آج سے تقریباً ایک سو سال پہلے منشیات پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی منشیات کے خلاف ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو گئی۔ اب ہمیں اس کے خلاف لڑتے ایک صدی گزر گئی ہے مگر حالات بے قابو ہیں۔ یہ منشیات کے بارے میں وہ کہانی ہے جو ہمارے اساتذہ، بڑوں اور گورنمنٹ نے ہمیں سنائی اور سناتے آ رہے ہیں۔ یہ کہانی ہمارے ذہن میں نقش کندہ ہے اور ہم اسے یقین کامل کی طرح مانتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہی تو حقیقت ہے۔ میں خود بھی اس عقیدے کا پیروکار ہوں۔ پھر میں نے اس کی تلاش میں ایک لمبا سفر شروع کر دیا جو تیس ہزار میل لمبا اور ساڑھے تین سال پر مشتمل تھا۔ مقصد صرف یہی جاننا تھا کہ آخر ایسی کون سی طاقت یا راز ہے جو اس جنگ کو چلائے ہوئے ہے۔ اس سارے سفر پر میں نے اپنی ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان “چیخوں کا تعاقب ” ، “نشے کی جنگ ابتدا سے انتہا تک” رکھا۔ یہاں پر تو ایک مختلف ہی کہانی ہمارا انتظار کر رہی ہے اگر ہم سننے کے لیے تیار ہو جائیں۔
جان ہاری ایک برطانوی صحافی ہیں جن نے بہت سے مشہور زمانہ میگزین نیویارک ٹائمز، دی لاس اینجلس ٹائمز، دی نیو ری پبلک، دی نیشن، دی سڈنی مارننگ، ہیرالڈ، ای مونڈو، لی مونڈی اور بہت سارے دوسرے میگزینز میں لکھ چکے ہیں۔ انہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے دوبار “سال کا بہترین نیشنل صحافی” کا خطاب مل چکا ہے ۔ ان کی تصانیف میں “چیخوں کا تعاقب ” اور “نشے کی جنگ ابتدا اور انتہا تک” بھی شامل ہیں۔
ایڈیٹر: اقرا طارق
تو اگر ہم اس کہانی کو حقیقی معنوں میں ذہن نشین کر لیں تو ہمیں خود میں ایک اتنی بڑی تبدیلی لانی پڑے گی جو اس نشے کی جنگ سے بھی بڑی ہے۔ ہمیں تو اپنے آپ کو ہی بدلنا پڑے گا۔ میں نے دوران سفر بالکل ہی مختلف نسلوں کے لوگوں کے جھنڈوں سے ہی سیکھا جیسے بل ہالی ڈے پر میوزک سن کر نشہ چھوڑنے میں کامیاب ہونے والی ایک لڑکی نے مجھے بتایا کہ نشہ کے خلاف جنگ نے نشہ کرنے والے لوگوں کے دل میں اتنی نفرت بھر دی ہے کہ مجھے برباد کرنے میں نشہ کے ساتھ ساتھ لوگوں نے بھی بھر پور حصہ لیا۔ ایک یہودی ڈاکٹر نے اپنے روبرو کیے جانے والے ظالمانہ تجربات کے بارے میں بتایا کہ اسے بچپن میں ایک بدھ مت گرو نے اپنی گود میں لے لیا اور اسے نشہ کرواتا رہا۔ صرف یہ جاننے کے لیے کہ جب یہ جوان ہو گا تو نشہ کے اس پر کیا اثرات رہیں گے۔ ایک ہم جنس پرست لڑکے نے اپنے دکھ کا اظہار یوں کیا کہ اس کے والد نے اپنے ایک آفیسر کے ساتھ مل کر اس کی ماں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس کی ماں کوکین کا نشہ کرتی تھی اور ان کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کوکین کا نشہ کرنے والی عورتوں پر جنسی تشدد کیا جائے تو وہ کیا تاثر دیتی ہیں۔
ڈرگ ایڈکشن کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی انٹرویو دیکھیئے۔
