نسیمہ جلدی جلدی جانے کیلئے تیار ہو رہی تھی، وسیم دو دفعہ اسے ڈانٹ چکا تھا۔ ابھی ان دونوں کی شادی کو 10دن ہی گزرے تھے۔ نسیمہ کو ڈانٹ بالکل اچھی نہیں لگتی تھی جبکہ وسیم سمجھتا تھا کہ غصہ مردوں کا زیور ہے۔ وسیم ایک بار پھر دروازے پر کھڑا تھا۔
ادھر گلبرگ میں سیٹھ وقار احمد ٹیلی فون پر سیٹ بک کروانے کے بعد اطمینان سے چائے پی رہے تھے۔ بس اسٹینڈ ان کے گھر سے 15 منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ ان کی بیگم انہیں نصیحت کر رہی تھی کہ گھر سے نکلتے ہی بد پرہیزی شروع نہ کر دیجئے گا۔ شوگر پچھلے کئی دنوں سے بڑھی ہوئی تھی پھر بھی سیٹھ صاحب بیگم سے نظر بچا کر میٹھا کھا لیتے تھے۔ ’’اور اپنی انسولین باقاعدگی سے لگا لیجئے گا، صبح شام۔‘‘ بیگم صاحبہ نے گھر سے سیٹھ صاحب کو گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ ڈرائیور نے گاڑی بیک گئیر میں ڈالی اور تھوڑی ہی دیر میں سیٹھ وقار کلمہ چوک کی طرف رواں دواں تھے۔
سعدیہ اور شہناز ہوسٹل کے دروازے پر کھڑی رکشہ کا انتظار کر رہی تھیں۔ وہ ایم بی بی ایس کے آخری سال میں تھیں اور اب انہیں امتحانوں سے پہلے تین ماہ کیلئے فارغ کر دیا گیا تھا۔ وہ دونوں تیاری کیلئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو رہی تھیں۔ سعدیہ اسلام آباد میں اور شہناز گوجر خان میں رہتی تھی۔ سعدیہ کو ابھی سے یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ جب شہناز گوجر خان میں اتر جائے گی تو پھر وہ باقی سفر تنہا کیسے کاٹے گی؟
مسلم لیگی راہنما راجہ شیر زمان لاہور میں چار مصروف دن گزارنے کے بعد آج گھر لوٹ رہے تھے، ایمبیسیڈر ہوٹل سے چیک آؤٹ کرتے ہوئے وہ خوش نہ تھے، انہیں مناسب پروٹوکول نہ ملا تھا حالانکہ وہ عملے کوکئی دفعہ باور کروا چکے تھے کہ وہ مسلم لیگ کے مرکزی راہنما ہیں۔ ہوٹل کا عملہ یہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ آخر کس چیز کی کمی رہ گئی ہے؟ ان کی ’’آخری خواہش‘‘ یہ تھی کہ ہوٹل کی ٹرانسپورٹ انہیں بکر منڈی چھوڑ کر آئے تاکہ وہ ہوٹل سے کوئی تو مثبت یاد اپنے ساتھ لے کر جائیں۔ راجہ شیر زمان مسلم لیگ کے تسلیم شدہ مرکزی راہنما تھے۔ یہ بات راولپنڈی کے لاکھوں لوگ ان کے خیر مقدمی بیروں پر پڑھ چکے تھے، جو وہ وقتاََ فوقتاََ شہر بھر میں آویزاں کیا کرتے تھے، خاص طور پر ایسے موقعوں پر جب کوئی کابینہ بنتی تھی یا پھر کابینہ میں نیا وزیر شامل کیا جاتا تھا۔ ایمبیسیڈر ہوٹل کی گاڑی مال روڈ پر فراٹے بھرتی ہوئی بکر منڈی کی طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔
شہر بھر میں 48مسافروں کا رخ بکر منڈی کی طرف تھا اور سب کے دل میں کچھ نہ کچھ خاص جذبات تھے۔ ملنے اور بچھڑنے کے جذبات، ہر روز آگے بڑھتی ہوئی زندگی سے آگے بڑھنے کے جذبات اور آنے والی صبحوں اور شاموں سے وابستہ امیدوں اور خدشوں سے لبریز جذبات۔ بس اسٹینڈ پر رش تھا۔ گرمی کا موسم جولائی کے آخری دن اور حبس ایسا کہ جیسے ہوا میں تیرتا ہوا خوف۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ لوگ خوامخواہ ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ ایک لمبی سی بس جلتی بجھتی روشنیوں میں مسافروں کا انتظار کر رہی تھی۔ روانگی کا وقت ڈھائی بجے سہ پہر تھا۔ بار بار لگتا کہ بس روانہ ہونے ہی والی ہے لیکن بس وہیں کھڑی تھی۔
