اہم سوال و جواب
اہم سوال و جواب
انٹروینشن وہ طریقہ کار ہے جس میں اہل خانہ اور دوست احباب مل کر ماہر کی راہنمائی میں مریض سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس ملاقات میں وہ مریض کے سامنے نشے سے ہونے والی منظر کشی خوبصورتی اور ملائمت سے کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مریض خود فریبی میں سے نکل کر حالات کی اصل تصویر دیکھ لیتا ہے۔ حالات کی اصل تصویر دیکھنے کے بعد کوئی مریض بھی زیادہ دیر تک علاج کو رد نہیں کر سکتا۔
ضروری نہیں کہ مریض علاج سے پہلے آمادہ ہو۔ ہاں! یہ ضروری ہے کہ اہل خانہ میں سے کوئی مریض کیلئے وہ فیصلہ کرے جو خود مریض نہیں کر سکتا۔ انتظار کی کوئی ضرورت نہیں۔ انٹروینشن کا بیڑا عام طور پر گھر کا کوئی ایسا شخص اُٹھاتا ہے جو مریض کی جان بچانے کیلئے ذاتی نفع و نقصان کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ وہ شخص نشے کی بیماری میں پوشیدہ حقیقی خطرات کوپہچان لیتا ہے۔
اہل خانہ تنہا مریض سے بات کریں تو مریض اپنے بارے میں بیان کئے گئے حقائق کو جھٹلاتا ہے۔ ریسرچ کی بدولت اب مل جل کر حقائق کو ایسے انداز میں مریض کے سامنے پیش کرنا ممکن ہو گیا ہے کہ وہ انہیں جھٹلا نہ سکے۔ انٹروینشن کے دوران جب مریض یہ جان لیتا ہے کہ اہل خانہ مجھے تکلیف نہیں دینا چاہتے بلکہ میرا دُکھ دور کرنا چاہتے ہیں تو وہ تعاون پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
اہل خانہ ’’مداخلت‘‘ میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ انہیں فکر ہوتی ہے کہ مریض سے تعلقات نہ بگڑ جائیں حالانکہ تعلقات پہلے ہی بگڑ چکے ہوتے ہیں۔ انہیں مریض کی طرف سے جھگڑے یا نقصان کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ کبھی ان کا خیال ہوتا ہے کہ مریض مدد کی حدوں سے گزر چکا ہے۔ بیماری کو سمجھنے کے بعد یہ خیالات بدل جاتے ہیں۔ انٹروینشن سے پہلے اہل خانہ سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور مریض کے شب و روز میں سے ایسے واقعات تلاش کرتے ہیں جن کا تعلق نشے کے استعمال سے ہو اور جہاں نشے کے نتیجے میں مریض یا اہل خانہ کو شرمندگی، نقصان، خطرے یا تباہی کا سامنا ہوا ہو۔
ان واقعات کو ’’مداخلت کے نکات‘‘ کہا جاتا ہے۔ مداخلت میں حصہ لینے والے تمام افراد ان نکات پر مبنی اپنی اپنی فہرست تیار کرتے ہیں۔ ان نکات میں ہم مریض کو آگاہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے علاج قبول نہ کیا تو آئندہ اسے نشے کے نتیجے میں ہونے والی تکلیفیں تنہا ہی جھیلنی پڑیں گی۔ گھر میں اگر کسی نے نشے کے نتیجے میں تکلیفیں اُٹھانی ہیں تو اس کا اصل حقدار مریض ہے کیونکہ صرف وہی اس خاص پوزیشن میں ہے کہ ان تکلیفوں سے فائدہ اُٹھا سکے۔ تاہم یہ تکلیفیں اسے نشے سے نجات کی راہ دکھا سکتی ہیں۔
انٹروینشن میں کم از کم تین اورزیادہ سے زیادہ آٹھ افراد شرکت کرتے ہیں۔ اہل خانہ کے علاوہ قریبی عزیز اور مریض پر اثرورسوخ رکھنے والے دوسرے افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ ایسا شخص جو خود نشہ کرتا ہو اسے شریک نہ کریں۔ بے شک وہ نشے کا مریض نہ ہو وہ لاشعوری طور پر مریض کے نشے کا دفاع کرے گا۔ ہاں! اگر کوئی نشے کی بیماری سے بحال ہو چکا ہو تو اس کی شمولیت بھی بہت فائدہ مند ہو گی۔ بچوں کو شامل نہ کریں۔ وہ مریض کو توجہ ہٹانے کا موقع فراہم کریں گے۔ نوجوان پر اعتماد ہوں تو بہت مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مریض کو مشتعل کرنے کا باعث بنتا رہا ہو تو اس کو بھی شامل نہیں ہونا چاہیئے۔ ایسے افراد خانہ جو اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکیں وہ بھی شریک نہ ہوں۔ آنسو مریض کیلئے دو کوڑی کے بھی نہیں ہوتے۔
سب کیلئے نشے کی بیماری کو سمجھنا ضروری ہے لیکن سربراہ کا علم تو دوسروں سے بھی بڑھ کر ہونا چاہئے۔ انٹروینشن سے پہلے ماہر کی زیر نگرانی ریہرسل بھی ضروری ہے جس میں ایک شخص مریض کا ’’کردار‘‘ ادا کرتا ہے اور باقی افراد باری باری سے اپنے ’’نکات‘‘ پیش کرتے ہیں۔
تمام افراد طے شدہ پروگرام کے تحت صبح کے وقت مریض سے ملتے ہیں جب وہ زیادہ نشے میں ہو اور نہ تروڑک میں۔ سربراہ مریض کو سب کی آمد کا مقصد بیان کرتا ہے اور اس سے وعدہ لیتا ہے کہ وہ خاموشی سے تمام افرا د کے نکات سن لے۔ تاہم مریض کو جواب دینے سے بری الذمہ کر دیا جاتا ہے۔ مریض کا کردار ایک سامع کے طور پر متعین کر دیا جاتا ہے کیونکہ انٹروینشن میں مریض کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع نہیں ہوتا۔
اس کے بعد سربراہ انٹروینشن کا آغاز کرتا ہے اور پہلے افراد کو اپنے نکات پیش کرنے کیلئے کہتا ہے۔ ذیل میں نمونے کے طور پرانٹروینشن کے کچھ نکات دیئے گئے ہیں۔
* دو ہفتے پہلے آپ کی رضائی کو آگ لگ گئی تھی اور اگر میں نہ آتی تو آپ جل گئے ہوتے۔میں آپ کے سونے تک آپ کا چوکیدارا کرتی تھی آئندہ میں یہ ذمہ داری نہیں اُٹھا سکتی( بیوی)
* دو دفعہ علاقہ تھانے دار آپ کے نشے کے لین دین کے بارے میں مجھے تھانے بلوا چکا ہے۔ اگر کوئی قانونی گرفت ہوئی تو میں تمہاری کوئی مدد نہ کر سکوں گا ( باپ)
* پچھلے ہفتے تم نے میری چیک بک پر جعلی دستخط کر کے پانچ ہزار نکلوائے تھے۔ نشے کی خاطر تم قانون کو ہاتھ میں لو گے تو تمہیں اسے کے نتائج خود بھگتنے پڑیں گے ( بھائی)
* نشے کی وجہ سے آپ خاندان کی خوشی غمی میں شریک نہیں ہوتے۔ پچھلے ایک ماہ میں آپ گیارہ دن ملازمت پر نہیں گئے۔ میں آپ کیلئے مزید بہانے نہیں کر سکتی ( بیوی)
* ایک ماہ پہلے تم نشے کی مدہوشی میں غسل خانے میں گر گئے تھے اور تمہیں ملازموں نے دروازہ توڑ کر نکالا تھا (والدہ)
* پچھلے دنوں کچھ لوگ میرا رشتہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ امی آپ کو ان سے چھپانے میں لگی ہوئیں تھیں، مجھے بہت ندامت ہو رہی تھی (بہن)
اگر مریض تکرار پر اتر آئے تو آپ اس کی بات کا جواب نہ دیں بلکہ وہی نکتہ آپ دوبارہ پڑھ دیں۔ نکات کو اسی طرح پیش کریں جیسے ریہرسل میں پیش کیا تھا۔ اشتعال انگیزی سے بچیں اور محبت اور فکرمندی کا انداز برقرار رکھیں۔ ہر کوئی اپنے نکات ختم کرتے ہوئے مریض کو کہے، ’’کیا تم اسی انداز میں زندگی گزارنا چاہتے ہو؟‘‘ اور مریض کو مشورہ دیں ’’بہتر ہے علاج کیلئے رجوع کرو‘‘ چونکہ مریض کو کسی بات کا جواب نہیں دینا ہوتا اسی لئے توجہ ’’جواب بنانے ‘‘ کی بجائے سننے پر ہوتی ہے۔ اسی طرح بار بار اور مؤثر انداز میں کہی ہوئی باتیں اس پر اثر کرنے لگتی ہیں۔ باربار کہنے سے نہ جھجکیں۔ اسے انکار کے نتائج سے بھی آگاہ کرتے رہیں لیکن یاد رہے کہ وہ کہیں جس پر عمل کا ارادہ ہو۔ انٹروینشن میں آپ مریض سے نشہ چھوڑنے کا وعدہ نہیں مانگتے۔ وعدہ کسی بیماری کا علاج نہیں۔ آپ اُسے علاج قبول کرنے کیلئے کہتے ہیں۔ انٹروینشن کے دوران مریض کو کھسکنے کا موقع نہ دیں۔ تسلسل کے ساتھ نکات پیش کرتے رہیں۔ پہلے مریض غصہ کرتا ہے۔ پھر چہرے پر ناگوار تاثر لئے چپ بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی خاموشی سے نہ گھبرائیں۔ خاموشی اس کے ذہن پر مثبت اور مؤثر کام کرتی ہے۔ وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہے، پھر رونے لگتا ہے اور پھر ہاں کر دیتا ہے۔ کبھی خاموشی اور آنسو ’’ہاں‘‘ کا کام دیتے ہیں۔ کم وبیش دو گھنٹے میں انٹروینشن کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں۔ مریض کے داخلے کا بندوبست یہ مرحلہ آنے سے پہلے ہی ہونا چاہیئے۔ دیر کرنے سے وہ دوبارہ خود فریبی میں آ سکتا ہے۔ صحیح بنیادوں پر کی جانے والی انٹروینشن میں کامیابی کی شرح 90 فیصد ہوتی ہے۔ جو لوگ سوچتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہی ان کے مریض کو علاج پر راضی کر سکتا ہے، انٹروینشن ان کیلئے معجزے کا ہی کام دیتی ہے۔
ایسے حالات میں جب مریض کی زندگی خطرے میں ہو یا مریض کے رویوں سے اہل خانہ پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہوں تو ’’بحرانی انٹروینشن ‘‘ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ بحرانی انٹروینشن میں ’’ انٹروینشن ایکسپرٹ ‘‘ اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک طے شدہ منصوبے تک پہنچتا ہے اور اسے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے۔
بحرانی انٹروینشن کے پسِ پردہ یہ نظریہ ہے کہ جب کسی گھر میں آگ لگی ہو تو’’دیکھنے اور انتظار کرنے‘‘ کی پالیسی ظالمانہ ہو گی۔ خاص طور پر پاکستان میں جہاں نشہ کرنا جرم بھی ہے اور اس جرم کی کڑی سزا مقرر ہے۔ علاج کیلئے مریض کی مرضی کا انتظار مناسب نہ ہو گا۔ نشے کی بیماری میں مریض تو نشہ کر کے دکھ پاتا ہے باقی اہل خانہ بلا وجہ سزا بھگتتے ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں قانون اس صورت میں نشہ کرنے پر معترض نہیں ہوتا کہ نشہ قانونی طور پر مارکیٹ سے خریدا ہو اور ادائیگی فرض کے دوران اور ڈرائیونگ سے پہلے نہ کیا جائے۔ لہذا ایسے معاشرے میں کوئی شخص ان حدودو قیود کی پابندی کرے تو نشہ کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ اس کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن وہاں بھی نشہ کرنے والے ان قواعد پر عمل نہیں کرتے۔ جب کوئی نشہ باز ہوتا ہے تو وہ قانون کا پابند نہیں ہوتا، آزاد ہوتا ہے۔
ہمارے مذہب، معاشرے، خاندانی نظام اور حکومت میں کسی فرد کو کسی بھی حالت میں کسی بھی مقدار میں نشہ کرنے کی اجازت نہیں، کجا حالات ایسے ہوں کہ کوئی شخص اندھا دھند نشہ کر کے اپنی زندگی خطرے میں ڈالے ہوئے ہو اور اہل خانہ کو بھی جسمانی، نفسیاتی، معاشی اور روحانی طور پر نقصان پہنچا رہا ہو۔ ایسے میں کوئی سمجھدار انسان مریض کو گھر پھونک کر تماشہ دیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔
کرائسسز انٹروینشن جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ بحران کی صورت میں کی جاتی ہے۔ اہل خانہ مریض کے مکمل حالات ماہر منشیات کے سامنے رکھتے ہیں اور اسے اپنی ٹیم کے ہمراہ باقاعدہ انٹروینشن کی اجازت دیتے ہیں۔
