ایک پر اعتماد شخصیت انسانی حواس پر بہت خوشگوار اثرات چھوڑتی ہے۔ ایسی ہی پراعتماد شخصیت پانے کے لئیے انسان کے اندد خود اعتمادی کا ہونا بہت ضروری ہے۔اس مضمون میں ہم خود انحصاری کے ساتھ ساتھ اور جو خواص ہیں جنکا مجموعہ ایک پراعتماد شخصیت ہے وہ بھی تفصیل سے بیان کریں گے جو کہ یہ ہیں
خود آگاہی
یقین
پر امید ہونا
خود انحصاری
دوسروں کی ہر وقت منظوری چاہنے کی ممانعت
اب ذرا ان کی تفصیل دیکھتے ہیں
خود آگاہی
ڈاکٹر رابرٹ اینتھونی اپنی کتاب سچائی سراسر آگاہی ہے۔
مکمل سیف اعتماد کا حتمی راز
میں لکھتے ہیں کہ “آپ اپنے بارے میں اتنے ہی آگاہ ہیں جتنا کہ سچ آپ اپنے بارے میں قبول کر سکتے ہیں۔” اس بات سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو اتنا ہی بہتر بنا سکتے ہیں جتنا کہ آپ سچائی سے اور اپنی گڑبڑوں سے آگاہ ہیں۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ہم نے کچھ غلط اندازے بنائے ہوتے ہیں جو کہ ہم میں ایمان کی حد تک مضبوط ہو جاتے ہیں۔ ان کو اگر ٹھیک کر لیا جائے تو ہم اپنے اندر مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔
آگاہی کی ضرورت تب پڑتی ہے جب انسان کچھ ایسے حالات کا شکار ہوتا ہے جہاں سے اسکا خود پر سے یقین متزلزل ہونے لگتا ہے۔ ایسے حالات تک اگر انسان پہنچ جائے تو ڈاکٹر رابرٹ اینتھونی کہتے ہیں کہ پھر یہ طریقہ درجہ بہ درجہ اختیار کرنا چاہییے تاکہ خود پر سے اعتماد کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے جو کہ یہ ہے۔
اپنے آپ کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کی سوچ سے باز رہیں۔
اپنا جائزہ لیں جسمیں آپکی سوچ سرفہرست ہے پھر آپ کی امیدیں، آپ کے goals وغیرہ آتے ہیں۔
اپنی اصل ضرورت پہچانیں، دیکھیں کہ کیا چیز آپ کی محرکات کا اصل ہے۔
اپنے وجدان پر اعتماد کرنا سیکھیں۔
اپنی غلطیوں کو صحیح کریں۔
اپنے آپ سے اور دوسروں سے محبت کریں۔
کسی بھی متعصب سوچ سے باہر آئیں اور جو کچھ کہا جا رہا ہو اس کو اس سے بالا تر ہو کر سننے کی کوشش کریں کہ بات کون کر رہا ہے یا یہ کہ بات کا یقین کرنا ضروری ہے۔
نوٹ کریں کہ آپ کس بات کے حق میں سب سے زیادہ بولتے ہیں۔
یہ بات ذہین میں رکھیں کہ آگاہی کی یہ نئی راہیں آپکی زندگی پر مثبت اثر ڈالیں گی۔
ساری باتوں کی ایک ہی بات کہ آپ کو اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لئیے خود آگاہی کے منازل کو طے کرنا ہو گا۔
یقین
جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ یقین گڑبڑانے لگے تو اس وقت جو یقین ہمیں خدا پر، سائنس پر، یا کسی بھی فلاسفی جسکو ہم سچ مانتے ہوں، پر ہو تو وہ اثر کرتا ہے۔ اپنے حصے کا کام کر لینے کے بعد اللہ کی ذات پر یا اپنی محنت پر یقین رکھنا حالات کے بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔ جب بھی اپنی کوئی کوشش یا محنت چھوٹی لگے اور ہمت کم پڑنے لگے تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ
یقینِ محکم، عمل پیہم، محبتِ فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
پُر امید ہونا
پر اعتمادی کے لیئے انسان کا پر امید ہونا بھی ضروری ہے اس کے لیئے یہ کام کرلینا چاہییے کہ حقیقی طور پر جو مسلئے کا منطقی حل نکلے ان سے پر ایک ایک کر کے کام کرنا چاہییے تاکہ اگر ایک حل کام نہیں کرے گا تو باقی میں سے ایک یا دو کام کر لیں گے۔ ایسا کرنا آپ کے کامیابی کے مواقع بڑھائے گا اسی پُر امید سوچ کی عکاسی پر یہ شعر ہے کہ
نونہال اس جہاں میں جتنے بڑھے ہیں
وہ سب نیچے سے اُوپر چڑھے ہیں
خود انحصاری
انسان کی خود انحصاری کا قاتل یہی سوچنے کا انداز ہے کہ اگلا مجھ سے بہتر ہے۔ یہ سوچ بدل لی جائے تو انسان اپنے کام خود کرنے لگتا ہے وہ بھی اپنے آپ کو کمتر سمجھے بغیر۔ اس کے بعد جب انسان کو کامیابی ملتی ہے تو اسکا خود انحصاری اور خود اعتمادی کا گراف اوپر کیا جاتا ہے۔ اسی حقیقت کا ایک شعر پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ
اُٹھ باندھ کمر، کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
ہمیں ہمیشہ اس سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرنی چاہییے جو ہم کر سکتے ہوں اور دوسروں کو بھی کرنے دینا چاہییے جو بھی جائز وہ کرنا چاہیں۔ اس سے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔
دوسرو ں کی ممانعت
ایسے کام نہیں کرنے چاہیں کہ آپ اصل کام کو بھول کر لوگوں سے ان کی رضامندی مانگنے پر مامور ہو جائیں، لوگوں سے مل جل کر صلح مشورے سے اپنے فیصلے ضرور کرنے چاہییں مگر وہ جو کہ اپنے کام کے ماہر ہوں۔ مشورہ لینا اور ہر وقت لوگوں کی ممانعت مانگنے میں فرق ہے۔ حمایت مانگنا یا رضامندی کا ہر وقت طالب مایوس ہو جاتا ہے جبکہ مشورے سے چلنے والا تھکتا بھی نہیں اور فائدے میں بھی رہتا ہے۔