اگر میرے بچوں کی اور میری صبح آنکھ کھلے اور ہمارے گھر میں کوئی خطرناک جانور پایا جائے تو موضوع بحث پتا ہے کیا ہو گا؟ میرے بیٹے کی پہلی ترجیح ہو گی کہ اس کا کوئی اچھا سا نام تجویز کیا جائے جبکہ میری 3 سالہ بیٹی اس کو ہاتھ لگانا چاہے گی۔ میں نے اب تک انہیں نہیں سکھایا کہ گھر میں اگر کوئی شیر یا چیتا آ جائے تو انہیں کیا کرنا چاہیئے۔ ان کو احتیاط سے کام لینا چاہیئے کیونکہ ایسے جانور خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایک بالغ اور باشعور فرد کے طور پر ہم جو بھی کر سکتے ہیں وہ ہم نے اپنی نشوونُما کے دوران کہیں ضرور سیکھا ہوتا ہے۔ مگر یہاں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو میرے بچوں نے بغیر میری مدد حاصل کیے اپنی بصیرت سے سیکھی ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی معذوری پر پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں میں تعصب نہیں پایا جاتا
مس عترت زہرأ نقوی ویلنگ ویز اور صداقت کلینک لاہور میں ماہر نفسیات کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایم ایس سی نفیسات کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے درجہ اول میں حاصل کی اور کلینیکل سائیکولوجی میں ایڈوانس ڈپلومہ حاصل کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر ارم بخاری کے زیر سایہ گنگارام ہسپتال سے اپنی پیشہ وارآنہ تربیت مکمل کی۔ انہوں نے چنیوٹ کے ڈی۔ایچ۔کیو ہسپتال میں بطور ماہر نفسیات ایکسائز کے پراجیکٹ پر کام کیا
معذور افراد کو الگ نظر سے دیکھنا بچوں میں پانچ سال سے پہلے جنم نہیں لیتا۔
یہاں میں پانچ طرح کے ایسے نظریات پر روشنی ڈالوں گی جہاں بچے معذوری کو بہتر انداز میں تسلیم کرتے ہیں جبکہ بالغ افراد ایسا نہیں کر پاتے۔
رفع حاجت پر شرمندگی بچوں میں پائی نہیں جاتی
کچھ روز قبل میرے بیٹے کی ایک دوست ہمارے گھر آئی اور میرا بیٹا اپنی دوست کو متاثر کرنے کے لیے عمل پیرا ہوا۔ اس نے اپنی ڈائینو سارز کی نہایت شاندار کلیکشن اس کو دکھائی اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے کھلونوں کے خزانے کے قیمتی ترین حصے سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع دیا جو کہ بلاشبہ اپنی دوست کو تعظیم دینے کا سب سے اعلیٰ طریقہ تھا۔ اسی دوران اس نے اپنی کھیل کی ملاقات میں بغیر کسی عاجزی اور انکساری کے ایک زور دار اعلان کے ساتھ خلل پیدا کردیا “مجھے پوٹی کرنی ہے” اور اس کے ساتھ ہی وہ باتھ روم کی طرف بھاگا جبکہ اس دوران اس نے اپنی دوست سے گفتگو بھی جاری رکھی۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد اس کی دوست کو بھی کچھ ایسی ہی ضرورت محسوس ہوئی اور اس کام کی تکمیل کے لیئے اس نے بلا سوچے سمجھے میری مدد طلب کی۔
کسی بھی معذوری میں مبتلا افراد اور ان کا خیال رکھنے والے اس فلسفے کو آسانی سے سمجھ سکیں گے۔ باتھ روم میں کسی پر انحصار کو ایک tabooکے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ایسا شخص گھر کے باہر کسی بھی کام کے لیے دوسروں کے سامنے ہتھیار ڈالتا نظر آتا ہے۔
کوئی صحت مند انسان تو اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ باتھ روم کے معمولات میں کسی اور سے مدد لے۔ ایسی زندگی کے تصور سے بھی وہ موت کو ترجیع دے گا۔ جبکہ ہم سب بھول چکے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہم سب عمومی طور پر اس کام میں دوسروں کے محتاج تھے۔