کسی مریض کے حد سے زیادہ بگڑے ہوئے حالات دیکھ کر اس کے اہل خانہ مل کر فیصلہ کرتے ہیں اور ماہر منشیات سے انٹروینشن کی درخواست کرتے ہیں۔ ماہر منشیات حالات کی تصدیق کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کرائسسز انٹروینشن کا محرک محض مریض کیلئے نشے سے نجات ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور ناجائز مقاصد نہیں ہیں۔ کرائسسز انٹروینشن خاص طورپر ان مریضوں کیلئے مناسب سمجھی جاتی ہے جو جسمانی طور پر انتہائی کمزور ہو چکے ہوں، خطرناک اور غیرقانونی حرکات میں ملوث ہوں، تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوں، اثاثے بیچ رہے ہوں اور علاج سے انکاری ہوں۔
ماہر منشیات تفصیلی منصوبہ بندی کے تحت اس کے قد بت، طاقت اور اکھڑپن کے بارے میں اندازہ لگاتا ہے، سونے جاگنے کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا ہے، اس کی عادات اور خصائل کے بارے میں جان کاری حاصل کرتا ہے، نشے کی مقدار اور قسم کا پتہ چلاتا ہے، اس کے پرتشد د رویوں کا تجزیہ کرتا ہے، مریض کی طرف سے دیگر خطرات کو پہلے سے بھانپتا ہے اور مریض کے بارے میں ان معلومات کو مناسب ترتیب دیتا ہے۔
ان سب پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہر منشیات پانچ افراد پر مبنی ٹیم تشکیل دیتا ہے۔ یہ ٹیم ایسے تربیت یافتہ افراد پر مبنی ہوتی ہے جنہیں اس کام کا طویل تجربہ ہوتا ہے اس میں کم از کم دو افراد بحال شدہ مریض ہوتے ہیں، دو افراد نشے کی بیماری پر معقول معلومات رکھتے ہیں ٹیم کا سربراہ ایک ڈاکٹر ہوتا ہے جو نشے کی بیماری اور مریض کی فطرت اور مرض کی نوعیت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ یہ ٹیم اہل خانہ کے تعاون سے ایسے وقت مریض کے گھر پہنچتی ہے جب وہ سو رہا ہوتا ہے اور اسے نشہ کئے ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے ہوں۔ اہل خانہ ٹیم کی مریض تک راہنمائی کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ ٹیم کے افراد کمرے کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں، خاموشی سے ایسی چیزیں منظر سے ہٹا دیتے ہیں جن سے کوئی دقت پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اُس کے بعد ٹیم کے ارکان مریض کے اردگرد ترتیب سے بیٹھ جاتے ہیں۔
اہل خانہ حسب ہدایت مخل نہیں ہوتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کام میں کچھ وقت لگتا ہے۔ وہ صبر سے کرائسسز انٹروینشن کے نتائج کا انتظار کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ مریض محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اگر مریض کو نشے کے زہریلے اثرات سے بچانا ہے تو دل پر پتھر رکھنا ہو گا۔ کرائسسز انٹروینشن میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ اس موقع پر جذباتی افراد کو گھر سے بھیج دیا جاتا ہے۔ بچے اُس وقت سو رہے ہوں تو بہتر ہے۔ اگر گھر میں نشے کا کوئی مریض یا محض نشہ کرنے والا ہو تو اسے اس منصوبے کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی جاتی۔ ورنہ وہ اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گا۔
ٹیم کا سربراہ ملائیمت سے مریض کو جگاتا ہے، احترام کے ساتھ اپنا تعارف کرواتا ہے اور آمد کا مقصد بیان کرتا ہے۔ ایک لمحے کو مریض ہکا بکا نظر آتا ہے لیکن جلد ہی وہ گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ اپنا پہلا ردعمل دیتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل میں سے ایک ہوتا ہے۔
* یہ دیکھتے ہوئے کہ فیصلے کی قوت اُس کے پاس نہیں ہے فوری طور پر ساتھ جانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔
* مریض چاہتا ہے کہ اسے قائل کیا جائے۔ ٹیم کے ارکان خاص طور پر بحال شدہ افراد اپنی مثال کے حوالے سے اسے قائل کرتے ہیں۔ مریض تھوڑی بہت کج بحثی کرتا ہے۔ علاج کی ضرورت سے انکار کرتا ہے۔ پھر اچانک قائل ہو جاتا ہے۔
* مریض بغاوت پر اتر آتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ مجھے کون لے جا سکتا ہے، اپنے گھر والوں کو برا بھلا کہتا ہے اور اُ نہیں بلانے پر اصرار کرتا ہے۔ ایسے میں ٹیم کے ارکا ن اتنی مہارت سے انجیکشن دیتے ہیں کہ اسے پتا بھی نہیں چلتا اور انجیکشن لگ چکا ہوتا ہے۔ انجیکشن لگنے کے بعد مریض مزاحمت چھوڑ دیتا ہے۔ انجیکشن کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اُس کی بغاوت اور غصہ سرد ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ تبادلہ خیال پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اگر مستقل مزاجی سے اسے قائل کرتے رہیں تو وہی مریض جو تھوڑی دیر پہلے منہ سے آگ نکال رہا تھا ملائمت سے بات کرنے لگتا ہے اور رضا مند ہو جاتا ہے۔
کرائسسز انٹروینشن میں بھی عام انٹروینشن کی طرح اصرار کے ساتھ ساتھ نشے کے تباہ کن واقعات کو دہرایا جاتا ہے۔ یہ تباہ کن واقعات منصوبہ بندی کے دوران اہل خانہ سے معلوم کئے جاتے ہیں اور کرائسسز انٹروینشن کے دوران ناقابل تردید شواہد کے ساتھ ترتیب وار مریض کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ کرائسسز انٹروینشن میں کامیابی کی شرح 100 فیصد ہے بشرطیکہ تمام احتیاطوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
علاج کے ابتدائی حصے میں مریض کی رضا مندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ابتدائی چند دنوں میں مریض کی تکلیفوں کا علاج کرتے ہوئے معالج کے پاس کافی موقع ہوتا ہے کہ وہ خدمت اورمہارت کے ذریعے مریض کا دل جیت لے۔ نشے کا مریض ذہین انسان ہوتا ہے۔ وہ ہمدردیوں کو پہچانتا ہے اور اُن کی قدر کرتا ہے۔ نشے کے مضر اثرات ختم ہونے کے ساتھ ساتھ مریض کے خیالات میں تبدیلی آتی ہے۔ جس اسٹیج پر مریض کی رضا مندی کی ضرورت ہوتی ہے اس سے بہت پہلے مریض مائل ہو چکا ہوتا ہے۔ تمام ذہنی تحریک ایک بیرونی عمل ہے۔ ماہرین جانتے ہیں کہ مریض میں تبدیلی کا عمل کیسے برپا کیا جاتا ہے۔
بحرانی انٹروینشن کے دوران ٹیم کابرتاؤ بھی اس بات کا فیصلہ کرتاہے کہ بعدازاں مریض تعاون کرے گا یا نہیں۔ اگر مریض کو یہ تاثر نہ دیا جائے کہ اسے فتح کیا جا رہا ہے تو مریض نہ صرف بعد میں تعاون کرتا ہے بلکہ دل سے ممنون ہوتا ہے کہ جو فیصلہ میں خود اپنے لئے نہ کر سکا وہ کچھ دردِ دل رکھنے والوں نے میرے لئے کیا۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جس مریض کو اُس کی مرضی کے خلاف گھر سے لایا گیا وہی چند دن میں پورے جوش و جذبہ سے بحالی کی منزلیں طے کر رہا ہوتا ہے اور وہ مریض جو خود اپنی مرضی سے ’’توبہ توبہ‘‘ کرتا آیا تھا علاج میں آنے کے 24 گھنٹے بعد ہی حیلے بہانے چھٹی کرنا چاہتا ہے۔ عام دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مریض جس مدت کیلئے رضامندی سے کلینک میں آتا ہے تو وہ مدت پوری نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ نشہ کرتے ہوئے مریض کی مرضی کچھ اور ہوتی ہے اور نشہ چھوڑتے ہوئے کچھ اور۔ ایک ’’حالت‘‘ کا فیصلہ دوسری ’’حالت‘‘ پر لاگو نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جو مریض بحالی کی شمع روشن کئے ہوتے ہیں اُن میں کثیر تعداد اُن مریضوں کی ہے جو شروع میں مرضی کے خلاف گھر سے لائے گئے تھے۔
پاکستان میں نشے کا مریض عام طور پر نشے کے ’’کیرئیر‘‘ میں مندرجہ ذیل مراحل سے گزرتا ہے۔
اندھا دھند نشہ کرنا اور برباد ہونا۔
نشے کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کرنا اور ناکام ہونا۔
مجبور ہو کر وقتی طور پر نشہ چھوڑنا اور دوبارہ نشہ کرنے کیلئے مناسب وقت انتظار کرنا۔ بربادی کی طرف بڑھنا۔
نشہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا، ہفتہ دس دن کے علا ج میں سے گزرنا لیکن سابقہ زندگی برقرار رکھنا اور دوبارہ نشے میں پڑنا۔
نشہ چھوڑنے اور طرز زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کرنا، جامع علاج اوربحالی کے ایسے پروگرام میں شمولیت اختیار کرنا جس سے یہ مقاصد حاصل ہو سکیں۔
پہلے مریض کا مکمل طبی معائنہ کیا جاتا ہے، اس کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اسے علاج کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
ابتدائی دس دن کیلئے اسے خاص نگہداشت کے وارڈ میں رکھا جاتا ہے اور ان تکالیف کا علاج کیا جاتا ہے۔ جو نشہ چھوڑنے کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔
پھر مریض کا نفسیاتی علاج شروع ہوتا ہے۔ اسے نشے کی بیماری پر تفصیلی معلومات دی جاتی ہیں۔
اگلے مرحلے میں باقاعدہ تربیت شروع ہوتی ہے۔ روزانہ تین لیکچر ملتے ہیں جن میں قوتِ ارادی بڑھانے اور نشے کی طلب گھٹانے کیلئے خصوصی تدابیر سکھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ نشہ چھوڑنے کی تحریک دی جاتی ہے۔
ساتھ ہی مریض گروپ تھراپی میں شرکت کرتا ہے اسے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ نشے سے بحالی کا پروگرام سکھایا جاتا ہے جو پچھلے 60 سال سے دنیا بھرکی علاج گاہوں میں رائج ہے۔ اس میں نشے سے بحالی کے بارہ قدم اور نشے سے بچاؤ کی منصوبہ بندی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ جنس، تعلقات عامہ، تفریح، حفظانِ صحت، مذہبی امور اور روزگار جیسے موضوعات پر خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔
جب مناسب تربیت پانے کے بعد مریض نشے کے بغیر ہی صحت مند، پرُسکون، کارآمد اور خوشحال زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اسے فالو اپ اور بحالی پانے والے مریضوں کی خصوصی محفلوں میں شمولیت کی تاکید کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔
