبوں میں کار ہائے نمایاں سر انجام دے رہے ہوتے ہیں اور فرمانبرداری میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتداء میں معالجین اور دوسرے والدین سے مدد لینا ہمیں مشکل لگتا ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مدد کے اس لین دین کے بعد ہم اِس قدر اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ بار ہا ہماری زبان سے یہی جملہ نکلتا ہے کہ ہم نے پہلے ہی ایسا کیوں نہ کیا ؟
زیادہ تر مدد کی نوعیت محض حوصلہ پر مبنی ہوتی ہے۔ کچھ والدین اپنی اولاد کے ہاتھوں اتنے زِچ ہو جاتے ہیں کہ ان کی قوت فیصلہ ختم ہو جاتی ہے۔ صحیح سوچ ان کے ڈر ٗ خوف اور غصے کی نذر ہو جاتی ہے اور وہ اس بھنور میں تنہا ہی چکراتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں کچھ والدین اتنے حواس باختہ اور احساسِ گناہ کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر حقائق سے فرار چاہتے ہیں۔ جب میں ایک درد مند معالج اُمید کی کِرنیں دکھاتا ہے تو وہ اپنے حالات کو سنبھالنے کیلیٔے کمر کس لیتے ہیں پھر چھوٹی چھوٹی کامیابیاں اِنہیں آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔
“سُچی محبت” میں مہارت والدین کو اتنی جرأت دیتی ہے کہ وہ اولاد کی زیادتیوں کو چھپائے رکھنے میں یا تنہا اس آگ میں جلنے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کی مدد حاصل کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آپ کے بہن بھائی ٗ خالہ ٗ خالو ٗ چچا ٗ تایا اور دادا ٗ دادی اگر ان مشکلات میں آپ کی مدد نہیں کریں گے تو پھر یہ رشتہ داریاں کس کام کی؟ اگر آپ نے نشے سے متعلقہ مسائل پر قابو پانا ہے تو آپ کیلئے “سُچی محبت” کا تصور سمجھنا ضروری ہے۔ جب آپ حقیقی زندگی میں خاندان کے باقی لوگوں کی اولاد کے مسائل میں مدد دیتے ہیں تو “سُچی محبت” کے ثمرات نظر آنے لگتے ہیں لیکن اس کیلئے ازحد ضروری ہے کہ آپ اپنا دل بڑا کر کے ان نوجوانوں کو اپنے غلط رویوں کے کچھ نہ کچھ نتائج ضرور بھگتنے دیں۔ یہ بات سُنتے ہی دل کو ہاتھ پڑتا ہے! اپنے ہی بچے کو کیسے بے سہارا چھوڑ دیں؟ ٹھیک ہے وہ قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے لیکن یہ بات تو بہت عجیب لگتی ہے کہ پھر اسے مصیبتیں برداشت کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیں! “سُچی محبت” ٹرینیگ بچوں کو تنہا چھوڑنے کیلیٔے ہر گِز نہیں کہتی تاہم نشے کے فطری نتائج بھگتنے پر زور دیتی ہے۔ ایسے موقعوں پر جو والدین کرتے ہیں وہ کِسی کام نہیں آتی تاہم عملی طور پر اپنے کیٔے کے نتائج بھگتنے کا تجربہ بہت کار آمد ثابت ہوتا ہے۔
یہاں ہمیں وقتی جزبات کی رو میں بہہ جانے کی بجائے دور اندیشی سے کام لینا ہوگا۔ نشہ کی بیماری جسمانی، نفسیاتی، معاشرتی اور روحانی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ سب لوگ آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ مریض بربادی کے آخری کنارے پر کھڑا ہے، لیکن صد افسوس کہ صرف مریض نہیں دیکھ پاتا کیونکہ نشہ مریض کو اصل حقیقتوں سے واقف نہیں ہونے دیتا اور ہر ممکن طریقے سے اُسے اپنے سحر میں پھنسائے رکھتا ہے۔ کسی مریض کیلئے اپنی اصل حالت جاننا اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب نشے سے پیدا ہونے والے بحران پوری شدت کے ساتھ اسے گھیرے میں لے لیں۔ اگر مریض کے لواحقین اسے بحرانوں سے محفوظ رکھیں اور ساتھ یہ اُمید بھی رکھیں کہ وہ نشہ چھوڑ دے گا تو ایسا ہونا محال ہے۔
نشے کا اثر مریض کو پہلے ہی خوابِ خرگوش سے نکلنے نہیں دیتا، اگر وہ کانٹے بھی چن لئے جائیں جو مریض اپنی شاہراہ زندگی پر بکھیرتا ہے تو پھر مریض ہوش کے ناخن کیسے لے؟ اگر آپ اس کے از خود جاگنے کا انتظار کرتے رہیں تو اسے ہم سقوط محبت کہیں گے۔ سقوط محبت تب ہوتا ہے جب محبت ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ اگر آپ جانتے ہیں کہ نشے کی بیماری میں کسی بھی وقت کوئی المیہ جنم لے سکتا ہے تو آپ یہ ظالمانہ انتظار کبھی نہیں کریں گے۔ آپ آگے بڑھ کر خاص حکمت عملی ترتیب دیں۔ آپ اسے اپنے کرتوتوں کے کچھ نہ کچھ نتائج بھگتنے دیں۔ آپ اس کے لیے خود بحران پیدا نہ کریں لیکن جو بحران نشے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور مریض کو حراساں کرنے کیلیٔے اُس کی طرف بڑھتے ہیں ان میں دخل اندازی نہ کریں۔ بحرانوں کی تعمیر نشے کے سحر کو توڑ دیتی ہے، جب بحرانوں کی آنچ مریض تک پہنچے گی تو وہ نشہ چھوڑنے اور علاج میں جانے پر آمادہ ہو جائے گا۔ آخر کار آپ اسے جھنجھوڑ کر اس بھیانک خواب سے جگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
* جاوید کے ماں باپ اس بات پر بہت پریشان تھے کہ اچانک ان کے بیٹے نے تعلیم چھوڑ کر انہیں پریشان کرنے کا وطیرہ کیوں اپنا لیا ہے؟ انہوں نے “سُچی محبت” کی منصوبہ بندی کے ذریعے جاوید کے رویوں کو چیلنج کیا۔ جاوید کے کندھے پر ہاتھ نہ رکھنے دیتا تھا اس لئے بات کرنے سے پہلے انہوں نے کچھ دوسرے والدین سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا جو اس تجربے میں سے گزر چکے تھے۔ انہوں نے خاندان کے کچھ لوگوں کو بھی مد د کیلئے پکارا۔ ایک دن جاوید سو کر اٹھا تو حیران تھا کہ تمام خاندان اس کے کمرے میں جمع ہیں۔ اصل میں صورتِ حال یہ تھی کہ جاوید چرس کا رسیا ہو چکا تھا۔ خاندان کی اجتماعی کوششوں کو ذریعے جاوید کیلٔے محبت اور احترام کے ساتھ ٹھوس دباؤ پیدا کیا گیا یوں ضد کا جال ٹوٹتا چلا گیا اور بالآخر وہ اپنے روئیے بدلنے پر آمادہ ہو گیا۔ وہ جن مسائل میں گھرا تھا اشعوری طور پر ان سے نجات کیلئے مدد چاہنے لگا تھا۔ نشے کی بیماری کے علاج اور افراد خانہ کی طرف سے “سُچی محبت” کے اظہار نے اسے دوبارہ زندگی کی روشن راہوں پر گامزن کر دیا۔ ایک دن جاوید کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’جب تمام خاندان مل کر میرے پیچھے پڑ گیا تو میرے لئے کیسے ممکن تھا کہ میں اپنے طور طریقے نہ بدلوں؟ گو ابتداء میں مجھے اپنے ماں باپ پر بہت غصہ آتا تھا لیکن تمام رشتہ داروں کے ساتھ غصہ کرنا میرے بس میں نہ تھا ٗ آخر میں پاگل تو نہیں تھا۔‘‘
رویوں کی خرابیاں راتوں رات دور نہیں ہوتیں لیکن یہ واقعہ وضاحت کرتا ہے کہ آپ جن باتوں میں تنہا و بے بس ہوتے ہیں ٗ اجتماعی طور پر انہی معاملات میں آپ کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ ایسے موقعوں پر اجتماعی کوششوں کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خاندان میں اخوت اور یگانگت بڑھتی ہے اور وہ سچُے موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ جب آپ اپنے رشتہ داروں کو اہمیت دیتے ہیں تو آپ کی قدر ان کے دل میں بڑھ جاتی ہے۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے کام آئیں ٗ رشتہ داری اسی کا نام ہے!
