جب بھی انسانوں کے درمیان تنازعات پیدا ہوتے ہیں تو وہ عموماً ایک میٹنگ میں حل نہیں ہوتے. اس کے لیے کم از کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ اکیس میٹنگز درکار ہوتی ہیں. ہمیں کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اگر ہمیں ایک مسئلہ ہے تو ہم دوسرا مسئلہ پیدا نا کریں. لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ بندہ سوچتا ہے کہ وہ کوئی مسئلہ پیدا کرے گا تو ہی وہ مسئلہ حل ہوگا. اور پھر اسطرح دوسرا مسئلہ‘ اصل مسئلہ‘ یعنی اہم نوعیت کا مسئلہ بن جاتا ہے اور جو اصل مسئلہ تھا وہ مسئلہ نمبر 2 بن جاتا ہے۔
اور یہ نوبت اِسلیے آ پہنچتی ہے کہ ایک تو ہم ہمت سے کام نہیں لیتے اور بات نہیں کرتے. ہم پہلے ہی جزباتی طور پر بہت تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور ہم مزید موڈ خراب ہونے کو دعوت نہیں دے سکتے. دوسری کار آمد چیز جس کو ہم بھول جاتے ہیں وہ احساس ہے. یعنی جس مسئلے کو ہم بہت غصے میں ڈِسکس کرتے ہیں تو پھر لازم ہے کہ ہم اِسکو پیار محبت کے ماحول میں بھی ڈِسکس کریں. جیسے منطقی اعتبار سے جس مسئلے کو ہم پیار سے ڈسکس نہیں کرسکتے تو پھر ہمیں اسکو غصے سے بھی بالکل ڈِسکس نہیں کرنا چاہیے۔
انسان کو بات چیت کرنا آنی چاہیے. آپ کو بولنا آتا ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ بات چیت کرسکتے ہیں دنیا میں جتنے لوگ بھی عزت دار ہیں، اعلی مقامات پر ہیں تو آپ ان میں ایک چیز ضرور دیکھیں گے کہ اْنہیں بات چیت اچھی کرنی آتی ہے. انسان مسائل کو حل کرنے کے لیے خود غرضی سے بھی کام لیتے ہیں، کہ میرا مسئلہ حل ہو جائے اور باقی سب جو مرضی کریں چاہے، مجھے پرواہ نہیں ہے. لیکن ہمیں مؤثر شخصیات کی عادت وِن وِن اپنانی چاہیے۔
وِن-وِن عادت یہ ہے کہ میں بھی جیت جاؤں اور آپ بھی جیت جائیں۔
وِن-لوز یہ ہے کہ میں تو جیت جاؤں اور آپ ہار جائیں اور اپنے ذہن میں رنج کی پرورش کرتے جائیں۔
لوز-وِن یہ ہے کہ میں کہوں اچھا چلو میں ہار جاتا ہوں آپ جیت جائیں۔
ان سب میں سے وِن وِن ہی ایک مکمل اور بہترین عادت محسوس ہو رہی ہے جس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہے۔
ایک بہت اہم سوال جو ہر ایک کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کیا ایک مسئلہ سُلجھانے کے لیے دوسرا مسئلہ کھڑا کرنا ضروری ہے؟
جس کا جواب بظاہری طور پر تو بلکل نہیں ہے لیکن اس کو ہم منطقی اعتبار سے ثابت کرتے ہیں۔
انسانوں کے درمیان جب بھی تنازعات ہوتے ہیں تو وہ بات چیت کر کے حل کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ وہ بات چیت کر سکتے ہیں. اور جب بھی فیملی ممبرز کے درمیان تنازعہ ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ اس کو اسی دن حل کر لیا جائے ورنہ پیچیدگی بڑھتی چلی جاتی ہے، یا کم از کم ایک نیند کے بعد حل کرلیں اور کوشش کریں کہ میٹنگ 45 منٹ کی ہو. کیونکہ اگر 45 منٹ کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہوا تو اسکو اگلی میٹنگ کے لیے چھوڑ دیں کیونکہ وہ اْس دن اب حل نہیں ہوگا بلکہ مزید بِگڑ سکتا ہے۔
انسانوں کے درمیان تعلقات کا اتار چڑھاؤ تو دیکھنے میں آتا ہے، اور بعض اوقات تو کوئی وجہ ہی نہیں ہوتی کہ تعلقات خراب ہوں. لیکن مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر بھی انسان اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، اور چھوٹی چھوٹی کوفتیں اکٹھی ہو کر لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچا دیتی ہیں. کیونکہ انسان جس چیز سے لُطف اندوز ہوتا ہے اور اگر وہ چیز بھی مسلسل ملتی رہے تو بوریت ہونا شروع ہو جاتی ہے. مثال کے طور پر اگر کسی کو مٹن کھانا بہت پسند ہے اور وہ روزانہ مٹن کھانا شروع کر دے تو وہ اْسے بدمزہ لگنا شروع ہو جائے گا اور اْسکا دِل دال کھانے کو کرے گا۔