نفسیاتی علاج کا پہلا حصہ تو یہ ہے کہ مریض کو نشے کی بیماری پر اتنا سائنٹفک علم دیا جائے کہ وہ تسلیم کرنے لگے کہ ’’ہاں! میں کبھی محفوظ طریقے سے نشہ نہیں کر سکوں گا، کیوں کہ میرے جسم میں ایک ایسی مستقل تبدیلی آ چکی ہے جو نشے کے استعمال کو رد کرتی ہے۔ جبکہ میرے دماغ میں ایسی سوچ رچ بس گئی ہے جو مجھے نشے کا استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بربادی جنم لیتی ہے۔ مزید یہ ہے کہ میں جب بھی نشہ کروں گا مجھے سکھ نہیں بلکہ دکھ ملیں گے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی مریض یہ سمجھ لیتا ہے کہ جس طرح وہ کنٹرول سے نشہ نہیں کر سکتا اسی طرح وہ محض قوت ارادی اور کنٹرول سے نشہ چھوڑ بھی نہیں سکتا۔ نشہ چھوڑنے کیلئے اسے طرزِ زندگی اور نظریات میں ایک اور بڑی تبدیلی لانا ہو گی۔ یہ حقائق جاننے کے بعد ہی نشے سے نجات کا دروازہ کھلتا ہے کیونکہ مریض اپنے علاج میں حقیقی دلچسپی لینے لگتا ہے۔
علامات پسپائی (Withdrawal Symptoms) پر قابو پانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی بشرطیکہ مناسب سہولتیں موجود ہوں۔ ایسی ادویات موجود ہیں جن کے بروقت اور مناسب استعمال سے ’’علامات پسپائی‘‘ باآسانی کنٹرول کی جا سکتی ہے۔ پھر بھی انتہائی کمزور مریضوں کیلئے اس بات کی گنجائش موجود رہنی چاہیئے کہ ’’علامات پسپائی‘‘ کی شدت توڑنے کیلئے ایک دفعہ نشے کا ’’کنٹرول استعمال‘‘ کیا جا سکے۔ ’’علامات پسپائی‘‘ مناسب طریقے میں کنٹرول کرنے میں عموماً دو سے تین ہفتے لگ جاتے ہیں۔
’’علامات پسپائی‘‘ کے دوران مریض کو دودھ، کولڈرنکس، نمکیات، وٹامن اور ہلکی پھلکی غذا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد روزمرہ غذا بحال کر دی جاتی ہے۔ وٹامن نمکیات اور بھوک بڑھانے والی ادویات جاری رکھی جاتی ہیں لیکن نشہ اتارنے کیلئے دی جانے والی ادویات بند کر دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد مریض کی دماغی حالت اور موڈ کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس دوران مریض اپنے طرزِ عمل سے اپنی نفسیاتی کیفیت کا اظہار کرتا ہے۔ خوراک کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور مختلف مشاغل میں مصروف رکھا جاتا ہے۔ چند دن کے بعد مریض کی ہلکی پھلکی ورزش بھی شروع ہو جاتی ہے۔
معیاری علاج گاہ کی پہچان ان چیزوں سے ہو سکتی ہے۔
علاج گاہ میں مریض کی بحالی کی منازل کو نفسیاتی پیمانوں پر ناپنے کا رواج ہو، صرف جسمانی صحت کو ہی کامیابی تصور نہ کیا جاتا ہو۔
بارہ قدموں کے پروگرام کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
گروپ کی شکل میں مریض کو نشے کی بیماری پر علم دیا جاتا ہو۔
علاج کرنے والی ٹیم اس شعبے میں طویل تجربے کی حامل ہو۔
ماہرین منشیات کے علاوہ نشے سے بحال ہونے والوں کی معقول تعداد بھی علاج میں مدد دے رہی ہو۔
فالو اپ‘‘ پر توجہ دی جاتی ہے۔
’’فالو اپ‘‘ کے بغیر تمام کئے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے۔ نشے کی بیماری میں ’’فالو اپ‘‘ ازحد اہمیت کا حامل ہے۔ ’’فالو اپ‘‘ میں مریض بارہ قدموں کے حوالے سے ہونے والی میٹنگوں میں شرکت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ علاج گاہ کے’’فالو اپ‘‘ پروگرام میں اپنی شمولیت کو یقینی بنتا ہے۔
مریض کی نشہ بازی کا تسلسل اس عقیدے کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ نشے کے بغیر اس کی زندگی نامکمل ہے اور اس کا سکھ، چین، آرام اور نیند نشے سے وابستہ ہے۔ نشہ بازی کے علاج میں ’’علامات پسپائی‘‘ پر قابو پانے کے بعد اس عقیدے کو بدلنے کی جدوجہد کی جاتی ہے اور ایک نئے عقیدے کی بنیاد رکھی جاتی ہے جس میں مریض عملی طور پر یہ دیکھتا ہے کہ دراصل نشے کے بغیر ہی زندگی مکمل ہے اور کوئی خلاء باقی نہیں۔ نشہ باری کا بنیادی علاج اس ایک عقیدے سے دوسرے عقیدے کی طرف سفر ہے۔ یہ سفر اچھے علاج اور این اے کی محفلوں کے ذریعے ہی طے ہو سکتا ہے۔ حقائق سے روشناس ہونے کے بعد کوئی بھی انسان پہلے جیسا نہیں رہتا۔ جب مریض نشہ ترک کرنے کی ضرورت کا احساس کر لیتا ہے تو وہ بدلنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ پھراسے قدم بہ قدم بحالی کی راہ دکھائی جاتی ہے۔
علاج کے بغیر مریض ان مریضوں کی محفلوں میں شرکت کرتا ہے جو نشہ چھوڑ کر خوشحالی پا لیتے ہیں۔ ان محفلوں کو این اے کی محفلیں کہا جاتا ہے۔خوشحال مریضوں سے میل جول کے ذریعے وہ خود بھی آخر کار خوشحالی حاصل کرتا ہے۔
عام طور پر پاکستا ن میں علامات پسپائی کو کنٹرول کرنا ہی علاج سمجھا جاتا ہے حالانکہ اصل علاج تو اُس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ خالی علاج بھی کافی نہیں۔ بعد ازاں بحال شدہ مریضوں کی راہنمائی میں بحالی کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔
نشے سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ مریض میں ایک عظیم قسم کی نظریاتی تبدیلی آ جائے۔ اس کا فلسفہ حیات بدل جائے۔ اگر اُس کی فلاسفی پرانی رہے اور وہ نشے سے بحال رہنا چاہیئے تو یہ دونوں کا م ساتھ ساتھ نہیں ہو سکتے۔ بحالی انقلاب چاہتی ہے۔
یہ پروگرام نشے کی بیماری سے نجات کیلئے دنیا بھر میں مؤثر ترین مانتا جاتا ہے۔ یہ پروگرام الکوحل انانیمس یعنی اے اے نامی انجمن کی طرف سے اس صدی کے چوتھے عشرے میں متعارف کرایا گیا۔ یہ انجمن شراب کے نشے سے بحالی پانے والوں نے تشکیل دی تھی۔ یہ رضاکارانہ تنظیم ہے۔ کسی کو اس میں شامل ہونے کیلئے مجبور نہیں کیا جاتا، پھر بھی لاکھوں لوگ اس میں شریک ہو کر نشے سے نجات پاتے ہیں۔ یہ انجمن ایک پروگرام پیش کرتی ہے جو شراب کے مریضوں کیلئے معجزانہ طور پر بحالی کا تحفہ دیتا ہے۔
1935 ء میں نیویارک کے ایک سٹاک بروکر بِل ولسن نے کئی سال کی جدوجہد کے بعد شرا ب سے نجات پائی تو قدرت نے اس شخص کو ہمیشہ کیلئے نشے کے مریضوں کی فلاح کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ ذاتی تجربے کے حوالے سے بِل ولسن پر یہ انکشاف ہوا کہ جب نشے کے مریض آپس میں مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو نہ صرف وہ نشے سے نجات بلکہ سکون کی دولت بھی پاتے ہیں۔ بل ولسن نشہ چھوڑنے کے ابتدائی دور میں ایک دوسرے عادی شرابی ڈاکٹر باب سمتھ کو ملا تو اس کی نشے کی طلب نے اپنے شدت کھو دی۔ تب سے اب تک کروڑوں نشے کے مریض اس تجربے سے گزرے ہیں۔
تمام افراد طے شدہ پروگرام کے تحت صبح کے وقت مریض سے ملتے ہیں جب وہ زیادہ نشے میں ہو اور نہ تروڑک میں۔ سربراہ مریض کو سب کی آمد کا مقصد بیان کرتا ہے اور اس سے وعدہ لیتا ہے کہ وہ خاموشی سے تمام افراد کے نکات سن لے۔ تاہم مریض کو جواب دینے سے بری الذمہ کر دیا جاتا ہے۔ مریض کا کردار ایک سامع کے طور پر متعین کر دیا جاتا ہے کیونکہ انٹروینشن میں مریض کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع نہیں ہوتا۔ بل ولسن اور ڈاکٹر باب نے چار سال کے عرصے میں سو افراد پر مشتمل ایسے لوگوں کی انجمن قائم کی جو باہمی روابط اور کچھ خاص اصولوں پر چلنے سے شراب سے نجات پا چکے تھے۔ 1939ء میں ان لوگوں نے ایک کتاب میں اپنے نشہ کرنے اور چھوڑنے کے تجربات بیان کئے۔ اس کتاب کا نام ’’الکوحلکس انانیمس‘‘ تھا۔ اس کتاب میں نشہ چھوڑنے کے شہرہ آفاق بارہ قدم پیش کئے گئے۔ پھر الکوحلکس انانیمس کے نام پر شراب چھوڑنے والوں کی ایک انجمن قائم کی گئی۔ بل ولسن اور ڈاکٹر باب سمتھ اس کے بانی قرار پائے۔
یہ کتاب چھپتے ہی دھڑا دھڑ شراب کے عادی اس بیماری سے نجات پانے لگے۔ بعد ازاں مریضوں کے اہل خانہ نے اس انجمن کے نقش قدم پر اپنی انجمن تشکیل دی جسے ’’ال انان‘‘ کا نام دیا گیا۔ پھر نارکوٹکس کا نشہ چھوڑنے والوں نے انہی بنیادوں پر اپنی انجمن تشکیل دی اور اس کا نام ’’نارکوٹکس انانیمس‘‘ رکھا۔ بعد ازاں دوسرے نشوں، حتیٰ کہ جوئے اور موٹاپے کی بیماری میں مبتلا لوگوں نے بھی انہی اصولوں پر اپنی انجمنوں کی بنیاد رکھی اور فلاح پائی۔ آج دنیا بھر میں سو سے زیادہ تنظیمیں انہی اصولوں پر کاربند ہیں۔ ان کے بنیادی طریقہ کار میں کوئی فرق نہیں۔ چونکہ پاکستان میں ’’نارکوٹکس انانیمس‘‘زیادہ متحرک ہے اس لئے ہم آئندہ بارہ قدموں کے پروگرام کا ذکر اسی حوالے سے کریں گے۔ نارکوٹکس انانیمس کو عام طور پر ’’این اے‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی نشے سے نجات کی خواہش رکھنے والے شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
میٹنگوں میں شمولیت۔
لٹریچرکا مطالعہ۔
راہنما بنانا۔
بارہ قدموں پر کام کرنا۔
راہنما بننا۔
پروگرام کی روایتوں کے مطابق خدمت۔
سکون کی دعا کیا ہے؟
یہ دعا مریض ایسے وقت دہراتے ہیں جب انہیں نشے کی طلب کا سامنا ہو۔ یہ ’’این اے‘‘ میٹنگوں میں بھی پڑھی جاتی ہے۔
سکون کی دعا
اے ہمارے رب! تو ہمیں اتنا سکون دے کہ اُن حالات کو تسلیم کر سکیں جنہیں ہم بدل نہیں سکتے۔ اتنی ہمت دے کہ ان حالات کو بدل دیں جنہیں ہم بدل سکتے ہیں اورعقل دے کہ ان دونوں میں فرق کر سکیں۔ آمین
جب دو یا اس سے زیادہ نشے سے بحالی کے خواہش مند آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی بحالی میں مدد کرتے ہیں تو اسے ’’این اے‘‘ کی میٹنگ کہا جاتا ہے۔
باقاعدہ طور پر ’’این اے‘‘ میٹینگیں طے شدہ پروگرام کے مطابق منعقد کی جاتی ہیں۔ ان میٹینگوں میں مختلف پس منظر لیکن یکساں بیماری میں مبتلا ساتھی شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے عزم و ہمت اور امید کی کرنیں بکھیرتے ہیں۔ وہ اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔ جس سے سب کو راہنمائی ملتی ہے۔ یہیں نشے سے بحالی پانے والے تعلقاتِ عامہ اور آپس میں خوش خلقی سے ملنے کے طریقے سیکھتے ہیں۔ احساس ذمہ دار ی اور معقول رویوں کی تربیت بھی یہیں ہوتی ہے۔ ’’این اے‘‘کی میٹنگ ایک ایسے قبیلے کی طرح ہوتی ہے جس میں نہ صرف باہمی میل جول کی پیاس مٹتی ہے بلکہ نشانہ بنے بغیرنشے کے خلاف کامیاب جدوجہد کی جاتی ہے۔ شرکاء ایک دوسرے کیلئے آئینے کا کام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔
جس طرح نشہ کرنے والوں کی صحبت میں نشے کے مریض بنتے ہیں اسی طرح نشہ چھوڑنے والوں کی محفلوں میں اُس بیماری سے شفاء ملتی ہے۔ لوہا، لوہے کا توڑ ہوتا ہے۔