ڈرائیور اپنی سیٹ پر بیٹھا کھڑکی سے باہر کھڑے دو ڈرائیوروں سے باتیں کر رہا تھا، تینوں ڈرائیور ایک ہی سگریٹ شئیر کر رہے تھے۔ ان کے باتیں کرنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ جگری دوست ہیں۔ لیکن زیر بحث موضوع شاید خوشگوار نہ تھا۔ باہر کھڑا مقبول خان بار بار ایک ہی فقرہ دوہرا رہا تھا ’’اکھڑ خان! بس اس بات کو اب تم جانے دو۔‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اکھڑ خان کسی طرح مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سگریٹ کے گہرے کش لگا رہا تھااور ہر دفعہ دھواں باہر نکالتے وقت اپنا سر کھڑکی سے باہر لے جاتا تاکہ بس کے اندر کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ چرس پی رہا ہے۔ ایک گندی اور سڑی ہوئی بدبو دور سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ اکھڑ خان میانوالی کا رہنے والا تھا۔ تینوں کے چہروں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ تینوں کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ لباس اور تراش خراش سے وہ عجیب نظر آ رہے تھے۔ مسافر بس میں بیٹھ چکے تھے اور روانگی کیلئے اصرار کر رہے تھے۔ بس میں اگرچہ اے سی چل رہا تھا لیکن ٹھنڈک نام کو نہیں تھی۔ آخر راجہ شیر زمان سے رہا نہ گیا، وہ اپنی سیٹ سے اٹھے اور ڈرائیور سے جا کر کہا ’’تم ابھی فوری طور پر روانہ ہوتے ہو یاپھر میں دفتر میں جا کر تمہاری شکایت کروں؟ تمہیں پتا ہے میں مسلم لیگ کا مرکزی راہنما راجہ شیر زمان ہوں؟‘‘ ڈرائیور نے غور سے راجہ شیر زمان کی طرف ایسے دیکھا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو، پھر کچھ کہے بناء اس نے اپنے دوستوں کو خدا حافظ کہا اور بس ایک جھٹکے سے گئیر میں ڈال دی۔ اس کے ڈرائیونگ کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اسے راجہ شیر زمان پر غصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
تھوڑی ہی دیر میں بس دریائے راوی کے پل پر سے گزرتی ہوئی جی ٹی روڈ پر رواں دواں تھی۔ ٹیپ پر اکرم راہی کا گانا ’’اک پاسے یار دا جنازہ چلیا، دوجے پاسے ڈولی اے معشوق دی‘‘ اونچی آواز کے ساتھ چل رہا تھا۔ اکرم راہی کو غم کا راہی کہا جاتا ہے۔ گرمی کا احساس اب نسبتا کچھ کم ہو چکا تھا۔ مسافر ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ نسیمہ اور وسیم سب کی توجہ کا مرکز تھے۔ ایک نوبیاہتا دلہن سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ ہی لیتی ہے، وسیم فاتحانہ انداز میں کبھی اپنی دلہن کو اور کبھی مسافروں کو دیکھ رہا تھا۔ راجہ شیر زمان مسافروں کو ملک میں ہونے والے سیاسی اتار چڑھاؤ سے آگاہ کر رہا تھا۔ وہ اشارے کنائے سے یہ بھی بتا رہا تھا کہ اسے ’’اندر‘‘ کی سب خبریں کس طرح معلوم ہوتی ہیں اور اس کے رابطے کہاں کہاں تک ہیں۔ سیٹھ وقار احمد بڑی دلچسپی سے اس کی گفتگو سن رہے تھے۔ جونہی راجہ شیر زمان کا رخ ان کی طرف ہوا، سیٹھ وقار احمد نے اپنا وزیٹنگ کارڈ ان کی طرف بڑھا دیا جس پر ان کے نام کے ساتھ سیٹھ گروپ آف انڈسٹریز لکھا تھا۔ راجہ شیر زمان حیرت سے انہیں تکنے لگے کہ اتنے بڑے انڈسٹریالسٹ آخر بس میں سفر کیوں کر رہے ہیں؟ سیٹھ وقار احمد نے فورا وضاحت کی کہ انہیں ہوائی سفر کرتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے۔
سعدیہ اور شہناز کو یہ سیاسی شور بہت برا لگ رہا تھا لیکن روایتی جھجک کی وجہ سے وہ خاموش رہیں۔ انہیں جہاں ایک طرف کئی مہینوں بعد گھر جانے کی خوشی تھی وہاں امتحان کا خوف بھی ذہن پر بری طرح چھایا ہوا تھا۔ کھاریاں چھاؤنی سے کچھ پہلے گاڑی آدھے گھنٹے کیلئے ایک ہوٹل پر رکی تاکہ مسافر کچھ کھا پی لیں۔ ڈرائیور بس سے کچھ فاصلے پر خاص سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں بس فراٹے بھرتی ہوئی جہلم کی طرف رواں دواں تھی۔ کھاریاں چھاؤنی گزرنے کے بعد ڈرائیور نے یکدم گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔ ایک مشکل موڑ پر تو مسافروں کی چیخیں ہی نکل گئیں۔ ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ ڈرائیور نے تیز رفتاری کے ساتھ ایک اور موڑ کاٹا، بس ایک ٹرک کو اوور ٹیک کرتے ہوئے جیسے چھو کر گزر گئی۔ اکثر مسافروں نے اگلی سیٹوں کو زور سے پکڑ رکھا تھا۔
شام ہو رہی تھی، سورج غروب ہو چکا تھا لیکن آسمان پر سورج کی لالی ابھی تک موجود تھی۔ بس کے اندر چھوٹے چھوٹے بلب جل رہے تھے۔ بس کی تیز رفتاری سے مسافروں کی آپس میں باتوں کا سلسلہ منقطع تھا۔ یکایک۔۔۔ ڈرائیور نے اسٹیئرنگ بائیں طرف گھما دیا حالانکہ سڑک سیدھی جا رہی تھی۔ بس سڑک سے اتر کر جنگلے سے ٹکرائی اور پھر اسے روندتی ہوئی 30 فٹ نیچے دریائے جہلم میں جا گری۔
بس میں ایک کہرام مچ گیا۔۔۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔بس پانی کے نیچے دلدل میں دھنس گئی۔ پانی تیزی سے بس میں داخل ہو رہا تھا اور مسافر بس سے باہر نکلنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ 25مسافر بری طرح زخمی تھے اور انہیں ہسپتال پہچانے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر مسافر بے ہوش تھے، 12 مسافر جو معمولی زخمی تھے خوف اور درد کی شدت سے کراہ رہے تھے۔ 13 مسافر سڑک کے کنارے ان چارپائیوں پر لیٹے تھے جو اہل علاقہ نے مہیا کی تھیں۔ یہ سب خاموش تھے کیونکہ مردے بولتے نہیں۔
ان کی چیخیں بے آواز ہوتی ہیں۔ نسیمہ اور وسیم کا ہنی مون ادھورا رہ گیا، سعدیہ اور شہناز دکھی انسانیت کی خدمت کئے بغیر اس دنیا سے سدھار گئیں، سیٹھ وقار اب اپنی بلڈ شوگر کنٹرول کرنے سے بے نیاز ہے، راجہ شیر زمان کے خیر مقدمی بینر قصہ پارینہ بن گئے تھے۔ ڈرائیور غائب تھا، اس سے پہلے کہ بس جنگلے سے ٹکراتی ڈرائیور کھڑکی سے چھلانگ لگا کر رفو چکر ہو گیا۔