کسی رشتہ دار کو نشے جیسے پیچیدہ مسئلے میں مدد کیلئے بلانا اتنی آسان بات نہیں، والدین کی حیثیت سے آپ کی انا، راز داری اور مستقبل میں ان کی طرف سے طعنوں کا ڈر آپ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تمام رشتے دار ایک گھر کے مسئلے کو سلجھانے لگتے ہیں تو پھر یہ صرف اس گھر کا مسئلہ ہی نہیں رہتا، سب کا اجتماعی مسئلہ بن جاتا ہے اور جس کام میں سب کی اپنی کوششیں شامل ہو جائیں اس میں طعنہ بازی کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ “سُچی محبت” کی کامیابی !کا راز یہ ہے کہ ایک اکیلا ٗ اور دو گیارہ ہوتے ہیں!
آپ “سُچی محبت” کو سطحی طور پر دیکھیں تو شاید اسے سمجھ نہ پائیں۔ اگر آپ کو زندگی میں کبھی بھی حقیقی مدد کی ضرورت پڑے تو “سُچی محبت” آپ کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے بشرطیکہ آپ اپنے غرور کو قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔”سُچی محبت” کا فائدہ براہ راست ان نوجوانوں کو پہنچ سکتا ہے جو دھڑا دھڑ اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مار رہے ہیں۔سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ “سُچی محبت” کا اظہار کرتے ہوئے کن رویوں سے باز رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ مریض کی بے عزتی ہر گز نہ کریں۔ تذلیل سے کبھی کوئی سدھر نہیں سکتا ۔ آپ مار پیٹ کا رویہ بھی ہر گز اختیار نہ کریں، مریض کو بددعائیں نہ دیں اور نہ ہی گالیاں نکالیں۔ غُصے اور جھنجھلاہٹ سے اُبھرنے والی یہ ساری “حکمت عملیاں” بے کار ہیں۔ یہ ساری حرکتیں دوسرے جاندار بھی اکثر و بیشتر کرتے نظر آتے ہیں تاہم سوچ بچار اور اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانا پھر دوسروں کی بات سننا اور سمجھنا خالصتاََ انسانی طور طریقے ہیں۔ اگر ہم سب انسانی درجے پر رہتے ہوئے تبادلہ خیالات کریں اور ایک ہی نشست میں گھمبیر مسائل حل کرنے سے اجتناب کریں تو ہم نہ صرف اپنے پیاروں کو واپس روشن زندگی کی طرف لے آئیں گے بلکہ اُن سے ہمارے رشتے بھی سنہری سانچوں میں ڈحل جائیں گے۔ ایک اور ضروری شرط یہ ہے کہ جو آپ کہیں پھر اس پر عمل بھی کریں۔
“سُچی محبت” اولاد کے ساتھ زیادتی مشورہ ہر گِز نہیں دیتی بلکہ محبت کے تقاضے پورے کرنے کی ہمت اور حوصلہ دیتی ہے۔ والدین چاہیں بھی تو اولاد کے ساتھ ظلم نہیں کر سکتے، خدا نے اُن کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ اولاد کے ساتھ کوئی زیادتی کر ہی نہیں سکتے۔ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں اولاد کو والدین کے حقوق پورے کرنے کی بارہا تلقین کی گئی ہے اس کے برعکس والدین کو اولاد کے حوالے سے کچھ زیادہ ہدایات نہیں دی گئیں، آخر کیوں؟ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ والدین کے دل میں اولاد کے لیے محبت کا بے کراں جذبہ انہیں کسی زیادتی کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ والدین صرف اولاد کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی گرفت کرتے ہیں۔ جب نوجوان آپ کا پیار و محبت کھوٹے سکوں کی طرح آپ کے منہ پر مار دیں تو خود ان کی فلاح اسی میں ہے کہ انہیں آٹے دال کا بھاؤ سمجھنے کا موقع دیا جائے۔ جب نوجوانوں کے ظلم و ستم حد سے بڑھ جائیں اور ماں باپ انہیں سینے سے لگائے رکھنے کی بجائے اپنا دامن جھٹک دیں تو وہ بہت جلد والدین کے پاؤں میں آجاتے ہیں ٗ جہاں ان کا اصل مقام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنہیں گھر کی ٹھنڈی چھاؤں راس نہیں آتی انہیں زمانے کی تپتی دھوپ میں ہی گھر کا راستہ دِکھاتی ہے؟ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ذرا ذرا سی بات پر آپ کے دل کے تار بہت جلد بج اٹھتے ہیں اور اولاد دل کے ان ہی کمزور تاروں سے کھیلتی ہے۔ “سُچی محبت” آپ کو اولاد کی منشیات سے لتھڑی ہوئی زندگی کا بوجھ اٹھانے اور ظلم و ستم برداشت کرنے سے روکتی ہے۔ “سُچی محبت” آپ کو یہ مشورہ نہیں دیتی کہ اپنے بیمار بچوں کی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ لیں بلکہ یہ آپ کو حقیقی ذمہ داریوں سے روشناس کراتی ہے۔ اگر کانٹے پھولوں کو چبھنا شروع ہو جائیں تو پھول جلد مر جھا جائیں گے!”سُچی محبت” میں آپ اولاد کو اپنے آپ سے محبت پر بھی مجبور نہیں کرتے، محبت کوئی مجبوری نہیں ہوتی، آج کی تاریخ تک کسی کو محبت پر مجبور کرنے کا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا ہے۔ “سُچی محبت” میں آپ ان نفرت بھرے نوجوانوں کیلئے وہ سُنہری پل تیار کرتے ہیں جِن پر چلتے ہوے وہ آپ کی چھاوں میں آجاتے ہیں۔ آپ اِنہیں صرف اپنے آپ سے محبت کرنا سکھاتے ہیں۔ جب وہ اپنے آپ سے محبت کرنے کے لائق ہو جائیں گے تو آپ سے بھی محبت ضرور کریں گے۔ بچے والدین کو وہی کچھ دے سکتے ہیں جو کچھ ان کے پاس ہو!