ایسے ہی بہت سارے سوالات میرے ذہن میں بھی تھے اور ان کے جوابات ڈھونڈنے کی وجہ بالکل میری ذاتی خواہش تھی۔ جیسے اگر میں اپنے بچپن کی یاد تازہ کروں تو پہلی یاد یہ آتی ہے کہ میں اپنے نشہ کرنے والے رشتہ کو کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر میں نہیں کر پا رہا۔ تھوڑی اور عمر گزری تو میری ایک بہت قریبی رشتہ دار ہیروئن کے نشہ میں اور میں اس کی محبت میں مبتلا ہو گیا اور مجھے لگنے لگا کہ اب جیسے ایڈکشن ہی میرا گھر ہے۔ اس وقت سے اب تک میں نشے کے ان اسرارورموز کو اپنے ذہن میں کرید رہا ہوں۔ آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ آدمی اگر ایک بار نشہ کی علت میں پڑ جائے تو اسے بذات خود نہیں روک سکتا۔ ہمیں ایسا کیا کرنا چاہیئے کہ یہ لوگ زندگی کی طرف واپس لوٹ آئیں۔
اگر اس سفر سے پہلے آپ مجھ سے پوچھتے کہ نشے کی کیا وجوہات ہیں تو میں آپ کو بیوقوف اور سنکی سمجھتا اور کہتا “جیسے آپ کو تو پتہ ہی نہیں ہے ناں؟؟” اور یہ میں نے اپنی زندگی میں کیا بھی۔ بلکہ ہم سب کرتے ہیں اور بہت سارے لوگ تو اب بھی کر رہے ہیں۔ نشے میں جکڑنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ہم بیس دن ایسی گلی سے گزریں جہاں لوگ نشہ ہی کرتے رہتے ہیں۔ ہم ان سے اس بارے میں اور بات کریں تو اکیسویں دن لاشعوری طور پر ہمارا جسم نشہ کا مطالبہ کر دے گا۔ ہمیں لگنے لگے گا کہ یہ تو ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ان چاہی مگر شدید نشے کی طلب ہو سکتی ہے۔ مطلب ہم بھی نشہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ یہی تو ایڈکشن ہے اور یہی تو اس کی حقیقت ہے۔
سننے میں یہ کہانی تھوڑی عجیب لگی ہو گی مگر اس کے پیچھے ایک مکمل تھیوری ہے جو چوہوں پر تجربات کرنے کے بعد منظر عام پر آئی۔ اس کی شہرت اس کے وجود سے تھوڑی دیر بعد 1980 میں ہوئی۔ جب امریکہ سائیکالوجی سوسائٹی کا حصہ بنا اور منشیات سے آزاد امریکہ کہ آواز بنی۔ یہ ایک عام مفہوم اور آسانی سے یاد رہ جانے والا تجربہ ہے۔ ایک چوہے کو ایک پنجرے میں بند کیا اس پنجرے میں خوراک کے ساتھ تین پانی کی بوتلیں رکھی گئیں۔ ایک بوتل صاف پانی جبکہ باقی میں ہیروئن اور کوکین ملائی گئی۔ جتنی بار بھی تجربہ دہرایا گیا تو چوہا بار بار نشے والے پانی کی طرف کھینچا چلا آتا۔ بار بار اسی کو پیتا حتیٰ کہ اس پیتے پیتے اس کی موت ہو گئی۔
کافی غوروفکر کی اس تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ ایک نشہ ایسا ہے جسے دس میں سے نو چوہوں نے پیا اور اس کی علت ہو گئی اور موت واقع ہونے تک بار بار سے ہی پیا اور اس کی علت ہو گئی اور موت واقع ہونے تک بار بار صرف اسے ہی پیا اور وہ نشہ کوکین ہے۔ کوکین آپ کے ساتھ بھی تو ایسا ہی کرتی ہے اگر آپ کو اس کی علت ہو جائے تو۔ 1970 میں یہ تجربات ابھی ہوئے ہی تھے کہ ایک سائیکالوجی کے پروفیسر بروس الیگزینڈر نے ان تجربات میں ایک چیز نوٹ کی کہ پنجرہ میں صرف ایک چوہے کو رکھا جاتا ہے اور اس کے پاس نشہ کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے اس تجربے کو مختلف طریقے سے کرنے کے بارے میں سوچا۔ انہوں نے چوہوں کا ایک پارک تعمیر کیا۔ یہ جیسے چوہوں کی جنت تھی۔ جہاں ان کے کھیلنے کے لیے رنگ برنگ گیندیں، ان کے پسندیدہ کھانے، اُن کے ٹہلنے کے لیے غاریں اور بل اور بہت سارے دوست اور ہر وہ آسائش جس کا چوہوں نے کبھی تصور کیا ہو گا۔ پروفیسر الیگزینڈر جاننا چاہتے تھے کہ ایسی صورت حال میں کیا ہوتا ہے۔