ہر طرف شور و غوغا تھا، ایدھی کی ایمبولینس مسافروں کو ہسپتال شفٹ کر رہی تھی۔ غوطہ خور لاشیں دریا سے نکال کر لنگوٹیوں میں ہی ایک طرف بیٹھے تھے۔ کچھ منچلوں نے دریا میں اتر کر مسافروں کا سامان لوٹ لیا تھا۔ پولیس تفتیش کر رہی تھی۔
اگلے دن اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر تھی ’’ٹائی راڈ کھلنے سے بس دریائے جہلم میں جا گری‘‘ ایک ضمنی تھی ’’ 13مسافر ہلاک، 25زخمی، تحقیقات کیلئے کمیٹی مقرر کر دی گئی‘‘ اور پھر نیچے اس بد قسمت بس کے دریا میں گرنے کے حوالے سے ایک روایتی خبر تھی۔ ایسی بہت سی خبریں ہم اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں۔
تین دن بعد مشہور ٹیلی ویژن چینل جیو کے میزبان انجم رشید نے اپنے پروگرام ’’چھوٹی خبر بڑی بات‘‘ میں ایسے حادثوں کو موضوع گفتگو بنایا۔ انجم رشید شرکاء سے ایسے حادثوں کی اصل وجہ کرید رہے تھے اور کوئی انہیں پلو نہیں پکڑا رہا تھا، پنجاب ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکرٹری طارق باجوہ، بس ڈرائیور، پولیس اہلکار اور گاڑیوں کی فٹنس کے مجاز افسر اپنے اپنے انداز میں اس حادثے پر ’’روشنی‘‘ ڈال رہے تھے۔روشنی کیا ڈال رہے تھے، بس سمجھیں کہ واقعے پر مٹی ڈال رہے تھے تاہم ایک بات پر سب متفق تھے کہ ٹائی راڈ کے کھلنے کا ذکر ہر حادثے کے بعد کیا جاتا ہے لیکن یہ وجہ حقیقت سے بہت بعید ہے، پولیس کا نمائندہ کہہ رہا تھا کہ ٹائی راڈ حادثے کے بعد ہتھوڑوں سے توڑا جاتا ہے اور پولیس تفتیش نہیں کر پاتی کیونکہ ایسے حادثات دور دراز علاقوں میں ہوتے ہیں اور ایسا کوئی بندوبست نہیں کہ متعلقہ اتھارٹیز موقع واردات پر پہنچ کر حقائق جان سکیں۔ ساری کارروائی بذریعہ مک مکا غائبانہ ہی مکمل ہوتی ہے۔ ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ گاڑیوں کی فٹنس کا سر ٹیفکیٹ گاڑی کا معائنہ کرائے بناء ہی مل جاتا ہے، طارق باجوہ کہہ رہے تھے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کے پاس گاڑیوں کے معائنے کیلئے جیک ہے نہ ریمپ۔ اخبارات اب ان خبروں کو سنگل کالمی سے زیادہ کی اہمیت نہیں دیتے، یوں انسان اعداد و شمار بن جاتے ہیں اور ان کے کفن میلے ہونے سے پہلے کیس داخلِ دفتر ہو جاتا ہے۔ ایسے سینکڑوں حادثوں کے بعد بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آج تک کسی کھڑکی سے چھلانگ لگانے والے ڈرائیور کو سزا نہیں ہوئی۔اس پروگرام میں بہت سے سوال اٹھائے گئے لیکن اصل نکتہ جو حادثے کے باعث بنا وہ پسِ پردہ ہی رہا۔
یہ فقط اکھڑ خان کی کہانی نہیں، ان گنت گھرانوں کی کہانی ہے، دراصل یہ انسانوں کے ساتھ غفلت برتنے کی کہانی ہے۔ چرس کا استعمال شغل کے طور پر کیا جاتا ہے، %90لوگوں کا یہ شغل زندگی بھر جاری رہتا ہے اور انہیں کوئی منفی نتائج نہیں بھگتنا پڑتے لیکن %10لوگ چرس کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب چرس انہیں کوئی لطف و سرور مہیا نہیں کرے گی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نت نئے حادثے مریض کا گھر دیکھ لیتے ہیں۔ مریض ہوش و حواس میں نہیں بلکہ نشے کے بھنور میں پھنسا ہوتا ہے۔ ارد گرد کے لوگ اس بات کا فیصلہ کرنے میں سالوں گزار دیتے ہیں کہ چرس پینے والا واقعی بیمار ہے یا مستی کر رہا ہے؟
