کالج کا ایک طالب علم اپنا ریاضی کا پرچہ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد کمرہ امتحان میں پہنچا، ہر طرف خاموشی تھی سب پرچہ حل کرنے میں مگن تھے۔ طالب علم کو خاموشی سے پرچہ تھما دیا گیا جو پانچ سوالوں پر مشتمل تھا جس میں سے تین پہلے صفحے پر اور دو دوسرے صفحے پر موجود تھے۔ اُس نے پرچہ حل کرنا شروع کر دیا اور آدھے وقت میں تین سوال کر لیے۔ لیکن دوسرے صفحے پر موجود دو سوال ذرا مشکل تھے سب طالب علموں نے اپنا پرچہ ختم کیا اور چلے گئے لیکن وہ طالب علم آخری لمحے تک کمرہ امتحان میں بیٹھا رہا اور اُس نے اپنے پرچے کا آخری سوال بھی وقت ختم ہونے سے پہلے کر لیا۔ اگلے دن اُسے پروفیسر کی طرف سے فون آیا ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ تم نے آخری سوال بھی حل کر دئیے۔ طالب علم نے جواب دیا اس میں کون سی بڑی بات تھی؟ پروفیسر صاحب نے کہا کہ ’’دونوں سوال بہت مشکل تھے اور میں نے پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ ان کے نمبر شامل نہیں کئے جائیں گے۔ تم نے لیٹ آنے کی وجہ سے سنا نہیں تھا۔ کسی ایک طالب علم نے بھی یہ سوال حل نہ کئے، تم یقیناً بہت ذہین ہو‘‘۔
ڈاکٹر صداقت علی، ٹرننگ پوائنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ملک کے ممتاز ماہرِ منشیات ہیں۔ پاکستان میں نشے کے علاج کے حوالے سے ان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے ڈو میڈیکل کالج ، کراچی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ میں ہیزلڈن، مینی سوٹا سے نشے کے علاج میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اب تک ہزاروں نشے کے مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہو چکے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ اس کا ذہانت سے کوئی تعلق نہ تھا دوسرے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ سوال مشکل ہیں اور انہیں حل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طالب علم کے ذہن کو ’’گمراہ‘‘ نہیں کیا گیا تھا اور اس کے نزدیک ان کے نمبر تھے۔
کچھ کام بہت مشکل ہوتے ہیں۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح آپ کو کبھی بھی مشکلیں چکرا کر رکھ دیتی ہوں گی۔ ایسے میں جب خود یا دوسروں پر زور نہیں چلتا تو آپ الجھن محسوس کرتے ہوں گے۔ کئی دفعہ دفتر میں آپ کی ہدایات پر کوئی کان نہیں دھرتا تو حد سے زیادہ ٹینشن ہوتی ہے۔ کبھی آپ کا وزن بڑھتا ہی جائے تو لگتا ہے کہ ہاضمہ ہی خراب ہے وگرنہ چھ ہزار کیلوریز کو ٹھکانے لگانا کون سی بڑی بات ہے؟؟؟ آپ کو اپنا قصور نظر نہیں آتا، لگتا ہے سب کچھ قسمت کا کھیل ہے۔
ادھر گھر میں آپ کا بیٹا کہنے میں نہیں رہا، اس کا اٹھنا بیٹھنا آوارہ ٹپوری لڑکوں کے ساتھ ہے۔ آپ لالچ سے لیکر ڈرانے دھمکانے تک تمام طریقے آزما چکے ہیں، پر اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، وہ حلیہ بگاڑے سارا دن چھچھورے لڑکوں کے ساتھ پھرتا ہے۔ صاحب زادے کا قد بڑھنے ہی لگتا ہے آپ کی بات میں کوئی دم نہیں رہا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بدقسمتی سے آپ کے ہمسائے کو تمیز چھو کر نہیں گزری۔ دن بھر اس کے گھر میں دنگا فساد ہوتا ہے، رات میں وہ اونچی آواز میں ٹی وی لگا کر آپ کی سامع فراشی کرتا۔ اگر آپ شکایت کریں تو گریبان کو آتا ہے اور الٹا آپ کو صلواتیں سناتا ہے آپ اندر ہی اندر کھولتے رہ جاتے ہیں۔
سونے پر سہاگا یہ کہ موسم بھی آپ کا دشمن ہے، ادھر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ تنور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اور ایسے بہت سے دیگر مسائل آپ کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھتے ہیں۔ بےبسی کی اس کیفیت میں آپ اللہ تعالیٰ سے ہر وقت صبروسکون کی دعا کرتے ہیں۔ دعا کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کبھی یہ بے بسی اور پسیماندگی میں پھنسے رہنے کا بھنور بن جاتا ہے، آئیے اس پر غور کرتے ہیں۔