مدد کا لین دین بہت مشکل کام لگتا ہے۔
میرے بچے اپنے جوتوں کے تسمے خود نہیں باندھ سکتے، کتاب نہیں پڑھ سکتے اور باتھ روم میں انحصار کا تو ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں۔ لہذٰا وہ ان تمام کاموں کے لئے دوسروں کو بلاتے ہیں اور جب ان کو مدد کی ضرورت نہیں ہوتی تب وہ خود واضع انداز میں بتا دیتے ہیں کہ “یہ کام میں خود کر سکتا ہوں” اگر دیکھا جائے تو ایسے میں مجھے اپنی تحقیر محسوس ہوتی ہے کیونکہ میں ان چیزوں میں بھی ان کی مد د کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہوں۔ جس میں ان کو خاصی مہارت ہے۔
معذور فرد کئی دفعہ مدد مانگ سکتا ہے لیکن بلاآخر وہ کوشس کرے گا کہ اپنے لیے خود ہی کچھ کرے۔ خود سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاََ آپ کو کبھی بھی کسی کی وہیل چیر کو دھکا نہیں دینا چاہیئے یا کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولنا چاہیئے جب تک کہ اس بارے میں کہا نہ جائے۔ بچے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ غیر ضروری کام رویے میں پیچیدگی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن بڑے اس بات کو قبول نہیں کرتے۔
ہمیں چاہیئے کہ انفرادیت کے فروغ کے لیے پہلے یکسانیت کو تلاش کریں۔
یہاں میں ذکر کرنا چاہوں گی اس گفتگو کے بارے میں جو میرے بیٹے کے ساتھ میری ہوئی جب ہم گنگفو پانڈا دیکھ رہے تھے۔ اچانک اس نے کہاکہ “کنگفوپانڈا” بلکل میرے جیسا لگتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے تو یہ کہیں سے بھی آپ کے جیسا نہیں لگ رہا ہے۔
اس نے حیرت سے کہا: واقعی؟
اس کے بعد میں نے زیادہ زور نہیں دیا کیونکہ پانڈا کے کارٹون کے کریکڑ کا ادراک اس کے ذہن میں بہت مختلف تھا۔
بچوں کی پسندیدہ فلموں میں بہت سے ایسے کریکڑز ہیں جن کو شاید بڑے پسند نہ کریں۔ جیسے ( Ben10 کے بہت سے Aliens) جو بڑوں کے لیے بالکل بھی متاثر کن نہیں ہیں لیکن بچوں کو اگر وہ کہیں بھی نظر آئیں تو وہ ضرور ان سے دوستی کرنا چاہیں گے۔
بظاہر یہ تمام مثالیں فکشن کی دنیا سے لی گئی ہیں۔ لیکن حقیقی دنیا کے معاملات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ بچے غیر معمولی چیزوں کو گلے لگاتے ہیں اور جن چیزوں کو لوگ ناپسند کرتے ہیں ان چیزوں کو وہ “کول” تصور کرتے ہیں۔ جیسے میرے بیٹے کا یومنگوسور اور کنگفوپانڈا سے پراسرار تعلق ہے۔ بچے یکسانیت کو دیکھتے ہیں، تفریق کو نہیں اور میرے خیال میں وہ ایسا اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ابھی انہوں نے زیادہ تجربہ حاصل نہیں کیا کہ چیزوں کے نارمل ہونے کے بارے میں تعین کر سکیں۔
آلات کار آمد ہونے کے ساتھ “کول” بھی ہوتے ہیں۔
بالغ افراد جب بھی کسی کو وہیل چیئر پر دیکھتے ہیں تو اس شخص کو محتاج اور مجبور تصور کرتے ہیں اور وہیل چیر کو معذور افراد کے حرکت میں رہنے کی وجہ کے بجائے ان کی بے چارگی سمجھتے ہیں۔ جبکہ بچے ان تصورات کو نہیں اپناتے۔ پچھلے دنوں میرے بیٹے نے مجھ سے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایک وہیل چیئر لینا چاہتا ہے۔ اس خواہش کے پیچھے معاملہ یہ تھا کہ ہماری بلڈنگ کی لفٹ پر بچوں کو کھیلنے کی اجازت نہیں تھی لیکن جیسے ہی کوئی شخص وہیل چیئر پر آتا تھا تو اس کو لفٹ میں خوش آمدید کہا جاتا تھا۔
اسی طرح خود کار آلات کو بعض اوقات بچے بہت منفی انداز میں تصور کرتے ہیں اور انہیں اپنی ضرورتوں کے حساب سے استعمال بھی کرتے ہیں۔ سنک کے سامنے سٹولر یا سٹول کا استعمال ہو یا وائیپر کے ساتھ کرکٹ وہ اپنی ضرورتوں کا حل تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