آئیے! غور کرتے ہیں کہ ایسے حادثوں کے پسِ پردہ کیا غلطیاں ہیں جو اصل حقائق کو سامنے نہیں آنے دیتیں، جس کی بناء پر یہ حادثے تواتر کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔
غلطی:اکھڑ خان چرس کو نشہ ہی نہیں مانتا اوراسی وجہ سے علاج کی ضرورت بھی نہیں سمجھتاجبکہ کمپنی والوں کے خیال میں چرس نشہ تو ہے مگر اتنا مضرنہیں، ان کے نزدیک سبھی ڈرائیور بوریت دور کرنے اور دل بہلانے کیلئے چرس پیتے ہیں اور اس سے کوئی قباحت پیدا نہیں ہوتی۔ ان کا خیال ہے کہ چرس پینے کے بعد ڈرائیور لمبی ڈیوٹی کرتے ہیں، گاڑی لے کر جاتے ہیں اور پھر فورا واپس لاتے ہیں جس سے دوسرے شہر میں قیام و طعام کی ضرورت پیش نہیں آتی اور یوں کمپنی کے اخراجات میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
وضاحت: پاکستان میں لاکھوں افراد چرس پیتے ہیں، چرس کو سوٹا، جوڑا، پکّا، گردا، جلیبی، سٹف، لال پنا، درویشی تحفہ، پرما، فقیری دھواں، شمامہ، روا اور واری کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ مفروضہ عام ہے کہ چرس ایک بے ضرر نشہ ہے۔ چرس پینے والوں میں سے %10 بہت برے انجام کو پہنچتے ہیں، نا صرف ان کے حواسِ خمسہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ بات پاگل پن تک پہنچ جاتی ہے۔ چرس کو بے ضرر نشہ ماننے والے جمیکا میں ہونے والی تحقیق کو بطور سند لاتے ہیں۔ یہ تحقیق 72ء میں کی گئی مگرکوئی بھی سائنس میگزین اسے شائع کرنے پر تیار نہیں ہوا جبکہ ہزاروں شائع شدہ تحقیقات چرس کے مہلک اثرات کو ثابت کر چکی ہیں۔
ڈرائیور چرس پینا ضروری سمجھتے ہیں، اس کے حق میں جو دلائل وہ دیتے ہیں وہ سرُورانگیزی کی ایک ہلکی شکل ہے جو کہ اپنے آپ کو اچھا محسوس کرنے، چہل پہل، خوش گفتاری اور باتونی پن سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ چرس بوریت دور کرنے کیلئے بھی پیتے ہیں۔ ظاہر ہے سفر کے دوران بوریت اور چرس کی حدیں دور تک ساتھ چلتی ہیں۔ چرس سے رنگ، آواز اور ذائقے کی حِس بہتر ہو جاتی ہے اس لیے چرس پینے کے بعد موسیقی کے پروگرام اور مٹھائی اچھی لگتی ہے تاہم چرس کے بیمار ان سب ’’نعمتوں‘‘ سے محروم رہتے ہیں۔
لوگوں کے چرس سے اس قدر گھائل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آج کی چرس 1960ء کی نسبت قطعی مختلف ہے، اس میں بیمار کرنے کی صلاحیت کئی گنا زیادہ ہے۔ موجودہ چرس میں نشے کا زہریلا عنصر ٹی ایچ سی بہت زیادہ ہے۔ایک عام انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خریدتے وقت نشے کی طاقت کا اندازہ کر سکے، صرف پینے سے پتا چلتا ہے کہ چرس میں کتنا دم ہے؟