چوہے نہیں جانتے تھے کہ بوتلوں میں کیا ہے۔ اکثر چوہوں نے باری باری نشے والی دونوں بوتلوں سے پانی پی لیا اور نتائج بھونچکا دینے والے نکلے۔ تندرست اور خوش رہنے والے چوہوں نے نشہ ملا پانی پینا بند کر دیا۔ انہوں نے اسے صرف چکھا اور دوبارہ کبھی نہ منہ لگایا۔ انہوں نے لگ تھلگ رہنے والے چوہوں کی نسبت ایک چوتھائی نشیلا پانی استعمال کیا اور ان میں سے کوئی بھی نہ مرا۔ ایسے تمام چوہے جو الگ تھلگ رہتے تھے اور ناخوش تھے انہوں نے نشے کا کثرت سے استعمال شروع کر دیا۔
چوہوں کے ان تجربات کو جاری رکھا گیا۔ اب پروفیسر الیگزینڈر نے ان آسائش میں رہنے والے چوہوں کو مشکل والے پنجروں میں منتقل کر دیا۔ اب یہ اکیلے اکیلے تھے اور انتخاب بھی بہت کم۔ وہ نشہ کی لت میں پڑ گئے۔ انہوں نے چوہوں کو ستاون دن تک نشہ کرنے دیا تاکہ جدید نشے کے تصورات کے مطابق زیادہ سے زیادہ اتنے دن بعد بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔ پھر انہوں نے چوہوں کو تنہائی سے نکال کر پارک میں ڈال دیا جہاں وہ ساتھیوں کے ساتھ خوش رہ سکتے تھے۔
پروفیسر الیگزینڈر یہ جاننا چاہتے تھے کہ نشے سے پیدا ہونے والی دماغی کیمیائی تبدیلیوں کے بعد نشہ کیسے جکڑ لیتا ہے؟ اب ان کے ساتھ کیا ہو گا؟ مگر اب بھی چوہوں پر حیران کن نتائج سامنے آئے۔ چوہے کچھ جسمانی دردوں، تکلیفوں اور جھٹکوں کے بعد ٹھیک ہو گئے اور نشہ والی بوتل کی طرف واپس نہ گئے۔ وہ صحت مند زندگی گزارنے لگے۔ اچھے پارک کے اچھے طرز زندگی نے انہیں بچا لیا۔ اس تجربہ میں پہلے تو مجھے لگا کہ یہ چوہوں کی پارک میں ایک غیر متوقع حرکت یا عادت ہے۔ لیکن اب میری حیرت کی انتہا نہ تھی جب انہی دنوں میں چوہوں کی تجربہ گاہ جیسے حالات میں انسانوں کو دیکھا۔ یہ انسان ویت نام جنگ میں الگ الگ ہو بہو ایسے تھے جیسے پارک میں چوہے۔ ٹائم میگزین میں خبریں سرگرم تھیں کہ فوجی جنگ میں ہیروئن ایسے استعمال کر رہے تھے جیسے لوگ چیونگم کھاتے ہیں۔ تقریباً 20 فیصد امریکی فوجیوں کو ہیروئن کی علت ہو چکی ہے۔ ایک امریکن جرنل آف سائیکائٹری نے بھی اپنے ایک مطالعہ میں یہ بات شائع کی کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے گھروں کے سربراہان ہیں۔
مگر 95 فیصد نشے کے مریض فوجیوں نے اپنی عملی زندگی میں ہی چوہوں کی تجربہ گاہ کے صحیح ہونے کی تائید کر دی جیسے ہی ان کو خوشگوار حالات میں واپس بھیجا گیا یعنی وہ گھر واپس گئے تو بالکل ٹھیک ہو گئے اور نشہ چھوڑ دیا۔ ان کے حالات بھی بہتر ہو گئے جسے چوہوں کے برے پنجرے سے نکال کر پارک میں ڈالے گئے ہوں ان میں سے کچھ لوگ علاج گاہوں میں بھی گئے مگر بہتر ہو گئے۔ پروفیسر الیگزنیڈر نے اپنے اس تحقیق کے بنا پر رائٹ ونگ والوں کو بیرل خیال والے لوگوں کو کھلم کھلا چیلج کر دیا۔ کیونکہ رائٹ ونگ والے کہتے ہیں کہ نشہ اخلاقی ہے جو کہ بہت سکون اور عیش کی تلاش وجہ سے ہے اور بیرل خیال کے مطابق یہ ایک بیماری ہے جو کہ دماغ میں کچھ کیمکل خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جس میں نشہ کیمکل کو اپنے مطابق بدل دیتا ہے۔ پروفیسر الیگزنیڈردر حقیقت یہ وضاحت کی کہ نشہ کرنا ایک مطابقت ہے اور یہ نشہ کی مطابقت ایک لاچارگی کا پھندا ہے۔ جب مجھے بھی پہلی بار اس حقیقت کا پتا چلا تو میں بھی بہت شش و پنج میں تھا۔ یہ کسے ہو سکتا ہے؟ اس نئی تھیوری نے ہمارے نشے کے مطابق پہلے علم پر ایک شدت پسندانہ حملہ کر دیا۔ ہم کبھی یہ سننا نہیں چاہیں گے کہی یہ ایک تھیوری سچ ہے۔ مگر جتنا زیادہ میں نے لوگوں کو اس کی ریسرچز کو پڑھا انٹرویو کئے اور علم کھلا تو مجھے یہی تھیوری حقیقت ملی۔ یہ اس تحریر کی ایک مثال ہے جو آپ کے ارد گرد ہر وقت دیکھتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس میں دل چسپی لیتے ہیں تو ایک دن آپ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ اپنی حدود کو قائم نہیں کریں گے تو ایک دن آپ کی زندگی میں نشے کا تباہ کن دخل ہو گا۔آپ کو اس کی علت بھی ہو سکتی ہے۔ پھر آپ کو ہو سکتا ہے ہسپتال میں علاج میں ڈایا حوفین دی جائے جو گلی بازاروں میں ملنے والی ہیروئن سے زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ملاوٹ سے پاک ضروریات کیلئے دوبارہ گلی بازاروں والی ہیروئن پر گئزارا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک کنیڈین ڈاکٹر گابر میٹ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مجھے یہ بتایا کہ ہسپتال میں ملنے والی ہیروئن آپ کو نقصان نہیں پہنچاتی جبکہ گلی بازاروں والی تباہ کر دیتی ہے۔ اس ساری تحقیق کے بعد اب بھی آپ یقین رکھتے ہیں کہ آپ اس کے عادی ہیں اور کیمیائی تبدیلیوں کے نشے کے پھندے میں آ گئے میں تو یہ بات قابل فہم بات نہیں لگتی۔لیکن اگر آپ پروفیسر الیگزینڈر کی بات پر یقین رکھتے ہیں تو یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ اس کے مطابق گلی بازاروں کی ہیروئن پہلے والے لوگ ان چوہوں کی طرح ہیں جو رنگ رنگ والے پنجروں میں قید ہیں اور ہسپتال میں ہیروئن لینے والے ان چوہوں کی طرح میں جو اچھے پارک میں ہیں یہاں بہت سارے لوگ اس سے پیار کرنے والے ہیں۔ نشہ ایک ہی ہے مگر حالات مختلف ہیں۔ یہ بات ہمیں بصیرت دیتی ہے کہ نشہ کرنے والے کو سمجھنے کے لیے پہلے نشہ کے مرض کو سمجھیں۔ پروفیسر یییٹر کوہن یہاں انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس سے ہمیں تسکین ملتی ہے۔ اگر ہم انسان ایک دوسرے کے ساتھ میں جڑے تو جو چیز ملتی ہے ہم اس کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ چاہے وہ ایک نشے میں گھومنے والا نشہ کا چکر ہو اس میں بہت ساری سوئیاں اور سرنجوں کی چبھن ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ایڈکشن کو ایڈکشن نہیں کہنا چاہیئے بلکہ بانڈنگ یا گرفت کا رشتہ کہنا چاہیئے۔ تو نشے کا حل یا متضاد نشے سے احتساب نہیں ہے بلکہ انسانوں کا آپس میں جڑنا اور قابل بھروسہ رشتہ بنانا ہے۔
پروفیسر الیگزینڈر یہ جاننا چاہتے تھے کہ نشے سے پیدا ہونے والی دماغی کیمیائی تبدیلیوں کے بعد نشہ کیسے جکڑ لیتا ہے؟ اب ان کے ساتھ کیا ہو گا؟ مگر اب بھی چوہوں پر حیران کن نتائج سامنے آئے۔ چوہے کچھ جسمانی دردوں، تکلیفوں اور جھٹکوں کے بعد ٹھیک ہو گئے اور نشہ والی بوتل کی طرف واپس نہ گئے۔ وہ صحت مند زندگی گزارنے لگے۔ اچھے پارک کے اچھے طرز زندگی نے انہیں بچا لیا۔ اس تجربہ میں پہلے تو مجھے لگا کہ یہ چوہوں کی پارک میں ایک غیر متوقع حرکت یا عادت ہے۔ لیکن اب میری حیرت کی انتہا نہ تھی جب انہی دنوں میں چوہوں کی تجربہ گاہ جیسے حالات میں انسانوں کو دیکھا۔ یہ انسان ویت نام جنگ میں الگ الگ ہو بہو ایسے تھے جیسے پارک میں چوہے۔ ٹائم میگزین میں خبریں سرگرم تھیں کہ فوجی جنگ میں ہیروئن ایسے استعمال کر رہے تھے جیسے لوگ چیونگم کھاتے ہیں۔ تقریباً 20 فیصد امریکی فوجیوں کو ہیروئن کی علت ہو چکی ہے۔ ایک امریکن جرنل آف سائیکائٹری نے بھی اپنے ایک مطالعہ میں یہ بات شائع کی کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے گھروں کے سربراہان ہیں۔
مگر 95 فیصد نشے کے مریض فوجیوں نے اپنی عملی زندگی میں ہی چوہوں کی تجربہ گاہ کے صحیح ہونے کی تائید کر دی جیسے ہی ان کو خوشگوار حالات میں واپس بھیجا گیا یعنی وہ گھر واپس گئے تو بالکل ٹھیک ہو گئے اور نشہ چھوڑ دیا۔ ان کے حالات بھی بہتر ہو گئے جسے چوہوں کے برے پنجرے سے نکال کر پارک میں ڈالے گئے ہوں ان میں سے کچھ لوگ علاج گاہوں میں بھی گئے مگر بہتر ہو گئے۔ پروفیسر الیگزنیڈر نے اپنے اس تحقیق کے بنا پر رائٹ ونگ والوں کو بیرل خیال والے لوگوں کو کھلم کھلا چیلج کر دیا۔ کیونکہ رائٹ ونگ والے کہتے ہیں کہ نشہ اخلاقی ہے جو کہ بہت سکون اور عیش کی تلاش وجہ سے ہے اور بیرل خیال کے مطابق یہ ایک بیماری ہے جو کہ دماغ میں کچھ کیمکل خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جس میں نشہ کیمکل کو اپنے مطابق بدل دیتا ہے۔ پروفیسر الیگزنیڈردر حقیقت یہ وضاحت کی کہ نشہ کرنا ایک مطابقت ہے اور یہ نشہ کی مطابقت ایک لاچارگی کا پھندا ہے۔ جب مجھے بھی پہلی بار اس حقیقت کا پتا چلا تو میں بھی بہت شش و پنج میں تھا۔ یہ کسے ہو سکتا ہے؟ اس نئی تھیوری نے ہمارے نشے کے مطابق پہلے علم پر ایک شدت پسندانہ حملہ کر دیا۔ ہم کبھی یہ سننا نہیں چاہیں گے کہی یہ ایک تھیوری سچ ہے۔ مگر جتنا زیادہ میں نے لوگوں کو اس کی ریسرچز کو پڑھا انٹرویو کئے اور علم کھلا تو مجھے یہی تھیوری حقیقت ملی۔ یہ اس تحریر کی ایک مثال ہے جو آپ کے ارد گرد ہر وقت دیکھتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس میں دل چسپی لیتے ہیں تو ایک دن آپ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ اپنی حدود کو قائم نہیں کریں گے تو ایک دن آپ کی زندگی میں نشے کا تباہ کن دخل ہو گا۔آپ کو اس کی علت بھی ہو سکتی ہے۔ پھر آپ کو ہو سکتا ہے ہسپتال میں علاج میں ڈایا حوفین دی جائے جو گلی بازاروں میں ملنے والی ہیروئن سے زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ملاوٹ سے پاک ضروریات کیلئے دوبارہ گلی بازاروں والی ہیروئن پر گئزارا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک کنیڈین ڈاکٹر گابر میٹ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مجھے یہ بتایا کہ ہسپتال میں ملنے والی ہیروئن آپ کو نقصان نہیں پہنچاتی جبکہ گلی بازاروں والی تباہ کر دیتی ہے۔ اس ساری تحقیق کے بعد اب بھی آپ یقین رکھتے ہیں کہ آپ اس کے عادی ہیں اور کیمیائی تبدیلیوں کے نشے کے پھندے میں آ گئے میں تو یہ بات قابل فہم بات نہیں لگتی۔لیکن اگر آپ پروفیسر الیگزینڈر کی بات پر یقین رکھتے ہیں تو یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ اس کے مطابق گلی بازاروں کی ہیروئن پہلے والے لوگ ان چوہوں کی طرح ہیں جو رنگ رنگ والے پنجروں میں قید ہیں اور ہسپتال میں ہیروئن لینے والے ان چوہوں کی طرح میں جو اچھے پارک میں ہیں یہاں بہت سارے لوگ اس سے پیار کرنے والے ہیں۔ نشہ ایک ہی ہے مگر حالات مختلف ہیں۔ یہ بات ہمیں بصیرت دیتی ہے کہ نشہ کرنے والے کو سمجھنے کے لیے پہلے نشہ کے مرض کو سمجھیں۔ پروفیسر یییٹر کوہن یہاں انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس سے ہمیں تسکین ملتی ہے۔ اگر ہم انسان ایک دوسرے کے ساتھ میں جڑے تو جو چیز ملتی ہے ہم اس کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ چاہے وہ ایک نشے میں گھومنے والا نشہ کا چکر ہو اس میں بہت ساری سوئیاں اور سرنجوں کی چبھن ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ایڈکشن کو ایڈکشن نہیں کہنا چاہیئے بلکہ بانڈنگ یا گرفت کا رشتہ کہنا چاہیئے۔ تو نشے کا حل یا متضاد نشے سے احتساب نہیں ہے بلکہ انسانوں کا آپس میں جڑنا اور قابل بھروسہ رشتہ بنانا ہے۔
جب میں یہ سب کچھ سیکھ چکا اور یہ مجھے مرغوب کرنے لگا مجھے لگا کہ میں اب بھی مکمل طور پر ایڈکشن کے متعلق اپنے پچھلے علم جھٹلا نہیں پا رہا۔ کیا یہ سارے سائنسدان یہ کر رہے ہیں کہ کیمیکلز کا یا نیور و ٹرانسمیٹرز کا کوئی تعلق نہیں؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں نے وضاحت مانگی تو بتایا گیا کہ جب آپ کو جوا کھیلنے کی علت پڑ جائے تو اس کا مطلب آپ کو تاش کے پتے سرنج میں بھر کر لگائے جاتے ہیں؟ آپ کو کسی بھی قسم کا نشہ ہو سکتا ہے اس میں کیمیائی مادے نہیں ہوتے۔ اس چیز نے میرے تجسس کو اور بڑھا دیا۔ اب میں لاس ویگس میں جوا کی انانمس میٹنگ میں یہ اجازت مانگ کر گیا کہ میں ایک مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں میں حیران ہوا۔ آپ یقین کریں وہ لوگ بھی نشے میں مبتلا تھے جسے ہیروئن اور کوکین والے۔ لیکن انہوں نے تو جوا کی میز سے کوئی کیمیکل نہیں لیا تھا۔ لیکن اب میں یہ بات بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کیمیائی مادوں کا کچھ تو عمل دخل ہوتا ہے۔
میں آپ کو اس سوال کا ایک جامعہ مگر مختصر جواب رچرڈ دی گرانڈیر کی کتاب دی کلٹ آف فارما کالوجی میں لکھتے ہیں ایک سائنسی تجربہ سے بتا سکتا ہوں جو یہ ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اس بات سے متفق ہے کہ سگریٹ نوشی دنیا کے ایک بڑے نشوں میں سے ایک نشہ ہے کہ کیمیائی ہک یا جکڑ نکوٹین سے ہوشار رہیں جو سگریٹ تمباکو میں ہوتی ہے۔ جب 1990 میں نکوٹین متعارف کروائے گئے تو ایک افواہ اڑی کہ سگریٹ پینے والے کیمیائی مادے نکوٹین کسی جان پیدا نقصا ن کے بغیر لے سکتے ہیں اور سگریٹ نوشی سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر سرجن جرنل کے آفس سے رپورٹ بتائی ہے کہ صرف 17.7% لوگ ہی نکوٹین پیچ سے سگریٹ چھوڑ سکے۔ اگر اس رپورٹ کے مطابق کیمیائی ہک صرف 17.7% سے تو اب تک دنیا میں لاکھوں لوگ اپنی زندگی تباہ کر چکے ہیں۔ اس دہائی میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ہم صرف نشے کی وجوہات ڈھونڈنے پر زیادہ زور دے رہے ہیں جو کہ اس ساری فلم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان ساری چیزوں کا اطلاق ایک سو سال پرانی نشے کی جنگ سے ہوتا ہے جس میں میں نے چوکیدار سے لے کر لیور پول تک مرتے دیکھا ہے۔ جس میں صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ان کیمیائی مادوں کو جسم اور دماغ سے باہر نکالنا اور نشے سے پاک ہونا۔ ان ساری باتوں کے نتیجے میں اب یہ نہیں کہ نشے کی علت کیمیائی مادوں کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کے آپس میں رشتہ ٹوٹنے کی وجہ سے ہوتی ہے اور صرف یہی ایڈکشن کی حقیقت ہے۔ اب یہ بات بھی فہم عام نہیں لگتی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نشے کے خلاف اس جنگ نے اب تک مشکلات اور نشے کی ان وجوہات کو صرف بڑھایا ہے۔ مثال کے طور پر میں ارذوتا کی ایک جیل میں گیا جہاں نشے کرنے والوں کو سزا دی جاتی تھی اور سزا کے طور پر ہفتوں پتھر کی ایک چھوٹی سی غار میں رکھا جاتا تھا۔ یہاں انسان بالکل ان چوہوں کی طرح قابل رحم حالت میں تھے جو اکیلے پنجروں میں بند کر دیے جاتے تھے اور موت ہی ان کا انت تھی۔ اگر یہ قیدی بچ بھی جائیں گے تو ان کے مجرمانہ ریکارڈ کی وجہ سے باہر ان کو کوئی نوکری نہیں دے گا ، معاشرہ قبول نہیں کرے گا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ میں نے دنیا میں گھومتے پھرتے انسانوں کے ساتھ ایسا ہوتے عام دیکھا ہے۔
اب اسکا متبادل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ایسا سسٹم بنا دیں جو لوگوں کی اس طرح مدد کرے کہ ان کی ایڈکشن چھوڑ کر لوگوں کو آپس میں جوڑنا شروع کر دے۔ یہ صرف کہنے کی حد تک نہیں ہے ایسا عملی طور پر ہو رہا ہے۔ میں نے اسے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا۔ پرتگال میں نشہ کے مسائل پورے یورپ کی نسبت شدید تھے۔ ان کی تقریباً ایک فیصد آبادی ہیروئن کی علت کا شکار تھی۔ انہوں نے منشیات کے خلاف جنگ لڑنا شروع کی تو حالات مزید خراب ہو گئے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بالکل الٹ کریں گے۔ انہوں نے منشیات سے مجرمانہ پابندی ہٹادی اور جتنا پیسہ لوگوں کو جیلوں میں بند کرنے اور گرفتار کرنے پر لگاتے تھے۔ وہ مریضوں کی بحالی پر لگانا شروع کر دیا۔ اس ساری صورتحال میں ان کا مشکل کام بحالی کے لوگوں کو محفوظ گھر دینا، نوکری کے قابل بنانا اور جینے کا مقصد دینا تھا۔ جو انہیں بری حالت سے باہر نکال دے ۔ مثال کے طور پر نشے کے کچھ عادی لوگوں کو بحالی کے دوران ایک گروپ بنا کر دیا گیا اور فرض دیا کہ وہ لوگوں کو مشکلات سے نکالنے کا ایک ادارہ چلائیں۔ اچانک دیکھا گیا کہ اس گروپ کا آپس میں اور سوسائٹی کے ساتھ ایک گہرا تعلق بن گیا اور وہ اپنے آپ کو لوگوں کا محافظ سمجھنے لگا۔
برطانیہ کے کریمنالوجی کے جرنل میں ایک ریسرچ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ جب سے منشیات پر پابندی ہٹا دی گئی منشیات کے عادی کم ہو گئے ہیں اور ٹیکہ لگانے والے نشہ کا استعمال 50% کم ہو گیا ہے۔
