بچپن میں جب کبھی پیارا گھر پیارا نہ لگا تو کیا آپ نے کبھی بھاگنے کی کوشش کی؟ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنا سامان بیگ میں اکٹھا کر کے اپنے کسی قریبی دوست کے گھر پناہ لی ہو۔ مگر کچھ ہی دیر بعد آپ کو گھر سے دوری کی وجہ یاد نہ رہی اور رات بھی گہری ہوتی ہوئی نظر آئی تو آپ نے گھر واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ساتھ زندگی میں کم از کم ایک بار ایسا ضرور ہوا ہو گا لیکن اس کہانی میں جو بات شدید غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ فرار کے بارے میں سوچنے اور سچ مچ فرار ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
مس عترت زہرأ نقوی ویلنگ ویز اور صداقت کلینک لاہور میں ماہر نفسیات کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایم ایس سی نفیسات کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے درجہ اول میں حاصل کی اور کلینیکل سائیکولوجی میں ایڈوانس ڈپلومہ حاصل کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر ارم بخاری کے زیر سایہ گنگارام ہسپتال سے اپنی پیشہ وارآنہ تربیت مکمل کی۔ انہوں نے چنیوٹ کے ڈی۔ایچ۔کیو ہسپتال میں بطور ماہر نفسیات ایکسائز کے پراجیکٹ پر کام کیا
بھاگ جانے والے عموماََ خاندان کے مختلف افراد ہوتے ہیں ان میں بچوں کی کثیر تعداد، بالغ افراد، بیویاں اور شوہر بھی ہو سکتے ہیں۔ جس کی وجہ اسی گھر میں رہنے والا کوئی دوسرا فرد ہو سکتا ہے جو کہ اپنی زہر آلود شخصیت کے باعث گھر کے باقی افراد کے لئے گھر کو ناقابل برداشت جگہ بنا دیتا ہے۔ درحقیقت جو لوگ زہر آلود رویوں کے مالک ہوتے ہیں انہیں خود بھی خبر نہیں ہوتی کہ وہ ایسے ہیں، یا پھر ان کی نیت ایسی نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان کو یہ حق حاصل نہیں کہ دوسرے افراد کا دل دُکھائیں۔
زہر آلود رویوں کے مالک وہ افراد ہوتے ہیں جو دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں، ان کا استحصال کرتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں یہ لوگ نہایت غیر مناسب رویے کے حامل ہوتے ہیں۔ بظاہر یہ لوگ بہت خوش گفتار نظر آتے ہیں لیکن یہ دوسروں کو تکلیف دینے کا رجحان رکھتے ہیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات والدین اور بعض اوقات شریک حیات زہر آلود رویوں کا مالک ہو سکتا ہے۔ ہر سال لا تعداد نابالغ بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں اور سڑکوں پر سوتے ہوئے پائے جاتے ہیں بہت سے نا بالغ افراد بہتر ماحول کی تلاش میں گھر چھوڑ جاتے ہیں جہاں ان کو آزادی، تحفظ اور کم رکاوٹیں درپیش ہوں۔ جب ان سے ان کی نیت اور ارادہ پوچھا جائے تو ان کے پاس بھاگنے کی کوئی پختہ دلیل نہیں اور توجہیہ نہیں ہوتی۔ فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے نابالغ افراد جلد بازی میں اس امید کے ساتھ کہ سب کچھ ان کے اندازوں کے مطابق ٹھیک ہو جائے گا، بھاگنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
