دس دن پہلے جب لوگ نئے سال کی آمد میں “نیو ائیر ایو” یعنی 2016 کی آخری رات کا جشن منا رہے تھے، ناچ گا رہے تھے، آنے والے سال میں نئے عہدوپیماں کر رہے تھے، کچھ خود سے، کچھ دوسروں سے، اسی رات انڈیا کے ٹیکنالوجی اور ترقی کی وجہ سے مشہور شہر بنگلور کی ایک گلی میں دو موٹر سائیکل سواروں نے ایک حوا کی بدقسمت بیٹی کو روکا، زبردستی بوس و کنار کیا، دبوچا اور وحشت کا تماشہ کرنے کے بعد گھُما کر زمین پر دے مارا۔ آپ یہ درندگی یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر کوئی بھی نارمل انسان خود پر قابو نہیں پا سکتا ہے؟ کنپٹیاں چٹخنے لگتی ہیں اور فشارِ خون بُلند ہو جاتا ہے، نسوں میں خون کی جگہ لاوا سا دوڑنے لگتا ہے۔ ذرا دیکھیں وہ بیچاری عورت، درندوں کے ہاتھوں گھسٹنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ایسی کتنی لڑکیاں روز لُٹتی ہیں تاہم کیمرے میں ریکارڈ ہو جانے کے باعث، بنگلور کاسانحہ پوری دُنیا میں پھیل گیا۔ اگر آپ خبروں پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں انڈیا میں جنسی درندگی اور آبروریزی کا جنون بے انتہا بڑھا ہے۔ کالج کی لڑکیوں سے لے کر عمر رسیدہ خواتین اور کمسن بچوں سے لے کر سیاح تک اس حیوانیت کا نشانہ بن چُکے ہیں۔ بطور انسان اور اس کے ساتھ ساتھ بطور ہمسایہ ملک، ہمارے لئے یہ بہت تشویش کی بات ہے کیونکہ ثقافتی یلغار اور درندگی، دہشتگردی سے زیادہ تیزی سے سرحد عبور کرتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو انڈیا اور پاکستان کے ماڈرن گھروں کی کوئی شادی اٹینڈ کریں اور “فرق تلاش کریں”۔
بہت سے خود ساختہ دانشوروں کے مطابق اسکی بڑی وجہ انڈیا میں عورتوں کے مختصر سے مختصر لباس کے بڑھتے ہوئے رُجحان کی ترویج ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مختصر لباس سے مردوں کو عورت کا کردار جاننے میں غلط فہمی ہو جاتی ہو، تاہم اسے عصمت دری کی وجہ قرار دینا درندگی کا کوئی بہانہ تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ ذرا کسی بہن کا بھائی بن کر سوچیں جس کی عزت لُٹی ہو اور انصاف دلوانے کی بجائے اس پر مزید کیچڑ عریاں لباس پہنے جانے کی اُچھالی جارہی ہو۔ مزید یہ کہ کیمرے سے واضح ہے کہ متاثرہ لڑکی نے مکمل اور انتہائی مُناسب کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
اس ہوس اور اشتہا کی بڑی وجہ شوبز ہے۔ انڈیا کی فلمیں پورے برصغیر پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ آپ کو اپنے آس پاس آئی جی پولیس سے لیکر اسمگلر تک مل جائیں گے جو اپنی اپنی “فیلڈ” میں امیتابھ بچن سے مُتاثر ہو کر آئے۔ دس پندرہ سال پہلے تک کا ہیرو عورتوں کی عزتوں کا رکھوالا ہوتا تھا اور ہیروئن کبھی ہیرو کو ناچ گانے سے آگے نہیں جانے دیتی تھی. شادی کئے بغیر، اور آج کل؟، آج کل تو زیادہ سے زیادہ بے ہودگی ہیرو ہیروئین کے “کُول” ہونے کی نشانی ہے۔ انڈین فلموں میں “پاپ” یعنی گُناہ لفظ سُنے ہی عرصہ ہو گیا ہے۔
ستر کی دھائی میں راج کپور نے بطور پروڈیوسر ایسی فلمیں شروع کی جن میں ایک آدھ ہیجان خیز سین لوگوں کو بار بار سینما کھینچ لاتا تھا۔ گلیمر کی یہ دنیا ڈمپل کپاڈیہ، منداکنی، زینت امان، کمی کاٹکر، ممتا کلکرنی، کترینہ کیف سے ہوتی ہوئی سنی لیون کی شکل میں جنسی جنون میں تبدیل ہو گئی۔ آج کل گوگل کے زمانے میں ہر کوئی اپنے پسندیدہ فنکار کو مزید جاننا چاہتا ہے اور جب آپ “بےبی ڈول” کو گوگل پر سرچ کرتے ہیں تو جو کچھ نظر آتا ہے وہ بار بار دیکھنے کی لت میں سنی لیون گوگل پر انڈیا میں سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیت بن جاتی ہے۔ یہاں سے ایک عام انسان کے جنسی درندہ بننے کے عمل کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے۔ جو احساسات اور جذبات فلم کے “سو کروڑ” کمائی کے کلب میں شامل ہونے کے لئے پروڈیوسر ڈائریکٹر بھڑکاتے ہیں، انکی تسکین سوا ارب کی آبادی میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو کروڑ لوگ جائز طریقے یا لڑکی کی رضامندی سے کر سکتے ہیں تو ظاہر ہے باقی اگر کروڑوں نہیں تو لاکھوں لوگ ہڑبڑا کر جگائے گئے جذبات کو ایسے ہی بنگلور جیسی گلی میں اکیلی بے بس لڑکی کی تلاش کر کے بجھائیں گے۔ یہ لوگ کم سن بچوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور ہر اس ذی روح کی تلاش میں ہوتے ہیں جو کمزور ہو اور مزاحمت نہ کر سکے۔
بوتل سے نکلے ہوئے جن واپس نہیں جایا کرتے بلکہ آس پاس پھیل جاتے ہیں۔ کروڑوں روپے کمانے والی، جذبات بھڑکانے والی فلمیں بننا بند نہیں ہوں گی۔ انٹرنیٹ کے ارزاں ہونے کے ساتھ یہ جنون مزید بڑھے گا اور ہوس کا زور ہر پل کمزور ڈھونڈتا رہے گا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ کمزور کو زورآور بنایا جائے۔ انڈیا اور پاکستان جیسے ُممالک میں لڑکیوں کے لئے مارشل آرٹس لازمی قرار دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ سیلف ڈیفنس کے دیگر طریقوں کی تربیت دی جائے۔ کسی بھی مذہب، رنگ یا عقیدے کی عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے جانوروں کا وہی علاج ہے جو پاگل کُتوں کا ہوتا ہے۔