چرس پانی کی بجائے تیل میں گھلنے والا مرکب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک مرتبہ چرس جسم میں آ جائے تو یہ چربی میں ذخیرہ ہو جاتی ہے، تین دن تک اس کا اثر زور دار رہتا ہے، پوری طرح خارج ہونے میں لگ بھگ 28دن لگتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ شخص اس دوران سرور میں رہے گا بلکہ یہ کہ چرس کے 421کیمیکلز اس کے دل و دماغ پر مسلط رہیں گے اور اس کے طور طریقوں اور رویوں کو اجنبی بناتے رہیں گے۔ چونکہ چرس اور چربی میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اس لیے یہ دماغ میں بسیرا کر لیتی ہے۔
محض چرس پینے اور چرس کا مریض ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر چرس پینے والا کوئی بندہ دوسروں کیلئے ناقابلِ برداشت ہو جائے تو بات یقیناًشغل سے آگے بڑھ کے مرض کی سرحدوں میں داخل ہو چکی ہے۔ سائنس اب یہ بات ثابت کرتی ہے کہ چرس کا مرض جسم میں کچھ حقیقی تبدیلیاں رونما ہونے کے بعد پیدا ہوتا ہے، اور صحت یابی کیلئے چرس چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔
غلطی:ٹائی راڈ کھلنے سے بس دریائے جہلم میں جا گری۔‘‘
وضاحت: ایسے ہر حادثے کے بعد ٹائی راڈ کا ذکر آتا ہے اور لوگ سوچتے ہیں کہ آخر اتنا کمزور پرزہ بسوں میں کیوں لگاجاتا ہے؟ حقیقتِ حالت یہ ہے کہ کسی بس کے ٹائی راڈ کھلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہ ایک ڈھکوسلہ ہے جو پردہ پوشی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم نے انٹرنیٹ پر بسیں بنانے والی تمام مشہور و معروف کمپنیوں سے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے ٹائی راڈ ٹوٹنے کو ناممکنات میں سے بتایا۔
ٹائی راڈ اصل میں کسی بس کا نہیں کھلتا بلکہ ڈرائیور کے دماغ کا کھلتا ہے، جس کے بعد وہ ایک دو لمحے کیلئے ڈرائیونگ پر کوئی قابو نہیں رکھ سکتااور انہی لمحوں میں حادثہ ہوتا ہے۔ نشے کی بیماری میں چرس جسم میں جا کر کچھ زہریلے مادے بناتی ہے جو دماغ کو وقتی طور پر ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے جس میں بصارت اور سماعت پر انتہائی برا اثر پڑتا ہے۔ مثلا اس حادثے میں زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ڈرائیور کے سامنے جو سیدھی سڑک تھی وہ یکدم بائیں طرف تیزی سے مڑتی ہوئی نظر آئی جس کی بناء پر اس نے سٹیئرنگ کو بائیں طرف موڑا، بس جنگلے سے ٹکرائی اور انہی لمحات میں ڈرائیور کی حاضر دماغی واپس آئی اور اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی۔ضروری نہیں کہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہوا ہو لیکن قرینِ قیاس یہی ہے۔
چرس کا زہریلا کیمیکل ٹی ایچ سی دماغ کی سطح پر جم جاتا ہے جس سے نا صرف مختلف خلیوں کو تال میل پیدا کرنے میں دشواری پیش آتی ہے ، چرس پینے والے بولتے بولتے درمیان میں بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ ردِّعمل کا وقت مختصر ہو جاتا ہے اور کام کاج میں ٹائمنگ متاثر ہوتی ہے۔
غلطی:یہ سمجھ لینا بھی غلط ہے کہ حادثہ ڈرائیور کو اونگھ آجانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
