نشے کے مر یض اپنا گورکھ دھندہ دوسروں کی مدد کے بغیر جاری نہیں رکھ سکتے۔ وہ خود کفیل ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔ مایوسی کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے بھی یہی تا ثر پیدا کرنے کی کو شش کرتے ہیں کہ انہیں کسی کی ضرورت نہیں۔ اپنی چالاکیوں سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے لیکن مسائل کے انبار صاف دکھائی دیتے ہیں جنہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے وہ فریب نظر اور شعبدہ بازی سے کام لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صداقت علی، ٹرننگ پوائنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ملک کے ممتاز ماہرِ منشیات ہیں۔ پاکستان میں نشے کے علاج کے حوالے سے ان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے ڈو میڈیکل کالج ، کراچی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ میں ہیزلڈن، مینی سوٹا سے نشے کے علاج میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اب تک ہزاروں نشے کے مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہو چکے ہیں۔
نشے کا ہر مریض جوڑ توڑ، ساز باز اور ہیرا پھیری کر تا ہے۔ اس کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کو قائل کرنے کیلئے پیشگی موثر حکمت عملی بناتا ہے تاکہ لوگ اپنی آنکھوں سے نشے کے باعث ہونے والی تباہیوں کو سچ نہ جانیں اور سمجھیں کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں یہ ان کا وہم ہے۔ وہ سراپا جادوگر ہوتے ہیں۔ ان کا کیا دھرا ہر طرف بکھرا ہوتا ہے لیکن وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں۔ ایڈکشن کی تمام علا متیں سب کے سامنے ہوتی ہیں لیکن اہل خانہ کی توجہ کہیں اور ہوتی ہے۔ نشئی کسی سامری جادوگر کی طرح پھرتی سے کرشمہ دکھاتے ہیں اور ارد گرد تمام لوگ ان کی بات مان لیتے ہیں۔ ایک مشہور جادوگر کا کہنا ہے، ’’ہم کمال ہوشیاری اور عیاری سے کام لیتے ہوئے قدم بہ قدم انسانی ذہن کو خود اسکی اپنی منطق اور دلیل کے خلاف لاکھڑا کر تے ہیں‘‘۔ نشے کے مریض بھی یہی سب کچھ کرتے ہیں۔
6 بچوں کی ماں 64 سالہ جمیلہ کافی عرصہ تک نار کوٹکس اور خواب آور گولیوں کے چنگل میں پھنسی رہی۔ ہر وہ دوا جو اس کے ہاتھ لگی یا جس پر اس نے کسی نہ کسی بہانے اپنے فزیشن کو قائل کر لیا نگلنے میں ذرا دیر نہ کی۔ اب وہ شراب بھی پینے لگی تھی اور وہ بھی ایسے جیسے مچھلیاں پانی پیتی ہیں۔ وہ گھر میں مختلف جگہوں پر شراب کی بوتلیں چھپا کر رکھتی اور پھر ڈھونڈتے ہوئے گرتی اور چوٹیں لگواتی تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کے 2 بیٹے سائیکالوجسٹ اور ایک ڈاکٹر تھا، جنہوں نے ایڈکشن اور بلانوشی کو نظر انداز کیا، کیوں کہ جمیلہ نے کمال مہارت سے ان کی توجہ ڈپریشن پر مرکوز کر رکھی تھی۔ جہاں تک ’’بچوں‘‘ کو یاد پڑتا، انہو ں نے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ ان کی ماں سَدا کی دکھی ہے۔ جب وہ سکول سے واپس آتے اور ان کی ماں شراب کے نشے میں دھت پڑی ہوتی تو وہ اسے ڈپریشن سمجھتے۔ جمیلہ ان کے ساتھ سکول کی تقریبات میں شریک نہ ہوتی تو یہ ڈپریشن تھا۔ جب وہ گھر داری پر توجہ دے پاتی اور نہ ہی اپنی بودوباش کا خیال رکھ پاتی تو یہ بھی ڈپریشن تھا۔ بچوں کے ذہن میں بیٹھ چکا تھا کہ ان کی ماں کو ڈپریشن ہے وہ اس کے علاوہ کسی اور امکان پر غور کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ ایک رشتہ دار نے ہمت کر کے ایڈکشن کی نشاندہی کی اور اس کے علاج پر زور دیا جمیلہ کے بچے اس بات پر آپے سے باہر ہو گئے کہ ان کی ماں کو شرابی سمجھا گیا۔
جادوگر شعبدہ دکھانے کے لیے آپ کی توجہ ہٹا کر کسی دوسری جانب کرتے ہیں۔ شراب کے رسیا بھی یہی کرتے ہیں۔’’فریب نظر‘‘ ایک ایسی ٹیکنیک ہے جس میں لوگوں کی نظروں کو بھٹکا دیا جاتا ہے اور انہیں وہ نظر آنے لگتا ہے جوجادوگر انہیں دکھانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی جادوگر کو لوگوں کی توجہ حاصل ہو جائے تو وہ ان کی نظروں کے سامنے سے ہاتھی گزار دے گا جو لوگوں کو نظر نہیں آئے گا۔ بلانوشوں کے اہل خانہ بھی گھر میں جھو متے ہو ئے ہاتھی کو نہیں دیکھ پاتے۔ وہ اس بارے میں کوئی بات ہی نہیں کرتے، لگتا ہے انہیں یہ سب کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جادوگراس لئے شعبدے دکھاتے ہیں کہ لو گ لطف اندوز ہوں، جب کہ بلانوش کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ نشے کا دھندہ ہر صورت چلتا رہے۔ جادوگر اور بلانوش دونوں ہی ہماری نظروں کو دھوکا دیے بغیر اپنے شعبدے نہیں دکھا سکتے۔
نظروں کو بھٹکایا جا سکتا ہے، بس اس کے لئے چالاکیاں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم سب کی توجہ کسی خاص جانب مبذول کرائی جا سکتی ہے۔ اگر آپ ایسا رویہ رکھیں جیسے کوئی چیز بہت اہم اور خاص ہے تو دوسرے لوگ فوراً اس طرف توجہ دیں گے۔ جب آپ یہ ظاہر کریں کہ کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی تو دوسرے لوگ بھی اسے نظر انداز کر دیں گے۔
جب خالد نذیر کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا تواس نے یوں ظاہر کیا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ والدین اور بہن بھائیوں کو بتایا کہ یہ تو بند گلی تھی، ترقی کا کوئی امکان نہیں تھا اور یہ بھی کہ وہ تو پہلے ہی عاجز آ چکا تھا۔ اس کا کہنا تھا “سچ پوچھیں توانہوں نے نوکری سے فارغ کر کے مجھ پر احسان کیا ہے کیونکہ اب میں آزاد ہوں”۔ اس کا سرد مہری اور لاپرواہی پر مبنی رویہ دیکھ کر اہل خانہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہیں؟ جب اس کی بیوی نے شراب کو نوکری سے چھٹی کا ذمہ دار قرار دیااس نے اپنی توپوں کا رخ بیوی کی طرف موڑ دیا اور کہا، ’’سارے فساد کی جڑ یہی عورت ہے۔ اسکی چخ چخ، بے مروتی، کج بحثی، بے اطمینانی اب میرے لیے قابل برداشت نہیں‘‘۔ پھر وہ پرانے قصے چھیڑنے لگا اور اس کے میکے کی برائیاں شروع کر دیں، بیوی کو اپنی ہی پڑ گئی اوروہ سب کچھ بھول کر اپنا دفاع کرنی لگی۔ اصل بات اس دوران گول ہو گئی ۔
