نشہ کرنا دکھی لوگوں کا بکھیڑا ہے
یہ تاثر شاعروں کا پھیلایا ہوا ہے۔ٖٖٖٖ فلموں میں بھی ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ جب محبوبہ چھوڑ جاتی ہے تو ہیرو غم میں نشہ شروع کر دیتا ہے۔ ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں بھی نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نشہ کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نشہ کرنے والے کسی کے محتاج نہیں ہوتے وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ وجہ بعد ازاں دوسرے لوگ تلاش کرتے ہیں۔ اب بتائیے بھلا شادی بیاہوں،میلوں ٹھیلوں اور نیوائیر پر کون سا غم ہوتا ہے؟ نشے کا آغاز توموج مستی کے لیے ہوتا ہے اور نشے کی بیماری ایسا کرنے والوں میں سے چند لوگوں کو بنا چاہے ملتی ہے۔ جب اچھے بھلے لوگ نشہ کرنے لگتے ہیں تو پھردکھی لوگوں کو اس بکھیڑے میں پڑنے سے کون روک سکتا ہے؟
شراب ،شیرنی کادودھ ہوتا ہے
حماقتیں بہادری نہیں ہوتیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق شراب محتاط نہیں رہنے دیتی جھجک دور کرتی ہے اور رسک کو نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے۔نتیجے میں انسان ایسی حرکتیں اور حماقتیں کر گزرتا ہے جن سے بظاہر دلیری نظر آتی ہے لیکن درپردہ نقصانات اور خطرات ہوتے ہیں۔ ایک سٹیج پر تو وہ شکی وہمی اور جھگڑالو ہو جاتا ہے۔ امریکی ماہر ڈاکڑ جیمزمیلام کہتے ہیں کہ اگر شراب آج ایجاد ہوتی تو امریکا کا ادارہ برائے ادوایات و خوراک اسے کبھی منظور نہ کرتا۔
اگر شادی کر دی جائے تو نشہ چھوٹ جائے گا
یہ غلط فہمی اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ لوگ شغلہََ نشہ کرنے والے اور نشے کے بیمار میں فرق نہیں سمجھتے۔ نشے کے مریض صرف علاج سے نشہ چھوڑتے ہیں۔ روایتی طور پر بگڑے ہوئے نوجوانوں کی اس امید پر شادی کردی جاتی ہے کہ شاید وہ سدھر جائیں اور بری سوسائٹی چھوڑ دیں۔ازدواجی زندگی میں نوجوانوں کی دلچسپی کے باعث اکثر یہ ٹوٹکا کامیاب بھی رہتا تھا۔ اس لیے اس کا استعمال جاری ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ نشے کا مریض کسی بھی لحاظ سے شادی کے قابل نہیں ہوتا یہ سراسرظلم ہے۔