’’این اے‘‘ کی انجمن بہت کچھ دیتی ہے لیکن واپسی میں کچھ زیادہ نہیں مانگتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا رکن بننے کیلئے شرط صرف یہ ہے کہ آپ کے دل میں نشہ چھوڑنے کی تمنا ہو۔ کوئی فیس نہیں۔ ہاں! چندے کا رواج ہے لیکن وہ بھی رضاکارانہ۔ کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ بڑی رقم کا چندہ بھی نہیں لیا جاتا تاکہ کوئی اُس کی آڑ میں میٹنگ پر اثر انداز نہ ہو۔ یہ چندہ جگہ کے کرائے، لٹریچر اور چائے وغیرہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ انجمن میٹنگ کیلئے کوئی بھی ایسی جگہ استعمال کرتی ہے جو سستی ہو اور آسانی سے مل سکے۔
سب سے پہلے ’’این اے‘‘ کی میٹنگوں میں شرکت ضروری ہے۔ یہاں آپ کو بولنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن عملی طور پر آپ کو فائدہ تب ہی ہو گا جب آپ بولنا شروع کریں گے۔ جلد ہی آپ کو احساس ہونے لگے گا کہ آپ جتنی ایمانداری سے اپنے دل کا کہیں گے اتنی ہی جلدی شفاء پائیں گے۔ میٹنگوں میں شرکت کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ بارہ قدموں کے پروگرام پر مبنی لٹریچر کا مطالعہ شروع کر دیا جائے۔
پروگرام سے فائدہ اُٹھانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ راہنما بنائیں اور اُس سے مل کر بارہ قدموں پر کام کریں۔ بحالی پانے کے بعد کسی کا راہنما بن کر یہ قرض اتارنا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پروگرام کی روایتوں کے مطابق نشے کے مریضوں کی خدمت کرتے رہنا اپنے لئے بحالی کی ضمانت ہے۔
پروگرام میں راہنما چننا بحالی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ راہنما ہی ہے جس کی طرف آپ کسی بھی بحران میں رجوع کرتے ہیں۔ راہنما کوئی بھی ایسا شخص ہو سکتا ہے جو نشے سے بحالی میں آپ سے آگے ہو، آپ کے مسائل کو سمجھتا ہو، ٹھنڈے دل سے راہنمائی کر سکتا ہو۔ راہنما چنتے ہوئے ایک سادہ سا نظریہ یہ ہے کہ وہ سب کچھ حاصل کر چکا ہو جسے حاصل کرنے کی تمنا آپ کے دل میں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ راہنما بننے پر راضی ہو۔ روشن خیال ہو، آپ پر گرفت کرنے کے قابل ہو اور آپ اُس پر اعتماد کر سکیں۔
راہنما چننا اہم ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ راہنما سے فائدہ کیسے اُٹھایا جائے؟ رسمی طور پر کسی کو راہنما بنا کر بھول جانے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ مضبوط رابطہ ہی راہنما کی افادیت کو اجاگر کرے گا۔ میٹنگوں میں اکٹھے شرکت کے علاوہ اکثر ملاقاتیں اور ٹیلی فون پر رابطہ اُس رشتے کو مؤثر بنا سکتا ہے۔
’’این اے‘‘ کے اراکین خود بھی ایسے نشے کے مریضو ں سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں پروگرام کا پیغام دیتے ہیں جو نشہ چھوڑنے کے خواہش مند ہوں۔ آ ج کل دنیا میں ہر معیاری علاج گاہ مریض کو دورانِ علاج بارہ قدموں کے پروگرام سے متعارف کراتی ہے۔ اب یہ باقاعدہ نشے کے علاج کا حصہ مانا جاتا ہے۔ مریض کو عملی طور پر ’’این اے‘‘ کی کچھ میٹنگوں میں شرکت کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔ نشہ چھوڑنے کیلئے کسی مریض میں جس قسم کے عظیم انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے وہ بلا شبہ بارہ قدموں کے پروگرام میں شرکت سے ہی ممکن ہے۔
’’این اے‘‘ کے بارہ قدم مریض کو ایک نیا طرز زندگی دیتے ہیں۔ پروگرام میں یہ بارہ قدم مریض کو ’’مشوروں‘‘ کی صورت میں ملتے ہیں۔ مریض اپنے راہنما کی مدد سے ان پر کام کرتا ہے اورآہستہ آہستہ اس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔
’’این اے‘‘ کے اراکین بارہ قدموں کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ کیوں؟ جواب بہت سادہ ہے یہ مفید ہیں۔ یہاں بارہ قدموں کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ پروگرام میں ہر نیا آنے والا قدموں کو آزماتا ہے اور اپنا لیتا ہے۔ اہم یہ ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو ان پر عمل کریں۔ یہ آپ کیلئے معجزہ نما ہو سکتا ہے۔ بارہ قدموں میں روایتی طور پر ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اہل خانہ اپنی نفسیاتی صحت کو بہتر بنانے کیلئے ان والدین سے میل جول بڑھائیں جو کامیابی سے نشے کی بیماری سے نمٹ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نشے کے مریضوں کے والدین مل جل کر جدوجہد کرتے ہیں۔ ’’نار انان‘‘ اہل خانہ کی پرانی اورمؤثر انجمن ہے۔ یہ انجمن اپنی ساخت میں بالکل ’’این اے‘‘ جیسی ہی ہے۔ یہ بھی بارہ قدموں کے پروگرام کو مانتی ہے۔ اس انجمن کی میٹنگ میں چھوٹی بڑی ہر بات پر تبادلہ خیا ل ہوتا ہے۔ اس انجمن میں آپ کو نشے کی بیماری پر راہنمائی مل سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ انجمن ابھی بھی آپ کو خال خال ہی ملے گی۔ اس انجمن کا جگہ جگہ قیام نشے کے مریضوں کے اہل خانہ کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ اگر آپ کو اپنے گھر کے قریب یہ انجمن نہ ملی توآپ اپنی ضرورت کے تحت خود یہ انجمن بنائیں۔
وہ کون سے باتیں ہیں جو کچھ اہل خانہ سیکھ لیتے ہیں باقی نہیں سیکھ پاتے؟ کیا وجہ یہ ہے کہ کچھ گھرانے نشے کی بیماری سے بحال ہو جاتے ہیں اور کچھ ایسا نہیں کر پاتے؟ اور آپ کو یہی ’’فرق‘‘ جاننے کی ضرورت ہے۔
مریض کے نشہ چھوڑنے کے بعد بھی آپ کو اس سے شکایت ہوتی ہے۔ نشہ نہ ملنے سے مریض بھی تنگ ہوتا ہے اور وہ آپ کو تنگ کرتا ہے۔ نشہ چھوڑنے کے بعد بھی گھروں میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسے گھرانوں میں مریض کے نشے میں دوبارہ گرنے کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا مریض بھی بحال ہونے والوں کی صف میں شامل ہو تو بہتر ہے کہ آپ اپنے مریض کی نفسیات سمجھ لیں اور اس کے ساتھ اچھے طریقوں سے گزارا کرنا سیکھ لیں۔
مریض کا نشہ کرتے رہنا یا بحالی پانا ہماری زندگیوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم مسئلہ حل کریں یا خود مسئلہ بن جائیں۔ ہمارا نقصان کس میں ہے؟ اگر اہل خانہ بھی اپنے رویوں میں کوئی تبدیلی نہ لاسکیں تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ معاونت اور اشتعال انگیزی دونوں کا نتیجہ مریض کے پھر سے نشہ کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اپنے رویوں میں تبدیلی لانے سے مریض کی بحالی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
کامیاب علاج کی سب سے بڑی ذمہ داری مریض پر ہے۔ تاہم اہل خانہ کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے بیماری کے متعلق ٹھیک اور معیاری معلومات حاصل کرے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ مریض کو داخل کروانے کے بعد آپ آرام سے ٹی وی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ یہ بھی نہ سمجھیں کہ آپ نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا، باقی سب کچھ مریض اور معالج پر ہے۔ اکثر ہمیں ایسے خاندانوں سے واسطہ پڑتا ہے جو کہ مریض کو داخل کروانے کے بعد مریض اور ماہرین سے ’’قطع تعلق ‘‘ کر لیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں ’’نشہ کی بیماری پر علم حاصل کریں۔‘‘ وہ کہتے ہیں ’’یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے!‘‘ اگر نشے کی بیماری صرف مریض کا ہی مسئلہ ہوتا تو پھر مریض کے اردگرد رہنے والے کیوں متاثر ہوتے ہیں؟ اہل خانہ کیوں کئی کئی سال مریض کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
فرض کریں مریض پروگرام کے مطابق اپنا علاج مکمل کروا کے گھر واپس آ جاتا ہے اور اپنے سابقہ رویوں کو اپنا لیتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہو گا کہ وہ دوبارہ نشے میں گر جائے گا۔ ان رویوں اور نشے کے استعمال میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر یہ رویے باقی رہیں گے تو نشے کا استعمال بھی واپس آئے گا۔ نشہ چھوڑنے کیلئے اسے نشئی روئیے بھی بدلنے ہونگے۔
ریلیپس سے نمٹنے کا پہلا سنہری اصول یہ ہے کہ ریلیپس کے امکان کو تسلیم کر لیں۔ مریض بیمار ہے اور دوسری بیماریوں کی طرح مریض کو پھر سے ’’دورہ‘‘ پڑ سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ حتمی طور پر مریض نے خود ہی اپنی بحالی کا بوجھ اُٹھانا ہے۔ ہم 24 گھنٹے مریض کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس کی رکھوالی نہیں کر سکتے۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جو مریض ریلیپس نہیں ہوتے وہ آخر کار کیا کام کرتے ہیں کہ ریلیپس ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کا مریض دوبارہ نشے میں نہیں گرے گا۔ لیکن ریلیپس سے بچاؤ کی منصوبہ بندی ہر مریض اور اس کے اہل خانہ نے ایسے ہی کرنی ہے جیسے کہ اس کے ریلیپس ہونے کا قوی امکان ہے۔ ریلیپس سے بچاؤ کیلئے بہترین نکتہ یہ ہے کہ آپ مریض کو مسلسل علاج میں ہی رکھیں۔ یاد رکھیں کہ علاج سے مراد صرف وہ عرصہ نہیں جب مریض علاج گاہ میں ہوتا ہے۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد بھی معالج سے رابطہ اور علاج جاری رہنا چاہیئے۔
یاد رکھیں! ریلیپس کی منصوبہ بندی ایسے ہی ہے جیسے کسی فوج کی تیاری۔ کسی بھی وقت دشمن سے حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر ہم حملے کیلئے تیار نہیں ہوں گے تو کسی بھی وقت حملہ ہو گا۔ ہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے اور سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ ریلیپس کی منصوبہ بندی ایسے ہی ہے جیسے ہم سارا سال سیلاب سے بچنے کیلئے بند باندھتے ہیں۔ اگر ہم بند نہ باندھیں تو پھر ہر طرف تباہی اور بربادی ہو گی۔ اگر سیلاب کے آنے پر ہم بند باندھنے چل پڑیں تو کیا ہو گا؟ جب ہم پہلے سے منصوبہ بندی کریں تو اکثر ریلیپس نہیں ہوتا۔ جو فوج ہر وقت تیار ہو اسے اکثر جنگ نہیں لڑنا پڑتی۔ اسے کوئی نہیں آزماتا۔