بد قسمتی سے اس کے نتیجے میں ان کی زندگی میں پہلے سے بھی زیادہ سے تکالیف اور مشکلات جنم لے لیتی ہیں جس میں منشیات ، جنسی استحصال ، تعلیمی دنوں کا نقصان اور ترقی و کامیابی کے مواقعوں کا ضائع ہونا شامل ہے۔ زیادہ تر گھر سے بھاگنے کے عمل کے پیچھے شرم کا عنصر کار فرما ہوتا ہے ۔ ایسی شرم کا تعلق غربت ، استحصال،گھر میں کسی شخص کا نشے میں مبتلا ہونا اور اسی طرح کی کئی دوسری وجوہات سے ہوتا ہے۔نا بالغ فرد جسمانی فرار سے پہلے جذباتی ، نفسیاتی اور روحانی فرار کا شکار ہوتے ہیں۔
گھر سے بھاگ جانے کے پیچھے اور بھی عوامل موجود ہوتے ہیں جن میں استحصال ، اہل خانہ میں سے منشیات کا غلط استعمال، تصادم ، سماجی دباؤ، خاندان میں کسی نئے فرد کی آمد، دھمکی، تعلقات میں مشکلات، خاندان میں توڑ پھوڑ اور اکیلا پن شامل ہے۔
بعض اوقات فرد گھر سے اس لئے بھی بھاگتا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ گھر اس پر تنگ پر گیا ہے، یہاں کوئی اس سے پیار نہیں کرتا، گھر والے اس کو نظر انداز کرتے ہیں اور اسی طرح کے بہت سے مسائل اس کے ذہن میں ہوتے ہیں جبکہ وہ ایک بہتر زندگی گزارنا چاہتا ہے تاہم مسائل کا آخری حل اس کو گھر سے بھاگ جانا ہی نظر آتا ہے ۔
بد قسمتی سے والدین ، بچے کی خواہشات کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان پر اپنا پسندیدہ طرز زندگی مسلط کرتے ہیں۔ جس کو اپنانے کے لئے بچے پر بہت دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں بچے امیدوں پر پورا اترنے کے لئے بہت زیادہ بوجھ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کم نصیبی سے وہ والدین کی امیدوں پر وہ پورا نہ اتریں تو ان کو ناکامی کا تمغہ دے دیا جاتا ہے اس طرح بچے کی تخلیقی صلاحیتیں دفن ہو جاتی ہیں۔
گھر سے بھاگنے کی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں جسمانی اور ماحولیاتی دونوں عناصر شامل ہیں۔ جب خاندانوں میں آگاہی اور شعور پیدا کرنے کی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلا اور اہم کام رابطے میں خلا کا پر کرنا ہے۔ ضرورت اس با ت کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات کو غور سے سنیں اور ہمیشہ فیصلہ اپنے جذباتی دماغ کے بجائے عقلی دماغ سے کریں اس کے علاوہ بات چیت کے دوران ہمیں اپنے غصے کی بوچھاڑدوسرے پر نہیں چاہئے۔ اپنے سامنے والے کو ضرور بتائیں جو بات آپ نے اس کے بارے میں مشاہدہ کی ہے لیکن اس کی شخصیت کو نشا نہ نہ بنائیں۔ گفتگو کے دوران “تم “کے بجائے “میں”کا صیغہ استعمال کریں۔ کیونکہ الزام تراشی بات چیت کو جاری رکھنے میں مدد گار ثابت نہیں ہوتی ۔
فرار کے بارے میں کچھ غلط عقائد بھی رائج ہیں ان میں سے جو زیادہ مشہور ہے کہ “جو بچے بھاگ جاتے ہیں وہ اپنے بارے میں خود فیصلہ سازی کرتے ہیں انہیں جانے دینا چاہئے تاکہ وہ اپنے بارے میں خود انتخاب بنائیں اور نتائج کے ذمہ دار خود بنیں”اگر وہ گھر واپس آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں ۔ یہ غلط عقیدہ ایک جھوٹے فرضیہ پر بنا ہے جس کے اثرات اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ جبکہ بھاگنے والا بچہ پہلے ہی خطرے سے دوچار ہوتا ہے ۔ یہ ایک جھوٹا فرضیہ ہے نا بالغ ، حقیقی فیصلہ سازی کر سکتا ہے اور اپنے لئے احتیاط سے لائحہ عمل تیار کر سکتا ہے جبکہ سچ تو یہ ہے بلوغت کی عمر میں بچے کا دماغ اب تک نشو نماء کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے جس کے باعث بہت ہی کمزور فیصلہ سازی اور جذباتیت مشاہدہ میں آتی ہے ۔