“سُچی محبت” کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بچوں کی مرمت پر تل جائیں بلکہ یہ متبادل ذرائع اختیار کرنے کا مشورہ دیتی ہے تاکہ آپ زور زبردستی کے بغیر ہی نشے سے جھلسے ہوئے ان نوجوانوں کو سکون قلب کا راستہ دکھا سکیں۔ آپ دوسرے رشتہ داروں اور لوگوں کی مدد اس لیے حاصل نہیں کرتے کہ مل جل کر ان بچوں کی ٹھکائی کی جائے بلکہ باہمی صلاح مشورے اور سر جوڑ کر بیٹھنے کا مقصد صرف اجتماعی شعور سے فائدہ اُٹھانا ہوتا ہے۔ یوں آپ اس ناکام طرزِ عمل کو چھوڑ دیتے ہیں جو ماضی میں آپ نے اپنا رکھا تھا۔ “سُچی محبت” والدین کو یہ عندیہ دیتی ہے کہ تنہا نہیں پر مل جُل کر آپ پہاڑ ہلا سکتے ہیں۔
خود نوجوان ایک دوسرے کے ساتھ ماں باپ کی بدخوئیاں کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنے کیلئے جھوٹی گواہیاں دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس والدین اپنی اولاد کے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور ان کی بہتری کیلئے سچ بولنے میں بھی عار محسوس کرتے ہیں۔ دوسروں کو دل کا حال بتائے بغیر ان سے مدد حاصل کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر آپ ماضی میں تنہا یہ مسائل حل نہیں کر پائے تو مستقبل میں ایسا کیونکر ممکن ہو گا؟
جب کئی دوسرے والدین آپ کی مدد کے لیے آگے بڑھ رہے ہوں اور آپ کو اعتماد سے بتا رہے ہوں کہ ان کوششوں کے عام طور پر نتائج مثبت ہی نکلتے ہیں تو آپ کو خود فریبی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جب دوسرے لوگ آپ کے بچے کے رویہ کی نشاندہی اس خوبی سے کر رہے ہوں جیسے وہ آپ کے گھر میں رہے ہوں تو “سُچی محبت” بہت مضبوط اور آنکھیں کھول دینے والا تجربہ نظر آتا ہے۔ دوسری طرف آپ کو یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ تنہا آپ کا مسئلہ نہیں، پورا معاشرہ ہی اس بیماری کی لپیٹ میں ہے۔نشہ کسی ایک گھر کا مسئلہ نہیں، ہماری ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ہر شخص کا کم از کم ایک ’کزن‘ نشے کی بیماری میں مبتلا ہے اس لیے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر مسئلہ اجتماعی ہے تو ہمیں اجتماعی طور پر ہی آگے بڑھنا ہوگا، اکیلے اکیلے نہیں تو مل جُل کر ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
سُچی محبت” کا مطلب ہے کہ محبت اور گرفت کا ملا جُلا رویہ۔ اس رویے کے تحت والدین اپنے بچوں کے غلط رویوں کو قبول نہیں کرتے وہ ان کی ناجائز فرمائشوں کو بھی پورا نہیں کرتے۔ “سُچی محبت” کے انداز اپنانے کے بعد والدین اس غلط فہمیکو ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ مہربانیوں اور عنایتوں کی دوڑ بڑھا دینے سے ان کا بچہ سدھر جائے۔ محبت بھری گرفت کا راز جان لینے کے بعد وہ اپنے بچے کی ذات اور اس کے کردار کے درمیان فرق کو سمجھ لیتے ہیں۔ انہیں بچے کے کردار اور رویے سے متعلق شکایت ہے تو بھی وہ اس کی عزت کرتے ہیں، اس کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں تاہم وہ ساتھ ہی ساتھ اس کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے معقول حکمت عملی اپناتے ہیں جس سے جلد یا دیر عمدہ نتائج نکلتے ہیں اور مطلوبہ تبدیلی آتی ہے۔
سُچی محبت” یا محبت بھری گرفت کے اُصولوں کو اپنا کر آپ بچے کے ساتھ اپنا رشتہ پائیدار اور مؤثر بناتے ہیں اسے نشے سے نجات دلاتے ہیں اور بطور کامیاب انسان آگے بڑھاتے ہیں۔
کا خیال اُن والدین کے لیے ایک نعمت ہے جو اپنی اولاد کی نشے کی بیماری سے تنگ ہیں۔ جو والدین ہنوز اس مسئلے کو ہلکے پھلکے انداز میں لے رہے ہیں اور پوری طرح دُکھی نہیں ہوئے، شاید ان کو “سُچی محبت” کے نظریات متاثر نہ کر سکیں۔
سُچی محبت” بہت کم لوگ محبت کے اس انوکھے اور سچے روپ سے آگاہی رکھتے ہیں۔ “سُچی محبت” سے مراد وہ فیصلہ ہے جس کے تحت آپ اپنے پیاروں کی بہتری اور فلاح کے لیے کام کرتے ہیں یعنی آپ کے رویوں آپ کے الفاظ اور آپ کے اعمال میں ان کی بھلائی کا رنگ موجود ہو۔
محبت کو ان معنوں میں سمجھنا کرنا اور کرنا ہی اولاد سے اس رشتے کا حق ادا کرنا ہے کئی دفعہ راست اقدامات ہمارے لیے جزباتی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یعنی اکثر اوقات بچوں کی بھلائی کے کام کرتے ہوئے جذبات مخالف سمت میں چلیں گے اور آپ کو مختلف انداز اختیار کرنے پر ابھاریں گے اور آپ اس مشکل کو کس طرح حل کرتے ہیں اور تصادم کی اس کیفیت کو کس طرح دور کرتے ہیں یہی آپ کی “سُچی محبت” کا امتحان ہوتا ہے۔
سُچی محبت” میں تسلی سے ہر واقعہ کا دور اندیشی کے ساتھ اس طرح تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے آپ کے لیے خود فریبی کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ جب تک پولیس آپ نوجوانوں کے رویوں کو محض گھر کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ بچے ماں باپ میں سے ایک کو اچھا اور ایک کو بُرا قرار دے کر ان میں پھوٹ ڈلواتے ہیں اور پھر گھر میں دندناتے پھرتے ہیں۔ ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہی یہ عجیب لگتا ہے کہ ہر واقعہ کس طرح ایک اور واقعہ کو جنم دیتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ آپ کو صورت حال کے گھمبیر ہونے کا احساس ہوتا ہے تاہم اگر آپ ایک دم سے تبدیلی کی بات کریں تو یہ بہت خوفناک محسوس ہوتی ہے۔ آپ بچوں پر اپنی محبت نچھاور کرتے ہیں ان کی نگہداشت میں کوئی کمی نہیں رکھتے لیکن پھر بچے جب آپ کی مثبت کوششوں کا جواب نشئی رویوں سے دیتے ہیں تو آپ کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا اصل خرابی کہاں اور کس میں ہے؟
“سُچی محبت” کی ساخت ایسی ہے کہ والدین حقیقی گھریلو صورتحال سے انکار نہیں کرتے، وہ اس بات کو کھلم کھلا تسلیم کرنے لگتے ہیں کہ نشہ محض ایک بیماری ہے اور یہ بن بلائے کسی کے بھی گھر میں آسکتی ہے۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا خاندان نہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ ان کے خاندان میں نشے کا کوئی مریض موجود نہیں۔ یاد رکھیں یہ حقائق ہیں اور حقائق پر غصہ کرنا لوہے کے چنے چبانے والی بات ہے کی بات نہیں جس چیز کو چھپانے میں اپنی ساری توانائیاں خرچ کر ڈالتے ہیں وہ محض ایک بیماری ہے۔ یہاں کچھ اسپورٹس مین ایکسپرٹس ضروری ہیں۔ ویسے ہی جیسے ایک بلے باز کسی فاسٹ باولر کو کھیلنے سے انکار نہیں کرسکتا اگرچہ اس کی گھومتی ہوئی تیز گیندیں اوسان خط کردیتی ہیں۔ اس طرح آپ پرابلم کا سامنا کرنے سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ وکٹ چھوڑ دینا تو آپ کو زندگی کی گیم سے باہر کردے گا۔
زندگی کے اس رُخ کو تسلیم کر کے ہی آپ اپنے بچے کی صحیح مدد کر سکتے ہیں
صرف نشہ بازی کو بیماری تسلیم کرنے سے ہی آپ میں کئی ایک تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں جیسا کہ آپ غصہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں، آپ وہی کچھ کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ایسے موقعوں پر کرنا چاہیے۔ آپ بدلی نظروں سے مریض کو دیکھتے ہیں اور پھر آپ اسے لاشعوری طور پر بھی نشہ کرنے میں مدد نہیں دیتے۔ نہ براہ راست نہ بالواسطہ! آپ اس کی مدد صرف نشہ چھوڑنے میں کر سکتے ہیں۔
