میں نے صحت مندانہ انتخاب کے پس پردہ سائنس کی وضاحت کی ۔
برطانیہ، فرانس اور آئرلینڈ حال ہی میں تمباکو نوشی بنانے اور ان کی سادہ پیکنگ کرنے والے ممالک بن گئے ہیں۔ سگریٹ خریدنے میں دلچسپی لینے والے افراد کمپنی کی بنی اسٹیکر (علامات ) نشہ نہیں روکیں گے بلکہ وہ ڈبی کے اوپر بنے بڑے جسامت کے صحت کے متعلق اشتہار سے رکیں گے۔ دیگر ڈبیوں پر مختلف قسم کی بیماریوں کے خاکے پیش کیے جائیں گے۔ جیسے پھیپھڑوں اور آنتوں کی بیماری اور کچھ جگہوں پر مختلف ڈبیوں پر دنیا کے بدصورت ترین رنگوں کی نمائش کی جائے گی جن میں سبز بھوری رنگت اور کچھ ایسے رنگ جو واضح نہ ہوں شامل ہوں گے۔
سارہ کوٹرل ہارورڈ یونیورسٹی میں نفسیات کی ڈاکٹریٹ طالبہ ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ اور بین الاقوامی بزنس ٹائمز نے ان کے تعلیمی کام کو بیان کیا ہے اور دوسرے کئی الیکٹرانگ ذرائع ابلاغ نے بھی جن میں نیویارک ٹائمز بھی شامل ہے انہوں نے بھی ان کے کام کو سراہا ہے۔ سارہ کو گردے کے کینسر کی تشخیص ہوئی اور وہ مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں جو کہ ایک کینسر کے مریض کو پیش آتی ہیں۔
ایڈیٹر: اقرا طارق
یہ خاص طور پر تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد کے لیے صحت بخش اقدام ہیں۔ لیکن نفسیاتی تحقیقات نے یہ اجاگر کیا ہے کہ یہ کیوں اتنا موثر نہیں ہے۔ دیگر لائحہ عمل کی جانچ پڑتال بھی کی گئی اور تمباکو نوشی کو ختم کرنے کے لیے پہلے سے عادی لوگوں سے موازنہ بھی کیا گیا۔ سگریٹ نوشی کرنا، غیر صحت مندانہ کھانے کی عادات اور اپنے بجٹ سے باہر اشیاء کی خریداری تشویش پیدا کرنے والی عادات ہیں۔ ہم یہ حرکات بار بار سرانجام دیتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ہمارے لیے خطرناک ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان عادات سے نبٹنے کے لیے ناکام کیوں ہوا جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اضطراری افعال کیسے سیکھنے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ کیسے ہمارے فیصلہ سازی کی قوت کو متاثر کرتی ہے۔
بُرے رویوں کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔
مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ لوگ کوئی بھی رویّہ بہت جلد سیکھتے ہیں جب یہ رویہ کسی جزا و سزا کے طور پر پیش کیا جائے 249 جب بچے کوئی بری حرکت کرتے ہیں اور ان کو فوراً ”ٹائم آؤٹ ” ہو جائے تو وہ اپنا رویہ اس ٹائم آؤٹ کے نتیجے میں ملنے والے عمل یعنی سزا سے سیکھتے ہیں ۔ لیکن جب کوئی بھی رویہ اور اس کے نتائج کو مہینوں اور سالوں تک ظاہر نہ کیا جائے تو اس کے بارے میں ہمارے ذہن میں ایک پختہ نقشہ بن جاتا ہے ۔ ایسی ہی حالت اگر سگریٹ نوشی اور کھانے کی غیر صحت مندانہ حرکات میں اپنائی جائے تو نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ وہ نتائج بھی کم موثر ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں فرد میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ۔ جبکہ سگریٹ نوشی پھیپھڑوں کے کینسر اور دیگر پھیپھڑوں کے امراض کی ایک مضبوط پیش گوئی ہے بلکہ سگریٹ نوشی ضمانت ہے کینسر کی ۔ جب ہم اپنی الجھن کی فوراً تسکین چاہتے ہیں تو کوئی بھی دلیل ہماری راہ میں حائل نہیں ہو سکتی ۔
سگریٹ نوشی چھوڑنے کے پراسس میں آپ کا جسم کس طرح مندمل ہوتا ہے؟ یہ آرٹیکل پڑھیے۔
غیر یقینی ہمیں نفسیاتی راہ دکھاتی ہے جس کو بنیاد بنا کر ہم اپنی تسکین کرتے ہیں اور دوبارہ ہوش آنے پر خود کا استحصال کرنے کا عزم بھی کرتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بغیر سمجھے لوگ اپنی توجہ سگریٹ نوشی پر کیسے مرکوز کرتے ہیں۔ یہ فوائد کو نظر انداز کرتی ہے اور اس کے رد عمل میں پیدا ہونے والی قیمت کو پس پردہ ڈال دیتی ہے۔ لوگ بھی اسی طریقہ کار پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور جب سگریٹ نوشی کے ردعمل میں پیدا ہونے والی ناخوشگوار خواہشات کو تقویت سی جاتی ہے ہمیں اسی دوران اس عادت میں مداخلت کرنے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سگریٹ کی ڈبی پر بنے تصویری خاکے سگریٹ نوش افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اکثر اوقات ان خاکوں کو دیکھ کر ان میں ناخوشگوار احساسات پیدا ہوتے ہیں جس کے ردعمل میں ان میں جسمانی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔ لیکن ہر اس خاکے سے ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا کیوں کہ یہ تصویری خاکے ان کو اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں ترغیب تو دیتے ہیں لیکن اس کا ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ سب سے آسان اور موثر حل یہ ہے کہ بلاواسطہ مداخلت کی جائے اور فوراً سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے۔
