کل ہونے والے ہوائی جہاز کا سانحہ 47 زندگیوں کا خاتمہ کر کے سوگ اور دکھ کی ایسی لہر پیدا کر گیا جس نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان المناک اور دکھ کے لمحات میں مدد اور یکجہتی کے باوجود لوگ زندگی کے اس سخت اور سوگوار امتحان اور رنج میں مبتلا ہونے کی دُہائی دے رہے ہیں۔ نقصان اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوگ کی یہی تو اصلیت ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا پس منظر کیا ہے۔ سماجی رتبہ یا معاشرتی تعلق کیا ہے، نقصان یا اس سے ہونے والا سوگ آپ کی توقع کے برعکس آپ کو گھیر سکتا ہے۔ اس سوگ کی وجہ کسی عزیز کی موت، حادثات، منشیات کا استعمال یا دل کے دورے تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بہت ہی کم لوگ اس سوگ سے نمٹنے کے لیے نفسیاتی مشاورت یا تعاون کیطرف رجوع کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ تو ایسی مدد کی طرف سوچ و بچار تک نہیں کرتے۔ کچھ لوگ اس کے لیے جلد مدد لے لیتے ہیں جبکہ کچھ آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو دہائیوں تک برباد ہونے دیتے ہیں۔
جعفر علی کلینیکل سائیکالوجسٹ کے طور پر صداقت کلینک اور ولنگ ویز میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ٢٠١٥ میں کلینیکل سائیکالوجی میں، گورنمنٹ کالج اور یونیورسٹی لاہور سے ایم-ایس کلینکل سائیکالوجی پاس کیا۔ انہوں نے ایم–ایس-سی اپلائیڈ سائیکالوجی، انسٹیٹیوٹ آف اپلائیڈ سائیکالوجی، یونیورسٹی آف پنجاب، لاہور سی ٢٠١٣ میں پاس کی۔
وجہ خواہ کوئی بھی ہو مگر حقیقت واضح ہے کہ ہر کوئی سوگ اور نقصان پر ایک ہی طرح سے ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔ عام طور پر آٹھ ایسے سوالات ہیں جو لوگ سوگ کا سامنا کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
سوال نمبر ۱: مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی بھی اپنے پیارے کی موت کے نقصان کو بھر پاؤں گا؟
جواب: آپ نے اپنے عزیز کی موت کی بھرپائی نہیں کرنی ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ کو اس سانحے کو دیکھنے کے لیے اپنے نقطہ نظر پر غور کرنا ہو گا۔ موت ایک مستقل حقیقت ہے۔ آپ کو زندگی کے ایسے مشکل وقت میں اپنے پیاروں کا یا چیزوں کے واپس آنے کا دُکھ بھرا انتظار کرنے کی بجائے ان کی خوبصورت یادوں کو یاد کر کے، ان کی خوبصورت تلخ یادوں میں رکھ کر آگے بڑھ جانا ہو گا۔ انمول لوگوں کے بچھڑ جانے کے بعد بھی زندگی تو چلتی رہتی ہے۔ اب آپ کو ہمت کرنا ہو گی کہ آپ زندگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے احسن طریقہ سے آگے بڑھیں۔ سوگ کے آگے کمزور پڑھنے کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کا دکھ اور تکلیف زیادہ اور دیر پا ہو جائے گا۔
سوال نمبر ۲: میرے پیارے کی وفات کو تو سالوں گزر چکے ہیں مگر میں اب بھی زندگی میں بہتری محسوس کیوں نہیں کر پاتا؟