جوآوفیگوزیا اپنے ملک ایک مشہور پولیس آفیسر ہے۔ انہوں نے منشیات پر پابندی ہٹوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ہر وہ خطرناک وارننگ دے کر دیکھ لی تھی جسے ہم اخبار، ٹی وی پر سنتے یا دیکھتے ہیں۔ مگر جب انہوں نے پابندی ہٹا دی تو ان کے متوقع خطرناک نتائج سے بھی کم خطرناک مسائل سامنے آئے۔ آج لوگ پرتگال کی مثال دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میری کوشش صرف نشہ کرنے والے ان لوگوں تک محدود نہیں تھی جن سے میں پیار کرتا ہوں بلکہ ہم سب کے لیے ہے۔ ہمیں اپنے لیے مختلف انداز میں سوچنا چاہیئے۔ انسان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر رہنے والے ہیں۔ جڑ کر رہنا، پیار کرنا ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ بیسویں صدی کا سب سے دانشمند فقرہ “جڑ کر بھروسہ کر کے جیو” ہے۔ لیکن ہم ایسی ثقافت کو پامال کر رہے ہیں جب لوگ الگ تھلگ رہنا رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم آج صرف انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔ نشہ بازی کی لت اس وقت بڑتی ہے جب ہمارے جینے کے طریقے بیمار ہوتے ہیں۔ ہم انسانوں کی بجائے نت نئی چیزوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک مشہور مصنف جارج جوبینٹ اپنی کتاب “تنہائی کی عمر” سے لیبل کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے ایسی بستیاں بنا رکھی ہیں جہاں انسان آسانی سے ایک دوسرے سے قطع تعلق ہو جاتے ہیں اور یہ شدت پہلے کے زمانے سے بہت زیادہ ہے۔ پروفیسر الیگزینڈر چوہوں کے پارک کے تجربات کی بنا پر کہتے ہیں کہ اب ہمیں انفرادی بحالی کی بجائے اجتماعی بحالی پر توجہ دینی چاہیئے۔ ہمیں بحالی چاہیئے اس بیماری سے جو ہمیں تنہا کر دیتی ہے اور دھند کی طرح جو ہمیں لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اب یہ نئے سائنسی ثبوت بالکل سیاسی نہیں ہیں اور یہ صرف اس چیز پر زور نہیں دیتے کہ ہمیں اپنے دماغوں کو بدلنا چاہیئے بلکہ ہمیں اپنے دلوں کو بدلنا ہو گا۔
نشے کے عادی سے محبت کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ اب میں کسی بھی نشے کے عادی فرد کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس پر پیار آتا ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں اس سے سچی محبت کروں میں اس کے ساتھ ٹف لَو کے طریقوں سے برتاؤ کروں اور انٹروینشن سے اسے حقیقت دکھاؤں۔ ہر نشے کے عادی کو بتاؤں کہ بہت ہو چکا زندگی اب بھی منتظر ہے۔ منشیات کی جنگ ہمیں سکھاتی ہے کہ جو نہیں رک سکتا اسے نظر انداز کر دو یا زبردستی کرو ان کی زندگیوں کے ساتھ۔ لیکن میں نے تو یہی سیکھا ہے کہ اگر آپ ایسا کرو گے تو نشہ کے ساتھ ان کو بھی کھو دو گے۔ میں اس ارادہ سے گھر آیا کہ نشے کے ہر عادی کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ قریب رکھوں گا۔ انہیں بتا دوں گا کہ میرا پیار بنا کسی شرط کے ہے چاہے آپ نشہ چھوڑو یا نہ چھوڑو۔
جب میں اس سفر سے واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ میرا ایک دوست میرے ایک بستر پر پڑا نشہ چھوڑنے کی شدید دردوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہے اور میرے ایک فالتو بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ اب میں بالکل مختلف انداز میں اس کے بارے سوچ رہا ہوں۔ ایک سو سال سے ہم منشیات اور نشہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کے گیت گا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اب وہ جنگ ختم کر رہا ہوں۔ ہمیں نشہ کرنے والوں کے لیے پیار اور محبت کے گیت گانے چاہییں۔