سگریٹ نوشی کیسے چھوڑیں؟ ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔
عملی طور پر دیکھا جائے تو یہ حکمت عملی ایک جیسی ہی ہے۔ انفرادی طور پر اگر ہم کسی پر کوئی مصنوعی نتائج مسلط کریں اور اپنے اردگرد کے لوگوں سے کہا جائے کہ اسے نافذ کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ آپ کی بیوی آپ کو رات کے وقت سگریٹ نوشی کی اجازت دے دیتی ہے اور آپ یہ کام ہر رات اور کسی بھی وقت کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تب ہم اس علت کے نشے میں ہوتے ہیں اور اس اسے پیدا ہونے والی کیفیت سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لمبے عرصے تک کی صحت یابی کے بارے میں بے خبر ہو جاتے ہیں لیکن اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ کام کرنے کے بعد تقریباً دس منٹ میں سوچ آتی ہے جو غیر صحت مندانہ انتخاب پر دوبارہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ حکمت عملی ہمارے اضطراری افعال کے نتیجے میں بھی کام کرتی ہے جہاں ہم سوچے سمجھے بغیر ہی کوئی بھی کام سرزد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میٹھے کھانے کھانا اور ایسی چیزیں خریدنا جو بجٹ میں نہ آتی ہوں۔
حکومتی سطح پر ملک پہلے ہی سگریٹ نوشی سے ملنے والے معاوضے کو ٹیکسوں میں استعمال کرتا ہے اور فلاڈیلفیا حال ہی میں شکری مشروبات پر ٹیکس لاگو کرنے والا پہلا امریکی ملک بن گیا ہے۔ پبلک پالیسی کے ماہر مارک کلیمین بتاتے ہیں کہ بعض تیز اور مستند نتائج مجرمانہ سزا کے تناظر میں لاگو کرنے کے لیے مشکل ہیں لیکن تمباکو نوشی کے معاملے میں یہ بالکل سیدھا حل ہے اور ایک ٹرانزیکشن فیصلے میں بنایا گیا ہے۔ کسی بھی وقت کوئی فرد اسے روشن کرے اور پھر فوراً سے پریمیم ادا کرے۔ یہ بات ان کی عادت سے منسلک اندرونی اخراجات سے علیحدہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹیکس میں اضافہ لوگوں کو تمباکو نوشی چھوڑنے کے لیے کیا گیا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو کمزور ہیں۔ اس میں نوجوان، غریب اور اقلیتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن تمباکو نوشی آبادی کے کچھ حصے میں ابھی بھی برقرار ہے کیونکہ ابھی بھی تمباکو نوشی کے خطرات کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں بہت وقت چاہیئے۔ ٹیکس بڑھانا بہت آسان کام ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب تمباکو نوشی غصے میں ردعمل دیتے ہیں۔ بلاشبہ ٹیکس ادا نہ کرنا تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد کے لیے فائدہ ہے بلکہ یہ چیز اُن کو اپنی طرف کشش ہی نہیں کرتی۔
ایک نقطہ یہ ہے کہ سگریٹ جو تمباکو سے اخذ کیا گیا ہے فوری طور پر یہ بہت خوشی کے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن یہ خوشی یا احساس ہر فرد کے لیے ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہر ترغیب کی ایک خامی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر امیر لوگوں میں تمباکو نوشی کا ٹیکس کے بڑھنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن پالیسیاں بناتے وقت یہ بات ضرور تہہ تک سوچتے ہیں اور وہ تمباکو نوشی کرنے اور نہ کرنے والوں کی نفسیات کو بھی جانتے ہیں۔ سادہ پیکنگ صحیح سمت میں قدم ہے جس سے افراد کو سگریٹ نوشی سے روکا جا سکتا ہے۔ اس طریقے سے روکنا بہتر ہے بجائے اس کے کہ لوگوں کو تمباکو چھوڑنے کے لیے ہمت دینا۔ زیادہ بھاری ٹیکس بھی تمباکو نوشی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے بلکہ یہ روک بھی سکتا ہے۔