اگر اولاد اپنے والدین کی خواہشات کا خیال رکھیں اور اْنہیں عزت دیں تو کبھی مسئلے خراب نہیں ہوں گے، اسی طرح اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت کریں اور ایک دوسرے کی خواہشات کا خیال رکھیں تو زندگی کافی پُرسکون ہوتی ہے اور تنازعات کم ہوتے ہیں. لیکن اس کے برعکس صدیوں پْرانے زمانے میں چونکہ چیزیں کم ہوتی تھیں اور اسکی وجہ سے فسادات زیادہ پیدا ہوتے تھے کہ اس کو کون حاصل کرے گا۔
بعض اوقات ہمارے ذہنوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر ہم کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی دھڑکہ پیدا کریں گے تو وہ حل ہوجائے گا، جیسے کہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اگر کوئی دھرنا وغیرہ دیں گے تو وہ حل ہو جائے گا، یا بھوک ہڑتال کر کے مسئلہ حل کرنا، گھر سے جانے کی دھمکی دے کر مسئلہ حل کرنا، بیگم میکے جانے کی بات کرے تو اس سے بھی اسکی مراد مسئلہ حل کرنا ہوتی ہے، اور بعض اوقات ایسے طریقوں سے مسئلہ حل ہو بھی جاتا ہے لیکن اس کے آگے نتائج کوئی خاصے اچھے نہیں نکلتے. انسان کا دماغ چونکہ بڑا دِلچسپ اور بہت تیز ہے تو مسئلے کا حل نکالنا اسکے لیے بڑا اہم ہے. اب حل براہِ راست بھی نکالے جا سکتے ہیں یعنی مسئلہ پیدا کیے بغیر حل نکالنا جیسے ایجادات کی جاتی ہیں، تو یہ حل ہوتے ہیں اور یہ براہ راست طریقوں سے نکالے جاتے ہیں. کچھ لوگ مسئلہ پسماندہ طریقے سے حل کرتے ہیں کہ جس سے مسئلہ حل کروانا ہے اسکے لیے کوئی مسئلہ کھڑا کر دیا، جیسے پرانے زمانے میں جب شہزادیوں نے اپنے والد سے کوئی بات منگوانی ہوتی تھی تو وہ اٹوانٹی کھٹوانٹی میں پڑ جاتی تھیں یعنی ٹوٹی پھوٹی چارپائی پہ سو جانا، یا کھانا پینا چھوڑ دینا، ٹھیک اسی طرح جیسے آج کل کے بچے شیو بڑھا لیتے ہیں اور ایک آدھ دن کھانا نہیں کھائیں گے، کمرے میں اپنے آپ کو بند کر لیں گے، چہرے پر ایسے پر تھکن تاثرات لے آئیں گے اور کسی کی آہٹ سُن کر اور زیادہ بیچین ہوجائیں گے۔
اگر کبھی آپ کے ساتھ اسطرح کا کوئی سانحہ ہو کہ آپ سے‘ گن پوائنٹ پہ کچھ چھین لیں تو آپ بہت پریشان ہو جائیں گے پھر یہ بات آڑے نہیں آئے گی کہ آپ چاہے کتنے بھی صاحب حیثیت ہوں، آپ پہلے 40 دن پریشان رہتے ہیں اور آپکو اِس غم سے نکلنے کی لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے. اسکی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ آپ کے پرس میں بہت پیسے تھے یا آپکا موبائل بہت مہنگا تھا بلکہ اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی دھونس دھاندلی سے آپ سے آپکی ہی چیز لیتا ہے تو آپکا دل چھلنی ہوجاتا ہے اور آپ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے۔
زندگی میں مسئلے اور تنازعات آتے جاتے رہتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم بھرپور تیاری کر رکھیں تاکہ ان سے نمٹنے میں آسانی ہو. جیسے کہ ہم اعصابی طور پر مضبوط رہیں، سٹریس مینیجمنٹ کو بہتر بنائیں اور ایسی عادات اپنائیں جو کہ با اثر شخصیات کی عادات ہیں۔
ہم ہر کام کی تیاری پہلے سے شروع کر دیں تاکہ وقت پہ کوئی افراتفری کا عالم نا ہو۔
کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ہم اسکا نتیجہ سوچ لیں تا کہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ یہ کام ہمیں کس طرف لے کہ جائے گا۔
ہمیں چاہیے کہ زندگی میں ہر کام کی ایک ترتیب رکھیں اور اہم اور ضروری کاموں کو پہلے کرنے کی کوشش کریں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی سوچ رکھیں جس میں ہم بھی جیتیں اور دوسرے کا بھی فائدہ ہو۔
سمجھنے کے لیے پہلے تلاش کر لیں اور پھر اْسکو سمجھیں۔
اچھی زندگی گزارنے کے لیے ارد گرد کے لوگوں سے مطابقت پیدا کریں۔
اپنی صلاحیتوں کو زندگی کے مطابق اپڈیٹ کرتے رہیں۔
مسئلہ آنے پر اْسکے حل کے لیے گفتگو کے علاوہ کسی اور آپشن پر نہیں جانا چاہیے کیونکہ انسانوں کے پاس بات چیت کرنے کی صلاحیت ہے جس کی قدر کو پہچاننا بہت ضروری ہے۔
تحریر : حفصہ شاہد کلینکل سائکالوجسٹ
خیالات : ڈاکٹر صداقت علی