شکلات میں ہم کچھ ہاتھ پاؤں مارتے ہیں لیکن پھر تھک ہا ر کر مایوس ہو جاتے ہیں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ یا پھر ہم ان چیزوں کی طرف توجہ دینے لگتے ہیں۔ جو ہمارے دائرہ اختیار میں نظر آتی ہیں اور جنہیں ہم بدل سکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو بے بسی کے ساتھ سر پھوڑتے رہنے کی بجائے ایسی چیزوں پر توجہ دینا اچھی حکمت عملی ہے، تاہم کبھی کبھی یہ کوشش سہل پسندی کا راستہ بھی ہو سکتی ہے۔ انفرادی سطح پر مشکل چیزوں میں ترک منشیات جواء اور وزن میں کمی سے لے کر طلاق سے بچاؤ تک ہر چیز شامل ہے۔ قومی سطح پر دہشت گردی، کرپشن اور لوڈ شیڈنگ بھی بہت گھمبیر مسئلے ہیں تاہم یہ کوئی ایسے مسائل نہیں کہ جن کا حل موجود نہ ہو، بس ہمیں وہ حل صحیح جگہ تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مسائل میں ہم ناکام ہوتے ہیں، انہی میں کوئی اور شخص کسی نہ کسی جگہ کامیاب اور اپنی عقل سلیم کے ذریعے فرق پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ وہ شخص جانتا ہے کہ جہاں خود اور دوسروں کو بدلنے کی بات آتی ہے تو وہاں ہمیں “ہمت” کے ساتھ ساتھ “مہارت” کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ہماری زندگی، ادارے حتیٰ کہ دنیا کے تمام پیچیدہ مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، ضروری نہیں کہ ان کا حل بھی پیچیدہ ہو، بعض اوقات بس ذرا مختلف انداز میں سوچنے اور قدم اُٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہمارے پاس مطلوبہ مہارت نہیں، ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ماہرین پہلے سے ہی ان مسائل کا حل تلاش کر چکے ہیں۔ ماہرین نے ہر گتھی سلجھا لی ہے اور یہ دنیا کا اہم ترین راز ہے۔ ہمیں ہر چیز کو نئے سرے سے سیکھنے کی بجائے مسئلے کا جو حل کہیں تلاش کر لیا گیا ہے اسے آزمانا چاہیے۔ ہمیں نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے چھوٹے مسائل پراثر انداز ہونے کی مہارت حاصل کر لیں گے تو ہمیں اپنا دائرہ اختیار وسیع کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی اور گزرتے وقت کے ساتھ پھر معمولی باتوں سے ہمارا سکون بھی خراب نہیں ہو گا۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر وہ شخص جو ماتھے پر تیوڑی ڈالے گھوم رہا ہے، موثر شخصیت نہیں رکھتا، شخصیت کو موثر بنانے کے لیے عصر حاضر کے سلوشن اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کالم کا مقصد ہی یہ ہے کہ دنیا میں تبدیلیاں لانے والے ذہین لوگوں کے طریقے اور مہارتیں آپ تک پہنچائی جائیں تاکہ آپ وہ سب کچھ بدل ڈالیں جو آپ بدلنا چاہتے ہیں۔
دوسروں پر اثر انداز ہونے کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں بہترین الفاظ کے چناؤ اور گفتگو کے فن جیسے روایتی طریقوں پر زور دیا جاتا ہے، تاہم میں انہیں موثر نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک اکثر موقعوں پر مرد نادان پر کلام نرم و نازک بے اثر ثابت ہوتا ہے۔ دراصل دوسروں کو بدلنے کے لیے باتوں سے بڑھ کر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک جمبو سائز برگر کھا رہے ہوں اور بیوی توند کی طرف اشارہ کر کے یہ کہہ دے کہ آپ اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھود رہے ہیں؟ تو کیا آپ پر کوئی اثر ہو گا اور توبہ کر لیں گے؟ نہیں ناں۔۔۔ میں جانتا ہوں۔ سوائے بدمزگی کے اور کچھ نہیں ہو گا۔
اسی لیے عادتیں بدلنے اور بہتری لانے کے لیے میں زبانی جمع خرچ پر زور نہیں دیتا بلکہ ہر مسئلے کے لیے ایک ایسی حکمت عملی کا پرچار کرتا ہوں جو دنیا بھر میں موثر لوگ اپناتے ہیں اور جن کا اطلاق بڑے انسانی مسائل پر بھی کیا جا سکتا ہو۔
بہت سی کمپنیوں میں ملازمین کی چھانٹی ہوتی ہے، جبکہ دوسری کمپنیوں میں مزید ملازم بھرتی کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کمپنیوں میں ملازمین کے کیرئیر کو عروج پر پہنچا دیا جاتا ہے اور ملازمین اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔
چونکہ ہم میں سے زیادہ ترلوگ مسائل حل کرنے کے لیے نئے طریقے آزمانے کی بجائے فرسودہ ذرائع پر انحصار کرتے ہیں، اس لئے ناکامی سے دو چار ہوتے ہیں۔ فرسودہ طریقوں کے پس پردہ سہل پسندی کار فرما ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں ہم ہر ناکامی پر ایک نئی حکمت عملی آزمائیں تو مسائل ختم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ کیا آپ مانتے ہیں کہ بے بسی شاذو نادر ہی ایک سچی اور اٹل حقیقت ہوتی ہے دراصل لوگ خود کو موثر بنانے کی بجائے حالات کو برداشت کرنے کی پالیسی پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ سچ بتائیے! کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایک دن آپ بھی موثر شخصیت بنیں گے؟ اگر ہمیں اس کا ادراک ہوتا تو اپنی اثر انگیزی بڑھانے کے لیے خاطر خواہ کوششیں کرتے اور کامیابی کے نت نئے طریقے کھوج نکالتے، انعام و اکرام سے کام نہ نکلتا تو کوئی نئی ترکیب آزماتے، ذہانت سے کوئی راستہ نکال لیتے لیکن کبھی دھمکیوں پر نہ اترتے۔ اس بات کا شکوہ کرنا مناسب نہیں کہ دوسرے خود ہی کیوں نہیں بدل جاتے، نہ ہی اس بات پر دکھی ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دوسروں کو حسب منشاء بدلنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن اپنی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے ہم گھورتے ہیں، بڑبڑاتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں اور تمسخر اڑاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم کھلاڑیوں کی زندگی کا جائزہ لیں تو ناکامی کا سامنا ہونے پر ہر کھلاڑی نہ صرف اپنی استعداد بڑھانے کی تگ ودو کرتا ہے بلکہ سوچ بچار سے کامیابی کی نئی راہیں تراشتا ہے۔ بار بار کی چوٹیں بھی اسے دوبارہ میدان میں اترنے سے نہیں روک پاتیں۔
لوگوں میں حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بدرجہ اتم صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ہم دوسروں کو بدلنے کی بجائے سمجھوتہ یا نباہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔ عام طور پر ہم خود کو بدلنے کی بجائے گزارہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ماضی کے رویوں سے شناسائی، انسیت اور اپنائیت کا گورکھ دھندہ گزارہ مزارہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ تبدیلی کا ایک انجانا خوف کہتا ہے کہ نہ بدلنے میں تحفظ ہے۔ اسی وجہ سے اگر خاوند بلانوشی میں مبتلا ہو تو اہل خانہ علاج کی بجائے نشے کے نتائج پر توانائی خرچ کرتے کرتے ہلکان ہو جاتے ہیں یا تنگ آ کر اپنے دل کا غبار نکالتے ہیں۔ حالات کو بدلنے کے خیال سے ہی ہمیں انجانے خوف گھیر لیتے ہیں۔ جانی پہچانی مصیبت ایک خیالی اور انجانی مصیبت سے کم تکلیف دہ نظر آتی ہے۔ اسی طرح جب وزن کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم پلان پر عمل درآمد کی بجائے مختلف سائز کے کپڑے رکھ لیتے ہیں اور اپنی تسلی کے لیے خود کو موٹا کہنے کی بجائے خود کو ’’کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں‘‘ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ صورت حال سے سمجھوتہ کرنے کا یہ رویہ قومی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔
دہشت گردی کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں اور ہر واقعہ کے بعد انتظامات کو بہتر بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس میں %90 گفتگو دہشت گردی کے نتائج سے نپٹنے کے بارے میں ہوتی ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی مدد کرنا بہت اہم ہے تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سے بھی اہم کیا ہے؟ اس بات پر بہت کم غور کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کا قلع قمع کیسے ہو؟ اسے کیسے روکا جائے؟ ایسی کسی میٹنگ میں دہشت گردی کے خاتمے پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ چوٹ لگنے سے پہلے وافر مرہم اکٹھی کر لی جائے پر چوٹ لگنے سے روکنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے! کیا یہ ہماری طرف سے خاموش اعلان نہیں کہ ہم انسانی سوچوں اور رویوں کو بدلنے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، ہم ہار مان چکے ہیں۔