جواب: جذباتی زخموں کا بھرنا جسمانی زخموں کے بھرنے سے بالکل الگ ہے۔ سوگ سے شفایابی کا کوئی خاص دورانیہ یا مدت نہیں ہے۔ سوگ سے صحت یابی چھوٹے چھوٹے حصوں میں آتی ہے۔ سوگ تہوں کی صورت میں ہوتا ہے باری باری ہر کسی تہہ کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ حال ہی میں ہونے والا کوئی سوگ ماضی کے کسی سوگ سے جا ملتا ہے۔ جو ابھی تک باقی ہوتا ہے اور اسطرح سوگ ملتے جاتے ہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ہم ایک وقت میں ایک سے زائد سوگ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اپنی بہتری کو جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ اپنے آپ سے کچھ بنیادی سوالات پوچھیں۔ کیا آپ کی زندگی میں ایسے اوقات بھی آتے ہیں جن میں آپ اپنے نقصان کی سوچ یا سوگ سے ہٹ کر وقت گزارتے ہیں؟ کیا ایسے اوقات آتے ہیں جن میں آپ ہنستے ہیں اور اپنے بارے میں بہتر محسوس کرتے ہیں؟ ایک چیز آپ کو مدد دیتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو کم سے کم کوسیں اور ملال کریں اور اپنا خیال رکھیں۔ سوگ ایک فطری عمل ہے۔ چیزوں کو حوصلے کے ساتھ دیکھیں اور اپنے آپ سے لگاؤ اور پیار بڑھا دیں۔
سوال نمبر ۳: مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے جیون ساتھی کے بنا زندہ نہیں رہ پاؤں گا۔ مجھے ایسے خیالات آتے ہیں کہ میں خودکشی کر لوں۔ یہ بات میں نے اپنے تھراپسٹ سمیت کسی سے بھی شئیر نہیں کی؟ میں اسے کیسے بہتر کروں؟
جواب:اپنے جیون ساتھی کی وفات کے بعد کئی سالوں تک لوگ اس قسم کے احساسات محسوس کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ ماہرین نفسیات سے مدد لیں پوری ایمانداری کے ساتھ کھل کر اپنا مسئلہ بیان کریں۔ آپ کا تھراپسٹ آپ کے بارے میں کچھ عجیب نہیں سوچے گا نہ ہی کوئی رائے بنائے گا۔ کھل کر مسئلے کو بیان کریں، اپنی تکلیف اور دکھ کو شئیر کریں۔ اپنے تھراپسٹ کو اپنے خودکشی کے خیالات کے بارے میں ضرور بتائیں تاکہ بہتر طریقے سے مدد فراہم کی جا سکے۔
سوال نمبر۴: میرا ایسا بہترین دوست جس نے میری عزیز کے انتقال سے پہلے ہی موقع پر میرا ساتھ دیا مگر اب مجھے وقت ہی نہیں دیتا۔ میرا دوست میری مدد کیوں نہیں کر رہا؟
جواب: تلخ حقیقت یہ ہے کہ عزیز کی موت نے آپ کو بدل دیا ہے۔ کسی عزیز کی موت کے بعد لوگ وہ نہیں رہتے جو پہلے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا دوست اب آپ کے دکھ کو سمجھ نہی پا رہا ہو۔ آپ اپنے دوست کے ساتھ مل بیٹھیں اور کھل کر ہر وہ بات چیت کریں جو آپ کو لگتا ہو کہ دوری کی وجہ ہے۔ آپ اپنے دوست کو بتائیں اس کی صحبت آپ کے لیے بہت معنی خیز ہے۔ ایک اور حقیقت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بہت سارے لوگ سوگ والے حالات سے دور بھاگنے لگتے ہیں کہ ایسے موقع پر کچھ غلط کہہ یا کر نا دیں۔ وہ ایک حد تک فاصلہ بنا کر رکھنے میں بھلائی دیکھتے ہیں۔
سوال نمبر ۵: سوگ اور دکھ کی حالت میں میں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں؟