وضاحت:پیشہ ور ڈرائیوروں کو اونگھ آنا قرینِ قیاس نہیں، عام لوگ بھی اگر لمبے روٹ پر ڈرائیونگ کریں تو انہیں اونگھ آنے کا امکان کم ہوتا ہے کیونکہ ڈرائیونگ میں مسلسل کچھ ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں جن کی وجہ سے نیند آنا ممکن نہیں تاہم اگر ایسا ہو بھی تو حادثہ سڑک پر رہتے ہوئے کسی دوسری گاڑی سے چھو جانے یا الجھ جانے کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ چرس پینے والے پیشہ ور ڈرائیور نیند کے معاملے میں ویسے بھی تہی دامن ہوتے ہیں اور اگر وہ چرس کی بیماری میں مبتلا ہوں تو نیند ان سے ویسے ہی دور بھاگتی ہے۔
غلطی: اکھڑ خان چرس کا نشہ کرنے کے بعد چڑچڑا ہوجاتا ہے، کسی نہ کسی سے جھگڑتا ہے اور پھر لمبے روٹ پر ڈرائیونگ
کرنے کیلئے چلا جاتا ہے۔ یہ اس کا تیسرا حادثہ تھا۔ اس کی حالت روز بروزبگڑتی جا رہی ہے،چرس کی وجہ سے اُس کی سوچنے کی صلاحیت بھی جاتی رہی، اس کے باوجود ٹرانسپورٹ کمپنی نے اُسے ایک اہم ذمہ داری سونپ دی۔اصل غلطی نشے کی بیماری کو ’’کیمو فلاج‘‘کرنا ہے۔
وضاحت:ٹرانسپورٹ کمپنی والے چرس کو معمولی نشہ سمجھتے ہیں۔ اکھڑ خان کی نفسیاتی تبدیلیوں کو چرس سے منسلک نہیں سمجھتے۔ وہ اسے محض اکھڑ مزاج سمجھتے ہیں، افسران بالا کو معلوم تھا کہ چرس کے نشے میں اکھڑ خان پاگل پن کی حدوں کو چھو رہا ہے،اس کے باوجود اسے روزانہ ایک نہایت اہم ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ یوں وہ اسے روزانہ یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ بہت سے مسافروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دے اور کبھی کبھی وہ ایسا کر بھی گزرتا ہے۔ جب ایسے حادثے ہوتے ہیں تو ٹرانسپورٹ کمپنی، ڈرائیور، پولیس اور مجاز افسران چرس کا ذکر بیچ میں نہیں آنے دیتے، ایسے لگتا ہے جیسے سب کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہے جس کے تحت وہ چرس کو تحفظ دینے کے پابند ہیں۔جس طرح پاکستان نارکوٹکس کنٹرول بورڈ ٹنوں کے حساب سے چرس پکڑتا ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی گنا زیادہ چرس معاشرے میں استعمال ہوتی ہے۔یوں کہہ لیں کہ چرس کیلئے ہمارے معاشرے میں نرم گوشہ بہت وسیع ہے۔
اکھڑ خان کا اپنے سپر وائزر سے جھگڑا ہوا، اپنے دوست ڈرائیوروں کے سامنے وہ سپروائزر کے خلاف زہر اگلتا رہا اور پھر بظاہر پر سکون ہو گیا۔ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ’’ٹھیک‘‘ ہو گیا ہے اور سفر کے قابل ہے۔ ایک دفعہ شدید جھگڑا کرنے کے بعد مریض کچھ دیر کے لئے پر سکون ہو جاتا ہے اور یوں حالات بظاہر ٹھیک نظر آتے ہیں لیکن اندر ہی اندر مریض بے چین رہتا ہے۔ ظاہر ہے وہ پھر نشہ کرتا ہے جس سے چڑچڑے پن اور تشدد کا ایک اور دورہ پڑ سکتا ہے۔ اکھڑ خان کے ساتھ بھی یہی ہوا، کھاریاں میں گاڑی روکنے کے بعد اس نے تیز ترین چرس پی جس کے نتیجے میں یہ حادثہ رونما ہوا۔
اکھڑ خان میں چرس کی بیماری کی سب علامتیں عیاں تھیں مگر سپر وائزر اور انتظامیہ نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں، وہ لاشعوری طور پر حقائق کو تسلیم نہیں کر رہے تھے۔ کمپنی والوں کو اس خود فریبی سے باہر آنے کی ضرورت تھی اور اکھڑ خان کو اچھے علاج کی۔