آپ علاج کے بغیر نشہ چھوڑنے کے بارے میں اس کی جھوٹی قسموں پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ آپ یہ جان لیتے ہیں کہ جس طرح کوئی مریض یہ وعدہ یا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آج سے اس کا بخار اُتر جائے گا یا آج سے وہ کھانسی نہیں کرے گا یا پھر آج اسے خارش نہیں ہو گی، اسی طرح نشے کا مریض بھی وعدہ نہیں کر سکتا۔ علاج کے ساتھ بھی وہ محض کوشش کر سکتا ہے آپ اور معالج اُس کی مدد کرسکتے ہیں لیکن نشے سے نجات اور شفاء تو صرف خدا ہی دیتا ہے۔
آپ مریض کا یہ الزام تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ وہ آپ کے غلط رویوں کی وجہ سے نشہ کرتا ہے اور اگر آپ اس کے حسب منشا روئیے اختیار کر لیں تو وہ نشہ نہیں کرے گا کیونکہ اب آپ جانتے ہیں اگر آپ کا کوئی عزیز نشے کی بیماری میں مبتلا ہے تو اس میں آپ کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اس میں نشے کا رحجان پہلے سے ہی موجود تھا، معاشرہ میں نشہ اور نشئی موجود تھے اس لیے وہ بھی نشے کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ ہو سکتا ہے آپ نے اس کے ساتھ کوئی بُرا سلوک کیا ہو لیکن آپ کا کوئی بھی بُرا رویہ اسے نشے کا جواز مہیا نہیں کرتا۔ کوئی جواز نشہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا! مزید براں بیماری محض نشہ کرنے سے نہیں ہوتی نشے کی بیماری کیلیئے موزوں جینز بھی ضروری ہے۔
آپ یہ بھی جان لیتے ہیں کہ آپ کو بھی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ نشے کے مریض سے نمٹتے نمٹتے آپ بھی غم و غصے سے پھاوا ہو چکے ہوتے ہیں ۔ آپ اپنے لیے مدد کے حصول کی کوششیں کرتے ہیں اور اس طرح اپنی توانائی بحال کر کے مریض کی زندگی میں تعمیری مداخلت کر سکتے ہیں۔
آپ مریضوں کو طعنے دینے، پرانی باتیں یاد دلانے، ہر نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانے اور ان کے ساتھ ہاتھا پائی کرنے سے بھی باز آ جاتے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اس سے آپ کی بھڑاس تو نکل جائے گی لیکن مریض کا مرض اس سے بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔
آپ اسے باندھنے، حوالات یا بیرون ملک بھجوانے اور نشہ اور اس کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے اس کا بہترین علاج کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور علاج سے پہلے یہ تسلی کر لیتے ہیں کہ جس کلینک سے اس کا علاج ہو وہ اس شعبہ میں مناسب مہارت کا حامل ہو۔ محض اسے اپنی نظروں سے دور کرنے کی بجائے آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کا علاج مکمل ہو اور علاج کے کچھ خاص مقاصد ہوں۔
یہ سوچنا درست نہیں کہ سبھی ذہین نوجوان پٹری سے ضرور اُترتے ہیں اور بعد ازاں خود ہی سدھر جاتے ہیں۔ یہ ایک پھندا ہے آپ کو فوری اقدامات کرنا ہونگے۔ “سُچی محبت” میں خیالات کو زبان پر لانا آسان ہو جاتا ہے۔ ذہانت کی ایک ہی واضح نشانی ہے اور وہ یہ کہ جب کِسی نوجوان کو خود اس کی ذہانت کھائے جارہی ہو آپ پوری طرح پُرسکون رہنے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کی پریشانی یا پژمردگی اسے یا آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
نشے کی بیماری میں چند سال گزارنے کے بعد جب حالات تباہ کن اور بھیانک شکل اختیار کر لیتے ہیں تو انہیں تسلیم کرنا آسان نہیں ہوتا، اس سے آپ کی رنجیدگی اور بھی بڑھ جاتی ہے لیکن جب آپ کو دلاسہ دینے والے خود ان تجربوں سے گزرے ہوں تو وہ آپ کو سنبھال لیتے ہیں۔ اس بات کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا کہ آپ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گُر جائیں گے۔ “سُچی محبت” میں تبادلۂ خیالات برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے اور والدین قدم قدم پر اپنی آپ بیتی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ “سُچی محبت” میں ایک جیسے حالات سے گزرے ہونے کا تجربہ، تبدیلی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اور ایک یکساں منزل کا تعین ایسی باتیں ہیں جو امداد باہمی کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔
سُچی محبت”کی بنیادیں یہ ہیں
اب آپ اپنے مسئلے پر ماضی کی نسبت مختلف انداز میں سوچ بچار کریں گے۔
اب آپ نشے کے مریض کے ساتھ اپنے روئیے بدلنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔
اب آپ جذبات اور مقاصد کی الگ الگ منصوبہ بندی کریں گے۔
اب آپ وہی کچھ کریں گے جس سے آپ کی اولاد کو نشے سے نجات ملے۔
اب آپ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سب کا تعاون حاصل کریں گے۔
سُچی محبت” کوئی جادو کی چھڑی نہیں بلکہ ایک مفصل پروگرام ہے جو والدین کو ایسے گُر سکھاتا ہے جس کی مدد سے آخر کار وہ خاندان کو نشے کی بیماری کے ہاتھوں بکھر جانے سے بچا لیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے قدم جو والدین یکے بعد دیگرے اٹھاتے ہیں، وہ بغاوت پر آمادہ نشے کے مریض کو راہ راست پر لا سکتے ہیں۔
سُچی محبت” ایک سچی حکمت عملی ہے جو اختصار کے ساتھ ان بارہ عقیدوں میں واضح کی گئی ہے۔
نشے کی جڑیں معاشرہ میں ہوتی ہیں اور وہیں سے اسے نشوونما ملتی ہے۔
والدین خدا نہیں ہوتے، وہ فرشتے بھی نہیں ہوتے بلکہ محض انسان ہوتے ہیں۔
والدین کے مادی اور جذباتی وسائل محدود ہوتے ہیں۔
والدین اور بچے برابر نہیں ہوتے۔
محض ایک دوسرے کو کوستے رہنا بے بسی کی علامت ہے۔
بچوں کے روئیے والدین اور والدین کے روئیے بچوں کو متاثر کرتے ہیں۔
جب آپ کسی سٹینڈ پر ڈٹ جائیں تو بچے بحران پیدا کرتے ہیں۔
جب آپ اپنے سٹینڈ سے پیدا ہونے والا بحران کامیابی سے سمیٹ لیں تو اس سے مثبت تبدیلی آتی ہے۔
والدین کو ایک دوسرے سے مدد کے لین دین کی ضرورت ہوتی ہے۔
گھریلو سکون کا انحصار معقول رویوں پر ہے، جذباتی اُتار چڑھاؤ پر نہیں۔
بحالی تب ہی ہو گی جب آپ پیشگی خوش رہنے کا فیصلہ کر لیں گے۔
سُچی محبت” ٹرینیگ اور تکنیکی مہارت ہی نشے کی بیماری سے بحالی کو یقینی بناتی ہے۔
نشہ کرنے والے بچوں کو ہم آئندہ تحریر میں نشئی بچے پکاریں گے۔ بظاہر یہ کافی تلخ محسوس ہوتا ہے لیکن اس طرح آپ دو ضروری باتیں نہیں بھول پائیں گے۔ اوّل یہ کہ وہ بیمار ہیں اور نشے کی بیماری سے نجات کے لیے انہیں ہماری بھرپور مدد اور علاج کی ضرورت ہے۔ دوئم یہ کہ وہ آپ کے بچے ہیں اور شفقت اور توجہ کے حقدار ہیں۔ کِسی ہدف کا نام رکھنے سے منصوبہ بندی اور کامیابی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
سُچی محبت” ایک ایسی ثقافت کی ابتدا ہے جو نشئی بچوں کے تباہ کن رویوں کو معقول رویوں سے بدلتی ہے اور علاج کو مثبت نتائج سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہ نشئی بچوں کے خلاف کوئی سازش نہیں اور نہ ہی راز کی بات ہے۔ کوئی تکنیکی مہارت سے اگر آسمان کی وسعتوں، سمندر کی گہرائیوں اور سورج سے چمکنے والی سرزمین میں اپنی مرضی کے بیج بو کر مرضی کی فصل کاٹی جا سکتی ہے تو اپنے پھول سے بچوں کو بھی خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ نشے کے مرض کو ذیابیطس اور دل کی بیماری سے تشبیہ دینے پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان کے خیا ل میں نشے کا مریض جان بوجھ کر مرض کو گلے لگاتا ہے جبکہ دوسری بیماریوں کے مریض اپنی مرضی سے ان امراض میں مبتلا نہیں ہوتے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ لاکھوں افراد شراب یا دیگر منشیات کا استعمال شروع کرتے ہیں لیکن ایسے تمام لوگ نشے کے مریض نہیں بنتے۔ نشے سے نپٹنے کےجسمانی نظام میں خرابی نشے کا مرض پیدا کرتی ہے۔ نشے کی ابتدا سب سے ایک جیسی ہوتی ہے لیکن انجام مختلف ہوتا ہے۔ نشہ شروع کرنے کی سب سے عام وجہ یہ ہے کہ کہیں کوئی نشے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ دعوت قبول کرنے والوں میں سے %10 آگے چل کر نشے کے مریض بنتے ہیں، نشہ اِنسان اپنی مرضی سے کرتا ہے لیکن نشے کی بیماری مرضی کے بغیر آتی ہے۔ پھر بڑا فساد ہوتا ہے، نشہ کرے تو مصیبت، نشہ نہ کریں تو مصیبت، یہ ہے نشے کی بیماری۔