گر کوئی فرد بھاگنے کے متعلق سوچ رہا ہو تو اس کے اردگرد بہت سی تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں جیسے کہ اس کے کھانے اور سونے کے انداز میں تبدیلی واقع ہو گی، مزاج میں زبردست اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آئے گا، سکول میں نامناسب رویہ، سکول کی حاضری میں نمایاں کمی، پیسے جمع کرنا، قیمتی اشیاء دوسروں کو دے دینا اور فرد اس طرف اشارہ کرتا ہوا نظر آئے گا کہ اگر میں چلا جاؤں تو کوئی مجھے یاد نہیں کرے گا یا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ فرار حاصل کرنے کی بنیاد تک پہنچا جائے، بھاگنے والے افراد میں عموماََ مختلف مسائل پائے جاتے ہیں جیسے بے چینی، تشویش ، adjustment disorder ، ذات کی تحقیر محسوس کرنا، ذہنی دباؤ، غصہ، تشدد اور مزاج کی بیماریاں مثلاََ ڈپریشن اور بائی پالر ڈس آرڈر وغیرہ وغیرہ۔
جیسے کسی نا بالغ بچے کی زندگی میں فرار کے آثار نظر آئیں تو ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ صحیح انداز میں تشخیص کی جائے اور ان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ بجائے ان کو سزا دینے کے ان کی مدد کی جائے۔ اگر وہ آپ سے کھل کر بات نہیں کر پا رہا۔ تو کسی ماہر نفسیات، سکول کی مشاورتی کونسل، استاد یا کسی اثر و سوخ والے رشتہ دار سے رابطہ کریں۔
فرار کرنے والے فرد کے حقیقی مسائل سے پردہ اٹھانا چاہیئے کہ کہیں کوئی نفسیاتی بیماری یا ذہنی، جذباتی اور جنسی استحصال تو وہ بچہ برداشت کرنے پر مجبور نہیں ہے؟
یہ بھی ممکن ہے کہ ماں باپ کا تربیت کا انداز بچوں کو باغی بنا رہا ہو، بہت زیادہ کنٹرول کیا جا رہا ہو یا پھر دوسری طرح sick love یعنی بیمار محبت اس کی شخصیت میں بگاڑ کا باعث ہو۔ اس کے علاوہ سکول میں بھی کوئی مسلہ درپیش ہو سکتا ہے۔ سکول میں مزاق اڑایا جائے، ذہنی، جنسی طور پر ہراساں کیا جائے، لڑائی جھگڑا، استحصال یہاں تک کہ کسی کو بے جا تنگ کرنا بھی اس کے بھاگنے کا سبب بن سکتا ہے۔
فرار کا سبب گھر کا ماحول ہو یا سکول کا اس کے اسباب کو ایمانداری سے تسلیم کرنا چاہیئے اور بچے کے ذہن سے بے یارو مددگار ہونے کے احساس کو ختم کرنا چاہیئے۔ اس کو اپنی غیر مشروط محبت کا یقین دلانا چاہیئے آپ ایسے بچے کو گلے لگائیں، تعریف کریں اور مثبت کردار کو تقویت دیں۔ غصہ بھی آئے تو مثبت انداز گفتگو اختیار کریں اور اس کو احساس دلائیں کہ فرار حاصل کرنا اس کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے کئی گنا بڑھا دے گا۔ بیمار محبت بھی شخصی بگاڑ کی بڑی وجہ ہے۔ ضرورت سے زیادہ آزادی بھی فرد کو باغی بنا دیتی ہے۔ لہذٰا توازن قائم کریں اور محبت کے صحت مند اصول قائم کریں تاکہ بچہ بے راہ وری سے بچ سکے۔ اسی طرح اپنے اصولوں پر وقتاََ فوقتاََ نظر ثانی کرتے رہیں۔ بچے کی زندگی میں نئی نئی دلچسپیاں پیدا کریں۔ اسے کسی مشغلے کی طرف راغب کریں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