آئیے! یہ فرض کرتے ہیں کہ آپ نے تمام گھریلو ذمہ داریاں اور مالی امور سنبھال رکھے تھے اوراس کی وجہ محض یہ تھی کہ آپ کا پیارا نشے میں دھت یا مگن یہ ذمہ داریاں نبھا نہیں سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اب آپ خود بھی اس خواہ مخواہ کی ذمہ داری سے عاجز ہوں لیکن یہ ذمہ داریاں آپ کے معمولات کا حصہ بن گئیں اور اب آپ اسے ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ چونکہ اب آپ کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔ اگر آپ یہ ذمہ داری سنبھالے رکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو مریض ناراض ہوتا ہے اور اگر آپ ذمہ داری مریض کو سونپنے کے بارے میں غور کرتے ہیں تو آپ کو بے چینی کا سامنا ہوتا ہے۔ عام طور پر آپ کنٹرول جاری رکھنے میں ہی ’’خیریت‘‘ محسوس کرتے ہیں۔
اہل خانہ مریض پر بھروسہ نہیں کر پاتے۔ انہیں شک ہے کہ مریض کسی بھی وقت نشے میں گر جائے گا۔ ’’حفظِ ماتقدم کے طور پر‘‘ وہ اپنے سابقہ روئیے مریض کے ساتھ برقرار رکھتے ہیں۔ گھر کے ہر فرد کیلئے بہترین پالیسی یہ ہے کہ وہ مریض کو کچھ ذمہ داری اور سابقہ مقام دینے کیلئے فوری طور پر آمادہ ہو جائے۔ مریض کو اگر ذمہ دار بنانا ہے تو اسے ذمہ داریاں دینی ہی پڑیں گی۔
تمام افراد طے شدہ پروگرام کے تحت صبح کے وقت مریض سے ملتے ہیں جب وہ زیادہ نشے میں ہو اور نہ تروڑک میں۔ سربراہ مریض کو سب کی آمد کا مقصد بیان کرتا ہے اور اس سے وعدہ لیتا ہے کہ وہ خاموشی سے تمام افرا د کے نکات سن لے۔ تاہم مریض کو جواب دینے سے بری الذمہ کر دیا جاتا ہے۔ مریض کا کردار ایک سامع کے طور پر متعین کر دیا جاتا ہے کیونکہ انٹروینشن میں مریض کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع نہیں ہوتا۔
مریض کو کنٹرول کرنے کی عادت آپ کو تب پڑی تھی جب وہ اندھا دھند نشہ کر رہا تھا۔ علاج کے بعد بھی اسے کنٹرول کرنے کو اس لئے جی چاہتا ہے کہ یہ ’’عادت‘‘ ہے اور عادت لوٹ کر آتی ہے۔ اب آپ کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مریض بے چین ہوتا ہے اور آپ کنٹرول چھوڑتے ہیں تو آپ بے چین ہوتے ہیں۔ آپ بے چین نہیں ہونا چاہتے اس لیے آپ کنٹرول نہیں چھوڑتے۔
تین وجوہات کی بنا پر اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ مریض کو کنٹرول نہ کیا جائے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کنٹرول آپ کے باہمی تعلقات کیلئے زہر ہے۔ دوسری یہ بہت ’’کٹھن مزدوری‘‘ ہے۔ تیسری یہ ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اگر آپ بے چینی اور مایوسی کے طلب گار نہیں ہیں تو ہمارا مشورہ آپ کو یہی ہے کہ بے جا کنٹرول سے باز رہیں۔ اب آپ پر یہ جذبہ غالب آنے لگے تو معالج سے رابطہ کریں۔
آپ کا مریض نشے کے علاج میں سے گزرا ہے اور آپ کو اس پر شک ہو رہا ہے۔ بارہا آپ کو نشے کی علامتوں کا وہم ہوتا ہے۔ بعض اوقات آپ کو لگتا ہے کہ اس کا رویہ مضحکہ خیز ہے۔ اس کے موڈ کا اتار چڑھاؤ عجیب لگتا ہے۔ آپ کو خوف ہوتا ہے کہ وہ کہیں چوری چوری نشہ تو نہیں کر رہا؟ آپ چاہتے ہیں کہ مریض آپ کی تسلی کرائے۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے سکون کا بندوبست مریض کرے۔ جس کے پاس خود سکون کی کمی ہے۔ آپ کی بے اعتمادی پر اسے غصہ آئے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسے نشہ کرنے کیلئے اب بہترین جواز بنا لے۔ یہ کتنے ستم کی بات ہو گی۔ ہم آپ کیلئے متبادل راستہ پیش کرتے ہیں۔ پہلے تو معالج سے رابطہ کریں۔ اپنے خدشات بیان کریں اور اس سے صلاح لیں۔ فی الحال آپ یہ نہ دیکھیں کہ وہ نشہ کر رہا ہے کہ نہیں؟ آپ یہ دیکھیں کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ میٹنگ میں شمولیت، راہنما اور معالج سے اس کا رابطہ کیسا ہے؟ نظم و ضبط کے حوالے سے اس کی کارکردگی پرکھیں۔ جب کوئی مریض دوبارہ نشہ شروع کر دیتا ہے تو یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی۔
دراصل وہ اپنے مریض کے نشے کے زمانے کی حرکتوں کو معاف نہیں کر پاتے۔ جب بھی وہ مریض کو دیکھتے ہیں انہیں سب کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے۔ وہ اپنے مریض کے نشے کے ساتھ گزارا کر لیتے ہیں لیکن اپنی رنجش کے ساتھ گزارا نہیں کر پاتے۔ یہ نشے کی بیماری کے علاوہ کسی اور روپ میں دیکھنے کی عمدہ مثال ہے۔ وہ اپنے مریض سے توقع رکھنے لگتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کے ہر ’’گناہ‘‘ کی تلافی کرے۔ پھرجب وہ کوشش کرتا ہے تو اس کی کوئی کوشش آپ کیلئے کافی نہیں ہوتی۔ دس پندرہ سالوں کے گناہ کا کفارہ کوئی کیسے ادا کر سکتا ہے؟
لوگ سالوں تک نشے کے مریضوں کی بیماری کو جھیلتے ہیں۔ تنگی ترشی کے علاوہ مار الگ کھاتے ہیں۔ خواتین کو میکے جانا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر ان کے علاج کی نوبت آتی ہے۔ پھر ایک دن مریض علاج کے نتیجے میں نشہ چھوڑ دیتا ہے۔ مریض علاج کے بعد اپنی بحالی پر سنجیدگی سے کا م لینے لگتا ہے۔ اہل خانہ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن حیرت کا مقام ہے کہ اہل خانہ خوش نہیں ہوتے۔ وہ بات بات پر غصہ کرنے لگتے ہیں۔
یہ بھی درست نہیں کہ مریض نشہ کرنے کی وجہ سے آپ کو تنگ کرتا رہا ہے۔ مریض نشہ کرنے کی وجہ سے اہل خانہ کو تنگ نہیں کرتے، نشے کی بیماری کی وجہ سے تنگ کرتے ہیں۔ نشہ ان کے جسم میں جا کر ’’بادی‘‘ ہو جاتا ہے اور ان کی مت مار دیتا ہے۔ نشے کی بیماری کو سمجھ لینے سے بڑا فرق پڑتا ہے معاف کر دینا اور بھلا دینا آسان ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نشئی ہوتے ہی خانہ خراب ہیں اور ان سے نیکی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیئے اور لوگوں کا گزارا اس قسم کے نظریات کے ساتھ بھی چل جاتا ہے لیکن اگر آپ کی زندگی میں کوئی نشے کا مریض ہے تو ایسے خیالات آپ کو اور مریض کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔
اگر علاج کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں تو مریض مکمل طور پر بحال ہو جاتا ہے۔ علاج کو اس وقت تک مکمل تصور نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ مریض نشے کے بغیر جینا نہیں سیکھ لیتا۔ ذیابیطس، بلڈپریشر اور دل کے مریض بہترین علاج کے باوجود بیماری سے پہلے والی حالت کو نہیں لوٹ سکتے لیکن نشے کا مریض بہترین علاج کے نتیجے میں پہلے سے بھی بہتر نظر آتا ہے۔ علم کی جس سطح پر مریض اپنے لئے مسائل پیدا کرتا ہے، مسائل سے چھٹکارا پانے کیلیئے علم کی سطح کو بلند کرنا ضروری ہے۔ دورانِ علاج مریض کے علم کی سطح کو بلند کرنے کیلئے ہی جدوجہد کی جاتی ہے۔ نشے کی بیماری سے بحالی کیلئے ایک اور بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نقطے کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پھرکامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔
اگر اہل خانہ بیماری کے نتائج اور حالات قابل قبول انداز میں مریض کے سامنے پیش کریں تو اس کی آمادگی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسے حالات میں جب مریض نشے میں مدہوش ہونے کے باعث اپنے لئے کوئی بہتر فیصلہ نہیں کر سکتا، اہل خانہ اجتماعی طور پر انٹروینشن کر کے اسے علاج پر مائل کر سکتے ہیں۔ نشے کے مریض کی زندگی میں انٹروینشن ایک ایسا کام ہے جس میں لڑائی جھگڑے کا کوئی مقام نہیں۔ یہ ایک ایسا بامعنی منصوبہ ہے جس کیلئے باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
خود فریبی علاج کیلئے از خود رجوع نہیں کرنے دیتی۔ عام مریض جہاں علاج کے آرزو مند ہوتے ہیں نشے کا مریض علاج کو رد کرتا ہے۔ اہل خانہ اور ماہرین مل کر مریض کی فلاح کیلئے جو اقدامات کرتے ہیں انہیں انٹروینشن کا نام دیا جاتا ہے۔ انٹروینشن کے ذریعے مریض کے علاج کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ مریض باآواز بلند مدد نہیں مانگتا لیکن اس کی تلخی دراصل مدد کی پکار ہوتی ہے۔ اس پکار میں چھپی ہوئی بے آواز چیخیں آپ نہیں سن پاتے۔
ہم اپنے پیارے میں نشے کی بیماری بروقت کیوں نہ دیکھ سکے؟ کیا اس میں نشے کی بیماری کی کافی علامتیں موجود نہ تھیں؟ کیا وہ ہمیں سرخ سگنل نہیں دے رہا تھا؟ کیا ہم دوسرے کاموں میں الجھے ہوئے تھے؟ کیا وہ سب کچھ چھپانے میں کامیاب رہا؟ یا اپنے پیارے کو نشئی تصور کرتے ہوئے ہمارا دل دکھتا تھا اور ہم اپنی توجہ اس معاملہ سے ہٹا لیتے تھے؟
اہل خانہ نشے کی بیماری کے ساتھ کئی سال گزارنے کے بعد بھی اسے پہچان نہیں پاتے۔ ایسا اس لئے ہے کہ انسانی دماغ ناخوشگوار واقعات سے توجہ ہٹانے کی باکمال صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیت ہر شخص میں ہوتی ہے۔ عام حالات میں یہ سب چلتا ہے۔ تاہم جب ہر طرف بکھرے ہوئے شواہد کے باوجود اہل خانہ سمجھتے ہیں کہ سب خیر ہے، نشے کی بیماری اس میں پلتی رہتی ہے۔ اگر ہم ایسا ہی کرتے رہے ہیں تو اس میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ ایسے حالات میں عام ردِعمل یہی ہوتا ہے۔ زلزلوں کی پتی پر رہنے والے لوگ ہر وقت جھٹکوں کیلئے تیار رہتے ہیں۔ وہ اپنا طرز زندگی اسی سانچے میں ڈھال لیتے ہیں۔ کسی نشے کے مریض کے ساتھ رہنا بھی ایسے ہی ہے لیکن یہاں ہم بے بس نہیں۔ خود بدل جانے کی بجائے ہم مریض کو بدل سکتے ہیں بشرطیکہ ہم پہلے حقائق کو پہچانیں، نشے کی بیماری کو سمجھیں اور اپنے پیارے کو جامع علاج مہیا کریں۔
نشے کی طلب مریض کے حواس پر اس طرح چھائی رہتی ہے کہ وہ از خود مدد کا طلب گار نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ نشے کا طلب گار رہتا ہے۔ دراصل نشے کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے وہ حالات کی اصل تصویر دیکھ ہی نہیں سکتا۔ سب حیران ہوتے ہیں کہ جو کچھ مریض کرتا ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان مریض کو ہی پہنچتا ہے، پھربھی وہ اپنا بچاؤ کیوں نہیں کرتا؟ حد تو یہ ہے کہ جب کوئی اسے علاج کا مشورہ دیتا ہے تو وہ علاج کی ضرورت سے ہی انکار کر دیتا ہے۔ دراصل نشے کی جو مقداریں وہ عرصہ دار تک استعمال کرتا رہا ہے وہ اس کی دماغی کارکردگی اور قوتِ فیصلہ کو متاثر کرتی ہیں۔اس کے بگڑے ہوئے حالات صاف نظر آتے ہیں۔ جبکہ مریض دعویٰ کرتا ہے کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ بیماری میں تکلیف کی شدت بھی علاج کی ضرورت کا احساس دلاتی ہے۔