ہمارے گِرد بنا ہوا ماحول طے کرتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔
کسی بچے سے پوچھیں کہ کھلونوں کی دوکان کا دروازہ ان کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ وہ دنیا جو انہی کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس میں جانے کا دروازہ ان کے لیے جادوئی تاثیر رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جب میں اپنے بچوں کو پلے لینڈ یا میوزیم لے کر جاتی ہوں اس جادو کی تاثیر ان کے چہرے پر صاف دیکھی جا سکتی ہے۔
ہمارے لیے جو ماحول بنایا جاتا ہے وہ اور جس قسم کے تجربات سے ہم گزرتے ہیں وہ ہمیں ہماری صلاحیتوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ جیسے اگر میرا بیٹا میوزیم میں موجود تلوار سے کھیلنا چاہے گا تو میرے لیے یہ بات بالکل بھی قابلِ قبول نہیں کیونکہ میرے دونوں بچوں کے درمیان گفتگو میں اکثر اختلافِ رائے ہوتا ہے اور اس اختلاف کے پیشَ نظر وہ فرسٹریشن کا شکار ہو سکتے ہیں تو پھر تلوار کس طرح ان کے لیے ایک مناسب کھلونا ہو سکتا ہے لہذا اس قسم کے خطرناک کھلونوں کو میں ان کی دسترس سے باہر رکھ دیتی ہوں۔
اکثر اس طرح وہ اپنی پسندیدہ چیزوں کو حاصل کرنے سے معذور ہو جاتے ہیں اور یہی وہ طریقہ ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سیکھتے رہتے ہیں کہ معذوروں کے ساتھ افراد روزمرہ کی زندگی میں کس طرح رہتے ہیں اور یہ بھی سیکھتے ہیں کہ کچھ کام کیے جا سکتے ہیں اور کچھ کام نہیں بھی کیے جا سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں اپنے اردگرد کے ماحول سے منسلک ہونے کی حس بھی تبدیل ہوتی جاتی ہے۔
کاش میں اپنی گفتگو کو ان خوشگوار نتائج پر ختم کر سکوں کہ بچے تعصبات سے پاک ہوتے ہیں یا پھر آنے والی نسل معذوری سے کے حوالے سے شعور رکھتی ہے۔
مگر افسوس تو یہ ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بچے آہستہ آہستہ اپنی نشوونُما کے دوران سیکھتے ہیں کہ کس طرح منفی رجحانات اور بدنامی کے رجحان کو فروغ دیا جائے۔
جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو انفرادی اختلافات کے بارے میں اشارہ کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے، جیسے وہ بغیر گھبراہٹ محسوس کرتے ہوئے کسی کو بھی کہ سکتے ہیں کہ “آپ کے دانت پیلے ہیں” اور جب وہ ایسا والدین کے سامنے کرتے ہیں تو اس کا فوری ردِعمل ظاہر ہوتا ہے اور یہی ردِعمل بچوں کو سکھاتا ہے کہ ان کا یہ رویہ درست نہیں ہے اور ردِعمل بچوں کو سکھاتا ہے کہ دوسروں سے منفرد ہونا شرمناک ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج یہ تصور پختہ ہوتا جاتا ہے۔
جب انفرادی اختلافات کو قبول کرنے کا دروازہ تنقید کے ساتھ بند ہو جاتا ہے تو بچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں سماجی علیحدگی اور غنڈہ گردی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔
معذوری کے خلاف تحریک پیدا کرنے کا عمل اکتسابی ہے اور اِسے ایک خاص طریقے سے گزر کر سیکھا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ ایک امید پیدا کرتا ہے کہ ہم اپنے پیغامات پر نظرثانی کر کے آنے والی نسل میں سے تعصب کو ختم کر سکتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ ہر نئے دن یہی کر رہی ہوں۔