سُچی محبت” کا پہلا عقیدہ یہ ہے کہ نشے کی جڑیں معاشرے میں ہوتی ہیں اور وہیں سے اسے نشوونما ملتی ہے
نوجوان نشے کی علت میں طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہیں اور پھر اپنے مظلوم ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر کوئی زیادتی کرتا ہے۔ اُن سے چلا نہیں جاتا لیکن وہ اپنے آپ کو ایک کیڈٹ کی طرح چاک و چوبند سمجھتے ہیں، ان سے بات نہیں ہوتی لیکن وہ اپنے آپ کو کسی اناؤنسر سے کم نہیں سمجھتے، ان کے کپڑوں میں چھید اور سلوٹیں ہوتی ہیں اور وہ اسے لباس فاخرہ سمجھتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ قبرستان یا گندے نالے کی گیلی زمین پر صاحب فراش نشے کے مریضوں کو مدد کی پیشکش کی جائے تو وہ اسے دخل اندازی سمجھتے ہیں۔ ان کے خود شکستہ رویوں کی وجوہات گھریلو ماحول میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ والدین کو موردِ الزام ٹھہرانا آسان ہے لیکن نا مناسب ہے۔ ماہرین نفسیات کو بھی جب خود اپنے بچوں کے نامناسب رویوں کا سامنا ہوتا ہے تو سارے ہنر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ کہیں کہ میں ہم والدین کو اپنی اولاد سے ناروا سلوک پر اکسا رہے ہیں ، سچی بات تو یہ ہے کہ ہم ان کی بے قیمت محبت کو انمول بنانے کا درس دے رہے ہیں۔ جب آپ معقول روئیے اختیار کرکے اپنے ان بیمار بچوں کو راستہ دکھائیں گے تو یہ “سُچی محبت” کا مظاہرہ ہو گا۔ جو بچے تباہی کی طرف رواں دواں ہوں انہیں روکنا ممکن ہے مثبت نتائج اس طرح ممکن نہیں کہ آپ بحران کے ڈر سے آج ان ’’غصیلے بیماروں‘‘ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ لیکن پہلے آپ کو غم و وغصے سے نکلنا ہوگا۔ اگرآج ایسا نہیں کریں گے تو کل کیا ہو گا؟ کیا آپ اس بحران سے بچ جائیں گے جو آپ کی چشم پوشی کے نتیجے میں روز بروز خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے؟ فرار کی بجائے مُناسب ہوگا آپ آج ہی اولاد کو سدھارنے کیلئے چھوٹے چھوٹے بحرانوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ جب آپ ایک سٹینڈ پر ڈٹ جاتے ہیں تو نوجوان بحران پیدا کرتے ہیں، جب آپ بحران سمیٹتے ہیں تو اُن میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔
ایک بہت عام غلط عقیدہ یہ ہے کہ گھر میں ہر قیمت پر امن قائم رہنا چاہئے اوراس کوشش میں وہ عموماً چھوٹی بڑی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مریض نشے میں ہر حرکت کو جائز سمجھتا ہے اور کوئی ذمہ داری نہیں اُٹھاتا ہے۔ ہر وقت بد تمیزی کے لیے تیار رہتا ہے۔ اہلِ خانہ اس خوف میں مُبتلا رہتے ہیں کہ اُن کے کسی موضوع پر بات کرنے سے کوئی فساد برپا نہ ہو جائے یا بات کرنے سے بچے کی ججھک بالکل ہی ختم نہ ہو جائے۔ والدین کا جاننا بہت ضروری ہے کہ امن کی خاطر بچوں کو برباد نہیں کرنا چاہئے۔
بعض اوقات خاموشی میں اندر ہی اندر بہت سے مسائل پلنے لگتے ہیں آپ کو اپنے بچوں کے کردار میں کوئی برائی نظر آتی ہے تو پورے احترام سے اپنے بچوں سے اس موضوع پر بات کریں۔ اپنے ہی بچوں کا احترام کرنے پر آپ کو یا آپ کی اولاد کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ آپ کو اپنے ان بچوں کا بھی احترام کرنے کی ضرورت ہے جو نشے کے ساتھ ساتھ، بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہمہ وقت فساد برپا کئے رکھتے ہیں۔
ہمارا زندگی گزارنے کا انداز ہمیشہ معاشرتی رسم و رواج کے تابع ہوتا ہے۔ جو کچھ ہمارے اِرد گَِرد ہوتا ہے اور معاشرے میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں کٹھ پتلیوں کی طرح اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ سے لوگ اپنا غصہ دوسروں پر نکالتے آئے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ انداز بدلتے آئے ہیں۔ کبھی والدین اولاد کوڈانٹتے تھے تو اولاد روٹھ جایا کرتی تھی، ایسے میں چپکے چپکے رونا ، کھانا پینا چھوڑ دینا اور خاموش احتجاج عام تھا، اب ترکی بے ترکی جواب دینا، پاؤں پٹخنا، املاک کو نقصان پہنچانا، گھر چھوڑ کرچلے جانا، زورزبردستی اور ہاتھاپائی کرنا نوجوانوں کا وطیرہ ہے اور اگر نوجوان نشئی بھی ہوں تو سمجھ لیں کہ والدین کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہر زمانے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور ہر زمانے کے اپنے حل ہوتے ہیں
نوجوانوں کے نشے کیلئے آپ خود وجُوہات تلاش کرتے ہیں: جواز۔ یہ کوششیں بھی انہیں بری الذمہ قرار دینے والی بات ہے۔ جب آپ انہیں اپنے غیر اخلاقی رویوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے تو و ہ اپنے ان رویوں کو جائز سمجھنے لگتے ہیں۔ نشے کی بیماری میں نشہ کرنے کیلئے جواز ضروری نہیں ہوتا، نشے کے تسلسل کو بیماری خود یقینی بناتی ہے
نشہ کرتے رہیں تو یہ بیماری بڑھتی رہتی ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ نشے سے مکمل پرہیز کے ذریعے مریض اس بیماری پر قابو پا سکتا ہے۔ اگر آپ کسی کے نشہ کرنے کی وجوہات تلاش کر کے اُلٹا اسے جواز مہیا کر دیں اور وجوہات بھی دور نہ کر سکیں تووہ نشہ کیسے چھوڑے گا؟ اور اگر آپ وہ وجوہات دور بھی کر دیں تو بھی وہ نشہ کیسے چھوڑے؟ نشے پر انحصار ایک جسمانی ، نفسیاتی اور معاشرتی بیماری ہے۔ ایک دفعہ پھنس جانے کے بعد معقول مدد اور جامع علاج کے بغیر نشے سے بحالی ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ انجانے میں ایسے اقدام نہ کریں جن سے اسے نشہ جاری رکھنے میں مدد ملے۔ اسے نشہ کرنے کے کچھ نتائج بھگتنے دیں۔ بحرانوں میں پھنس جانے کے بعد وہ خود مدد کا طلب گار ہو تو بھڑاس نکالنے نہ بیٹھ جائیں بلکہ موقع غنیمت جانیں اور نشے سے نجات میں فوری مدد مہیا کریں۔ اگر از خود وہ احساس نہیں کر رہا اور نشہ کی گرفت اس پر مضبوط تر ہو رہی ہے تو پھر آپ مریض کی زندگی میں مداخلت کریں۔ مداخلت سے پہلے آپ کو کُچھ ٹرینیگ کی ضرورت ہوگی۔ کونسلر کی مدد سے آپ مریض کو علاج قبول کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
مندرجہ ذیل بیانات نوجوانوں کو نشے کا جواز مہیا کرتے ہیں
سلیم ہمیشہ سے ضدی رہا ہے، اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کرکے ہم نے اُسے نشے پر مجبور کیا ہے
محمود کو ہمیشہ اپنے باپ سے پیار کی جگہ لعنت پھٹکار ملی ہے، وہ نشہ نہ کرے تو اور کیا کرے؟
اگر شمیم کے والدین آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے اسے توجہ دیتے تو وہ کبھی نشے کی بیماری میں نہ پھنستی
اگر عبدالواحد کی بیوی اپنا رویہ ٹھیک کرلے گی تو وہ نشہ چھوڑدے گا
اگر نیب والے احسن کے والد کو خوار نہ کرتے تو وہ دل کے دورے سے نہ مرتا، پھر احسن کو شراب کے نشے میں ڈوبے رہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی
جاوید کے ساتھ امریکہ بھیجنے کا وعدہ پور ا ہو جاتا تو وہ کبھی نشہ نہ کرتا
اگر اسے کوئی کاروبار نہیں کرائیں گے تو وہ نشہ کرتا رہے گا