نشے کی بیماری میں مریض جب چاہے اپنی تکلیف کو چھپا سکتا ہے۔ اس کی ’’دوائی ‘‘ اور اس کا ’’ڈاکٹر‘‘ اس کی جیب میں پڑا رہتا ہے۔ اسے جلدی کاہے کی ہے؟
منشیات سے مراد وہ اشیاء ’’ادویات‘‘ ہیں جو انسان کی ذہنی کیفیات اور رویوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے استعمال سے ذہنی و جسمانی تکالیف اپنی شدت کھو دیتی ہیں۔ ہر نشہ اپنا مخصوص رویہ رکھتا ہے۔ کوئی نشہ دماغ کو سکون اور کوئی تحریک دیتا ہے۔ بعض نشے درد ختم کرنے والے اور بعض خیالات کو توڑنے مروڑنے والے ہوتے ہیں۔
روایتی طور پر برصغیر میں بھنگ، چرس، شراب اور افیون کا نشہ عام ہو رہا ہے۔ کھانسی کے شربتوں، خواب آور گولیوں اور نارکوٹکس کے ٹیکوں کا استعمال پچھلے چند سالوں میں خطرناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ 1980ء کے بعد تیزی کے ساتھ ہیروئن کی وباء پھیلی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ پریشان حال، نارمل، خوش باش اور ہر قسم کے لوگ نشہ کرتے ہیں۔ نشے کا آغاز عام طورپر تفریح، رواج یا ’’علاج‘‘ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ بے سکونی، نشے کا ماحول اور اس کی آسان دستیابی اس کو ہموار کرتے ہیں۔ لوگ نشے کا استعمال پھولوں کی طرح خوشی اور غمی دونوں موقعوں پر کرتے ہیں۔
جو لوگ نشہ کرتے ہیں انہی میں سے کچھ لوگ نشے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ نشے کی بیماری کیلئے جسم کی کیمسٹری میں ایک بنیادی نوعیت کی تبدیلی کا آنا ضروری ہے۔ تاہم اس تبدیلی کا تعلق موڈ یا مزاج سے نہیں۔ ایسا کب اور کیوں ہوتا ہے، اس کی حتمی وجہ ابھی معلوم نہیں ہو سکی۔
نشے کے مرض میں جسم زیادہ سے زیادہ نشہ طلب کرنا شروع کر دیتا ہے اور مریض یہ طلب ہر حالت میں پوری کرنے پر مجبورہوتا ہے۔ شوقیہ نشہ کرنے والے لوگ نشے کی مقدار، وقت اور جگہ پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ جبکہ نشے کا مریض یہ اختیار مکمل طور پر کھو دیتا ہے۔ مریض سمجھتا ہے کہ نشے میں کوئی نقص ہے، لہذٰا وہ مزید نشے کی جستجو میں رہتا ہے۔ ’’نقص‘‘ اصل میں مریض کے جسم میں ہوتا ہے جو ایک طرح سے شے سے ’’الرجک‘‘ ہو جاتا ہے۔
الرجی کا مطلب ہے غیر معمولی ردِ عمل۔ نشے کے معاملے میں جسم کا نارمل ردِ عمل یہ ہے کہ کوئی جتنا نشہ کرے اتنا اثر ہو۔ اگر کوئی شخص نشہ کرے اور اس پر اثر نہ ہواور وہ مزید نشے کیلئے تڑپتا رہے تو ہم کہیں گے کہ اس کے جسم نے نشے کو ضائع کرنا شروع کردیاہے۔ جسم کا یہ درِ عمل نارمل نہیں ہے۔ نشے کی بیماری کی بنیاد یہی ہے۔
جی ہاں! ان دونوں بیماریوں میں کافی مماثلت ہے۔ صحت مند آدمی چینی سے توانائی حاصل کرتا ہے جبکہ ذیابیطس کا مریض تکلیفیں! دراصل ذیابیطس کے مریض کے جسم میں چینی سے نمٹنے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ نشہ کرنے والا نشے کا مریض بنتا ہی تب ہے جب اس کے جسم میں نشے سے نمٹنے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ پھر نشہ اس پر ایسے اثر نہیں کرتاجیسے کیا کرتا تھا۔ جبکہ شوگر کا مریض ادویات اور پرہیز کی مدد سے نشاستے سے نباہ کرنا سیکھ لیتاہے۔ بحرحال یہ تو طے ہے کہ کوئی نشے کا مریض کسی طرح بھی نشے کے ساتھ نباہ کرنا نہیں سیکھ سکتا۔ دونوں امراض میں جسم میں آنے والی یہ تبدیلی مستقل نوعیت کی ہے۔
کوئی نشہ کرنے والا زندگی میں کسی بھی مرحلے پر آہستہ آہستہ یا ایک دم نشے کا مریض بن سکتا ہے اور اس بات کا پہلے سے تعین نہیں کیا جاسکتا کہ ایسا کب ہوگا؟ جب کسی کا جسم نشے کا اثر قبول کرنے سے پہلے ہی ضائع کرنے لگے تو یہ مرض کی ابتدا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ مریض چاہئے کتنا بھی نشہ کرے اور اس کی طلب پوری نہیں ہوتی۔ اب وہ جسم کی وجہ سے نشہ نہیں کرسکتا اور دماغ کی وجہ سے نشہ چھوڑ نہیں سکتا۔ نشے کی بیماری کے یہ دو پاٹ ہیں جن کے بیچوں بیچ مریض پستاہے۔ چونکہ مریض نہیں جانتا کہ اب وہ پہلے کی طرح کنٹرول کے ساتھ نشہ نہیں کرسکتا اس لئے وہ کوشش جاری رکھتا ہے۔
نشے کا آغاز زیادہ تر نشہ کرنے والوں کی صحبت میں ہوتا ہے۔ہاں!ان کی صحبت میں جانے کی وجوہات ان گنت ہوسکتی ہیں۔ یہیں نشے کی دعوت ملتی ہے جو اس لئے قبول کی جاتی ہے کہ نشہ ’’کام آتا‘‘ہے۔ پھر اس کا چسکا پڑجاتا ہے۔ ’’خرابی‘‘ کی اصل جڑوہ لوگ ہیں جو نشہ کرتے ہیں لیکن نشے کے مریض نہیں ۔ ان میں سے اکثر تو معاشرے کے کامیاب لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہی نئے لوگ بے دھڑک اس میدان میں کود پڑتے ہیں۔ نشے کے مریضوں کی منڈلی میں تو ایسا شخص جاتا ہی نہیں جو نشے سے آشنانہیں ہوتا۔
لوگ اپنی مخصوص’’ڈیمانڈ‘‘ کے مطابق ایک نشے کا آغاز کرتے ہیں۔ جب وہ نشہ بے اثر ہوجائے تو تیز سے تیز تر نشے کی تلاش میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایک سے زیادہ نشے ملا کر بھی کرتے ہیں۔
جب ہر قسم کے لوگ نشہ کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہر قسم کے لوگ نشے کے مریض بھی بنیں گے۔ دکھی ہونا ضروری نہیں۔ بحرحال، نشہ کرنے والوں میں سے ایک خاص تعداد ہی بیماری میں مبتلا ہوتی ہے۔ نشے کی بیماری کیلئے ضروری ہے کہ جسم نشہ ضائع کرے۔ ایسا کب اورکیوں ہوتا ہے، اس کی حتمی وجہ کوئی نہیں جانتا۔ تاہم ہیروئن ایک ایسا نشہ ہے جو کہ ہر ایک کو مریض بنا دیتا ہے۔ باقی نشے سب کو نشے کا مریض نہیں بناتے۔ ہاں! نشے بازی کی راہ ضرور ہموار کرتے ہیں۔
مریض وہ ہے جو بذات خود نشے سے رک نہ سکے اور اگر اسے روک دیا جائے تو ذہنی اذیت اور جسمانی تکلیفوں میں مبتلا ہو جائے۔ نشے کا مریض اُس بیمار انسان کو کہتے ہیں جو منشیات کے ساتھ نباہ کر نہیں سکتا۔ لیکن پھر بھی اُن کے استعمال سے باز نہیں آتا۔ وہ نشے سے سکھ نہیں پاتا لیکن اس آس پر نشہ جاری رکھتا ہے کہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح نشے کو پہلے کی طرح استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ وہ دکھ پاتا ہے۔ لیکن نشے سے اُس کی چاہت بڑھتی رہتی ہے۔
نشے کے مریض کی شخصیت تیزی سے گرتی ہوئی صحت کے باعث آسانی سے پہچانی جاتی ہے۔ اُسے فرائض کا ہوش رہتاہے نہ بودو باش کا، میل جول سے گریز اور گردو پیش سے لاعلمی ایک عادت بن جاتی ہے۔ بے وقت سونا اور جاگنا، جھوٹی قسمیں، جھوٹے وعدے، گپیں، ڈینگیں ایک نشے کے مریض کی خاص صفات ہیں۔ رشتوں کی بلیک میلنگ اُس کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ پریشان خیالی اور بے چینی، کبھی شعلہ کبھی شبنم، کبھی دھمکیاں، کبھی منتیں، یہ ہے ایک نشہ باز کی پہچان۔
جسم اور دماغ پر نشے کے مضر اثرات اُس وقت شروع ہوتے ہیں جب کوئی شخص نشے کا مریض بن جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اندھا دھند نشہ کرتا ہے۔ تمام نشے جسم اور دماغ پر زبردست تباہی مسلط کرتے ہیں۔ فرق صرف مدت کا ہے۔ جہاں چرس اور شراب سلو پوائزنگ کرتے ہیں وہاں ہیروئن تو دیکھتے ہی دیکھتے انسان کو سایہ بنا دیتی ہے۔ جسم اور دماغ پر نشے کے بعض اثرات وقتی ہوتے ہیں، لیکن نشہ جاری رہے تو مستقل نوعیت کی تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔
نہیں! نشے کی بیماری کی چند علامتیں ہیں جو کسی بھی نشے کے ساتھ ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اگر کوئی شخص روز بروز زیادہ نشہ کرنے لگے یا ایک ساتھ دو نشے کرنے لگے یا پہلا نشہ چھوڑ کر دوسرا نشہ کرنے لگے تو یہ نشے کی بیماری کی علامت ہے۔ اگر کوئی شخص ایک نشہ استعمال کرتے کرتے بیمار ہو جائے یعنی اُس کو نشے کی کثیر مقداروں سے بھی سکون نہ ملے تو پھر وہ دوسرا نشہ استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔ جسے ایک نشہ سکون دینا بند کر دے پھر ہر نشہ اُس کے ساتھ یہی کہانی دہراتا ہے۔
زیادہ تر ہیروئن کے مریض وہی ہیں جو پہلے چرس یا شراب کے مریض تھے۔ کچھ ہی مریض ہیروئن کا براہ راست استعمال شروع کرتے ہیں۔ نشے کی بیماری کا قانون ہے کہ ہیروئن کا عادی واپس شراب یا چرس پر نہیں آ سکتا۔ چونکہ ہمارے ملک میں ہیروئن سے تیز نشہ موجود نہیں، اس لئے تمام نشوں کے مریض سفر کرتے کرتے آخر کار ہیروئن پر آ کر ٹھہر جاتے ہیں حالانکہ شراب کا نشہ کرنے والوں میں صرف دس فیصد مریض بنتے ہیں۔ پھر بھی امریکہ میں کروڑوں شرابی ہیں۔
دنیامیں جتنے لوگ نشہ کرتے ہیں اتنی ہی نشہ کرنے کی وجوہات ہیں۔ چند خاص وجوہات گھریلو ناچاقی، جنسی کمزوری، ڈپریشن، عشق میں ناکامی، خرابی صحت، بیروزگاری، بوریت اور ٹینشن ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر کوئی شخص نشہ کر سکتا ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان حالات میں سبھی لوگ نشہ ضرور کریں گے۔بہت سے لوگوں کیلئے تو ایسے حالات نشے کی بیماری کے بعد پیدا ہوتے ہیں ۔
شراب سے حیا جاتی رہتی ہے اور بے حیائی کا مزہ ملتاہے۔ آخر کا رجگر چھلنی ملتا ہے۔ سستی اور نامردی ملتی ہے۔ چرس سے خیالات میں بے خیالی ملتی ہے اورپاگل پن ملتاہے۔ ہیروئن سے تو کچھ بھی نہیں ملتا صرف آٹھ پہر کی غلامی ملتی ہے۔ ابتدا میں شعلہ سا بھڑکتا ہے اور پھر بس دھواں سا اُٹھتا رہتا ہے۔ ہیروئن سارے کس بل نکال دیتی ہے۔ ابتدائی چند دن گزرنے کے بعد ہیروئن استعمال کرنے سے کوئی لذت، کوئی سرور اور کوئی ’’فائدہ ‘‘ محسوس نہیں ہوتا۔ نشہ باز مقدار بڑھاتا ہے لیکن نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔
چرس یا شراب سے ہیروئن پینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ پھر مریض ہیروئن پر آ کر ٹھہر جاتے ہیں۔ کیونکہ اس سے بڑا نشہ پاکستان میں ہے ہی نہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہیروئن نے ہر قسم کے نشہ بازوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر دس منٹ بعد کوئی نہ کوئی نشے کا مریض ہیروئن پر شفٹ ہو رہا ہے۔ ایک دفعہ ہیروئن کو اپنانے کے بعد کوئی بھی واپس پرانے نشے پر نہیں جا سکتا۔ ہیروئن کا استعمال کرنے والے سبھی لوگ یا تو پہلے ہی نشے کے مریض ہوتے ہیں یا جلد ہی مریض بن جاتے ہیں۔