جواب: سوگ کی حالت میں ہر کوئی بہت سی غلطیاں کرتا ہے۔ کوئی بھی ایسا عمل ہو سکتا ہے جس پر لوگ بعد میں پچھتاتے ہیں یا کسی سے ایسی گفتگو کر دیتے ہیں جو کبھی توقع نہیں کی ہوتی۔ آپ کیطرف سے یہ ہی کافی ہے کے آپ ان نقصانات کو تسلیم کریں اور اگر خطرناک نہیں اور ضروری ہے تو ان کی بھر پائی کر دیں۔ اگر کوئی آپ کو معاف کرنے پر راضی نہیں ہے یا بات کرنے پر راضی نہیں ہے تو اس چیز کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ان کے ساتھ بھی احترام سے پیش آئیں۔ آپ کے بات کرنے پر چیزیں بہتر ہو جاتی ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔
سوال نمبر ۶: میرا تھراپسٹ چاہتا ہے کہ میں دوائی کھاؤں لیکن میں دوائی نہیں کھانا چاہتا۔ ایسی صورتحال میں کیا کروں؟
جواب: آپ اپنے تھراپسٹ سے کھل کر پوچھ سکتے ہیں کہ دوائی کھانا کیوں ضروری ہے اس کے بعد فیصلہ آپ کا اپنا ہو گا۔ مگر آپ کو اس بارے میں اپنے تھراپسٹ سے مشورہ کرنا ہو گا۔ بیماری کی علامات کے مطابق دوائی آپ کو مدد کر سکتی ہے اور دوائی کھانا ایک بہتر فیصلہ ہو سکتا ہے۔ تھراپسٹ کے ساتھ بات کریں اگر وہ کہتا ہے کہ اس کے بنا بہتری ممکن نہیں تو دوائی استعمال کر لیں۔
سوال نمبر ۷: جب میں بہت سوگ میں تھا میرے سسرال والوں نے میری مدد نہیں کی اور اگر مدد کی بھی تو اس کے پیچھے ان کی اپنی ضرورت تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی انہوں نے ایسا کیوں کیا؟
جواب: ممکن ہے کہ ان لوگوں کو اپنا سوگ آپ سے کہنا نہ آ رہا ہو۔ وہ بھی سوگ میں سے گزر رہے ہیں اور اپنے عزیز کی جان کے نقصان سے نبرد آزما ہو رہے ہیں۔ آپ کو ان سے بات چیت کرتے ہوئے تلخ لہجے سے گریز کرنا ہو گا۔ تلخ لہجہ رشتوں میں دراڑ پیدا کرتا ہے۔
سوال نمبر۸: میں خود کو تن تنہا محسوس کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہو کہ مجھے کوئی نہیں سمجھتا کیا کوئی مجھے کبھی سمجھ پائے گا؟
جواب: دکھ یا سوگ میں ہر کوئی اپنے انداز میں ردعمل دیتا ہے کیونکہ ایک اپنی نوعیت کا تجربہ ہوتا ہے۔ حتی کہ ایک جیسے سوگ پر بھی ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ بعض اوقات مدد دینے والے گروپس میں بھی لوگ سکون محسوس نہیں کر پاتے۔ اس وقت بہت ضروری ہے کہ آپ ایسے دوستوں اور رشتہ داروں کا تعاون حاصل کریں جن کے ساتھ آپ اپنے آپ کو پرسکون محسوس کرتے ہیں۔
حادثات اور خاص کر ایسے حادثات جو وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتے ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں جو غم سے نڈھال کر دیتے ہیں اور سوگ کے پاتال میں لے جاتے ہیں۔ سوگ کے اس دردناک چکر سے نکلنا مشکل ضرور ہو سکتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ اس کے لیے ماہرانہ مدد لی جا سکتی ہے۔ جو آپ کے غم کو کم کرنے میں مدد دے گی۔ یہی وہ وقت ہے جس میں پوری قوم کو اپنے غم سے نمٹنے کے لیے مظبوط ہو کر مقابلہ کرنا ہے۔ ہمارا مستحکم ہونا ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اپنے پیاروں کو کھو دینے کے نقصان اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کے قرب میں مبتلا ہیں۔