چلیں کچھ مسائل اور اس کے خلاف ردعمل دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ جوئے کی لت کا کیا حل ہے؟ اپنے پیارے سے کچھ قسمیں اور وعدے لیں اور اسے قرض سے باہر نکال لیں۔ اگر آپ کے دفتر کا آئی ٹی سیکشن مطلوبہ کارکردگی نہیں دکھا پا رہا تو کیا کریں؟ کوئی مسئلہ نہیں، اسے ختم کر کے باہر سے کام کرا لیں۔ اگر آپ اپنے شریک حیات سے پریشان ہیں تو کیا کریں؟ طلاق کتنا آسان حل ہے۔ اگر رہا ہونے والے مجرم جلد ہی پھر جرائم کی طرف راغب ہونے لگیں تو انہیں اتنی جلدی رہا نہ کیا جائے۔ اسی طرح اپنے بلانوش خاوند کا علاج کرانے کی بجائے اسے مدہوشی کی حالت میں روزانہ باتھ روم سے بستر پر لا کر ڈالیں اور پھر سکون کے لیے دعا کریں۔
گذشتہ برس پی-آئی-اے اور ریلوے کو اربوں روپے کا خسارہ ہوا، اسی اثناء میں ڈائیوو بس سروس نے اس سال کروڑوں روپے منافع کمایا اور اس کی آمدنی میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈائیوو بس سروس والے ایسا کیا کرتے ہیں جس کے بارے میں ریلوے اور پی-آئی-اے والے نہیں سوچتے؟
یقیناً انہوں نے کوئی موثر حکمت عملی بنا رکھی ہے جو ایسے رویوں کو جنم دیتی ہے جن سے کمپنی بہترین نتائج دیتی ہے اور یہ حکمت عملی خفیہ نہیں بلکہ روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔
یہ تو تھی اپنی دنیا کی مثال، ادھر ترقی پذیر ملک بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں ایک انقلابی ڈاکٹر یونس نے چالیس لاکھ لوگوں کو غربت کے چنگل سے نکال لیا۔ اسی طرح ہزاروں امریکی باشندوں نے سنہری رویے اپنا کر وزن کم کیا۔ ایک مثال تھائی لینڈ کی ہے جہاں ایک خاموش طبع انقلابی نے پچاس لاکھ لوگوں کو ایڈز سے بچا لیا۔ امید کی کرن باقی ہے، بے بسی کو سیکھنے والوں سے دنیا بھری پڑی ہے تاہم ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسانی رویوں کو بدلا جا سکتا ہے۔ قلب و نظر کیسے بدلتے ہیں اور انقلاب کیسے برپا ہوتا ہے، میں نے تبدیلی ہر لمحہ ظہور پذیر ہوتی دیکھی اور پس پردہ عوامل پر غور ہمیشہ میرا چلن رہا۔ میں جانتا ہوں کہ تبدیلی کے یہ علم بردار پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور عالم گیر سطح پر بیماریوں کی روک تھام سے لے کر امتیازی قوانین کو بدلنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ میں نے ان حیرت انگیز شخصیات میں ایک خاتون می می سلبرٹ کا کام بھی قریب سے دیکھا جو جرائم پیشہ اور سزا یافتہ لوگوں کی کایا پلٹ رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شخصیات کچھ خوبیوں سے مالا مال ہونے کی وجہ سے کامیابی حاصل کرتی ہیں، تاہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ قدرت کے کچھ ایسے قوانین کے ساتھ چلتے ہیں جو کامیابی کی ضمانت ہیں اور انہیں ہر کوئی سیکھ سکتا ہے، ان میں آپ بھی شامل ہیں۔
یہ کالم میں ہر ماہ لکھا کروں گا، ان لوگوں کی کہانیوں پر مبنی ہو گا جو دنیا بدل رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں میرے ایک لیکچر کے دوران ایک طالبعلم نے کھڑے ہو کر کہا کہ ’’آپ کی باتیں ہمارے لئے نہیں ہیں آپ لوگ آج کی نسل کو سمجھیں جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے پاس کیا تھا؟ ہم سب ایک الگ دنیا میں بیدار ہوئے ہیں۔ آج ہمارے پاس ٹی وی ہے، ہوائی جہاز ہے، خلائی جہاز ہے، ایٹمی طاقت ہے،کمپیوٹر ہے۔‘‘ جب طالب علم نے سانس لیا تو میں نے جواب دیا، جب ہم آپ کی عمر میں تھے یہ چیزیں نہیں تھی جب ہم جوان تھے ہم نے انہیں تسخیر کیا۔ آپ بھی وہ سب کر سکتے ہیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ نا ممکن ہے۔