ویسے تو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نشہ بہت بڑی لعنت ہے۔۔۔۔۔ لیکن دنیا میں نشے کا فائدہ مند استعمال بھی ہو رہا ہے۔ سرجیکل آپریشنز، زچگی، کینسر اور دیگر جسمانی تکلیفوں میں نشے کا استعمال ایک نعمت ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں اب اگر مریضوں میں مارفین کا استعمال نہیں کیا جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نعم البدل ادویات انہوں نے خود تیار کر لی ہیں تاکہ ان کا ذرمبادلہ پاکستان میں نہ آئے۔ ہماری سادگی دیکھیئے طبی استعمال کیلئے مارفین چھوڑ کر ان کی ادویات استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح تمام مارفین کو نشے کے مریضوں کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔
نشے سکون یا تحریک دیتے ہیں یا پھر درد ختم کرنے اور خیالات کو بدلنے کے کام آتے ہیں۔ ہر نشہ ان میں سے ایک یا ایک سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ شراب کی خاص خوبی سکون دینا ہے جبکہ کوکین تحریک دینے اور ہیروئن درد ختم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ چرس خیالات اور نظریات بدل دیتی ہے۔ نشے کی بیماری میں یہ خصوصیات زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔ پھر نشہ مریض کیلئے ایک دردِ سر بن جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر نشے کی ’’وجہ شہرت‘‘ ایک خاص اثر ہے لیکن دوسری ’’خوبیاں‘‘ بھی ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ نشے کی خوبیاں نشے کے مریضوں کے نصیبوں میں نہ لکھیں۔
آپ اس شخص کا تصور کر سکتے ہیں جو شدید لعن طعن کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی دیوالیہ ہو چکا ہو۔ پہلا مرحلہ اپنا اثاثہ بیچ کھانے کا ہوتا ہے۔ دوسرا ادھار کا اور تیرا چوری و ہیرا پھیری کا۔ اس کے ساتھ صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور سوکھ کر کانٹا ہو جاتا ہے۔ نیز کیف و سرور کا احساس بھی کھو جاتا ہے اور محض تکلیفوں سے بچنے کیلئے وہ نشہ جاری رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ مریض مکمل تباہی سے پہلے اپنے آپ کو بیمار نہیں مانتا، اس لئے علاج پر مائل نہیں ہوتا بلکہ علاج کو رد کرتا ہے۔
جب تک ہم نشے کو بیماری نہ سمجھ لیں ہم مریض کو صحیح مدد فراہم نہیں کر سکتے۔ والدین علاج سے پہلے کئی حربے استعمال کرتے ہیں۔ جن میں وعدے لینا، قسمیں دینا، طعن و تشنیع کرنا، نگرانی اور مارپیٹ رسیوں سے جکڑنا وغیرہ شامل ہیں لیکن اس طرح مریض کو نشے سے دور رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ مریض کو کاروبار اور گھر سے بے دخل کرنے، عاق کرنے یا جیل بجھوا دینے سے بھی معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ ویسے تو مریض پر الزام تراشی کرنے اوربھڑاس نکالنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ گو نشے کا آغاز مریض کی بہت بڑی خطا تھی۔ لیکن اب وہ محض بیمار ہے۔ اس بیماری سے وہ معقول علاج کے بغیر نہیں نکل سکتا۔
ویسے تو ہر بیماری میں خاندان کی ’’سانجھ‘‘ ہوتی ہے لیکن نشے کی بیماری میں اہل خانہ کی تکلیف کسی طرح بھی مریض سے کم نہیں ہوتی۔ اہل خانہ میں سے چند افراد اس بری طرح متاثر ہوتے ہیں کہ انہیں باقاعدہ مریض سے ہٹ کر الگ سے مکمل علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان افراد کو ’’ہم روگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ نشے کی بیماری کے اصل شکار تو یہی لوگ ہوتے ہیں۔
جنگ اور محبت کی طرح نشے میں بھی مریض اپنی ہر حرکت کو جائز سمجھتا ہے۔ نشے کی خاطر وہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتا ہے۔ صدمے سے اہل حانہ کا برا حال ہوتا ہے۔ وہ دنیا سے میل ملاپ چھوڑ دیتے ہیں۔ مریض انہیں مسلسل اپنی بیماری کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ مریض کی تکرار سے انہیں اپنے قصور وار ہونے کا شک ہونے لگتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم مریض کو نشے سے نہیں بچا سکے تو ہم ناکام لوگ ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ نشے کی بیماری کی حتمی ذمہ داری مریض پر ہی عائد ہوتی ہے کیونکہ نشہ اس نے خود ہی شروع کیا تھا۔ آپ نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ اس بیماری میں مبتلا ہوا ہو لیکن اگر آپ چاہیں تو اسے نشے سے نجات دلانے میں بھرپور کردار انجام دے سکتے ہیں۔
علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ نشے کے مریض کی خود فریبی ہے۔ یہ اتنی بڑی رکاوٹ ہے کہ بعض اوقات نشے کی بیماری کو خود فریبی کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خود فریبی مریض کو اپنے اصل حالات پر نظر ڈالنے کی اجازت نہیں دیتی۔ خود فریبی کی ایک ہلکی پھلکی شکل ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ نشے کے مریضوں میں خود فریبی حد سے بڑھ جاتی ہے۔ نشہ مریض کی شخصیت کو مسخ کرتا ہے اور اس قدر قلابازیاں لگواتا ہے کہ وہ ہوش و خرد سے دور ایک ڈراؤنے خواب کی طرح نظر آنے لگتا ہے اور باوجود تباہی کے دہانے پر کھڑا ہونے کے اس کا اطمینان قابل دید ہوتا ہے۔ روم جل رہا ہوتا ہے لیکن نیرو بیٹھا چین کی بنسی بجا رہا ہوتا ہے۔ یہ خود فریبی کی انتہا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ مریض جھوٹ بول رہا ہے حالانکہ مریض کو واقعی اپنے حالات کا شعور نہیں ہوتا۔
نشے کے مریض کے علاوہ دنیا کا ہر مریض علاج مانگتا ہے۔ علاج رد کرنے کی وجہ خود فریبی کے علاوہ یہ ہے کہ وہ اپنی ’’دوائی‘‘ جیب میں لیئے پھرتا ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ وہ اپنے علاج کو ٹال سکتا ہے۔ مریض کی خود فریبی کا سامنا تو دوران علاج کرنا پڑتا ہے، علاج کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ والدین کی لاعلمی ہے۔ اس سے علاج میں سالوں کی تاخیر ہو جاتی ہے۔ گھر میں نشے کے مریض سمیت سبھی اذیت سے گزر رہے ہوتے ہیں لیکن اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ معاملہ زیادہ سنجیدہ نہیں ہے اور آہستہ آہستہ خود ہی حالات درست ہو جائیں گے۔ جب ہم نشے کی بیماری کے بارے میں کچھ نہیں کرتے تو وہ بڑھتی ہی رہتی ہے۔ حقائق جان لینے پر اہل خانہ مثبت قدم اٹھانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی خود فریبی کی ایک شکل ہے۔ اپنے بچے کے بارے میں ایسا سوچتے ہوئے اذیت ہوتی ہے اس لئے ہم ایسا سوچنے سے کتراتے ہیں۔ لوگ ہمیں بتاتے ہیں ، بچہ سگنل دیتا ہے لیکن ہم وصول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں جو تیس لاکھ نشے کے مریض ہیں وہ ہمارے ہی بچے ہیں۔ محض نشہ کرنے والوں کی تعداد ان سے کئی گنا ہے۔ ہر تیرھویں گھر میں نشے کا مریض ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر شخص کا کوئی نہ کوئی فرسٹ کزن نشے کی بیماری میں مبتلا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارا بچہ نشہ کرے لیکن چیک کئے بغیر مطمئن نہ ہوں۔
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ نشہ کے مریض صرف علاج سے نشہ چھوڑتے ہیں۔ جو لوگ نشہ کرتے ہیں لیکن نشے کے مریض نہیں، ممکن ہے شادی کی رنگینی میں گم ہو کر نشے چھوڑ دیں لیکن نشے کے مریض سے یہ توقع رکھنا زیادتی ہو گی۔ روائتی طور پر بگڑے ہوئے نوجوانوں کی اس امید پر شادی کر دی جاتی تھی کہ شاید سدھر جائیں اور بری سوسائٹی چھوڑ دیں۔ سیکس میں نوجوانوں کی دلچسپی کے باعث اکثر یہ ’’ٹوٹکا‘‘ کامیاب بھی رہتا تھا اسی لئے اس کا استعمال جاری ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نشے کا مریض کسی بھی لحاظ سے شادی کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ سراسر ظلم ہے۔
مریض بیرونی وجوہات سے نشے کی کثیر مقداریں استعمال نہیں کرتا۔ دراصل مریض کا جسم نشے کو تیزی سے ضائع کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس طرح جو نشہ ضائع ہوتا ہے مریض وہ کمی پوری کرنے میں جت جاتا ہے۔ پھر مقدار کے ساتھ ساتھ بیماری اور بربادی بڑھتی رہتی ہے۔
مکمل بربادی سے پہلے مریض علاج کیلئے رجوع نہیں کرتا۔ نشہ اسے حالات کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ہونے دیتا۔ دوسری طرف جب تک مناسب علاج نہیں ہو گا نشے کی بیماری بڑھتی رہے گی۔ نشے کی بیماری میں قدم قدم پر جان لیوا حادثات ہوتے ہیں اس لئے انتظار کی بجائے فوری علاج ضروری ہے۔
نشے کی بیماری میں مریض سے ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں جنہیں اخلاقی پیمانے پر گھٹیا اور مجرمانہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ نشے کی بیماری کی علامات ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے کہ دوسری بیماریوں میں قے یا بخار وغیرہ۔
مریض کی خودفریبی، مزاج کا اتار چڑھاؤ، روئیے میں پل پل آنے والی تبدیلیاں، جھوٹ، دھوکا، بھلکڑپن اور فرائض سے لاپرواہی بھی اس بیماری کی چند علامتیں ہیں۔
محض سزا یا جزا، بےجانکتہ چینی یا بے جا تعریف سے مریض میں کوئی دیر پا تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ آنسوؤں اور طیش کا طریقہ بھی کبھی کامیاب ثابت نہیں ہوا۔
کسی مریض کو اچانک اور بلاوجہ نشہ چھوڑنے کا خیال نہیں آتا۔ جب بحرانوں کی آنچ مریض تک پہنچے تب ہی مریض نشہ چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اہل خانہ فطری محبت کے باعث بحرانوں کی آنچ مریض تک پہنچنے نہیں دیتے۔ نشے کا مزہ بدستور اس تک پہنچتا رہتا ہے۔ اسی لئے وہ نشہ ترک کرنے کا فیصلہ نہیں کر پاتا۔
یہ خیال غلط ہے کہ مریض نہ چاہے تو اہل خانہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ طے ہے کہ اہل خانہ نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے وہ اس بیماری میں مبتلا ہوا ہو لیکن وہ ایسا بہت کچھ کر سکتے ہیں جس سے وہ اس بیماری سے نکل آئے۔