باپ کا سایہ سر پر ہوتا تو اسلم نشہ کیوں کرتا؟
اگر ہمارے معاشرے میں کھیلوں کے میدان ہوتے بے روز گاری نہ ہوتی تو لوگ کبھی نشہ نہ کرتے
اگرآصف کو بچپن میں ہی ہاسٹل میں نہ بھیجا جاتا تو وہ کبھی نشے میں نہ پڑتا
غور کریں تو پتا چلے گا کہ کوئی بھی جواز نشہ کرنے کیلئے کافی نہیں ہوتا، کوئی جواز مہیا کر کے آپ نشہ جاری رکھنے میں حصے دار بن جاتے ہیں۔ اپنی اولاد پر آپ جس طرح کا لیبل لگا دیں وہ اسی طرح کے روئیے آپ کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔ ہمارے بچوں کے رویے معاشرے میں نشوو نما پاتے ہیں۔ جو بچہ جس ’’دوکان‘‘ پر جائے گا اسی سے ’’سودا‘‘ لائے گا اور دوکان کا فیصلہ وہ آپ سے پوچھ کر نہیں کرتا…..’’سودے‘‘ کافیصلہ دوکاندار اس سے پوچھ کر نہیں کرتا۔ اسی طرح بہت سے روئیے آپ کے بچوں کو بن چاہے ہی فلموں، ڈراموں، افسانوں اور اخبارات سے مل جاتے ہیں، جس انداز سے واقعات کی رپورٹنگ کی جاتی ہے نوجوانون اسی سے ملتے جلتے رویے پیش کر دیتا ہے۔
لوگ والدین کو بتانے لگتے ہیں کہ نشے کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں جسے احساس محرومی، ماں باپ کی غلط تربیت، گھریلو جھگڑے، یتیمی، غریبی ، بے روزگاری، کھیل کے میدانوں میں کمی، پست معیار زندگی وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ نوجوانوں پر منحصر ہے کہ انہیں اپنے نشے کیلئے کون سا جواز زیادہ موزوں نظر آتا ہے
اگر آپ نشے کے استعمال کیلئے خود ہی ایک ’’فریم‘‘ بنادیں گے تو وہ نشئی بچہ اپنی تصویر اس میں سجا لے گا۔ نشے کی بیماری سے ناواقف پرانے خیالات کے ماہرین نفسیات اس بات پر زوردیتے رہتے ہیں کہ اولاد کی جارحیت کا جواب پسپائی سے دیں اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں تو یہ مسلئے حل ہوجائیں گے۔ یہ سادہ لوح ماہرین نہیں جانتے کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے؟ اگر آپ ان کی یہ نصیحتیں پلے باندھ لیں تو جلد ہی آپ کا کام تمام ہو جائے گا۔ جب لوگ کسی نشئی نوجوان کو والدین پر ستم ڈھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ والدین کی غلط تربیت کا شکار ہوا ہے، ایسے فتوے دیتے ہوئے انہیں ذرا خیال نہیں آتا کہ والدین پر کیا گزرے گی؟ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ نشے کی جڑیں معاشرے میں ہوتی ہیں اور وہیں سے اسے نشونما ملتی ہے۔
ہمیشہ ہی نشہ کرنے والوں کیلئے وجوہات دوسرے لوگ تلاش کرتے ہیں، نشہ کرنے کیلئے کوئی نفسیاتی وجہ لازمی نہیں، دیکھنے میں آیا ہے کہ پریشان حال، نارمل، خوش باش اور ہرقسم کے لوگ نشہ کرتے ہیں۔ نشے کا آغاز عام طور پر تفریحاً کیا جاتا ہے اور سب سے پہلے دوست احباب نشے کی دعوت دیتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کوئی دوا کسی علاج کیلئے تجویز کرتے ہیں اور مریض اسے سرور کیلئے جاری رکھتے ہیں اور اپنی ’’معصومیت‘‘ میں سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا سے نقصان کیسا؟ لیکن آہستہ آہستہ پھر یہ گلے کا پھندہ بن جاتی ہیں۔ بے سکونی، نشے کا ماحول اور اس کی آسان دستیابی اس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لوگ نشے کا استعمال پھولوں کی طرح خوشی اور غمی دونوں موقعوں پر کرتے ہیں۔ نشہ کرنے والے میں سے %10اس میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ بلوغت سے پہلے نشے کی بیماری کے اِمکانات 20٪ ہوتے ہیں کہتے ہیں، کوئی شخص یا تو نشے کا شغل کرنے والا ہوتا ہے یا پھر نشے کا مریض۔ شغل کرنے والوں کو نشہ کی مقدار بڑھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی، ایسے لوگوں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کی زندگی پر نشے کے کوئی خاص برے اثرات نہیں ہوتے، جبکہ نشے کے مریضوں کی زندگی عبرت کا نمونہ ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ چرس جسے منشیات کی کمزور بہن سمجھا جاتا ہے کچھ لوگوں کیلئے بہت بڑے خطرے کا سبب بن جاتی ہے حتیٰ کہ انہیں پاگل پن تک لے جاتی ہے۔ چرس کا دیا ہوا یہ پاگل پن کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہوتا، صرف چرس چھوڑنے سے ٹھیک ہوتا ہے، دوسری طرف چرس پینے والوں کی اکثریت ساری عمر اس شغل میں گزار دیتی ہے اور ان کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔
نشے ابتداء میں سکون یا تحریک دیتے ہیں یا پھر درد ختم کرنے اور خیالات کو بدلنے کے کام آتے ہیں۔ ہر نشہ ان میں سے ایک یا ایک سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ شراب کی خاص خوبی ٹھہراو پیدا کرنا ہے جبکہ کوکین تحریک دینے اور ہیروئن درد ختم کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ چرس خیالات اور نظریات ہماری مرضی کے مطابق بنادیتی ہے لیکن یہ اثرات نارمل لوگوں پر ہوتے ہیں۔ نشے کی بیماری میں جسم پر نشے کا بہت غلط ، گندا اور زہریلا اثر ہونے لگتا ہے۔نشے کی بیماری ایک جسمانی بیماری ہے، آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ نفسیاتی عارضے اس جسمانی بیماری کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ نشے کی بیماری میں مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ نشے کی مقدار نشہ استعمال کرنے والا خود نہیں بڑھاتا بلکہ مقدار خود بخود بڑھتی چلی جاتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے گرمیوں میں پیاس بڑھتی ہے، دراصل نشے کے مریض کی توجہ مقدار پر نہیں بلکہ اثر پر ہوتی ہے، جب تک اس کا نشہ پورا نہیں ہوتا وہ نشے کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔
نوجوانوں میں بزرگوں کے اختیارات کو چیلنج کرنے کا معاملہ گزشتہ چند برسوں سے پوری شد و مد کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ بعض نوجوان اختیارات کی جنگ میں والدین کو تہس نہس کئے جا رہے ہیں اور جب سے پاکستان میں نشے کی بیماری ایک وباء کی طرح پھیل رہی ہے، نوجوانوں کیلئے احساس گناہ نشے کی میلی چارد میں چھپا لینا آسان ہو گیا ہے۔ غیر قانونی حرکتیں اتنی عام ہو چکی ہیں کہ قانون اور انتظامیہ دونوں مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ 70 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، حکومت کے ایوانوں میں شراب و کباب اور بد اعمالیوں کے قصے سرکاری سطح پر ان قباحتوں کی ترویج کا باعث بنے ہیں۔
خیر حکومت کو کوسنے سے یہ معاملات آج تک نہیں سدھرے اس لئے ہم یہ معاملات سدھارنے کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہی نہیں۔ ہم یہ طے کر لیتے ہیں کہ والدین ایک دوسر ے کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر جب بھر پور ساتھ دیں گے تو اُن کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہے گا۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ صرف دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے
کچھ روئیے بہت عام ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی غلطیوں پر خود اپنی ذات کو الزام دینے لگتے ہیں کہ یہ ہمارے اپنے گناہوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ چیزیں، ہمیں بروقت مناسب اقدامات کرنے سے روکتی ہیں۔ والدین کیلئے کچھ باتوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔ انہی میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ بچوں میں بیماریاں والدین کے اعمال کے نتیجہ میں نہیں آتی، بیماری آنے کا ایسا کوئی طریقہ کار ہی نہیں ہے، یہ چیزیں گھر سے باہر سیکھی جاتی ہیں۔ آپ کو وہ طریقہ کار سیکھنے ہونگے جن کی مدد سے آپ اپنے بچوں کو نئے سانچے میں ڈھال سکیں۔
