آج صبح اٹھنے کے فوراً بعد آپ نے کیا کیا؟
کیا باتھ روم گئے؟
برش کیا؟
نہا کر تیار ہوئے؟
گھر واپسی پر پائجاما پہنا اور ٹی وی کے سامنے بستر پر بیٹھ کر ڈنر کیا؟
ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے شب و روز بہت سوچ سمجھ کر گزارتے ہیں، ہم پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں، سقراط بقراط کی طرح فیصلے کرتے ہیں، پر نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے، جو کچھ بھی دن بھر ہم کرتے ہیں زیادہ تر وہ ہماری عادتیں ہیں، سوچے سمجھے فیصلے ہر گز نہیں!
یہاں ہم عادتوں کے بارے میں بہت سی باتیں کریں گے، آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ کس طرح پرانی عادتیں ذیابیطس، امراض قلب اور ایڈکشن جیسی بیماریوں کے علاج میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں؟ ہم یہ بھی بتائیں گے کہ عادتیں بدلنے کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟
عادتیں ہمیں روبوٹ کی طرح چلاتی ہیں۔ عادتوں کی کوئی وجہ بھی ہو سکتی ہے، جو کہ اندر کا کوئی خیال یا جذبہ ہو سکتا ہے یا پھر باہر کی کوئی چیز، وقت یا کچھ لوگ۔ اس شوق کے نتیجے میں کوئی روٹین شروع ہوتی ہے تاکہ وہ فائدہ یا مزہ یا احساس حاصل کیا جا سکے جو کہ دل میں انگڑائیاں لیتا ہے ۔ پھر سے وہی دوبارہ کرنے کا شوق اصل میں اسی مزے کی یاد دہانی ہوتی ہے۔
ویسے تو ہم اپنی مرضی کا بہت چرچا کرتے ہیں اور دوسروں پر نکتہ چینی کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتے، لیکن دن کا آدھا حصہ ہم لاشعوری طور پر اپنی عادتوں کے تحت حرکات و سکنات کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر عادتیں ہم خود نہیں بلکہ حالات یا لوگوں کی وجہ سے سیکھتے ہیں۔ ہم اپنے باس سے بات کرتے ہوئے بھی چوری چوری سیل فون پر ایس ایم ایس دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، ہم اچانک پیزا ڈلیوری کروا لیتے ہیں، بغیر سوچے سمجھے۔ آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ منشیات، شراب، جواء اور سگریٹ نوشی کرنا کیوں وبال جان بن جاتا ہے؟ جب عادتیں اورعلتیں پختہ ہو جاتی ہیں تو پھروِل پاور ایک کمزورسی آواز بن جاتی ہے جو دور سے آتی ہے اور سنائی تک نہیں دیتی۔ یوں لگتا ہے کہ عادتیں ہمارے دماغ کے چھپے ہوئے خانوں میں قوت ارادی سے دور اپنا کھیل کھیلتی رہتی ہیں اور ہم ان کے سامنے بس بے بس ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ ہماری صحت، عزت اور مستقبل بھی داؤ پر لگا ہو تو بھی علتوں کا جادو سر چڑھ کر ہی بولتا ہے۔
خوشخبری یہ ہے کہ سائنسدانوں نے انسانی دماغ کی ان خفیہ جگہوں پر جھانکنا شروع کر دیا ہے اور اب کسی عِلت کو بدلنا اتنا مشکل نہیں رہا جتنا کبھی پہلے ہوتا تھا۔ عادتیں ہمارے ماتھے کے عین سامنے ہڈی کے پیچھے پکتی ہیں اور ایک دفعہ یہ پک جائیں تو یہ 3 انچ پیچھے اور 3 انچ نیچے ایک خفیہ مقام میں منتقل ہو جاتی ہیں، جیسے کچن میں کھانا پکتا ہے اور ڈائننگ روم میں منتقل ہو جاتا ہے اور کھانا پکانے والے کے اختیار سے کچھ نہ کچھ باہر ہو جاتا ہے۔