جس طرح کسی بھی مہک بیماری میں مبتلا شخص کو مرنے کیلئے بے سہارا چھوڑ دینا غیراخلاقی رویہ ہے اسی طرح نشے کے مریض کو بھی زندگی کی بازی ہارنے کیلئے تنہا چھوڑ دینا ظلم ہو گا۔
نشے کی بیماری کا معقول علاج موجود ہے۔ چونکہ پاکستا ن میں یہ بیماری ’’نئی نئی‘‘ آئی ہے اس لئے اس کا معقول علاج ابھی عام نہیں ملتا، تلاش کرنا پڑتا ہے۔ معیاری علاج کے بعد مریض خوش و خرم اور بامقصد زندگی گزار سکتا ہے۔ ایسا کرنے کیلئے مریض کو نشہ کے بغیر خوش و خرم رہنے کی تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ نشے کی بیماری کا جدید علاج امریکہ میں دریافت ہوا اور وہیں سے دنیا میں پھیل رہا ہے۔ صداقت کلینک میں یہی علاج رائج ہے۔
اہل خانہ اپنے خاص جذباتی رشتے کی وجہ سے مریض سے خصوصی رعایت اور نرمی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر نشہ چھوڑ دے۔ اہل خانہ کی مہربانیوں سے ایسے حالات بالکل نارمل نظر آتے ہیں لہذا وہ نشہ جاری رکھتا ہے۔ یہ صورت حال ’’معاونت‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’معاونت‘‘ کرنے والے نہیں جانتے وہ لاشعوری طور پر مریض کی نشہ کرنے میں مد د کر رہے ہیں۔ یاد رکھیئے کہ مندرجہ ذیل رویے’’ معاونت ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔
مریض کی جگہ اس کی ذمہ داریاں نبھانا، لوگوں کے سامنے بہانے کرنا، اس کی بیماریوں کو راز بنانا اور ایسے موقعوں پر مریض سے دور رہنا جب نشے کے استعمال کی وجہ سے اسے شرمندگی کا سامنا ہو۔
مریض کو نشے کیلئے رقمیں فراہم کرنا، اس کے کئے ہوئے نقصانات بھرنا، اس کے قرض چکانا، غیر قانونی حرکات کرنے ہوئے جب مریض پکڑا جائے تو اسے فوری طور پر رہائی دلانا۔
* مریض کو نشہ کرنے کے جواز تسلیم کرنا اور اس کے نشے کا الزام دوسرے لوگوں یا حالات پر دینا۔ جب مریض نشے میں دھت ہو تو اس کی حفاظت کی خاطر چوکیدارا کرنا۔ جب ’’معاونت‘‘ سے حالات اور بگڑ جاتے ہیں تو اکثر اہل خانہ ’’اشتعال‘‘ میں آ کر ’’سختیاں‘‘ کرنے لگتے ہیں۔
تقریباً ہر مریض کے ساتھ آخر کا رسختی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ جیسے بھی نشے کے مریض کے ساتھ رہنا پڑے اس کا اشتعال میں آنا لازم ہے۔ مریض پر سختیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ نشہ ترک کر دے لیکن نتیجہ میں وہ نہ صرف زیادہ نشہ کرنے لگتا ہے بلکہ اپنے آپ کو حق بجانب بھی تصور کرنے لگتا ہے۔ سختی کے رویوں میں لعن طعن، مارپیٹ، رسیوں سے جکڑنا، کاروبار سے بے دخلی، عاق کرنا یا جیل بجھوانا وغیرہ شامل ہیں۔ ان سے معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔
اہل خانہ کے ایسے رویے جن کے نتیجہ میں مریض نشہ ترک کرنے اور علاج کیلئے رجوع کرنے پر آمادہ ہوا، اصلاحی رویے کہلاتے ہیں۔ اصلاحی رویوں میں ہم مریض کو حدود کا پابند کرتے ہیں۔ اصلاحی رویے بظاہر مشکل اور عجیب نظر آتے ہیں لیکن جب معاونت اور اشتعال انگیزی سے حالات بگڑ جاتے ہیں تو ان کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
* اصلاحی رویے غم و غصے اور مار پٹائی سے پاک ہوتے ہیں۔ غم و غصے سے نجات کیلئے نشے کی بیماری کو حقیقی طور پر بیماری تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اصلاحی رویوں میں ہم مریض پر اس کے عمل (نشہ) اور اس کے نتیجے (بربادی) کے درمیان گہرا تعلق ثابت کرتے ہیں۔ جب تک نشے کی بیماری پر آپ کا علم کافی نہ ہو مریض سے بحث و مباحثہ نہ کریں ایسا کرنے سے محض لڑائی جھگڑا بڑھے گا۔
* اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ صحت مند لوگ بھی اپنا قصور آسانی سے نہیں مانتے دوسرے پر الزام دیتے ہیں اور خود فریبی کے ذریعے اپنے دل کو بہلاتے ہیں۔ نشے کا مریض تو ان باتوں میں چیمپیئن ہوتا ہے۔ مریض سے تبادلہ خیال آسان نہیں ہوتا۔ اگر ہم اس کی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں تربیت کی ضرورت ہو گی۔
* مریض سے وعدے نہ لیں وعدے اس مریض کا علاج نہیں۔ علاج کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ ہفتہ دس دن کسی علاج گاہ میں رہنے سے مریض صحت مند ہو جاتا ہے اور لواحقین ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ ایسا قطعی غلط ہے۔ اصل علاج مریض کی بیمار سوچوں کو بدلنا ہے۔ نشے کا جدید علاج امریکہ کی ریاست ’’مانا سوٹا‘‘ سے دنیا میں پھیلا ہے۔
* علاج کے بعد مریض کا چوکیدارا کرنے کی بجائے اسے علاج کے تقاضے پورے کرنے کیلئے کہیں۔ علاج کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ مریض ’’این اے‘‘ کی محفل میں روزانہ شرکت کرے۔ یہ ان لوگوں کی محفل ہوتی ہے جو نشہ چھوڑ کر خوشحال زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ علاج کے بعد مریض کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ’’فالواپ‘‘ پروگرام میں شرکت کرے۔
* مریض کے نشے کی مقدار کو کنٹرول کرنا چھوڑ دیں۔ نشے کی مقدار تو خود مریض بھی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ ہاں! وہ نشہ مکمل چھوڑ سکتا ہے۔ مقدار کنٹرول کرنا کوئی علاج نہیں، محض چور سپاہی کا کھیل ہے۔
* مریض کو پھوکی دھمکیاں نہ دیں۔ جو کہیں اس پر عمل کر کے بھی دکھائیں اور جس پر عمل نہیں کرنا وہ نہ کہیں۔ مریض کے حالات دوسرے اہل خانہ تک پہنچائیں۔ بیماری کو راز نہ بنائیں۔ مریض کی ’’ تقسیم کرو اور نشہ کرو‘‘ کی پالیسی ناکام بنائیں۔ مریض کے تنہا تنہا معاملات طے کرنے کی بجائے تمام اہل خانہ مل کرقد م اٹھائیں۔ مریض کو موقع فراہم نہ کریں کہ وہ آپ کو نقصان پہنچائے۔
* مریض کے ان جوازات کو تسلیم نہ کریں کہ وہ حالات یا آپ کی وجہ سے نشہ کرتا ہے۔ نشے کی جو مقداریں مریض استعمال کرتے ہیں ان کی وجوہات بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہوتی ہیں۔ جب کسی نشہ کرنے والے کو نشے کی بیماری ہو جاتی ہے تب نشہ کرنے کیلئے اسے وجوہات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے بس زیادہ سے زیادہ نشے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کا جسم نشے کو ضائع کرتا ہے۔
* ہر وقت مریض کے پیچھے نہ پڑے رہیں۔ طیش اور آنسو صرف صحت خراب کرنے کا نسخہ ہیں۔ آپ کے اذیت لینے سے مریض کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ خالی برتن سے کسی کو کچھ نہیں دیا جا سکتا۔ دنیا داری، کاروبار اور زندگی کی گاڑی کو چلتا رکھیں۔
* ان والدین سے میل جول بڑھائیں جو نشے کی بیماری سے نمٹ رہے ہیں۔ مسائل ایک جیسے ہوں تو مل بیٹھنے سے کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلتا ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں والدین نے ’’نار انان‘‘ (NAR-ANON) کے نام سے انجمنیں بنا رکھی ہیں جو مریضوں کی بحالی میں بہت مددگار ثابت ہوئی ہیں۔
* مریض کے حاصل کئے ہوئے قرضے ادا نہ کریں ۔ اس کے فرائض اپنے ذمہ نہ لیں۔ کاروبار اور خوشی غمی سے اس کی غیر حاضری پر بہانے نہ بنائیں۔ وہ نشے میں دھت ہو تو اس کی حفاظت کیلئے چوکیدارا نہ کریں۔ اس کی خاطر جھوٹ بولنے یا اپنی اخلاقی اقدار قربان کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ نشہ کرتے ہوئے پکڑا جائے تو ناجائز مدد نہ کریں۔ مریض کو اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے دیں۔ بحران مریض کی اس خود فریبی کو توڑتا ہے۔
* خود اسے کوئی تکلیف نہ دیں لیکن جو تکلیفیں نشے کے باعث اس کی طرف بڑھیں ان کو اپنی جان پر نہ لیں۔ اگر نشے کا مزہ اسے پہنچے اور تکلیفیں آپ کو، تو وہ نشہ کیوں چھوڑے؟ صرف مریض ہی وہ واحد شخص ہے جو ان تکلیفوں سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔ جب آپ اس کے ذہن میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہم نہیں بلکہ نشہ تمہاری تکلیفوں کا باعث ہے تو پھروہ ہم سے نہیں نشے سے نفرت کرے گا۔
مریض یا اہل خانہ کافی کوششیں پہلے ہی کر چکے ہوتے ہیں۔ کبھی تھوڑے وقت کیلئے کامیابی بھی مل جاتی ہے اور کبھی پہلے ہی دن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ نشہ نہ کرنے کے وقفے دنوں پر محیط ہوں یا ہفتوں پر، یہ تو طے ہے کہ علاج کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ نشہ چھوڑ دینے کے بعد بھی بیماری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کا دوسرا پہلو متحرک ہو جاتا ہے۔ نشہ چھوڑتے ہی یہ بیماری بے چینی، رنج اور غصے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ صورت حال بہتر ہونے سے پہلے بدتر ہوتی ہے۔ ان تکلیفوں کی شدت تو چند دن میں کم ہو جاتی ہے لیکن طبیعت سلگتی رہتی ہے۔ مریض علاج میں اس بدمزاجی سے نمٹنے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔
نشے کے مریض کیلئے بحالی کا سفر تنہا طے کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایک ہمدرد معالج کے علاوہ بحالی کیلئے ایسے سازگار ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس میں اور لوگ بھی انہی مراحل سے گزر رہے ہوں۔ علاج کے بعد مریض کو این اے کی محفلوں میں شرکت کرنا ہوتی ہے۔ این اے کی محفلوں میں وہ آتے ہیں جو نشہ چھوڑے ہوتے ہیں۔ وہ نئے مریضوں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں۔ ان محفلوں میں مریض کو تجربہ کار لوگوں سے راہنمائی ملتی ہے۔ انہی میں مریض کسی کو اپنا راہ نما چن سکتا ہے۔
علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری سو فیصد جان لیوا ہے۔ بیماری کے علاوہ نشے کی حالت میں ہونے والے حادثات سے بھی زندگی خطرے میں رہتی ہے۔ کبھی مریض گھبرا کر خودکشی کے بارے میں سوچتا ہے اور کبھی ایسا کر گزرتا ہے۔ یاد رہے کہ ہم محض ایک بری عادت کے بارے میں نہیں بلکہ زندگی یا موت کے مسئلے پر بات کر رہے ہیں۔ کسی مہلک بیماری میں مبتلا شخص کو صرف اس لئے بے سہاراچھوڑ دینا ظلم ہو گا کہ وہ علاج پر آمادہ نہیں۔ علاج کیلئے کسی کا بیمار ہونا ہی کافی ہے اوراس کے بیمار ہونے میں کیا شک ہے؟