لاعملی سے بد گمانی جنم لیتی ہے۔ اللہ سے ایسی توقعات نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ آپ کو نشانہ بنا کر آپ کی طرف مسائل بھیجتا ہے۔ بیماری کو ویسے ہی لینا چاہئے جیسے کہ وہ ہے اور یہ بیماری گھر سے باہر ہوتی ہے۔ بچہ عموماً دوسروں کے کہنے پر نشہ کرتا ہے اور یہ بیماری اس کے جسم میں خامی آجانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ نشے کی بیماری کا ہو جانا ہی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایسے میں ایک اور نیا مسئلہ کھڑا کر لینا کہ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے دانشمندی نہیں، یہ سوچ والدین میں اسی لئے پیدا ہوتی ہے کہ بچے والدین کو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ میرے ان رویوں کے ذمہ دار آپ ہیں اور ان کے اردگرد موجود دوسرے لوگ بھی جب ایسی بات کرتے ہیں تو والدین اپنے آپ کو الزام دینے لگتے ہیں اور احساس گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور مریض کو خوش کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ نشے کی بیماری نشہ کرنے والوں میں سے چند لوگوں کو ہوتی ہے اور یہ ان کے جسم میں ایک نا اہلی آجانے سے ہوتی ہے۔ نشہ شروع کرنے سے پہلے ان چند لوگوں کی نشاندہی نہیں ہوسکتی، نشے کی بیماری شروع ہونے کے بعد ہی اس امر کا پتہ چلتا ہے اور پھر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ شروع ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ کچھ نشہ کرنے والوں کو کوئی نفسیاتی مسئلہ بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے بھی وہ نشے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ لیکن نشے کی بیماری نفسیاتی وجہ سے نہیں آتی۔
نشے کی بیماری میں اب مریض کو یا کسی اور کو قصوروار ٹھہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ نشے کی بیماری ایک جسمانی بیماری ہے جو نشے کے تجربات کرنے والوں میں سے کچھ کو ہوتی ہے۔ لیکن اس بیماری سے بحالی اب مریض اور اہل خانہ کی مشترکہ ذمہ داری بن جاتی ہے۔ مریض کی بہتری اور اہل خانہ کی بہتری آپس میں نتھی ہوتی ہے۔
زندگی میں اکثر اچھے لوگوں کے ساتھ بھی برے حالات پیش آتے رہتے ہیں۔ ضروری نہین کہ آپ کا کوئی قصور ہو۔ بہت سے معاملات میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہوتا لیکن اب ان معاملات کو خوش اسلوبی سے نپٹانا ہماری ذمہ داری بن جاتی ہے۔ والدین کو اسے صرف ایک مسئلے کے طور پر ہی نہیں لینا چاہئے اور پھر اس سے نپٹنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔ اس سارے عمل میں انتہائی ضروری ہے کہ آپ پر امید رہتے ہوئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ نشہ بازی کا جنون گھر گھر میں دھماکہ خیز مواد کی طرح پھٹ رہا ہے۔ نشے میں مدہوش ہونے والے نوجوانوں میں از خود ہوش کی توقع رکھنا محال ہے۔ جو قباحتیں صرف بڑے شہروں کا ’’طرہ امتیاز‘‘ ہوا کرتی تھیں وہ اب ذرائع مواصلات کے طفیل چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی پھیل رہی ہیں۔ آج کے بچوں کی معصومیت چِھن گئی ہے۔ جو باتیں پہلے نوجوان نہیں جانتے تھے اب بچے ان پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ جتنی خبریں ہمارے آباؤاجداد پوری زندگی میں نہیں سن پاتے تھے، آج کے نوجوان ایک ہفتے میں سن لیتے ہیں۔ آج کا نوجوان نیویارک میں ہونے والے واقع سے اسی دن ’’بدو مہلی‘‘ متاثر ہوتا ہے۔ نشہ اتنی آسانی سے دستیاب ہے کہ آپ کو کہیں دور نہیں جانا پڑتا اور نشے کا کالا دھندہ کون کرتے ہیں یہ کسے نہیں معلوم؟ کسی کو اچھا لگے یا برا زمینی حقائق سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہوتی
ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے کسی کو وقت سے پہلے پتا چل جائے کہ کون سا بچہ بعد ازاں نشے کا شکار ہوگااور کون سا راہ راست پر رہے گا؟ اسی لئے والدین کے رویوں کو ذمہ دار ٹھہرانا بحث برائے بحث ہے۔ نشے کی بیماری کا حل معاشرے کے دوغلے رویوں میں الجھا ہوا ہے۔ جب تک آپ اپنے خیالات کو پگھلا کرنئے کارآمد سانچوں میں نہیں ڈھالیں گے تب تک آپ بے جان بُت ہی تراشتے رہیں گے۔
اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ معلومات کا خزانہ ہیں لیکن ہمارے یہاں جس طرح یہ تشد د کا پرچار کرتے ہیں، پولیس کو بدمعاش قرار دیتے اور والدین کے سامنے گھن گرج کے ساتھ تقریریں کرنے والوں کو ہیرو ثابت کرتے ہیں تو ایسی صورت حال میں نوجوانوں کیلئے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ میڈیا سے کچھ اچھے نتائج بھی اخذ کریں۔
ٹیلی ویژن ہماری رسم و رواج اور ثقافت میں راتوں رات تبدیلیاں لا رہا ہے۔ جس دن سے ہم نے ٹیلی ویژن میں خلاءبازوں کو چاند پر چلتے ہوئے دیکھا ہے اسی دن سے چاند کی بڑھیا کے چرخے کا سوت الجھ کر رہ گیا ہے۔ ہمارے ہاں جہاں ایک طرف ٹیلی ویژن چینلز کی کوئی کمی نہیں جو برائے راست نشے کی ترغیب دیتے ہیں جیسے کے ایم ٹی وی، ایچ بی او اور سٹار موویز وغیرہ تو دوسری طرف ایسے چینلز بھی ہیں جو نشے کے خلاف آگاہی میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ جیسے جیو، اے ٹی وی، نیو، اے آر وائی ڈیجیٹل اور انڈس چینلز وغیرہ۔ فیس بُک پر ویلینگ ویز کی لائیو نشریات معاشرے میں نشے کے خلاف انقلاب برپا کر رہی ہیں۔
سمارٹ فون نے دُنیا بدل کر رکھ دی ہے ہر ایجاد مخصوص اثرات لے کر آتی ہے، سارا منظر بدل جاتا ہے!ایک گھر کے اندر رہنے والا کنبہ اپنے اردگرد کے معاشرے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ویسے آپ سمجھتے ہیں کہ آپ دنیا سے الگ ذرا خاص قسم کے لوگ ہیں۔ اور صرف آپ کے نظریات ہی درست ہیں ذرا سوچیں کے دنیا میں اربوں لوگ جب ایسا ہی سوچتے ہیں ، توکتنا عجیب لگتا ہے؟ حقیقت میں کتنے لوگوں کے نظریات حتمی طور پر درست ہونگے؟ یہاں میں ایک خاص نکتے کی نشاندی کرتا چلوں کہ عموماً آپ اپنے مریض کو نشے پر لعن طعن کرتے ہیں لیکن دل میں آپ سوچتے ہیں کہیں مریض کے نشے کے ذمہ دار خود آپ تو نہیں؟ دوسری طرف آپ چوبیس گھنٹے مریض کو نشے سے دور رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں لیکن مناسب منصوبہ بندی کے بغیر! “سُچی محبت” کا پیغام ہے کہ مریض کے نشہ کرنے کی وجہ تلاش کرنا چھوڑ دیں، اس کے بجائے مریض کی بحالی میں اپنا خاص اور اصلی کردار تلاش کریں، وہ کردار جس سے پہلو تہی تباہ کن ہوگی۔ نشے کی جڑیں معاشرے میں ہوتی ہیں اور وہیں سے نشوونما ملتی ہیں۔ جب وہ نشے کی بیماری میں پھنستا ہے تو یہ اس کی بد قسمتی کا شاخسانہ ہوتا ہے کہ نشہ کرنے والوں میں سے قرعہ فال اس کے نام نکلا۔ نشہ کرنے والوں میں سے %10 جسمانی نظام کی خرابی کے باعث اس بیماری میں پھنس جاتے ہیں۔ والدین کی حیثیت سے اس میں آپ کا قصور نہیں نظر آتا، آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے وہ نشے کی بیماری میں مبتلا ہوتا، تاہم جب وہ نشہ کرتا ہے تو آپ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ نشے سے بحالی اس لئے بھی آپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ آپ فطرت کی طرف سے اس کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