مے نوشی سے توجہ ہٹانے کے لیے بلانوش سب کچھ جائز سمجھتے ہیں۔ خصوصاً ایک نشئی اچھی طرح جانتا ہے کہ حملہ آور ہونا ہی بہترین دفاع ہے۔ ایک اور طریقہ جو مریض لوگوں کی آنکھو ں میں دھول جھونکنے کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ ہے اچانک کوئی انوکھی حرکت کر دکھانا۔
شہزاد نامی ایک بیٹا نشے کے گورکھ دھندے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی ماں کی سالگرہ میں شامل نہ ہوا اور اگلی صبح آ کر ماں کے آگے پیچھے پھرنے لگا۔ پھولوں کا گلدستہ دے کر تو اس نے ماں کو حیران کر دیا اور کہنے لگا، ’’میں چاہتا تھا کہ سالگرہ میں بس ہم دونوں ہوں اور کوئی نہیں۔ اگر میں کل شام پارٹی میں آتا تو حسب معمول سب نے ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ جانا تھا‘‘۔ اس نے ماں کے پاس بیٹھ کر مزے سے ناشتہ کیا، کافی پی، کچھ دیر ماں کو ہنساتا رہا اور پھر یہ جا وہ جا۔ ماں خوشی سے پھولے نہیں سمائی۔ بعد میں جب بہن بھائیوں نے اس پر تنقید کی تو ماں نے اس کا بھرپور دفاع کیا اور کہنے لگی ’’اگر تم سب لوگ پنجے جھاڑ کر اس بیچارے کے پیچھے نہ پڑو تو وہ گھر میں ہی رہے ، اسے در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے یہ میں ہی جانتی ہوں۔‘‘
جب کوئی بلانوش ایمانداری اور کھل کر بات کرنے کا انداز اختیار کرتا ہے تو یہ بھی ایک ڈھکوسلا ہوتا ہے۔ اہل خانہ شک کا فائدہ اسے ہی دینا چاہتے ہیں، اس طرح یہ ڈھکوسلا بھی کامیاب رہتا ہے۔
مصطفٰی ملک نے اپنی بیٹی شمائلہ سے اس کی بلانوشی پر بات کرنا چاہی تو فٹ سے بولی، “ابو جی میں تو پہلے ہی آپ سے بات کرنے والی تھی، لیکن میری ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ طلاق کے بعد مجھ پر کتنے پہاڑ ٹوٹے، ایسے میں شراب کا سہارا نہ لیتی تو میں پاگل ہو جاتی! آپ کو دکھی کرنے پر میں بہت شرمندہ ہوں اور یقین دلاتی ہوں کہ سب کچھ جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ والد محترم ٹھہرے بھلے مانس، بیٹی نے انہیں آسانی سے مطمئن کر دیا اور وہ خوشی خوشی چل دئیے، انہیں ذرا بھی شک نہ گزرا کہ بیٹی نے ان کی توجہ اصل مسئلے یعنی شراب سے طلاق کی جانب موڑ دی جو در حقیقت بلانوشی کا نتیجہ تھی۔ بیٹی نے وہی کیا جو جادوگر تماشائیوں کا اعتماد جیتنے کے لیے کرتے ہیں یعنی ایک ایسی ذہنی کیفیت پیدا کرنا جو بات ماننے پر مائل کرتی ہے۔ کچھ ذہن تیار بیٹھے ہوتے ہیں بس بیوقوف بنانے والا چاہیے۔
نشے کے مریض اپنے طلسم کو قائم رکھنے کے لیے وقت کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔ چکما دینے کیلئے بھانڈہ پھوٹنے اور قابو آنے کے درمیان وقت کو لمبا کرتے ہیں جس سے اہل خانہ بے بسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ جب وہ دھت ہونے کے بعد کوئی نقصان کر کے لوٹتے ہیں اور بیوی بات کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں ہوتی ہے تو وہ قابو میں نہیں آتے جب تک کہ بیوی کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو جائے۔ ایک اور کام وہ یہ کرتے ہیں کہ نشے میں دھت ہونے اور بات کی نوبت آنے کے درمیان کوئی ایسا کام بھی کر گزرتے ہیں جس سے ان کے لیے بیوی کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہو جائے۔
