کامیاب رہنماؤں میں ایک خصوصیت یہ پائی جاتی ہے کہ وہ چاہے جس بھی سطح پر کام کیوں نہ کریں، اپنے جذبات کو منظم اور قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زندگی میں اگر کچھ پوری طرح سے ہمارے قابو میں ہے تو وہ ہمارے خیالات، احساسات اور طرز عمل ہیں۔ اگر ہم ان عوامل کو اپنے اثر ورسوخ کے دائرے میں رکھ سکتے ہیں تو پھر ہم تنظیمی ڈھانچے میں کہیں سے بھی اپنی تنظیم کی قیادت کر سکتے ہیں۔ رہنما ایسی جذباتی انٹیلی جنس سائنس کے عقائد اور اپنے احساسات کو سمجھنےسے حاصل کرتے ہیں۔
اگر ہم یہ جانتے ہوں کہ ہمارا ذہن کس طرح سے کام کرتا ہے تو ہم اپنے سوچنے کے طریقہ کو موثر بنا سکتے ہیں۔ ہم واضح طور پر حقیقت کا اندازہ کر سکتے ہیں، بہتر فیصلے کر سکتے ہیں اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت میں بھی بہتری لا سکتے ہیں۔ بالآخر ہم اس عمل کے ذریعے اپنی زندگی کے معیار کو بھی بلند کر سکتے ہیں۔
تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ہمارے اندر سوچنے کے دو نظام موجود ہیں۔ ان کو خودکار اور ارادی نظام کہا جاتا ہے۔ خودکار نظام ہمارے جذبات اور وجدان کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ نظام ہمارے دماغ کے امیگڈلہ اور ان دیگر حصوں کی بدولت کام کرتا ہے جو ارتقاء کے ابتدائی عمل میں تیار ہوئے تھے . یہ نظام ہمارے روز مرہ کی عادتوں، اچانک فیصلے لینے کی صلاحیت اور خطرناک زندگی موت کے حالات میں فوری طور پر ردعمل دکھانے سے تعلق رکھتا ہے۔ گو کہ لڑائی یا پرواز کرنے کا عمل ہمیں ماضی میں مدد کرتا آیا ہے، پر جدید زندگی میں اس کی اتنی ضرورت نہیں نظر آتی۔
ہم روزانہ بہت سی پریشانیوں اور کشیدگیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کو تو خطرے میں نہیں ڈالتی پر ہمارا خودکار نظام انہیں بھی بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور ہمیں غیر معمولی دباؤ کا شکار کر دیتا ہے۔ ارادی نظام سوچ بوجھ کا ایک مفید طریقہ کار اپناتا ہے۔ یہ ہماری منطقی سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور دماغ کے پری۔فرنٹل کارٹیکس سے تعلق رکھتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق یہ ہمارے دماغ کا وہ حصہ ہے جو تب تخلیق ہونا شروع ہوا جب انسانوں نے سماجی گروہوں کی صورت میں گزر بسر کرنا سیکھا۔ یہ سوچ کا نظام ہمیں زیادہ پیچیدہ دماغی سرگرمیاں انجام دینے میں مدد کرتا ہے۔ جس طرح انفرادی اور گروپ رشتوں کو مضبوط بنانا اور نئی معلومات کی روشنی میں منفرد سوچ اور رویے اپنانا، جہاں خودکار نظام کو حرکت میں رہنے کے لیے کسی شعوری کوشش کی ضرورت نہیں، وہاں ارادی نظام کو چالو کرنے کے لیے دانستہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے۔ مگر کوشش اور محنت کے ذریعے ہم اپنے ارادی نظام کو ایسے صورتحال میں چالو کر سکتےہیں جہاں ہمارا خودکار نظام ہمیں مشکل میں گھیر دیتا ہے۔
ہمارا خودکار نظام کہیں گنا زیادہ طاقتور اور غالب ہوتا ہے۔ ہمارے جذبات اکثر منطقی سوچ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ہماری زندگی کا ایک بڑا حصہ ہماری اپنی عادات پر مشتمل ہوتا ہے، جو کہ خودکار نظام کے تحت چلتا ہے۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ ہر کارروائی اور فیصلے کے بارے میں سوچتے رہنا بھی ہمیں ذہنی تھکاوٹ کا شکار کار دیتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارا ارادی نظام ہمیں ایسی سمت میں لے کر جاتا ہے جو ہمارے اصل مقاصد سے ملتا ہو۔ ہم اس نظام کی مدد سے اپنی خودکار سوچ، جذبات اور رویوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اچھے رہنما بھی ہوں اپنی جذباتی انٹیلی جنس کو نکھارتے رہتے ہیں اور۔ ارادی نظام پر زیادہ انحصار کرتے ہیں