صبح سویرے جب سورج کی سنہری کرنیں باغیچے میں کھلنے والے پھولوں پر پڑنا شروع ہوئیں تو دن امید افزاء محسوس ہونے لگا۔ بالآخر وہ دن آ ہی گیا اور مسز یوسف نے سوچا، “میں کسی سے مشورے کیلئے آمادہ ہوں”۔ خاموشی کو توڑنے کیلئے طاقت ملتے ہی اس کے سر سے منوں بوجھ اتر گیا۔ دو بچوں کی پرورش اور حالات کے نارمل ہونے کا سوانگ بھرتے بھرتے وہ کئی سال سے کشمکش میں تھی۔ تاہم آج وہ خاوند کا دیرینہ راز افشاں کرنے والی تھی۔
ڈاکٹر صداقت علی، ٹرننگ پوائنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ملک کے ممتاز ماہرِ منشیات ہیں۔ پاکستان میں نشے کے علاج کے حوالے سے ان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے ڈو میڈیکل کالج ، کراچی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ میں ہیزلڈن، مینی سوٹا سے نشے کے علاج میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اب تک ہزاروں نشے کے مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہو چکے ہیں۔
یوسف صاحب ایک بہت اچھی ملازمت پر تھے تاہم پیسہ کہاں خرچ ہوتا کوئی پتہ نہ چلتا تھا۔ گھر کے خرچے پورے ہوتے اور نہ ہی یوٹیلٹی بل ادا ہوتے تھے۔ اب وہ بڑے گھر میں رہنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تھے۔ دو سالہ گڑیا اور چار سالہ ننھا بھی ہر وقت یوسف کے زیر عتاب رہتے۔ کچھ راتیں وہ گھر سے باہر ہی بسر کرتا تھا جبکہ مسنر یوسف کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں سے معاملات کو بہت اچھی طرح سے چھپایا جا رہا تھا، کم از کم مسز یوسف ایسا ہی گمان رکھتی تھی۔ اب تو لوگوں نے استفسار کرنا شروع کر دیا تھا کہ سب خیریت تو ہے ناں؟ وہ کسی نہ کسی بہانے ٹال دیتی تھی لیکن لوگوں کے چہروں پر موجود انوکھی تشویش وہ بھول نہ پاتی اور اندر سے ڈرتی رہتی کہ بھانڈا پھوٹنے ہی والا ہے۔ یوسف شراب اور کوکین کی لت میں مبتلا تھا۔ ان کا خاندان بننے سے پہلے ہی بکھر رہا تھا۔
مسز یوسف نے اچھی گھر داری اور بچوں کی بہترین پرورش کے خواب دیکھے تھے لیکن اب اس کی بے بسی اور مجبوری آخری حدوں کو چھو رہی تھی، وہ ہر لمحہ فکر مند رہتی تھی۔ چند دن کیلئے صورتحال کچھ سلجھتی مگر پھر یوسف کسی بہانے لڑائی کرتا اور تین چا ر دن کیلئے غائب ہو جاتا۔ اب وہ آفس بھی بہت دیر سے جانے لگا اور کبھی تو جاتا ہی نہیں تھا۔ وہ جاب کرنے کے بارے میں غور کرتی لیکن پھر بچوں کا سوچ کر رہ جاتی۔ کچن کے اخراجات اور یوٹیلٹی بلز کیلئے وہ اپنی ساس کے آگے ہاتھ پھیلاتی لیکن یوسف کا بھید نہ کھلنے دیتی۔ اس نے کسی کو بھی سچ بات نہ بتائی تھی لیکن آج یہ رویہ بدلنے والا تھا اور وہ یو ٹرن لینے ہی والی تھی۔
اچانک اس کے ذہن میں فاطمہ کی تصویر ابھری فاطمہ سروسز ہسپتال میں سینئر نرس تھی اور وہ کچھ عرصہ مسنر یوسف کی ہمسائیگی میں رہی تھی۔ وہ بہت تجربہ اور علم رکھتی تھی۔ مسز یوسف کو خیال آیا کہ اسے فاطمہ سے بات کرنی چاہیے، وہ اس مسئلے کا حل ضرور جانتی ہوں گی۔ اس نے گلبرگ میکڈونلڈ پر ملنے کا فیصلہ کیا تاکہ بچے اس دوران وہاں کھیلتے رہیں۔ جونہی وہ فاطمہ کے سامنے بیٹھی، کہانی آنسوؤں کی جھڑی بن کر مسز یوسف کی آنکھوں سے بہہ نکلی۔ ندامت، غم و غصے اور آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو تھمنے میں نہ آتا تھا۔
’’باجی! مجھے بہت افسو س ہے‘‘ تمہیں اس مشکل اور پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔ حالات تب ہی بدلیں گے جب یوسف کی طرف سے مدد کے لیے پکار آئے گی۔ تم اس کی بہترین مدد دور رہ کر ہی کر سکتی ہو۔ تمہیں حالات کو خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کو بحرانوں سے نکالنا چھوڑ دو۔ اسے مصیبت کی دلدل میں گہرا اترنے دو۔ اسے اس مصیبت کا مزہ چکھنے دو جو خود اس نے اپنے لئے پیدا کی ہے۔ اگر وہ گڑ بڑ کر تا رہے اور تم روزانہ یہ گند صاف کرتی رہو گی تو اسے نشہ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب تم اس سے لا تعلق ہو جاؤ گی تو اسے ہی ایڈکشن کے نتائج بھگتنا پڑیں گے”۔
جیسے جیسے فاطمہ باتیں کرتی جا رہی تھی، مسز یوسف کو محسوس ہو رہا تھا کہ زمین اس کے پاؤں تلے سے نکلی جا رہی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ اور سننے کی سکت نہ تھی۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ مایوس ہو چکی تھی۔
بچوں کو گاڑی میں بٹھاتے ہوئے ایک بار پھر آنسو اس کی آنکھوں سے امڈ پڑے۔ میں کب تک ایسی ہی زندگی گزارتی رہوں؟ اور کیسے؟ جب اس کو ملازمت سے نکال دیا جائے گا تو ہمیں مکان بھی چھوڑنا پڑے گا۔ گذر بسر کیلئے روپیہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ہمارا گزارا کیسے ہو گا؟ کیا میں کھڑی خاموش تماشائی بنی رہوں؟ ہمدردی اور ترس کے علاوہ اسے فاطمہ سے کچھ نہ ملا، وہ خالی ہاتھ لوٹ رہی تھی۔ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف جاتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جب وہ پارکنگ لاٹ سے نکل رہی تھی تو بچے بھی رو رہے تھے۔ ماں کو روتے دیکھ کر بچے اکثر ایسے رونے لگتے تھے جیسے وہ سب سمجھتے ہوں۔ تیز چلتی ٹریفک میں داخل ہوتے ہوئے سورج کی تیز روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
فاطمہ کی باتوں میں سچ تھا لیکن بس آدھا! بلانوشوں کو اپنی بیماری کے نتائج بھگتنے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ آدھا سچ اور ادھوری کہانی ہے جو فاطمہ نے اسے سنائی۔ لاتعلقی سے مراد اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہے تو فاطمہ پر مسز یوسف کا کچھ قرض باقی ہے جو میں چکائے دیتا ہوں۔
مسز یوسف کو کچھ ایسے گُر جاننے کی ضرورت تھی جن کی مدد سے وہ اپنے خاوند میں مدد حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کر سکے۔ الٹا اسے یہ تجویز دی گئی کہ کچھ نہ کرو اور اپنی دنیا کو بکھرتے ہوئے دیکھتے رہو اور انتظار کرو حتٰی کہ وہ دن آئے جب وہ چاروں شانے چت گرے اور مدد کیلئے پکارے۔
جب ہمیں لگتا ہے کہ کچھ نہ کرنا ہمارے لیے بہتر ہے تو ہم نشے کی بیماری کو تمام اہل خانہ کی زندگی میں کھل کر کھیلنے کا موقع دیتے ہیں۔ جو بلانوش علاج سے دور رہتے ہیں وہ اردگرد کے لوگوں کی زندگی میں ہلچل مچائے رکھتے ہیں۔ وہ انہیں ہمیشہ کیلئے ایسی اذیت اور تکلیف میں مبتلا کر دیتے ہیں جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے بلانوش جنہیں نشہ جاری رکھنے کا اجازت نامہ مل جاتا ہے اپنے اہل خانہ کی زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں۔ علاج پر آمادہ ہونے کا انتظار بہت کٹھن ہے۔ نشے کے مریض سے لا تعلقی فہم و فراست سے بھر پور اور زور دار اصول ہے جس کا بہیمانہ اور بے دریغ استعمال بہت خطرناک ہو گا۔ اس پر کچھ زیادہ غو ر کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر لاتعلقی سے کیا مراد ہے؟ لاتعلقی کا عمومی مطلب ہر وقت مریض کی فکر کرنے اور پیچھے پڑے رہنے کی بجائے اپنی نگہداشت کرنا ہے، مر یض کو مجبور کرنے سے باز رہنا ہے۔ جو وہ نہیں کرنا چاہتا اس کیلئے کان مڑوڑنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے اندر کنٹرول کرنے کی خواہش کو دبانا ہے۔ نشئی کی من مانی کے باوجود تحمل سے رہنا ہے، یعنی لاتعلقی کا مطلب تو اپنے ہی من میں ڈوب کر چراغ زندگی پا لینا ہے۔ اس کا نام رجسٹر سے کاٹ دینا ہر گز نہیں یہ لاتعلقی جذباتی سطح پر ہے لیکن ذمہ داری جاری رہے گی کیونکہ وہ آپ کا پیارا ہے۔