جب مجاہد حسین مسلسل تیسرے دن دھت ہو کر گھر لوٹا تو بیوی غصے میں آگ بگولہ تھی۔ وہ سیدھا بستر پر جا کر گرا اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا، صبح بیوی کو پتہ ہی نہ چلنے دیا اور چپکے سے کھسک گیا، شام کو کام سے لوٹا تو دور ہی سے نعرہ لگایا۔ ’’بچو! جلدی سے تیار ہو جاؤ، پہلے ہو گی آئس کریم اور پھر دیکھیں گے سلمان خان کی فلم دبنگ۔‘‘ بچوں کے چہرے کھل اٹھے! بیگم صاحبہ میں اب حوصلہ نہیں تھا کہ وہ شراب اور نشے میں دھت ہونے کا ذکر چھیڑے۔ رات واپسی پر کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ رات گئی بات گئی۔
جادوگر تب کامیاب ہوتے ہیں جب ان کو اپنے فن پر عبور ہو اور ان کی کارکردگی بے داغ ہو۔ اگر حاضرین کو بھنک پڑ جائے کہ درپردہ وہ کیا گل کھلا تے ہیں اور وہ راز کی بات جان لیں تو سمجھیں ان کی دکانداری چوپٹ ہو جائے گی۔ بھول چوک ہو جائے تو یہی انجام نشہ کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ حسن کارکردگی ہر روز لازم ہے۔ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، انہیں ہر دم اپنی گرفت مضبوط رکھنا پڑتی ہے کیونکہ پھر دوسرے لوگ صرف وہی کچھ دیکھتے ہیں جو وہ دکھانا چاہتے ہیں۔ دوسروں پر ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، اس قسم کی ’’اعلیٰ‘‘ کارکردگی کے لیے جادوگر دو باتوں کا خیال رکھتے ہیں، لو گ کیا مان سکتے ہیں ؟ کیا کچھ نظروں سے اوجھل رکھنا ضروری ہے؟ نشہ کرنے والے بھی دو سوالوں پر توجہ دیتے ہیں: اہل خانہ کیا کچھ جانتے ہیں؟ اور ان سے کیا چھپانا ہے؟
کچھ گھر والے تنگ آ کر نشہ کرنے والوں پر کڑی نگاہ رکھنے لگتے ہیں۔ وہ ان پر بالکل اعتبار نہیں کرتے اور ہر چالبازی کو پکڑنے کیلئے چوکس رہتے ہیں۔ جادوگروں کا طلسم اعتبار نہ کرنے والوں پر نہیں چلتا۔ جب تماشائیوں کو پکا پتا ہو کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے تو پھر وہ چوکنے ہو جاتے ہیں۔ جب اہل خانہ دھوکہ کھانی پر آمادہ نہ ہوں اور چکر میں آنے سے صاف انکاری ہوں تو وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ بازی جیت گئے، پر یہ سچ نہیں ہوتا۔ نشہ کرنے والا سوچتا ہے جیت ہر صورت میری ہو گی، وہ میری بات مانیں یا نہ مانیں، ان کا رد عمل میرے ہاتھ میں ہے۔ ہر حالت میں میرا جادو سر چڑھ کر بولے گا۔ وہ سب نہیں جانتے کہ آگے کیا ہو گا؟ جبکہ میں یقین سے جانتا ہوں۔‘‘ ہر کوئی بیماری کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے، مریض بھی اور اہل خانہ بھی، گھر میں ایڈکشن کی حکمرانی ہوتی ہے۔ کچھ اہل خانہ بتاتے ہیں کہ انہیں مریض کی نشہ بازی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ انہیں یقیناً فرق پڑتا ہے۔ کیا وہ جاننا چاہیں گے کہ ان کا ردعمل کہاں جنم لیتا ہے؟ فرق بھی وہاں پڑ تا ہے۔
