کوئی بھی نشے کا مریض جب صداقت کلینک میں داخل ہوتا ہے تو اُس کی اپنی فیملی سے ہونے والی ابتدائی ملاقاتوں کو ٹچ ایند گو میٹنگ کہا جاتا ہے۔ ٹچ ایند گو میٹنگ کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ یہ میٹنگ کیسی ہوتی ہے؟ فیملی سے کیا توقع کی جاتی ہے؟ مریض میں دن بدن بہتری کیسے آتی ہے؟ فیملی اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے کیا کچھ کرتی ہے؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جو ذہن میں ابھرتے ہیں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ان میٹنگز سے مثبت نتائج کیسے نکلتے ہیں؟
دستور کے مطابق پہلے دو ہفتوں میں تقریباً 12 ٹچ اینڈ گو میٹنگز ہوتی ہیں۔ ہر میٹنگ کی تیاری کیلئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ چونکہ یہ میٹنگز علامات پسپائی کے دوران ہوتی ہیں اس لئے اہل خانہ کو قبل از وقت کچھ ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثرمریض کے داخلے سے قبل ہی یہ ٹریننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اہل خانہ روزانہ سیشن کیلئے آتے ہیں جس میں اُن کی کونسلنگ ہوتی ہے اور علاج کے حوالے سے چند ضروری احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہیں۔ ٹچ اینڈ گو میٹنگ کے دوران فیملی کو مریض سے کھڑے کھڑے ملنا ہوتا ہے، کیونکہ مریض اور فیملی شروع میں طویل ملاقاتوں کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں، اُن کے درمیان پھڈا ہو جاتا ہے۔ ٹچ اینڈ گو میٹنگ کا دورانیہ 5 منٹ ہوتا ہے۔ اہل خانہ مریض سے تھوڑا تکلف سے ملتے ہیں، گلے ملنے اور منہ چومنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اہل خانہ کیلئے یہ جذباتی طورپر کچھ مشکل ہوتا ہے تاہم وہ اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے مضبوط قوت ارادی کے ساتھ مریض کی فلاح و بہبود کیلئے اہم فیصلے کرتے ہیں اور اپنی رِٹ قائم کرتے ہیں جس سے بامقصد علاج کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جب تک اہل خانہ مریض پر حاوی ہونا نہیں سیکھتے، تو مریض کی نشے سے بحالی کا منصوبہ خطرے میں رہے گا۔ چونکہ مریض کو سب سے زیادہ خطرہ خود اپنے آپ سے ہوتا ہے، اس لئے لازم ہے کہ فیملی اپنی رٹ قائم کرئے اور فیصلے کرے جو نشہ کی طلب کے ہاتھوں مجبور مریض خود نہیں کر سکتا۔ اگر فیملی دوران علاج اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کرتی تو علاج میں بس رونا پیٹنا ہی رہ جاتا ہے۔
مریض کے ساتھ اس موقع پرکچھ ٹھوس اور سنجیدہ رویہ کیوں ضروری ہے؟
اگرچہ ٹچ اینڈ گو ملاقاتوں کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے، تاہم اہل خانہ اپنے پیارے کو دیکھ کر تسلی محسوس کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا اطمینان مریض کے ہاتھوں جلد ہی پارہ پارہ ہو جاتا ہے پہلی ملاقات میں مریض جذباتی ہوتا ہے، نشہ ترک کرتے ہی بے سکون ہونا قدرتی بات ہے، اُسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا، مریض پوری ’’ایمانداری‘‘ سے غم و غصے کا اظہار کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبان، ہسپتال کا عملہ، سہولیات اور’’پلاؤ میں مٹر‘‘ نیز ہر چیز نشانہ بنتی ہے اس لئے اہل خانہ کو پہلے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ انہیں ابتدائی ملاقاتوں میں مریض سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئے۔ احتیاطََ انہیں شدید ردعمل کیلئے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ ملاقات سے پہلے اہل خانہ کو ہدایات دی جاتی ہیں کہ اگر مریض ان پر غصہ کرے یا بد تمیزی سے پیش آئے تو وہ ملاقات ختم کر دیں، کمرہ چھوڑ کر نکل آئیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ اپنی فیملی کے اس غیر متوقع روئیے پر مریض کو کچھ جھٹکا لگتا ہے نشے کے ساتھ ساتھ مریض فیملی پربھی بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ایک طرف وہ نشہ نہیں کر سکتا اور دوسری طرف جب فیملی اس طرح آنکھیں پھیر لیتی ہے تو اُس کے لئے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ توجہ حاصل کرنے کیلئے اپنا رویہ بدلنے پر تیار ہو جائے۔ ٹچ اینڈ گو میٹنگ میں کونسلر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اہل خانہ کو مریض کی کڑوی اور کسیلی باتوں کے خلاف تحفظ دے تاکہ وہ شرمندگی اور ندامت سے بچ سکیں، کونسلر خاموش تماشائی نہیں بنتا بلکہ اپنے معقول رویوں سے مریض پر اثرانداز ہوتا ہے۔ کونسلر اس ملاقات کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور اس کی روشنی میں اگلی ٹچ اینڈ گومیٹنگ کیلئے حکمت عملی طے کرتا ہے۔ جب مریض اہل خانہ سے مثبت بات چیت کرنے، خوش دلی سے علاج میں دلچسپی کا اظہار کرنے اور اپنی ذات سے ہٹ کر اہل خانہ کی خیریت کا طالب ہونے لگتا ہے تو ملاقات کا دورانیہ دس منٹ تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ تبادلہ خیالات میں جوں جوں اہل خانہ ’’تگڑے‘‘ ہوتے چلے جائیں تو ملاقاتیں طویل ہوتی چلی جاتی ہیں۔