کسی کی توجہ حاصل کر لینا خود اسے قابو میں کر لینے کے مترادف ہے۔ نشے کا مریض ایک محور بن جاتا ہے جس کے ارد گرد اہل خانہ کی زندگی بھٹک رہی ہوتی ہے تاہم اہل خانہ ایڈکشن کو خارج از امکان تصور کرتے ہیں۔ ان کی توجہ ادھر ادھر بھٹکتی رہتی ہے وہ سچ کو تلاش نہیں کر پاتے۔ جب ایڈکشن چھپی رہتی ہے تو سب مریض کے رحم و کرم پر رہتے ہیں اور مریض اپنی بیماری کے در کا پجاری۔ گھر والوں کی توجہ کسی روح کی طر ح ادھر ادھر بھٹکتی رہتی ہے وہ ایڈکشن کو براہ راست چیلنج نہیں کر پاتے۔ پینے والے کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ سب کو ایسے اقدامات پر قائل کر لے جو پینے پلانے میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ جب اہل خانہ نشہ بازی کے خلاف اپنا ردعمل بتاتے ہیں تو فوراً پتا چلتا ہے ان کا پیارا چکر دینے میں کتنا ماہر ہے؟ منشیات کا دفاع کرنے میں مریض کوئی ’’کوتاہی‘‘ نہیں کرتے، وہ نشے پر آنچ نہیں آنے دیتے، نشے سے اپنی وفا پر بھی آ نچ نہیں آنے دیتے۔
خود بلانوش بھی ایڈکشن کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہتے ہیں۔ وہ اس بات کی سُن گُن رکھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں مسائل ہیں اور ان کا تعلق شراب اور منشیات سے ہے، تاہم وہ اس نظرئیے کو دل کی گہرائیو ں سے قبول نہیں کر پاتے۔ کھل کر ماننے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ایک لمبے عر صے تک خوشی وغمی، ہر موقعہ پر نشے کا استعمال کرتے کرتے انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ نشہ ان کیلئے امرت دھا را ہے۔وہ کچھ نہ کچھ اور تلا ش کرتے ہیں جس پر ان مشکلا ت کا الزام دھرا جا سکے۔ بیوی، بچے، کام کاج، باس، یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن منشیات پر الزام آئے یہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ ان کا امرت دھارا خود فساد کی جڑ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ ہے خود فریبی کا مضبوط جال، توجہ اور بھٹک جانے کا گورکھ دھندا۔
منشیات، شراب اور دیگر علتیں گھروں کا امن و سکون تباہ کر دیتی ہیں۔ علتوں میں مبتلا انسان اصلاح کی طرف پہلا قدم خود نہیں بڑھاتے، یہ بیڑہ ان سے پیار کرنے والے اٹھاتے ہیں۔ علاج کا فیصلہ مریض کے ارد گرد صحت مند دماغوں سے ابھرتا ہے۔
منشیات کا استعمال بیمار اور لاچار کر دیتا ہے۔ یہ بیماری تباہ کن ہے۔ تاہم تسلی رکھیں یہ قابل علاج ہے۔ منشیات، شراب اور دیگر علتوں سے نجات کے کئی راستے ہیں۔
ایڈکشن سے نجات کیلئے مریض کا علاج میں آنا ضروری نہیں، اہل خانہ ٹریننگ کے ذریعے اپنے پیارے کو علت سے نجات دلا سکتے ہیں ایڈکشن قدم جما چکی ہو اور بیماری بہت پرانی ہو تو داخلہ ضروری ہو تا ہے، مریض میں علاج کی خواہش اور جذبہ کیسے پیدا کریں، آپ کو یہ سمجھانا ہماری ذمہ داری ہے ۔
وہ فیصلہ کیجئے جو مریض نہیں کر سکتا، اسے گھر سے لانے اور نشے سے نجات دلانے کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں۔ صداقت کلینک ایڈکشن کی بے مثال علاج گاہ ہے۔ آخر نشہ آپ کے پیارے کا مقدر کیوں رہے؟ ابھی رابطہ کیجئے۔